• 14 جولائی, 2025

حضرت منشی ظفر احمدؓ کے تبلیغی واقعات

پیدائش اور تعارف

حضرت منشی ظفر احمدؓ کی ولادت 1863ء میں باغپت ضلع میرٹھ میں ہوئی۔ آپ کے والد صاحب کانام شیخ مشتاق احمد عرف محمد ابراہیم تھا۔ سترہ سال کی عمر تک مختلف سکولوں میں تعلیم حاصل کی۔پھر کپورتھلہ تشریف لے گئے اور وہاں آپ اپیل نویس مقرر ہوئے۔

بیعت

حضرت منشی صاحب کو 1882ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں علم ہوا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے جب معرکۃ الآراء تصنیف براہین احمدیہ تالیف فرمائی تو آپؓ تک بھی یہ کتاب پہنچی۔ دوران مطالعہ ہی آپؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت ہو گئی۔ آپؓ فرماتے ہیں ’’میں نے براہین احمدیہ کو اس وقت سنا اور خود اسے پڑھا۔ تو میں نہیں جانتا کہ اس کے اندر کیا جذب اور کشش تھی کہ میری عقیدت حضرت صاحب سے نادیدہ بڑھتی چلی گئی۔‘‘

(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ75)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ؓبیان کرتے ہیں کہ
’’اور (منشی صاحبؓ) اپنی تنہائی میں اس (براہین احمدیہ) پر غور کرتے۔ خداتعالیٰ سے دعائیں کرتے اور مسلمانوں کی عام حالت اوراسلام پر دشمنوں کے حملوں کو مشاہدہ کرتے تھے اور ان کا دل ایک قسم کے غم اور افسردگی سے بھرا ہوا تھا۔ مگر براہین احمدیہ نے ان کے قلب میں ایک شمع روشن کردی۔ اور ان کو بہت جلد پنجاب آنے کا جوش پیدا ہوگیا۔ جوانی کا آغاز اور دین سے محبت کی چنگاری ان کے سینہ میں بھڑک اٹھی۔ وہ 1941 بکرمی 1884ء میں کپورتھلہ آئے۔ اس وقت تک چوتھی جلد بھی شائع ہوچکی تھی۔ اور انہوں نے کپورتھلہ میں براہین کا باقاعدہ درس شروع کردیا۔ یہ دنیا بھر میں براہین کا پہلا درس تھا جس کوکپورتھلہ کی جماعت احمدیہ کے آدم حضرت منشی ظفر احمد نے شروع کیا تھا۔ نہ صرف اسی پر اکتفا کیا بلکہ حضرت اقدس سے براہ راست تعلق پیدا کیا اور جماعت کپورتھلہ میں ایک ایسی روح پیدا ہوگئی۔ کہ من توشدم تو من شدی کا نمونہ نظر آگیا۔ قادیان کی آمدورفت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور تعلقات محبت میں دن بدن اضافہ ہونے لگا۔ اور کپورتھلہ کی جماعت ایک ایسی جماعت اور ایسے رنگ میں رنگین جماعت تھی کہ حضرت اقدس نے اس جماعت کو تحریری بشارت دی کہ تم جنت میں میرے ساتھ ہوگے۔ ان ایام کے کپورتھلہ کی جماعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی اس بشارت کی روسے ایک ایسی جماعت ہے جو عشرہ مبشرہ کی شان رکھتی ہے۔ ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوتِیہِ مَنُ یَّشآءُ۔‘‘

(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 75)

حضرت اقدس سے آپ کی پہلی ملاقات 1884ء، 1885ء کے قریب میں جالندھر میں ہوئی۔ آپ نے بہت دفعہ بیعت کے لیے عرض کیا لیکن حضور نے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے ابھی حکم نہیں ہے۔ جب حضرت مسیح موعودؑ نے الہٰی حکم کے تحت 1889ء میں بیعت کا اعلان فرمایا تو آپ نے بیعت کی سعادت پا لی۔

