• 14 جولائی, 2025

ڈاکٹر پیر محمد نقی الدین ایک قابلِ فخر مثالی احمدی

میرے ماموں جان ڈاکٹر پیر محمد نقی الدین ایک انتہائی نافع الناس وجود تھے۔ آپ بلاامتیاز انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے سرشار، انتہائی غریب پرور اور مریضوں کے نہایت ہر دلعزیز ڈاکٹر ہونے سے پہلے ایک بہترین انسان اور مثالی احمدی تھے۔ آپ انتہائی دعا گو ، اپنے زندہ خدا پر مضبوط توکل رکھنے والے مستجابِ دعا وجود اور ایک نڈر داعی الی اللہ تھے ۔ تبلیغ میں اپنے بزرگوں کا رنگ پایا۔

جان لیوا وبائی مرض کرونا وائرس کے دوران اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر یہ کہہ کر کہ اگر ڈاکٹر ڈر کر گھر بیٹھ جائے تو مریضوں کا علاج کون کرے گا آپ اپنی کلینک پر مریضوں کے علاج اور اس وباء کے خلاف جہاد میں مصروف رہے۔ اسی دوران اس مُوذی مرض کی انفیکشن میں مبتلا ہوئے اور چند ہی دنوں میں 18 اپریل 2020ء کو شہادت کا رتبہ پا کر اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپ کی وفات کی خبر جہاں پلک جھپکتے میں پورے اِسلام آباد کی کچی آبادیوں سے لے کر ہر طبقہ کے بسنے والوں میں پھیل گئی وہاں جماعت احمدیہ اسلام آباد اور پھر پوری دنیا میں آپ کی شفقت سے حصہ پانے والوں میں بھی پھیل گئی۔

ہم جہاں بحیثیت انسان اپنے اس شفیق بزرگ کے نہایت پیارے وجود سے جدائی کے غم سے نڈھال ہواچاہتے تھے، وہاں ہمارے دلوں پر ماموں جان سے نسبت ہونے پرایک فخر اور خوش قسمت ہونے کے احساس نے اس وقت غلبہ پالیا جب ہمارے پیارے آقا حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ کے بے پناہ پیار اور شفقت بھرے ہاتھ کو اپنے سروں پر محسوس کیا۔ اور پھر ہمارے خاندان کا ہر فرد دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوا اپنے پیارے آقا حضور اقدس ایدہ اللہ کا کہ آپ نے یکم مئی کے خطبہ جمعہ میں جس پیاراور تفصیل کے ساتھ میرے ماموں ڈاکٹر پیر محمد نقی الدین شہید کا ذکر خیر فرمایا ۔بار بار ماموں جان کی خوبیوں کی تصدیق کرنا اور نصیحت کرنا کہ ایک ڈاکٹر کو، ایک باپ کو، ایک مومن کو ایک احمدی کو ایسا ہونا چاہئے، ہمارے لئے خلافت کا یہ پیار کا سلوک دراصل خدا تعالیٰ کا شہید سے پیار کا نشان ہے۔الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ

پیارے ماموں ڈاکٹر پیر محمد نقی الدین، میری والدہ تقیہ متین کے چھوٹے بھائی تھے اور ان سے عمر میں 2 سال چھوٹے تھے۔ دونوں بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہونے کے ناطے بہت قریب تھے۔ڈاکٹری مکمل کرنے کے بعد ماموں ہمارے پاس راولپنڈی شفٹ ہو گئے اور یہیں اپنی عملی زندگی کا آغاز سنٹرل ہسپتال راولپنڈی میں نوکری سے کیا۔ چونکہ ہم ایک ہی گھر میں رہتے تھے لہٰذا میں نے بچپن میں ہوش سنبھالتے ہی ماموں جان کو اپنے ساتھ پایا۔میرا اور ماموں جان کا یہ پیار کا رشتہ شیر خوار بھانجے سے شروع ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ بیٹا، بھائی اور پھر نہایت قابلِ اعتماد دوست تک پہنچا۔

