• 11 جولائی, 2025

آخری عشرہ میں جماعتی دعاؤں پر خاص زور دیا جائے

تبرکات

حضرت مرزا بشیر احمدؓ

رمضان کا آخری عشرہ شروع ہے۔ یہ عشرہ رمضان کے مبارک مہینہ کا مبارک ترین حصہ ہے۔ ہمارے دوستوں کو ان ایام کی برکات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور فائدہ اٹھانے کا بہترین ذریعہ دعا ہے۔ اگر زبان پر دل سے نکلی ہوئی دعا ہو اور انسان کے جوارح خدا کے فضل و رحمت کو جذب کرنے کی اہلیت پیدا کریں تو مومن کی دعا وہ کچھ کر سکتی ہے جسے آج کی مادی دنیا تصور میں بھی نہیں لا سکتی اور اسی لئے یہ میدان صرف مومنوں کے لئے خالی ہے۔

لیکن افسوس ہے کہ اکثر لوگ اپنی دعاؤں کو اپنی مادی ضروریات اور دنیوی نعمتوں کے حصول تک محدود رکھ کر اپنے آپ کو ان عظیم الشان روحانی فوائد سے محروم کر لیتے ہیں جو خداتعالیٰ نے سچے مومنوں کے لئے مقدر کر رکھے ہیں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ دنیوی ضرورتوں کے لئے دعا نہ مانگی جائے۔ ان کے لئے بھی بیشک دعا کرنی چاہئے اور ہمارے آقاصلے اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر کسی کی جوتی کا تسمہ ضائع ہو جائے تو وہ بھی اسے خدا سے مانگے۔ پس دوست بے شک اپنی دنیوی اور مادی ضروریات کے لئے بھی دعائیں کریں تا ان کی طبیعت میں سکون اور شکر گزاری پیدا ہو کر مزید دعاؤں کی توفیق ملے۔ مگر جو شخص اپنی تمام دعائیں دنیوی ضرورتوں اور مادی انعاموں کے حصول کے لئے وقف کر دیتا ہے وہ میرے خیال میں سچا مومن اور خدا کے دین کا فدائی اور خادم نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ بلکہ میں ڈرتا ہوں کہ ایسا شخص ایک طرح ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (یعنی ان کی تمام کوشش دنیا کی باتوں میں ہی وقف رہتی ہے) کے وعید کے نیچے آتا ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ ایک شخص خدا کا منکر ہو کر دنیا میں غرق رہتا ہے اور دوسرا خدا کو مان کر اور دعاؤں کی قبولیت کا قائل ہو کر اپنی توجہ عملاً دنیا کی نعمتوں تک محدود رکھتا ہے۔ پس اگر غور کیا جائے تو ایک لحاظ سے مؤخر الذکر شخص زیادہ زیر ملامت ہے کہ آنکھوں میں بینائی رکھتے ہوئے اس سے کام نہیں لیتا۔

لہٰذا دوستوں کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں دینی اور روحانی برکات کے حصول کو مقدم رکھنا چاہئے۔ بے شک وہ خدا سے دنیا کی نعمتیں بھی مانگیں کیونکہ دنیا کی ضرورتیں بھی خدا ہی کی پیدا کردہ ہیں۔ اور وہی انہیں پورا کرنے والا ہے مگر مقدم دینی اور جماعتی ضرورتوں کو کرنا چاہئے۔ اور چونکہ آج کل ہماری جماعت خاص حالات میں سے گزر رہی ہے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ اس رمضان کے آخری عشرہ کو دوست خاص طور پر دینی اور جماعتی دعاؤں میں گزاریں گے۔ اور انہیں اپنی انفرادی اور دنیوی دعاؤں پر مقدم کریں گے۔
آخری عشرہ کی طاق راتیں خصوصیت سے زیادہ بابرکت ہوتی ہیں۔ اور انہی طاق راتوں میں سے ایک لیلۃ القدر بھی ہے۔ جس کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے کہ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍتَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ سَلٰمٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر:6-4) پس جو وسیع اور بابرکت نہر خدا نے جاری کی ہے۔ جس کا میسر آ جانا گویا عام حالات میں انسان کی عمر بھر کی برکتوں سے بھی بہتر ہوتا ہے۔ اُس کی قدر کر کے جماعتی مشکلات کے دور ہونے اور خدائی نعمتوں اور برکتوں کے نزول کے لئے دست بدعا رہیں۔ اگر جماعت مشکلات اور تکالیف اور ابتلاؤں کے بھنور میں پھنسی رہی تو زید یا بکر کو مال اور نوکری اور اولاد اور صحت اور عزت کے مل جانے سے جماعت کو کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر جماعت کو وہ کامیابی اور ترقی اور سرفرازی مل گئی جس کے لئے وہ پیدا کی گئی ہے اور اگر اس کے ہاتھ سے اسلام کی وہ خدمت سرانجام پا گئی ہے جو اس کے لئے خدا کے فضل سے مقدر ہے۔ تو زید یا بکر کی انفرادی ضرورتوں کے حصول کا رستہ بھی خودبخود کھل جائے گا۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ اس عشرہ میں نہ صرف دعاؤں پر خاص زور دیں بلکہ جماعتی دعاؤں کو مقدم کریں۔ کہ اسی میں ہماری ساری ترقی اور کامیابی کا راز مضمر ہے۔ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ

(محررہ 3جون 1953ء)

(روزنامہ المصلح 9 جون 1953ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ13۔مئی 2020ء