اہم خدمات

جیساکہ ذکر ہوچکا ہے کہ آپ ؓ ریاست کپورتھلہ میں اپیل نویس تھے پھرسرکاری ملازمت میں نمایاں ترقی بھی کی۔ پھر بھی اس مصروفیت کے باوجودآپ کو حضرت صاحبؑ کے ہمرکاب رہنے کا بہت شرف ملا۔ 1889ء کے بعد حضرت مسیح موعودؑکا کوئی سفرایسا نہ تھا جس میں آپ کی معیت نہ ہو۔ حضرت صاحب کی خط وکتابت میں بھی آپ ان کے معاون رہے۔

تبلیغی واقعات
تبلیغ میں غلبہ

حضرت پیر سراج الحق ؓ نعمانی فرماتے ہیں۔
’’منشی ظفر احمد ساکن کپورتھلہ اور ایک شاگرد یا مرید مولوی رشید احمد گنگوہی میں حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کی وفات وحیات کے متعلق گفتگو ہوئی۔ وہ اس گفتگو میں تو مولوی صاحب کا مرید ناکام رہا کہ حیات مسیح علیہ السلام ثابت کرسکے۔ مگر گفتگو اس پر آٹھہری کہ اتنی لمبی عمر کسی انسان کی پہلے ہوئی ہے۔ اور اب ہو سکتی ہے کہ نہیں؟ اس میں بھی وہ لاجواب رہا۔ آخر کار اس نے ایک خط مولوی رشید احمد صاحب کو لکھا۔ مولوی صاحب نے اس کے جواب میں لکھا کہ ہاں اتنی لمبی عمر ،یہ تو دوہزار برس ہی ہوئے زیادہ عمر بھی ہوسکتی ہے۔ دیکھو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے شیطان اب تک زندہ چلا آتا ہے۔ کتنے ہزار برس ہوئے۔ اس کے جواب میں منشی ظفر احمد نے فرمایا کہ ذکر تو انسانوں کی عمر کا تھا نہ کہ شیطان کا۔ کیا نعوذباللہ حضرت مسیح علیہ السلام شیطانوں میں سے تھے جو شیطان کی عمر کی مثال دی۔ اور یہ بھی ایک دعویٰ ہے۔ مولوی رشید احمد دعویٰ اور دلیل میں فرق نہیں سمجھتے۔ دعویٰ اور چیز ہے اور دلیل اور چیز ہے۔ اس پر کیا دلیل ہے کہ وہی شیطان آدم والا اب تک زندہ ہے اور اس کی اتنی بڑی لمبی عمر ہے۔ منشی صاحب موصوف کے اس جواب کو سن کر پھر ایک خط مولوی صاحب کو ان کے مرید نے لکھا۔ مولوی صاحب نے یہ جواب دیاکہ تمہارا مقابل مرزائی ہے۔ اس سے کہہ دو کہ ہم مرزائیوں سے کلام کرنا نہیں چاہتے۔ اور تم بھی مت ملو۔‘‘

(تذکرة المہدی حصہ اول صفحہ 134جدید ایڈیشن بحوالہ اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 49-50)

