• 29 اپریل, 2024

چاند، خالق کائنات کا ایک نشان

وَمِنْ اٰ یٰتِہِ اللَّیْلُ وَ النَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ (حٰم السجدہ: 38)
اور اس کے نشانوں میں سے رات بھی ہے اور دن بھی اور سورج بھی ہے اور چاند بھی۔

ہمارا نظام شمسی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان تخلیق

ہمارے نظام شمسی میں کل 9 سیارے ہیں گو کہ ان میں سے ایک پلوٹوکو نکال دیا گیا ہے ۔ تاہم ہمارا نظام شمسی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان تخلیق ہے جیسے کہ خالق کائنات نے خود فرمایا ہے کہ :

لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ

(المومن: 58)

آسمانوں اور زمین کی پیدائش انسانو ں کی پیدا ئش سے بہت بڑا کام ہے۔ مگر اکثر انسان جانتے نہیں ۔

خَلاّقُ الْعَلِیْم، خالق کائنات نے اپنے کلام مجید میں متعدد مقامات پر یہ بات بھی بیان فرمائی ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق میں مومنوں اور عقل والوں کے لیے نشانات رکھے گئے ہیں جیسے کہ فرمایا اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰت وَالْاَ رْضِ وَاخْتِلاَ فِ اللَّیْلِ وَاالنَّہَارِ لَاٰ یٰتٍ لِاّ ُولِی الْاَ لْبَابِ ( آل عمران:191)کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آگے اور پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لیے یقینا کئی نشانات ہیں۔

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰت وَالْاَ رْضِ وَاخْتِلاَ فِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ …. لَاٰ یٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ

( البقرہ: 165)

آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے آگے اور پیچھے آنے میں …. عقلمندوں کے لیے یقینا کئی نشانات ہیں۔

چاند نور اور سورج سراج ہے

خالق کائنات نے نظام شمسی میں سورج اور چاند کو ایک خاص الخاص اہمیت دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورج اور چاند کا اکھٹے بار بار ذکر فرمایا ہے جیسے فرمایا:وَ جَعَلَ الْقَمَرَ فِیْہِنَّ نُوْراً وَّ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجاً(نوح: 17) اور اس نے چاند کو ان آسمانوں میں نور کا ذریعہ بنا یا ہے اور سورج کو ایک دیئے کی حیثیت میں بنایا ہے۔وَ جَعَلَ فِیْہَا سِرَاجاً وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا(الفرقان: 62)

اور اس نے آسمان میں ایک چمکتا ہوا چراغ اور نور دینے والا چاند بنائے ہیں۔یہ دونوں مذکورہ بالا آیات قرآن کریم کے اعجاز بلاغت کا ایک نمونہ ہیں جن میں چاند کو نور سے اور سورج کو چراغ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور ان دونوں میں وجہ تشبیہ رفع ظلمت یعنی تاریکی کا دور کرنا ہے ۔ چاند کے لیے نور ( روشنی ) اور سورج کے لیے سراج ( چراغ ) کا لفظ استعمال کرنا بھی اعجاز قرآن کی ایک دلیل ہے ۔ نزول قرآن کے بعد 14 صدیوں سے مفسرین یہ لکھتے آرہے ہیں کہ چاند کی روشنی اس کی اپنی نہیں بلکہ سورج سے مستعار لی گئی ہے۔

قرآن کے وقت اہل عرب سائنسی علوم سے ناواقف تھے لیکن اللہ تعالیٰ جو علیم و خبیر اور حکیم ہے وہ اپنے نبی امی ﷺ پر ایسا کلام نازل فرمارہا تھا جس میں سائنسی اشارات بھی موجود تھے لیکن ان کی تفصیل سے اہل عرب ناواقف تھے۔