خاکسار کی تربیت میں والداور والدہ کےعلاوہ ایک بہت بڑا حصہ ماموں جان کا رہا۔ ماموں جان مجھ سے ایک حسرت سے کہتے تھے کہ خلیفۃ المسیح اپنے خطبہ میں ان مرحومین کا ذکر کرتے ہیں جو یا تو واقفینِ زندگی ہوتے ہیں یا شہید۔ وقفِ زندگی کی جب بھی خواہش کی، تو بہت سے بزرگان نے اس بات کا اظہار کیا کہ اللہ کے فضل سے جماعت میں واقفین زندگی یا وقفِ عارضی پر دنیا بھر سے ماہر ڈاکٹروں سے ضرورت پوری ہو سکتی ہے مگر آپ جس جگہ بیٹھ کر اپنا کلینک چلا رہے ہیں اگر آپ یہاں سے چلے گئے تو اس طرح خلقِ خدا کی خدمت کے جذبہ کے ساتھ ان لوگوں کی خدمت کرنے والا ڈاکٹر شاید ان لوگوں کو دیر تک نہ مل سکےگا۔ اب دوسرا رستہ تو شہادت کا ہی رہ جاتا ہے۔‘‘

ماموں جان کو اپنے بزرگوں اور اپنے خاندان سے نسبت کا ہر لمحہ احساس رہتا تھا۔ ایک مرتبہ اپنے چچا زاد بھائی کو کسی بات پر رہنمائی کرتے ہوئے کہنے لگےکہ ‘‘یہ کبھی نہیں بھولنا کہ تمہارے کندھوں پر حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانویؓ کی نسل میں سے ہونے کے لحاظ سے ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کو زندگی کا ہر کام کرتے وقت بڑے دھیان سے یاد رکھنا ہوگا۔ پھر مذاق سے کہنے لگے کہ میرے کندھوں پر تو دُگنا بوجھ ہے جو والدہ کی طرف سے مولوی معراج دین، چراغ دین اور حکیم صاحب مرہم عیسیٰؓ اور عبد العزیز مغل صاحبؓ جیسے صحابہ کے خاندان سے بھی نسبت ہے۔ کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘

ماموں جان کی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی اپنے ہربزرگ کی کوئی نہ کوئی نصیحت کا عملی نمونہ بن کر گزاری۔ پھر خدا تعالیٰ نے بھی ان کی اس فرمانبرداری کو اس طرح قبول فرمایا کہ جب انہوں نے اپنے دادا پیر مظہر الحق کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ایم بی بی ایس کے بعد مزید نہ پڑھا اور روزانہ مریضوں کےلئے دعا کی تو خدا تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں اتنی شفاء عطا فرمائی کے بڑے سے بڑے ڈاکٹروں کے زیرِ علاج مریض ماموں جان کی تشخیص کردہ ادویات کی محض چند خوراکوں سے صحت یاب ہو جاتے تھے۔ ماموں جان اکثر کہا کرتے تھے کہ جب بھی کوئی پیچیدہ مریض آتا ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے اپنی طا لبِ علمی کے زمانہ میں پڑھی ہوئی کتاب کا وہ صفحہ اور وہ سطریں یاد دلا دیتا ہے جن میں اس مرض اور اس کے علاج کی تفصیل درج تھی۔ ماموں جان کے مریضوں میں ایک خاکروب یا چپڑاسی سے لے کر منسٹر اور سفیر تک شامل تھے۔