’’مولوی محمد چراغ‘‘ اور ’’مولوی محمد معین الدین‘‘

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ بیان کرتے ہیں۔
’’ایک مرتبہ ایک مولوی تحقیق حق کے خیال سے قادیان آیا۔ چھوٹے سے قد کا تھا۔ بارہ نمبردار اس کے ساتھ تھے۔ وہ بحث نہ کرتا۔ بلکہ خود اپنے نقطہ نظر سے حالات دیکھتا تھا۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب رہتا تھا۔ رات کو وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگاکہ ایک بات پوچھتا ہوں اگر آپ سچ سچ بتا دیں۔ اعتقاد کا خیال نہ کریں۔ عربی زبان میں حضرت جو کتابیں لکھ رہے ہیں ان کی تصنیف میں مدد دینے کے لئے کچھ لوگ ہوں گے جو رات کو مدد دیتے ہوں گے۔ میں نے کہا ہاں دو آدمی ہیں جو آپ کو مدد دیتے ہیں۔ ایک کا نام مولوی محمدمعین الدین اور دوسرے کا نام مولوی محمد چراغ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے میں اس قدر قریب تھا کہ میری آواز وہاں تک بخوبی پہنچتی تھی۔ حضرت نے جب یہ سنا تو بے اختیار ہنس پڑے۔ میں نے سمجھا کہ بات آئی گئی ہو گئی۔ دوسرے دن جب عصر کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مسجد میں تشریف فرما ہوئے تو فرمایا۔ منشی جی ان علماء کو دکھا بھی تو دو۔ میں نے دونوں کو بلا کر سامنے کر دیا۔ اور اس سے ایک بڑا لطف مجلس میں پیدا ہو گیا۔ وہ ایک بڑا خوان شیرینی کا لایا اور عرض کیا کہ میری تسلی ہو گئی۔ میری بیعت قبول فرمائی جائے۔ حضرت نے اس کی اور اس کے ہمراہیوں کی بیعت لے لی اور ہنس کر فرمایا یہ سینی شیرینی کی منشی جی کو دوکہ وہ ہدایت کا موجب ہوئے ہیں نئے لوگ شاید اس سے لطف نہ اٹھا سکیں۔ کیونکہ بہت تھوڑے ہوں گے جنہوں نے ان ’’علماء‘‘ کودیکھا ہو۔ ایک حافظ معین الدین رضی اللہ تھے جن کو حافظ معنا بھی کہا کرتے تھے وہ فوت ہو چکے ہیں۔ دوسرا مولوی چراغ ایک جولاہا ہے جو اس وقت مدرسہ احمدیہ میں چپڑاسی ہے۔ اس وقت وہ ایک نابالغ لڑکا تھا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر کا کاروبار سودا سلف لانے کا کرتا تھا۔ یا بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔‘‘

(الفضل مورخہ 24ستمبر 1941ء بحوالہ اصحاب احمد جلد 4صفحہ 83,84)

عبدالواحدصاحب کو خط

حضرت منشی ظفر احمدؓ بیان فرماتے ہیں کہ
‘‘منشی عبد الواحد صاحب بٹالہ میں تحصیلدار تھے۔۔۔بٹالہ سے قادیان حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب سے ملنے جایا کرتے تھے جبکہ حضرت مسیح موعودؑ کی عمر چودہ پندرہ سال کی ہوگی۔ عبد الواحد صاحب نے ذکر کیا کہ حضرت صاحب اس عمر میں سارا دن قرآن شریف پڑھتے تھے اور حاشیہ پر نوٹ لکھتے رہتے تھے اور مرزا غلام مرتضیٰ صاحب فرماتے کہ یہ کسی سے غرض نہیں رکھتا۔ سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن شریف پڑھتا رہتا ہے ۔۔۔ عبدالواحد صاحب احمدی نہیں ہوئے۔ میں نے اپنی بیعت کے بعد ان سے پوچھا کہ آپ تو سب حالات جانتے ہیں۔ بیعت کیوں نہیں کرلیتے۔ انہوں نے کہا مجھے الہام ہوا ہے کہ مرزا صاحب کے پاس دوجن سکھ دیو اور ہر دیو ہیں۔ اور ان پر ان کا دارومدار ہے۔ اور گویا میں اس الہام کے ذریعہ سے بیعت سے روکا گیا ہوں۔ میں نے حضرت صاحب سے یہ ذکر کیا کہ ان کا الہام غالباً شیطانی ہے۔ حضور نے فرمایا نہیں یہ رحمانی الہام ہے۔ جس زبان میں الہام ہو اس کے مطابق معنے کرنے چاہئیں۔ دیو سنسکرت میں فرشتے کو کہتے ہیں۔ گویا راحت کے فرشتے اور ملائکۃ اللہ ہمارے مددگار ہیں۔ تم انہیں لکھو۔ چنانچہ میں نے انہیں گڑگانواں میں جہاں وہ منصف تھے خط لکھا۔ جواب نہ آیا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد عبدالواحد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ عبدالواحد صاحب مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کے مرید تھے۔ 1941 بکرمی میں حضرت صاحب کے اشتہار کبھی حاجی صاحب کے پاس کپورتھلہ آتے تو مجھے حاجی صاحب یہ کہہ کردیتے کہ یہ ہیں تمہارے پیر۔‘‘