قرآن کریم میں ایک اور مقام پر سورج کا تذکرہ مؤنث کے صیغے کے ساتھ بَازِغَۃً یعنی روشن کیا گیا ہے؛ فَلَمَّا رَأَ ی الشَّمْسَ بَازِغَۃًپھر جب اس نے سورج کو چمکتا ہوا دیکھا(الانعام: 79)جبکہ چاند کا تذکرہ مذکر کے صیغہ بَازِغا ً سے کیا گیا ہے فَلَمَّا رَأَ ی الْقَمَرَ بَازِغاً پھر جب اس نے چاند کو چمکتے ہو ئے دیکھا(الانعام :78 )۔ اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ سورج کی مثال ماں کی سی ہے اور چاند کی مثال بچہ کی سی ہے ۔ جس طرح بچہ اپنی ماں کے سینے سے دودھ پی کر نشو نما پاتا ہے اسی طرح چاند سورج سے روشنی لینے کی وجہ سے بڑھتا گھٹتا نظر آتا ہے لیکن سورج ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے ۔ قرآن کریم کا یہ اعجاز عظیم الشان ہے کہ دو مختلف الفاظ استعمال فرما کر بے شمار حقائق سے پردے اٹھادیئے ہیں ۔

سورج اور چاند انسانوں کی خدمت پر مامور

یہی نہیں بلکہ خالق کائنات نے اپنے کلام مجید میں یہ بھی بتایا ہے کہ سورج اور چاند کو انسانوں کے لیے مسخر کردیا ہواہے جو اپنی تخلیق کے وقت سے ہی بغیر کسی وقفہ اور اجرت کے انسانوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ جیسے فرمایا کہ

وَ سَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآ ئِبَیْنِاورسورج اور چاند کو بلا اجرت تمہاری خدمت پر لگا رکھا ہے۔

(ابراہیم: 34 )

سورج اور چاند کے بارہ میں قرآن کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ ہُوَ الَّذِ یْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاءاً وَّ الْقَمَرَ نُوْراًّ وَ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابِ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلا َّ بِا لْحَقِّ(یونس:6) وہی ہے جس نے سورج کو ذاتی روشنی والا بنایا ہے اور چاند کو نور والا بنایا ہے اور ایک اندازہ کے مطابق اس کی منزلیں بنائی ہیں تا کہ تمہیں سالوں کی گنتی اور حساب معلوم ہو سکے ، یہ سب کچھ اس نے حق کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے۔

وَجَعَلَ اللَّیْلَ سَکَنًا وَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَاناً( الانعام:97)

اور اس نے رات کو باعثِ آرام اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا ہے۔

اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ ( الرحمان :6)

سورج اور چاند ایک مقررہ قاعدہ کے مطا بق چل رہے ہیں ۔

کتنے چاندہیں؟؟

زمین اور اس کے چاند سے متعلق ایک بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ خالق کائنات نے زمین کو حضرت آدمؑ کے لیے اور ابناء آدمؑ کے لیے جب منتخب فرمایا تو اس میں بے شمار و بے حد و حساب مصلحتیں اور حکمتیں رکھ دیں کہ جن کی کنہہ کو وہ خالق کائنات ہی زیادہ بہتر جانتا اور سمجھتا ہے۔مثلاً زمین کا ایک چاند ہے جبکہ دوسرے سیاروں کا حال زمین سے مختلف ہے ۔مثلاً سیارہ عطارد یا مرکری (MERCURY )کا کو ئی چاند نہیں ہے۔سیارہ زہرہ یا وینس (VENUS) کا بھی کو ئی چاند نہیں ہے۔ سیارہ مریخ یا مارس ( MARS )کے دو چاند ہیں Phobos اور Deimos۔سیارہ مشتری یا جیوپیٹر (JUPITER) کے 8 بڑے چاند ہیں اور ان کے علاوہ اس کے 59 چھوٹے چاند ہیں۔ سیارہ زحل یا سیٹرن (SATURN) کے 62 چاند ہیں۔سیارہ یو رینس (URANUS) کے27 چاند ہیں۔سیارہ نیپچون (NEPTUNE ) کے 14 چاند ہیں ۔سیارہ پلوٹو (PLUTO) کے 5 چاند ہیں۔ زمین کے علاوہ اور کوئی سیارہ نہیں جس کا ایک چاند ہو۔یہ خصوصیت یا انفرادیت صرف زمین ہی کے حصہ میں آئی ہے۔

