ہم پیار کے سوداگر نفرت سے ہے کیا لینا
ہم دیپ جلاتے ہیں ظلمت سے ہے کیا لینا
ہم خاک نشینوں کو حشمت کی طلب نا ہے
جب خاک بسیرا ہے رفعت سے ہے کیا لینا
محفل کو ہے کیا نسبت تنہائی کی لذت سے
ہم تنہا تھے تنہا ہیں شہرت سے ہے کیا لینا
آسودگی گر سمجھو وہ دل کی ہی فرحت ہے
بے کل جو کرے دل کو دولت سے ہے کیا لینا
جو درد کی لذت کو محسوس کریں ان کو
اس عشق کی راہوں میں راحت سے ہے کیا لینا
(حافظ محمد مبرور)