(اصحاب احمد جلد 4صفحہ 133,134)

دعویٰ مجددیت ’’قریب بہ اذعان‘‘

حضرت منشی ظفر احمدؓ خود بیان کرتے ہیں کہ
’’بیعت اولیٰ سے پیشتر میں نے سرسید احمد صاحب کی کتابیں پڑھی تھیں اور میں اور محمد خان وفات عیسیٰ کے قائل تھے۔ چنانچہ میں نے مولوی رشید احمد گنگوہی کو خط لکھا کہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کہاں سے ثابت ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ جس طرح خضر علیہ السلام کی حیات ضعیف احادیث سے ثابت ہے اور ضعیف احادیث کا مجموعہ اقسام حدیث میں سے حدیث حسن کو پہنچتا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ موضوع احادیث کا مجموعہ ضعیف ہوا۔اور ضعیف احادیث کا مجموعہ حسن۔ پس کوئی حدیث موضوع نہ رہے گی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اہل ہویٰ کا جواب نہیں دیا کرتے لیکن چونکہ تمہارا تعلق مرزا صاحب سے ہے اس لئے جواب لکھتا ہوں۔ اور مرزا صاحب وہ ہیں کہ معقولی باتیں پیش کرتے ہیں۔ اور پھر وہی قرآن سے دکھلا دیتے ہیں۔ اور ان کا دعویٰ مجددیت ’’قریب بہ اذعان‘‘ ہے۔ (یہ مولوی رشید احمد کے الفاظ ہیں) قرآن پر جوکوئی اعتراض کرتا ہے۔ مرزا صاحب معقول جواب اس کا دیتے ہیں۔ اور قرآن سے نکال کر وہی دکھا دیتے ہیں۔‘‘

’’مراد اس ذکر سے یہ ہے کہ رشید احمد گنگوہی حضرت صاحب کو مجدد ہونے والے اپنے اندازے میں سمجھتے تھے۔ وہ خطوط رشید احمد کے مجھ سے مولوی اشرف علی نے جو رشید احمد کا مرید تھا اور سلطان پور ریاست کپورتھلہ میں رہتاتھا لے کر دبالئے اور پھر باوجود مطالبہ دئیے نہیں۔ 1886ء میں حضرت صاحب کے خطوط میرے پاس آتے تھے۔‘‘

(اصحاب احمد جلد 4صفحہ 138)

‘‘یہ جسم آسمان پر نہیں جا سکتا’’