خالق کائنات کی اسکیم

جیسا کہ گزشتہ سطور میں یہ ذکر کیا گیا ہے سورج اور چاند خالق کائنات کی اسکیم کے مطابق ایک خاص حساب میں بندھے ہوئے ہیں۔ اور انہی کی بنیاد پر شمسی و قمری کیلنڈر کے ماہ و سال کی گنتی ہوتی ہے۔ اس کی طرف اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ(البقرۃ:190) یہ لوگوں کے لیے وقت معلوم کرنے کا ذریعہ ہیں ۔ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے بہت سے معاملات کو سورج اور چاند کے ساتھ منسلک فرمادیا ہے ۔مثلا ً پنجوقتہ نمازیں تو سورج سے وابستہ نظام الاوقات کے مطابق فرض قرار دی گئی ہیں جبکہ اسلامی کیلنڈر کو چاند کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے اور روزہ ، حج اور زکوٰۃ جیسی عبادات کا انحصار چاند پر رکھا گیا ہے۔

اب غور کرنے کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ،خالق کائنات نے اشرف المخلوقات یعنی انسانوں کے لیے صرف زمین کو ہی مخصوص فرمایا کسی اور سیارے کو یہ شرف نہیں بخشا گیا اور اسی زمین کا صرف ایک چاند مقرر فرمایا۔ اور مسلمانوں کے کیلنڈر کو بھی زمین کے اسی ایک چاند کے ساتھ منسلک فرما دیاکہ اپنے دین کے امور کو چاند کے حساب سے پورا کرو۔ رمضان کے روزوں کا آغاز بھی اسی چاند کو دیکھ کر کرو اور اختتام بھی اسی چاند کو دیکھ کر کرو۔ عیدیں مناؤ تو بھی اس چاند کی رؤیت کے مطابق عیدکرو۔ حج کی عبادت کا مدار بھی اسی چاند پر رکھ دیااور زکٰوۃ کے لیے بھی قمری سال کی شرط رکھ دی۔یہ خالق کائنات کی اسکیم ہے۔ لیکن یہ سب کچھ جاننے کے باوجود دنیا بھر کے مسلمان ہر رمضان اور عیدین کے مواقع پرایک چاند پر متفق نہیں ہو سکتے۔ حالانکہ زمین کا چاند اللہ تعالیٰ نے ایک اور صرف ایک ہی بنایا ہے جو بذات خود وحدت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر مریخ یا مشتری یا زحل جیسے سیاروں پر انسان ہوں تو وہاں کیسے اور کیونکر متفق ہو سکتے ہیںجن کے ایک سے زیادہ چاند ہیں ؟ تخلیق کائنات میں مومنوں اور اُولوالالباب کے لیے بہت سے نشانات اور اسباق ہیں ۔

مادی سورج اور چاند کے با لمقابل روحانی سورج اور چاند

جیسا کہ گزشتہ سطور میں یہ ذکر آچکا ہے کہ سورج اور چاند ایک خاص نظام میں بندھے ہو ئے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے نظام شمسی میں سورج کو مرکز قرار دے کر تمام سیاروں کواس طریق پر اس کے ماتحت کر دیا ہے کہ وہ اسی مرکزی سیارہ یعنی سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں جیسےفرمایا کہ وَ جَعَلَ الْقَمَرَ فِیْہِنَّ نُوْراً وَّ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجاً( نوح: 17) اور اس نے چاند کو ان آسمانوں میں نور کا ذریعہ بنا یا ہے اور سورج کو ایک دیئے کی حیثیت میں بنایا ہے۔وَ جَعَلَ فِیْہَا سِرَاجاً وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا (الفرقان: 62)اور اس نے آسمان میں ایک چمکتا ہوا چراغ اور اور نور دینے والا چاند بنائے ہیں۔ ہُوَ الَّذِ یْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْراً(یونس:6)وہی ہے جس نے سورج کو ذاتی روشنی والا بنایا ہے اور چاند کو نور والا بنایا ہے۔

