• 30 اپریل, 2024

رمضان کا درس سارا سال جاری رہتاہے

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہےفَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ (ہود: 113)

ترجمہ : پس جیسے تجھے حکم دیا جاتا ہے اس پر مضبوطی سے قائم ہو کر عمل کرتا چلا جا۔
ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ فرماتے ہیں۔‘‘اگر لوگوں کو رمضان کی فضیلت کا علم ہوتا تو وہ اس بات کی خواہش کرتے کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔ اس پر بنوخزاعہ کے ایک صحابی نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی ہمیں رمضان کی فضیلت سے آگاہ کریں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ‘‘یقیناً جنت کو رمضان کے لئے سال کے آغاز سے آخر تک مزین کیا جاتا ہے۔ پس جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش الٰہی کے نیچے ہوائیں چلتی ہیں۔’’

(الترغيب والترهيب ، کتاب الصوم، الترغيب في صيام رمضان)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سب سے زیادہ عمل وہ اچھالگتا تھا جس پر کوئی مستقل مزاجی سے مسلسل قائم رہے۔

(صحیح بخاری کتاب الرقاق، باب القصد والمداومة)

حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ ﷺفرماتے ہیں: أَحَبُّ الأَعْمَالِ إِلَى اللّٰهِ مَا دُوِّمَ عَلَيْهِ : خدا کو سب سے زیادہ پسندیدہ اعمال وہ ہیں جن پر مداومت اختیار کی جائے ،وَإِنْ قَلَّ : خواہ وہ تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں اور آپﷺ کی ازواج اور آل اولاد کی بھی یہ عادت تھی کہ جب وہ کوئی کام کرتے تو اس کو مسلسل اور دلجمعی سے کرتے تھے۔

(صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، فضيلة العمل الدائم)

حضرت علقمہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے عرض کیا کہ کیا رسول اللہﷺ کسی معاملہ کے لئے دنوں کو مخصوص کرتے تھے؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ کَانَ عَمَلُهُ دِیْمَةٌ: آپﷺ کے عمل میں ہمیشگی ہوتی تھی اور تم میں کون ہے جو ان عملوں کی طاقت رکھتا ہو جن کی آنحضرت ﷺ طاقت رکھتے تھے۔

(صحیح البخاري، كتاب الصوم، هل يخص شيئا من الأيام)

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ بے شک دین اسلام آسان ہے۔ اور جو شخص دین میں سختی پسند کرتا ہے تو وہ مغلوب ہو جاتا ہے، اس لئے میانہ روی اختیار کرو اور اگر کوئی کام پوری شرائط کے ساتھ ادا نہ ہو سکے تو جس قدر استطاعت ہے وہ کر لو اور مطمئن ہو جاؤ۔ صبح وشام اور رات کے مختلف اوقات میں عبادت سے مدد چاہو۔

(صحیح البخاري، كتاب الإيمان الدين يسر)

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: اے عبد اللہ فلاں شخص کی طرح نہ ہو جانا جو نماز تہجد ادا کر تا تھا اور پھر نماز تہجد کو چھوڑ دیا۔

(البخاري، الجمعة، ما يكره من ترك قيام الليل)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نماز فجر کے وقت حضرت بلال ؓ سے پوچھا‘‘ اے بلال! مجھے اپنا کوئی ایسا عمل بتاؤ جو زمانہ اسلام میں کیا ہو اور تمہیں اس کا ثواب ملنے کی سب سے زیادہ امید ہو؟’’ اِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ: کیو نکہ میں نے آج رات جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ اپنے آگے سنی ہے۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ ! میں نے دن یارات کے جس حصے میں بھی وضو کیا اس وضو سے حسب توفیق نفل نماز ضرور پڑھی ہے۔ اس کے علاوہ زمانہ اسلام میں کوئی ایسا عمل نہیں کیا جس کا ثواب ملنے کی مجھے زیادہ امیدہو۔

(صحيح البخاري، کتاب الجمعة ، فضل الطهور بالليل والنهار)

حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفیؓ رسول اللہﷺ کے پاس تشریف لائے اور عرض کی یارسول اللهﷺ ! مجھے کوئی ایسی بات بتائیں کہ آپ ﷺکے بعد مجھے اس کے بارے میں کسی اور سے سوال نہ کرنا پڑے! آپﷺ نے فرمایا: قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ تو کہہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر استقامت اختیار کر۔

(مسند أحمد، کتاب مسند المكيين، باب حديث سفيان بن عبد اللّٰه القفي)

آپﷺ استقامت اور ثبات کے لئے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِي الْأَمْرِ وَأَسْأَلُكَ عَزِيْمَةَ الرُّشْدِ اے اللہ !میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میں دین کے معاملے میں ثابت قدم اور ہدایت کے حصول میں پُر عزم رہوں۔

(سنن الترمذي، كتاب الدعوات عن رسول اللّٰه ، منه)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں۔
لوگوں کے لئے بارہ مہینوں میں سے صرف ایک مہینہ رمضان یعنی روزوں کا ہوتا ہے مگر ہمارے لئے سارا سال ہی روزوں کا ہونا چاہئے اور ہماری ساری زندگی رمضان کی طرح بسر ہونی چاہئے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ سارا سال ہی روزے رکھے جائیں۔ یہ تو منع ہے کہ کوئی شخص تمام سال روزے رکھتارہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں کےلئے اپنے نفس کو خدا کے احکام کے تابع کر کے ضروری اور جائز چیزوں کو بھی حرام اور غیر ضروری قرار دینا ہو گا۔ پس ہمارے لئے بارہ مہینے ہی رمضان ہے۔

(خطباتِ محمودجلد 25 صفحہ 531)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں جب نیکیوں کے راستے پر اس رمضان میں چلیں تو یہ بھی اس رمضان میں دعائیں کرتے رہنا چاہئے کہ نیکیاں رمضان کے ختم ہونےکے ساتھ ختم نہ ہو جائیں بلکہ ہمیشہ ہماری زندگیوں کا حصہ بنی رہیں۔ اور ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے پیاروں میں شامل ہو، اس کا پیار حاصل کرنے والا ہو اور ہمیشہ اس کی پیار کی نظر ہم پر پڑتی رہے۔ اور یہ رمضان ہمارے لئے ، جماعت کے لئے غیر معمولی فتوحات لانے والا ہو۔ اللہ کرے ایساہی ہو۔

(خطباتِ مسرور جلد 2 صفحہ 754)

فرمایا: اگر اس بات پر توجہ رکھو گے کہ اگلے رمضان کے آنے تک ہم نے اس رمضان کی نیکیوں کو جاری رکھنا ہے تو تبھی فائدہ ہو گا۔ ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ اس رمضان میں نیکیاں کر لیں اور بس۔ پھر جب اگلا ر مضان آئے گا تو پھر کر لیں گے۔ اگر یہ ہماری سوچ ہو گی تو ہم نے اپنے مقصد کو پانے کی کوشش نہیں کی، ان نیک لوگوں کے زمرہ میں شامل نہیں ہوئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عِبَادِی کہہ کر مخاطب کیا ہے۔

(خطباتِ مسرور،جلد10 صفحہ481)

(ابو سعید)


پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ15۔مئی2020ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مئی 2020