حضرت منشی ظفر احمد ؓ بیان کرتے ہیں کہ
’’میر عباس علی بھی اپنے کسی مرید کے ہاں آکر جالندھر میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ وہ آپ کے پرانے ملنے والے ہیں ان کو جاکر کچھ سمجھاؤ۔ پیراندتا جو ایک فاترالعقل شخص تھا اور حضرت صاحب کے پاس رہتا تھا۔ اس نے کہا ‘‘حجورمیں وی جاکے سمجھاواں’’حضرت صاحب نے فرمایا ہاں منشی صاحب کے ساتھ چلے جاؤ۔ میں میر عباس علی کی قیام گاہ پر گیا۔ آٹھ دس آدمی فرش پر بیٹھے تھے اور میر صاحب چارپائی پر۔ ایک تخت بھی وہاں تھا۔ دوروں (بڑے بڑے پیالوں) میں پوست بھیگے ہوئے تھے۔پیراندتا کودیکھ کر عباس علی صاحب نے اسے بے تکلفانہ پکارا او پیراندتا! اوپیراندتا!اور مجھ سے سلام علیکم کرکے ہنستے ہوئے آئیے آئیے کہہ کر بیٹھنے کو کہا۔ پیراندتا مجھ سے کہنے لگا۔ میں پہلے سمجھالوں۔ میں نے کہا سمجھالے۔ پیراندتا کہنے لگا میر صاحب میں تمہیں دونوں وقت کھانا پہنچاتا تھا یا نہیں۔ اور تمہیں کبھی کبھی میں پیسے بھی دے جایا کرتا تھا۔ میرصاحب اب بڑے آدمی دور دور سے روٹی کھانے والے آتے ہیں اب جو تم روٹیوں کی خاطر ادھر ادھر پھرتے ہو یہ وقت اچھا ہے یا وہ۔ جب گھر بیٹھے میں تمہیں روٹی دے جایا کرتا تھا۔ اب تم میرے ساتھ چلو۔ میں پھر تمہیں روٹی دونوں وقت دے جایا کروں گا۔ میر عباس علی ہنستے رہے۔ پھر میں نے ان سے کہا آپ کیوں برگشتہ ہوگئے۔ وہ کہنے لگے مرزا صاحب کہتے ہیں کہ یہ جسم آسمان پر نہیں جاسکتا۔ میں نے اپنے پیر کو خود دیکھا ہے (مولوی غوث علی پانی پتی ان کے پیر تھے) ایک دفعہ انہوں نے الا اللّٰہ کا جو نعرہ لگایا تو زمین شق ہوگئی۔ اور وہ اس میں سما گئے۔میں نے کہا اوپر تو پھر بھی نہ گئے۔ اور وہاں قرآن شریف رکھا تھا۔ میں نے اٹھا کر میرصاحب کے سر پر رکھ دیا کہ آپ خدا کو حاضر ناظر جان کر بتائیں کہ آپ نے یہ واقعہ خود دیکھا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ ہمارے پیر نے جب یہ بیان کیا کہ انہوں نے ایک دفعہ ایسا کیا اور ہم انہیں سچا سمجھتے ہیں تویہ چشم دید ماجرا ہی ہوا۔ غرضیکہ جہاں تک ہوسکا۔ میں نے ان کو سمجھایا۔ مگر اس وقت ان کی حالت بہت بگڑ چکی تھی وہ اقرار ی نہ ہوئے۔‘‘

(اصحاب احمد جلد 4صفحہ 158)