ان آیات میں سورج کے لیے ضِیَآء اور سِرَاجاً کا لفظ استعمال ہوا ہے۔جس کے معنوں میں روشنی دینے والا اور روشن کرنے والا کا مفہوم شامل ہے۔ اور چاند کے لیے نور کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔نور اس روشنی کو کہتے ہیں جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے۔چاند کی یہ روشنی اس کی اپنی نہیں بلکہ سورج کی ہی روشنی سے یہ منور ہوتا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے روحانی نظام میں بھی ایک سورج بنایا ہے جو کہ رسول اللہ ﷺ کا وجود ِ باجود ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَ دَاعِیاً اِلیَ اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجاً مُّنِیْراً( الاحزاب: 47) (اے نبی!ہم نے تجھ کو ) اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلا نے والا اور ایک چمکتا ہوا سورج بنا یا ہے۔

جس طرح نظام شمسی میں سورج مرکزی سیارہ ہے اسی طرح آسمان روحانیت میں رسول اللہ ﷺ کا وجود مرکز ہے۔ یعنی جس طرح یہ عالم سورج کی روشنی سے اور ایک گھر چراغ کی روشنی سے منور ہو جاتا ہے اسی طرح تمام مومن آپؐ ہی کے نور سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اس پہلو سے آپ ﷺ کی امت کے ربانی علماء، اولیاء اور مجددین چاند ستارو ں کی طرح رسول اللہ سے فیض پاتے رہے ہیں اور پاتے ہیں۔مذکورہ بالا آیات یہ امر واضح کر دیتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا فیض اسی طرح جاری و ساری ہے جس طرح نظام شمسی میں سورج کی توانائیاں ہر لمحہ اور ہر لحظہ بکھرتی رہتی ہیں ۔ جس طرح سورج خود روشن ہے اور دوسروں کو روشنی دیتا یا انہیں روشن کر دیتا ہے اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا وجودآپ ﷺ کی امت کے افراد کے لیے سراجِ منیر ہے۔

بعض علماء نے سراج کے معنی دیئے (Lamp)کے کیے ہیں اور یہ لطیف معنی بیان کیے ہیں کہ ‘‘رسول اللہ ﷺ کو سراج اس لیے کہا گیا ہے کہ ایک دئیے سے ہزار دئیے جلائے جائیں تو اس دئیے کے نور میں کو ئی کمی واقع نہیں ہو تی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نور ِ محمد ﷺ سے تمام انبیاءؑ کو پیدا فرمایا تو آپ ؐ کے نور میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔’’

( اردو ترجمہ از عربی عبارت،لطائف المعارف ، صفحہ10از الشیخ امام زین الدینؒ ابو الفرج ابن رجب، متوفی: 795ہجری)

اسی طرح امام احمد الصاوی ؒ نے تفسیر جلالین کے حاشیہ میں یہ لکھا ہے کہ ‘‘اس آیت میں نبیﷺ کو سراج سے تشبیہ دی گئی ہے سورج سے نہیں حالا نکہ سورج کی روشنی زیادہ تیز ہوتی ہے۔سراج سے تشبیہ دینے کے یہ معنی ہیں کہ دئیے سے نور حاصل کرنا آسان ہوتا ہے اور آپؐ سے تو ظاہری اور باطنی نور حاصل کیے جاتے ہیں ۔’’

(تفسیر جلالین ، حاشیہ الصّاوی، جز3 صفحہ 224)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کا ترجمہ ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ ‘‘وہ خدا کی طرف بلانے والا ہے اور وہ ایک روشن چراغ ہے جو اپنی ذات میں روشن اور دوسرو ں کو روشنی پہنچاتا ہے۔ ’’

(تفسیرحضرت مسیح موعودؑ، جلد 3صفحہ 728)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کی تفسیر میں یہ فرمایا ہے کہ ‘‘خدا (تعالیٰ) کی طرف سے روحانی اصلاح کے لئے مقرر ہو نے والے لوگ چراغ کی طرح ہو تے ہیں اسی واسطے قرآن شریف میں آپؐ کا نام دَاعِیاً اِلیَ اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجاً مُّنِیْراً آیا ہے۔دیکھو کسی اندھیرے مکان میں جہاں سو پچاس آدمی ہو ں اگر ان میں سے ایک کے پاس چراغ روشن ہو تو سب کو اس کی طرف رغبت ہو گی اور چراغ ظلمت کو پاش پاش کر کے اجالا اور نور کر دے گا۔