ماموں جان جب ایران سے واپس آئے اور اپنا کلینک کھولنے کا ارادہ کیا تو ایک احمدی دوست نے سیکٹرجی9۔1، اسلام آباد میں اپنی دکان کرائے پر دی۔جس میں تمام تیاریوں اور خرچوں کے بعد کلینک کھولا۔ میں ماموں جان کے ساتھ ہی ہو تا تھا ۔ کچھ دنوں بعد کہنے لگے یار غلطی ہوگئی ہے۔یہ علاقہ تو امیر لو گوں کا ہی لگتا ہے۔ زیادہ تر لوگ گھروں کے مالک ہیں یا بڑے عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا تو کوئی ڈاکٹر بھی علاج کر سکتا ہے۔پھر ہم نے دوبارہ کلینک کی تلاش شروع کر دی اور جی7 کےعلاقہ میں کلینک کی جگہ ڈھونڈی۔ اس علاقہ میں ارد گرد 4 کچی آبادیاں تھیں۔جن میں زیادہ تر عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے ، خاکروب اور انتہائی غریب لوگ آباد تھے جبکہ گورنمنٹ کے کوارٹروں میں چپڑاسی، کلرک اور کم آمدنی والے لوگ آباد تھے۔ پھر تقریباً 40 سال اسی جگہ پریکٹس کرتے رہے۔

میں نے جب اپنا کاروبارشروع کیا تو میرے دفتر آکرمجھے کہنے لگے کہ جس کرسی پر تمہیں خدا تعالیٰ نے بٹھایا ہے یہ عبادت کی جگہ ہے۔ پھر ناناجان پیرعبد الرحیم شاہ کی بات یاد دلائی کہ رزق تو ہر کوئی کما سکتا ہے لیکن رزق کے ساتھ ثواب کوئی کوئی کماتا ہے۔

خدا تعالیٰ کے رحمان اور رحیم ہونے پر آپ کاایمان تھا۔ خاکسار کی 1995ء میں 11 ماہ کی اسیری کے دوران 8 ماہ بعدجب ملاقات ممکن ہوئی توخاکسار کا وزن 17 پاونڈ کم ہو چکا تھا۔ میرے ساتھ موجود میجر صاحب نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ نوید صاحب کو بہترین کھانا دیا جاتا ہے مگر یہ ہر وقت نماز یا قرآن پڑھتے رہتے ہیں اور کبھی سوتے ہی نہیں۔ ماموں کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ مجھے اس بات کا خوف رہتا ہے کہ میں اس آزمائش میں خدا کے معیار پر پورا اتروں اور کہیں قبولیتِ دعا کا کوئی لمحہ آرام میں نہ گزار دوں ۔ ماموں جان نے بڑے پیار سے مجھے سمجھایاکہ ہم انسان ہیں، فرشتے نہیں۔ ہمارے جسم کا بھی ہم پر حق ہے ۔ پھر اُسوہ رسول کریم سے مثال دے کر سمجھایا کہ ہمارا خدا بہت رحمان اور بے حد رحیم ہے۔ خدا کو اپنی رضا کے حصول کےلئے اتنی مشقت پسند نہیں۔ اور مجھے خدا پر پورا توکل کرتے ہوئے کم از کم 4 گھنٹے کی نیند پوری کرنے کی تاکید کی۔ 3 ماہ بعد ہی محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری عزت و وقار کے ساتھ رہائی کے سامان پیدا ہو گئے۔

قرآن سے عشق اور بے خوف تبلیغ کا جنون جو میں نے اپنے نانا جان میں دیکھا تھا ماموں جان اس کا ایک مکمل عکس تھے۔ جماعت کے انتہائی مخالف مشہور علماء کو اپنے گھر بلا کراحمدیت اور حضرت مسیح موعود ؑ کی سچائی پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

خدا تعالیٰ ماموں جان کو اکثر وقت سے پہلے کچھ باتوں کی خبر یا اشارے عطافرما دیتا تھا۔ حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلافت سے قبل ایک مرتبہ اپنے برادرِ نسبتی سید مولود شاہ سے ملنے ان کے گھر واقعہ اسلام آبادایف10 تشریف لے گئے جو ماموں جان کے گھر کی بالائی منزل پر رہائش پزیر تھے۔ گھنٹی کی آوازسن کر ماموں جان اس بات سے لا علم کہ کون آیا ہے جب گیٹ کھولنے جا رہے تھے تو انہیں آواز آئی ‘خلیفۃ المسیح الخامس’۔ ماموں جان کہتے تھے کہ اس کے بعد حضور کے منصبِ خلافت پر فائز ہونے سے پہلے بھی ہمیشہ اس لحاظ سے ادب کو ملحوظ رکھا۔