ایک مباحثہ

حضرت منشی ظفر احمدؓ بیان کرتے ہیں کہ
’’مولوی محمد بشیر بھوپالوی دہلی آگئے جن کو علی جان والوں نے مباحثہ کے لئے بلایا تھا۔ علی جان والے ٹوپیوں کے بڑے سوداگر اور وہابی تھے۔ انہوں نے آکر عرض کی کہ مولوی صاحب کو بھوپال سے آپ کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے بلایا ہے۔ شرائط مناظرہ طے کر لیجئے۔ حضور نے فرمایا کہ کسی شرط کی ضرورت نہیں۔ احقاق حق کے لئے یہ بحث ہے وہ آجائیں اور جو دریافت فرمانا چاہیں دریافت فرمالیں۔ پھر ایک تاریخ مقرر ہوگئی۔ مجھ کو اور پیر سراج الحق مرحوم کو حضور نے حکم دیا کہ آپ کچھ کتابیں اپنے واقفوں سے لے آئیں۔ ہمیں تو ضرورت نہیں مگر انہیں کے مسلمات سے ان کو ساکت کیا جاسکتا ہے۔ ہم دونوں بہت جگہ پھرے۔ لیکن کسی نے کتابیں دینے کا اقرار نہ کیا۔ امام گلی میں مولوی محمد حسین فقیر رہتے تھے انہوں نے وعدہ کیا کہ جس قدر کتابوں کی ضرورت ہو کل لے جانا۔ اگلے روز جب ہم گئے تو وہ نہ ملے اور ان کے بیٹوں نے ہمیں گالیاں دینی شروع کردیں کہ جو ملحدوں کی مدد کرے وہ بھی ملحد ہے۔ ہم دونوں ان کے پاس سے اٹھ کر چلے آئے۔ پیر سراج الحق تو مجھ سے علیحدہ ہوکر کہیں چلے گئے۔ میں تھوڑی دور کھڑا ہو کر ان سے سخت کلامی کرنے لگ گیا۔ وہاں آدمی جمع ہوگئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے۔ میں نے کہا کہ امام اعظم کو یہ برا کہتے ہیں۔ وہ کہنے لگے ہمیں معلوم ہے یہ بڑے بے ایمان ہیں۔ یہ چھپے ہوئے وہابی ہیں۔ وہابیوں کی مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ میرے ساتھ ہوکر ان کے خلاف ہوگئے۔ پھر میں وہاں سے چلا آیا۔ جب امام صاحب کے مکان کے آگے سے گزرے تو انہوں نے مجھے اشارے سے اپنی بیٹھک میں بلالیا اور کہنے لگے کہ اگر آپ کسی سے ذکر نہ کریں تو جس قدر کتابیں مطلوب ہوں میں دے سکتا ہوں۔ میں نے کہا آپ اتنا احسان فرمائیں تو میں کیوں ذکر کرنے لگا۔ کہنے لگے کہ جب مرزا صاحب مولوی نذیر حسین سے قسم لینے کے لئے جامع مسجد میں بیچ کے دروازے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت میں دیکھتا تھا کہ انوار الٰہی آپ پر نازل ہوتے ہیں اور ان کی پیشانی سے نشانِ نبوت عیاں تھی۔ مگر میں اپنی اس عقیدت کو ظاہر نہیں کرسکتا۔ خیر میں کتابیں لے کر چلا آیا اور حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیں۔ آپ بہت خوش ہوئے۔ اس پر دہلی والوں نے کہا تھا(ہولی ہے بھئی ہولی ہے پاس کتابوں کی جھولی ہے) تفسیر مظہری اور صحیح بخاری دستیاب نہ ہوئی تھیں۔ اس زمانے میں مولوی رحیم بخش فتح پوری مسجد کے متولی تھے۔ وہ سید امام علی شاہ رتڑچھتڑوالوں کے خلیفہ تھے۔ اور میرے والد صاحب مرحوم کے ان سے جب کہ والد صاحب گجرات میں بندوبست میں ملازم تھے۔ سید امام علی شاہ صاحب سے بہت عمدہ تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ رحیم بخش صاحب سے جب میں نے اس تعلق کا ذکر کیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ میں نے ان سے کتابیں طلب کیں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ ہمارے ہوکر مرزا صاحب کے ساتھ کس طرح ہیں۔ میں نے کہا ان وہابیوں کی شکست ہماری فتح ہے۔ کہنے لگے یہ بات تو ٹھیک ہے۔ چنانچہ انہوں نے کتابیں دے دیں۔ وہ بھی لاکر میں نے حضور کو دے دیں۔ صحیح بخاری ابھی تک نہ ملی تھی۔ پھر حبیب الرحمٰن صاحب مرحوم جو اس اثناء میں حاجی پور سے دہلی آگئے تھے۔ وہ اور میں مدرسہ شاہ عبدالعزیز صاحب میں گئے اور اس مدرسہ کے پاس میرے ماموں حافظ محمد صالح صاحب صدر قانون گو دہلی کا مکان تھا۔ وہاں جاکر ہم نے بخاری شریف کا آخری حصہ دیکھنے کے لئے مانگا انہوں نے دے دیا۔ ہم لے آئے۔ مولوی محمد بشیر صاحب مباحثہ کے لئے آگئے۔ ایک بڑا لمبا دالان تھا۔ جس میں ایک کوٹھڑی تھی۔