اس جگہ آپؐ کا نام چراغ رکھنے میں ایک اَورباریک حکمت یہ ہے کہ ایک چراغ سے ہزارو ں لاکھو ں چراغ روشن ہو سکتے ہیں اور اس میں کوئی نقص بھی نہیں آتا ۔ چاند سورج میں یہ بات نہیں۔اس سے مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی اور اطاعت کرنے سے ہزاروں لاکھو ں انسان اس مرتبہ پر پہنچیں گے اور آپؐ کا فیض خاص نہیں بلکہ عام اور جاری ہو گا ۔غرض یہ سنت اللہ ہے کہ ظلمت کی انتہا کے وقت اللہ تعالیٰ اپنی بعض صفات کی وجہ سے کسی انسان کو اپنی طرف سے علم اور معرفت دے کر بھیجتا ہے اور اس کے کلام میں تاثیر اور اس کی توجہ میں جذب رکھ دیتا ہے ۔اس کی دعا ئیں مقبول ہو تی ہیں مگر وہ ان ہی کو جذب کرتے ہیں اور ان پر ہی ان کی تاثیرات اثر کرتی ہیں جو اس انتخاب کے لائق ہو تے ہیں ۔ دیکھو آنحضرت ﷺ کا نام سِرَاجاً مُّنِیْراً ہے مگر ابوجہل نے کہاں قبو ل کیا ۔’’

( تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 3صفحہ 728)

اسی طرح حضور ؑ تحریر فرماتے ہیں ‘‘خدا تعالیٰ نے تو قرآن شریف میں آپؐ کا نام سراج منیر رکھا ہے جو دوسروں کو روشن کرتا ہے اور اپنی روشنی کا اثر ڈال کر دوسروں کو اپنی مانند بنا دیتا ہے ۔ ’’

( چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد 20صفحہ: 388۔389)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ کے اس مقامِ سراج منیر سے متعلق اپنے عربی اور فارسی منظوم کلام میں بھی روشنی ڈالی ہے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے عربی منظوم کلام میں فرماتے ہیں۔

وَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ شَمْسٌ مُّنِیْرَۃٌ
وَبَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ بَدْرٌ وَّ کَوْکَبٗ

یقینا رسول اللہ ﷺ روشن سورج ہیں اور آپؐﷺکے بعد باقی سب چاند ستارے ہیں۔

( کرامات الصادقین،روحانی خزائن جلد 7صفحہ 103)

وَلَا شَکَّ اَنَّ مُحَمَّدًا شَمْسُ الْھُدٰی
اِلَیْہِ رَغِبْنَا مُؤْمِنِیْنَ فَنَشْکُرٗ

اور بے شک محمد (رسول اللہ ﷺ ) ہدایت کے سورج ہیں،ہم آپ ؐ کی طرف مومن ہو کر رغبت کرتے ہیں اور شکر کر تے ہیں۔

( حمامۃ البشریٰ، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ331)

حضور ؑ اپنے فارسی منظوم کلام میں فرماتے ہیں کہ

اَزْ طُفَیْلِ اُوسْت نُور ِ ہر نبی
نامِ ہر مُرسَل بنامِ اُو جَلِی

یعنی ہر نبی کا نور آپؐ ہی کے طفیل ہے ۔ اور ہر رسول کا نام آپ ؐ ہی کی وجہ سے روشن ہے۔

( برہین احمدیہ حصہ چہارم ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ638، حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

