حضرت حکیم فضل الدین صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بھتیجے اور داماد تھے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبولیت دعا کا ایک عجیب اور نادر واقعہ بیان کرتے ہیں :
’’1907ء میں میرا دوسرا لڑکا عبدالحفیظ تولّد ہوا۔ سردی کے ایام تھے اور ان دنوں میں بہت زچہ عورتیں تشنج کی مرض سے مر رہی تھیں۔ زچہ کے لئے یہ مرض بہت خطرناک ہوتی ہے۔ سینکڑوں میں سے کوئی ایک بچتی ہوگی۔
میری بیوی حفصہ (بنت حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ) کو بچہ تولّد ہونے کے ساتویں دن مغرب کے قریب اس کے آثار معلوم ہوئے۔ چونکہ ان دنوں میں یہ وبا تھی اس لئے اس کی طرف بہت توجہ ہوگئی۔ میں مغرب کے بعد حضرت صاحب کی خدمت میں دوڑا گیا اور اُن سے عرض کی۔ آپ نے فرمایا یہ تو بڑی خطرناک مرض کا پیش خیمہ ہے۔ تم فوراً اس کو دس رتی ہینگ دے دو اور گھنٹہ ڈیڑھ کے بعد مجھے اطلاع دو۔ میں عشاء کے بعد پھرحاضرہوا اور عرض کیاکہ مرض میں ترقی ہوگئی ہے۔ فرمایا دس رتی کونین دے دو اور ایک گھنٹہ کے بعد پھر مجھے اطلاع دو اوریہ نہ سمجھنا کہ میں سوگیا ہوں۔ بے تکلف مردانہ سیڑھیوں سے آواز دو۔ میں نے عرض کیا اِس وقت مشک کہاں سے لاؤں۔حضور ایک مٹھی بھر کر مشک کی لے آئے۔ فرمایا یہ دس رتی ہوگی۔ میں نے عرض کیا حضوریہ زیادہ ہے۔ فرمایا لے جاؤ پھر کام آوے گا۔ میں نے وہ لے لی اور دس رتی مریضہ کودے دی۔ ایک گھنٹہ بعد پھر گیا اور عرض کیاکہ مرض میں بہت اضافہ ہوگیا۔ فرمایا دس تولہ کسٹر آئل دے دو۔ میں نے آکر دس تولہ کسٹر آئل دے دیا۔ اس کے بعد اُس کوسخت قے ہوئی اور قے اِس مرض میں آخری مرحلہ ہوتا ہے۔ قے کے بعد اُس کا سانس اکھڑ گیا، گردن پیچھے کو کھچ گئی۔ آنکھوں میں اندھیر آگیا اور زبان بند ہوگئی۔ میں پھر بھاگ کر سیڑھیوں پرچڑھا۔ حضورنے میری آواز سن کر دروازہ کھول دیا اور فرمایا کیوں خیر ہے۔ میں نے عرض کیاکہ اب توحالت بہت نازک ہوگئی ہے۔ سانس اکھڑ گیا ہے، گردن کھچ گئی، آنکھوں میں روشنی نہیں، زبان بند ہوگئی ہے۔ فرمایا دنیا کے جتنے ہتھیار تھے وہ تو ہم نے چلا لئے۔ اب ایک ہتھیار باقی ہے اور وہ دعا ہے۔ تم جاؤ، میں دعا سے اُس وقت سراٹھاؤں گا جب اسے صحت ہوگی۔ میں یہ سن کر واپس لوٹ آیا۔ اور اسے کہا اب تجھے کیا فکر ہے۔ اب تو ٹھیکیدار نے خودٹھیکہ لے لیاہے۔ اُس وقت رات کے دوبج چکے تھے۔ میں گھر آیا اور مریضہ کو اسی حالت میں چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چارپائی لے کرسورہا۔ صبح کو کسی برتن کی آہٹ سے میری آنکھ کھلی۔ جب میں نے دیکھا تو میری پائینتی کی طرف میری بیوی کچھ برتن درست کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا کیا حال ہے۔ کہا آپ توسو رہے اور مجھے دوگھنٹے کے بعداللہ تعالیٰ نے فضل کردیا۔ الحمدللّٰہ رب العٰلمین
(سیرتِ احمدؑ مرتبہ قدرت اللہ سنوری صاحب صفحہ170تا172)
پیشہ ہے رونا ہمارا پیش رب ذو المنن
یہ شجر آخر کبھی اس نہر سے لائیں گے بار
٭…٭…٭