اس کوٹھڑی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مولوی عبدالکریم صاحب اور عبدالقدوس غیر احمدی ایڈیٹر صحیفہ قدسی اور ہم لوگ بیٹھے تھے۔ مولوی محمد بشیر آگئے۔ ظاہراً بڑے خضر صورت تھے اور حضرت صاحب سے بڑے ادب اور تعظیم کے ساتھ ملے اور معانقہ کیا اور بیٹھ گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یہ کوئی ہار جیت کا معاملہ نہیں یہیں بیٹھے ہوئے آپ سوال کریں میں جواب دوں۔ بات طے ہوجائے۔ مگر اس کو یہ حوصلہ نہ ہوا کہ حضور کے سامنے بیٹھ کر سوال جواب کرسکتا۔ اس لئے اس نے اجازت چاہی کہ وہ دالان میں ایک گوشہ میں بیٹھ کر لکھ لے۔ دالان میں بہت سے آدمی معہ علی جان والوں کے بیٹھے تھے۔ حضور نے فرمایا۔ بہت اچھا۔ سو وہ سوالات جو وہ اپنے گھر سے لکھ کر لایا تھا ایک شخص سے نقل کروانے لگا وہ بھی میرا واقف تھا۔ مجدد علی خاں اس کا نام تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ حضرت صاحب خالی بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب آپ سوال لکھ کر لائے ہیں تو دے دیں تاکہ حضور جواب لکھیں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تو نوٹ ہیں۔ حالانکہ وہ حرف بحرف نقل کرارہے تھے۔ دہلی والوں نے میرے خلاف شور کیا کہ آپ کیوں اس بارے میں دخل دیتے ہیں۔ مجھے مولوی عبدالکریم صاحب نے آواز دی کہ آپ یہاں آجائیں۔میں چلا گیا لیکن تھوڑی دیر میں اٹھ کر میں مولوی محمد بشیر کے پاس چلا گیا کہ دیکھوں انہوں نے ختم کیا ہے یا نہیں۔ میں نے کہا مولوی صاحب پیسے ہوئے کو پیسنا یہ کوئی دانائی ہے۔ پھر مجھے مولوی عبدالکریم صاحب نے آوازیں دیں کہ تم یہاں آجاؤ۔ میں پھر چلا گیا۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ آپ کیوں جاتے ہیں۔ تیسری دفعہ میں پھر اٹھ کر چلا گیا۔ پھر حضرت صاحب اوپر اٹھ کر چلے گئے اور میرے متعلق کہا کہ یہ بہت جوش میں ہیں۔ جب وہ لکھ چکیں مجھے بھیج دینا۔پھر جب وہ اپنا مضمون تیار کرچکے تو ہم نے حضرت صاحب کے پاس پہنچا دیا۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ تم یہیں کھڑے رہو۔ دو ورقہ جب تیار ہوجائے تو نقل کرنے کے لئے دوستوں کو دے دینا۔