رسول اللہ ﷺ آسمانِ روحانیت کے سورج اور آپؐ کے غلام صادق چاند ہیں

پس جیسا کہ گزشتہ سطور میں ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر47 کی رو سے عالم روحانی کے سورج ہیں اور اس آیت میں یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ جب کبھی دنیا میں روحانی ظلمت چھا جائے گی تو اللہ تعالیٰ رو حانی طور پر ایسے وجودوں کو کھڑا کرے گا جن کا اپنا نور نہیں ہو گا بلکہ وہ ظاہری چاند اور ستاروں کی طرح آپؐ کے روحانی نور سے فیض پا کر روحانی تاریکی کو دور کریں گے۔بالکل اسی طرح جس طرح صحابہ ؓ رسول ﷺ کو خود رسول اللہ ﷺ نے نجوم قرار دیا تھا یہ فرماکر کہ اَصْحَابِی کَالنُّجُومِ بِاَیِّہِمُ اقْتَدَ یْتُمْ اِہْتَدَیْتُمْ کہ میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں تم جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پا جا ؤگے۔ ( رواہ البیہقی فی سننہ)حضرت عمر ؓ سے مروی حدیث قدسی میں ہے کہ انہو ں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہو ئے سناکہ‘‘ میں نے اپنے رب سے اپنے صحابؓہ کے اختلاف کے بارہ میں پوچھا جو میرے بعد واقع ہو گا ۔’’(تواللہ نے ) میری طرف وحی کی’’ اے محمد ؐ ! تیرے صحابہ میرے نزدیک آسمان کے ستاروں کی مانند ہیں، بعض ستارے بعض سے قوی تر ہیں، اور ہر ایک کے لیے ایک نور ہے ۔ جس شخص نے اختلاف کے وقت اس نور میں سے کچھ لیا وہ میرے نزدیک ہدایت پر ہیں ۔’’ اور رسول اللہ ﷺنے فرمایا اَصْحَابِیُّ کَالنُّجُومِ فَبِاَیِّہِمُ اقْتَدَ یْتُمْ اِہْتَدَیْتُمْ کہ میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاجاؤ گے۔

(مشکوٰۃ المصابیح، جلد سوم،باب:مناقب الصحابہؓ، فصل الثالث،حدیث نمبر 5762)

اسی طرح ضروری تھا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کے بعد ایسے وجود ہوں جو ستاروں اور چاند کی مانند ہوں اور تاریکی کے زمانہ میں ہدایت کا نور پھیلانے والے ہو ں۔صحابہ ؓ کے دور کے بعد تیرہ صدیوں میں اللہ تعالیٰ نے مجددین کوکھڑا کیا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے نور کو آگے پھیلایا اور چودہویں صدی میں اپنے وعدوں کے مطابق مسیح موعودؑ اور مہدی معہودؑ کو چودہویں کا چاند بنا کر مبعوث فرمایاجس کے ذریعہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دور شروع ہوا اور ان کے ذریعہ دین اسلام ایک بار پھر ترقی کرے گا ۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

‘‘ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اس وحی الٰہی میں جو لکھی جاتی ہے۔میرے ہاتھ پر دین اسلام کے پھیلانے کی خوشخبری دی جیسا کہ اس نے فرمایا یَا قَمَرُ یَا شَمْسُ اَنْتَ مِنِّی وَاَنَا مِنْکَ یعنی اے چاند اور اے سورج ! تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہو ں ۔ اس وحی الٰہی میں ایک دفعہ خدا تعالیٰ نے مجھے چاند قرار دیا اور اپنا نام سورج رکھا ۔اس سے یہ مطلب ہے کہ جس طرح چاند کا نور سورج سے فیضیاب اور مستفید ہو تا ہے اسی طرح میرا نور خدا تعالیٰ سے فیضیاب اور مستفاد ہے۔ پھر دوسری دفعہ خدا تعالیٰ نے اپنا نام چاند رکھا اور مجھے سورج کر کے پکارا ۔ اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ اپنی جلالی روشنی میرے ذریعہ سے ظاہر کرے گا۔ وہ پوشیدہ تھا ۔ اب میرے ہاتھ سے ظاہر ہو جائے گا اور اس کی چمک سے دنیا بے خبر تھی مگر اب میرے ذریعہ سے اس کی جلالی چمک دنیا کی ہر ایک طرف پھیل جائے گی۔’’

( تجلیات الٰہیہ،روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 397)

اسی طرح حضور ؑ فرماتے ہیں۔

‘‘اللہ تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے :یَا قَمَرُ یَا شَمْسُ اَنْتَ مِنِّی وَاَنَا مِنْکَ یعنی اے چاند! اور اے سورج ! تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ۔ اب اس فقرہ کو جو شخص چاہے کسی طرف کھینچ لے ۔ مگر اصل معنے اس کے یہ ہیں کہ اول خدا نے مجھے قمر بنایا کیونکہ میں قمر کی طرح اس حقیقی شمس سے ظاہر ہوا اور پھر آپ قمر بنا کیونکہ میرے ذریعہ سے اس کے جلال کی روشنی ظاہر ہو ئی اور ہو گی۔’’

( چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 375۔376)

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

‘‘اور یہ سنت اللہ ہے کہ وہ انسانوں کو متفرق چھوڑنا نہیں چاہتا۔ بلکہ جیسا کہ اس نے نظام شمسی میں بہت سے ستاروں کو داخل کر کے سورج کو اس نظام کی بادشاہی بخشی ہے ایسا ہی وہ عام مومنوں کو ستارو ں کی طرح حسب مراتب روشنی بخش کر امام الزمان کو ان کا سورج قرار دیتا ہے۔ اور یہ سنت الٰہی یہاں تک اس کی آفرینش میں پائی جاتی ہے کہ شہد کی مکھیو ں میں بھی یہ نظام موجود ہے کہ ان میں بھی ایک امام ہو تا ہے جو یعسوب کہلاتا ہے اور جسمانی سلطنت میں بھی یہی خدائے تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ ایک قوم میں ایک امیر اور بادشاہ ہو۔ اور خدا کی لعنت ان لو گو ں پر ہے جو تفرقہ پسند کرتے ہیں اور ایک امیر کے تحت ِ حکم نہیں چلتے۔ حالانکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ(النساء:60)اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور رو حانی طور پر امام الزمان ہے۔’’

( ضرورت الامام، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 493)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے عربی منظوم کلام میں فرماتے ہیں کہ

وَ اَنّٰی لِظَلٍّ اَنْ یُّخَا لِفَ اَصْلَہٗ
فَمَا فِیْہِ فِیْ وَجْہِیْ یَلُوْ حُ وَ یَزْھَرٗ

اور یہ کیو نکر ہو سکتا ہے کہ ظل اپنے اصل کے مخالف ہو ۔ پس جو روشنی آپؐ میں تھی وہ میرے چہرہ میں ظاہر ہے اور چمک رہی ہے۔

(ضمیمہ کتاب نزول المسیح ، روحانی خزائن ، جلد 19 صفحہ 183)

حضور علیہ السلام اپنے فارسی منظوم کلام میں فرماتے ہیں کہ:

ایں چشمہ رواں کہ بخلق خدا دہم
یک قطرہء ز بحر کمال محمد است

یعنی معارف و حقائق کا جو چشمہ میں خدا کی مخلوق میں تقسیم کر رہا ہو ں یہ میرا مال نہیں بلکہ یہ محمدؐ رسول اللہ ﷺ کے کمالات کے سمندر کا ایک قطرہ ہے ۔
پس رسول اللہ ﷺ عالم روحانی کے سورج ہیں اور روحانی چاند ستاروں سے مراد وہ روحانی و ربانی وجود ہیں جو آپ ؐ کی کامل اتباع سے نبی، صدیق، شہید، اور صالحیت کے مقام پر اس امت میں فائز ہو تے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔

مومن کا دل

چاند و سورج کی تخلیق میں ایک اور نشان یا ایک اور نکتہ قابل ذکر یہ ہے کہ سورج سے قریب ترین سیارہ عطارد یا مرکری (MERCURY) ہے جس کا کو ئی چاند نہیں ہے لیکن وہ خود ہر وقت روشن رہتا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مومن کا دل بنایا ہے ۔ جس مومن کا دل خالق کائنات سے قریب تر ہو تا ہے وہ چاندوں سے بے نیاز ہو جا تا ہے اور وہ ہر وقت روشن رہتاہے۔ اللہ سے محبت کے اس نکتہ کی طرف یہ آیت اشارہ کر رہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ (البقرۃ:187)اور اے رسول جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پو چھیں تو ان کو جواب دے کہ میں ان کے پاس ہی ہوں۔
ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَنَا عِنْدَ الْمُنْکَسِرَۃِ قُلُوْبُہُمْ مِنْ اَجْلِی کہ میں ان کے پاس ہو تا ہوں جن کے دل میری وجہ سے ٹوٹے رہتے ہیں۔

(اردوترجمہ،مرقات المفاتیح شرح مشکٰوۃ المصابیح از ملا علی قاریؒ)

(قمر داؤد کھوکھر۔آسٹریلیا)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ15۔مئی2020ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مئی 2020