مجھے یاد ہے کہ نانی جان کی وفات پر جب ہم ربوہ پہنچے تو ماموں جان نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضورِ انور جو اس وقت ناظر اعلیٰ تھے سے جنازہ پڑھانے کی درخواست کی جائے۔ اکثر لوگوں نے یہی کہا کہ آپ اپنی بے حد مصروفیت کی وجہ سے آج کل جنازہ خود نہیں پڑھاتے۔ جب ماموں جان نے اپنے دادا پیر مظہر الحقؓ کے چھوٹے بھائی پیرعبدالرحمٰن کے ساتھ آپ کے دفتر جاکراپنی والدہ کا جنازہ پڑھانے کی درخواست کی تو اپنے میز پر پڑی فائلوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا اور ابھی کچھ کہنے والے تھے کہ پیرعبدالرحمٰن نے کہا میاں صاحب آپ کے دادا اور میں دودھ شریک بھائی ہیں۔ حضور فوراً مسکرائے اور فرمانے لگے پھر تو میں ضرور جنازہ پڑھاؤنگا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات پر ماموں جان کو ایک بار پھر بلند آواز میں ’مرزا مسرور احمد‘ سُنائی دیا اور پھر 2 دن بعد ہی اللہ تعالیٰ نے حضورِ انور کو منصبِ خلافت پر فائز فرمادیا۔

خلافت سے عشق اس حد تک تھا کہ ہر دم اس کوشش میں مصروف رہتے تھے کہ اپنوں اور غیروں پر یہ ثابت کر سکیں کہ خلیفہ وقت کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ کب اور کس طرح پورا ہوا۔ گھر میں 3 جگہ مرد، خواتین مہمانوں اور گھر والوں کے لئے ایم۔ٹی۔اے کی نشریات کا اہتمام کر رکھا تھا کہ سب بے تکلفی اور توجہ سے خلیفہ وقت کو سن سکیں۔ خطبات کے حوالے دے کرہمیں اپنی زندگیوں میں ہمیشہ وہ پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے جس کی خلیفہ وقت کبھی خواہش بھی کرتے تھے۔ کئی سال لگاتار جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کےلئے جاتے رہے۔

حضور ِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کی بہت خواہش تھی جس کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے۔

ماموں جان اپنے بزرگوں کی خوبیوں کا مجموعہ تھے۔ خدا تعالیٰ سے اس یقین سے دعا مانگنا کہ ہمارا خدا اس وقت ہمارے پاس مو جود ہے اور ہمیں سن رہا ہے ہم نے اپنے انہی بزرگوں سے ہی سیکھا۔ انہی کی تربیت کے نتیجہ میں زندگی کے ہر نقصان اور آزمائش میں بھی خدا کے فضلوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کی شکر گزاری کا حق ادا کرنے کی کوشش میں مصروف ہو کر رب کو راضی کرنے کی کوشش کرنا ہمیشہ خوف سے اَمن تک پہنچنے کا ذریعہ بنا۔

جماعتی عہدیداران اور واقفینِ زندگی کو ہمیشہ رشک کی نگاہ سے د یکھتے تھے ۔ میں نے ہمیشہ ماموں جان کوواقفین کا مختلف رنگ میں خاص احترام اور خدمت کرتے دیکھا۔خدا تعالیٰ نے آپ کو بھی 14 سال بحیثیت قاضی ضلع اسلام آباد خدمتِ دین کی توفیق عطاء فرمائی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ماموں جان کی ہراُس کاوش کو قبول فرمائے جو انہوں نے اپنی زندگی ایک ایسے حقیقی مومن احمدی کا نمونہ بن کر گزانے کی کوشش میں گزاری جس کی خواہش حضرت مسیح موعودؑ اور پھر خلفاء ؓنے کی اور انہیں مومنین کی اس صف میں شامل کرلے جن کو بغیر حساب کے جنت الفردوس کے اعلیٰ وارفع مقام عطاکرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ آمین ثم آمین


(نویدالظفر۔یوکے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 9 جون 2020ء