میں نے دیکھا کہ حضور نے اس مضمون پر صفحہ وار ایک اچٹتی نظر ڈالی انگلی پھیرتے ہوئے اور پھر ورق الٹ کر اس پر بھی انگلی پھیرتے ہوئے نظر ڈالی۔ اسے علیحدہ رکھ دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پڑھا نہیں محض ایک سرسری نگاہ سے دیکھا ہے اورجواب لکھنا شروع کردیا۔جب دوورقہ تیار ہوگیا تو میں نیچے نقل کرنے کے لئے دے آیا۔دوورقے کو ایک ایک ورق کرکے ایک مولوی عبدالکریم صاحب نے نقل کرنا شروع کیا۔ اور ایک عبدالقدوس نے۔ اس طرح میں اوپر سے جب دوورقہ تیار ہوتا لے آتا اور یہ نقل کرتے رہتے۔ حضرت صاحب اس قدر جلد لکھ رہے تھے کہ ایک دوورقہ نقل کرنے والوں کے ذمہ فاضل رہتا تھا عبدالقدوس جو خود بہت زود نویس تھا حیران ہوگیا۔ اور ہاتھ لگا کر سیاہی کو دیکھنے لگاکہ یہ پہلے کا تو لکھا ہوا نہیں۔ میں نے کہا اگر ایسا ہو تو یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے کہ جواب پہلے سے لکھا ہو۔

غرض اس طرح جھٹ پٹ آپ نے جواب لکھ دیا۔ اور ساتھ ہی اس کی نقل بھی ہوتی گئی۔ میں نے مولوی بشیر صاحب کو وہ جواب دے دیا کہ آپ اس کا جواب لکھیں۔

اس نے کہا میں حضرت صاحب سے ملنا چاہتا ہوں۔ ہم نے تو نہیں لیکن کسی نے حضرت صاحب کو اطلاع کردی کہ مولوی محمد بشیر ملنا چاہتے ہیں۔ حضور فوراً تشریف لے آئے اور مولوی محمد بشیر نے کہا کہ اگر آپ اجازت فرمائیں تو میں کل جواب لکھ لاؤں گا۔ آپ نے خوشی سے اجازت دے دی۔ حضرت صاحب تو اوپر تشریف لے گئے مگر ہم ان کے پیچھے پڑگئے کہ یہ کوئی بحث ہے۔ اس طرح تو آپ بھوپال میں بھی کرسکتے تھے۔ جب بہت کش مکش اس بارے میں ہوئی تو دہلی والوں نے کہا کہ جب مرزا صاحب اجازت دے گئے ہیں تو آپ کو روکنے کا کیا حق ہے۔ ہم تو خود سمجھ گئے ہیں کہ یہ بالمقابل بیٹھ کر بحث نہیں کرسکتے۔ پھر ہم نے مولوی صاحب کو چھوڑ دیا۔ آخری مباحثہ تک مولوی محمد بشیر صاحب کا یہی رویہ رہا۔ کبھی انہوں نے سامنے بیٹھ کر نہیں لکھا اجازت لے کر چلے جاتے۔

ایک مولوی نے مولوی محمد بشیر کو کہا کہ بڑی بات آپ کی بحث میں نون ثقیلہ کی تھی۔ مگر مرزا صاحب نے تو نون ثقیلہ کے پل باندھ دئیے۔ بحث کے ختم ہونے پر چلتے وقت مولوی محمد بشیر صاحب حضرت صاحب سے ملنے آئے اور حضرت صاحب سے کہا میرے دل میں آپ کی بڑی عزت ہے۔ آپ کو جواس بحث کے لئے تکلیف دی ہے میں معافی چاہتا ہوں۔ غرضیکہ وہ حضرت صاحب کا بڑا ادب کرتا تھا۔‘‘

(اصحاب احمد جلد4 صفحہ 188-193)

وفات

آپ کی وفات 20۔اگست1941ء کو 79سال کی عمر میں کپورتھلہ میں ہوئی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس وقت ڈلہوزی میں تھے۔ وہاں آپؓ کی نماز جنازہ پڑھی گئی اور قادیان میں حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ نے نماز جناز پڑھائی۔ اور بہشتی مقبرہ قطعہ خاص صحابہ میں تدفین ہوئی۔

(باسل احمد بشارت)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 9 جون 2020ء