• 25 جون, 2025

احمدیت نے میرے خاندان کو کیا دیا

احمدیت نے میرے خاندان کو کیا دیا
’’اِک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنادیا‘‘

سات حرفوں پر مشتمل اس خوبصورت جملہ ’احمدیت نے میرے خاندان کو کیا دیا‘ کا مضمون بہت وسیع ہے۔ میرے والد صاحب نے شدید مخالفتوں اور مشکلات سے گزر کر اکیلے احمدیت قبول کی اور اپنی زندگی وقف کرنے کی سعادت پائی پھر خدا تعالیٰ نے فضلوں اور رحمتوں کے اتنے سامان پیدا کیے جن پر خدا تعالیٰ کا ساری عمر بھی شکر ادا کرتے رہیں تو ادا نہ کر پائیں!!!!

کیونکر ہو شکر تیرا، تیرا ہے جو ہے میرا
تو نے ہر اِک کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا

میرے والد محترم محمد یوسف سلیم صاحب، سابق انچارج شعبہ ذور نویسی صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی زندگی میں زندگی بدل دینے والا موڑ اس وقت آیا جب انہوں نے 20سال کی عمر میں احمدیت قبول کی۔ میں آپ کو اُن پچھلے 66 سالوں میں لے جاتی ہوں جب 1954ء میں وہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہوئے۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے والد صاحب ان دِنوں ’’الفضل اخبار‘‘ جو ان کے احمدی کولیگ کے نام پر ان کے دفتر آتا تھا اس کو پڑھا کرتے تھے۔ اس سے آپ پر احمدیت کا بہت اچھا اثر پڑا۔ آپ کا تعلق کشمیر کے ایک گاؤں سے ہے۔ آپ نے احمدیت کی خاطر اپنے گھر والوں، خاندان، گاؤں سب کو چھوڑ دیا۔ اس پر گھر والوں نے اور خاندان والوں نے آپ کو چھوڑ دیا۔ 1958ء میں آپ نے اپنی زندگی وقف کر دی۔ جامعہ کی تعلیم کے دوران ہمیشہ پہلی پوزیشن لیتے رہے۔ 1968ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے والد صاحب کو شعبہ زودنویسی میں متعین فرمایا۔ والد صاحب کو دو خلفائے کرام حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے پُر شفقت سائے تلے خدمات سر انجام دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ حضورؒ کے خطبات، تقاریر، مجالس علم و عرفان کی ریکارڈنگ کرتے تھے۔ ان کے مسودے تیار کر کے حضورؒ کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ جو پھر روز نامہ الفضل اخبار میں شائع ہوتے تھے۔ پھر مختلف شعبہ جات میں خدمت ِدین کا سلسلہ 2013ء تک جاری رہا۔ جب تک صحت نے اجازت دی والد صاحب نے بڑی، محنت، خاموشی، قربانی اور بے نفسی سے دین کی خدمت کی۔ خداتعالیٰ کا ہم پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ احمدیت کے روشن چراغ سے والد صاحب پھر آگے سے نسلوں نے فیض پایا اور پا رہی ہیں۔ الحمداﷲ

اﷲ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہم اور ہماری نسلیں پیارے رسول کریمﷺ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی احسان مند ہیں جنہوں نے ہمیں اسلام کی سچی تعلیمات یعنی تقویٰ، توحید، محبت الہی، محبت رسولﷺ، حقیقی نیکی، پاکیزگی، امن و سلامتی، بنی نوع انسان کی ہمدردی، دعاؤں، اخلاقیات، عبادت اور حقوق العباد سے آگاہی دی۔

پس ہم پر احمدیت کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہمیں مالکِ حقیقی کی پہچان دی اور ہمارا خداتعالیٰ سے تعلق جوڑا۔

پیارے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی محبت سے ہمارے دل منور کئے۔

قرآن مجید کی عظیم عالیشان تعلیمات کو سمجھنے کا قرینہ دیا۔

احمدیت نے ہمیں توحید کی روح سے روشناس کراتے ہوئے اسلامی شریعت اور عبادات کے فلسفہ کی مکمل آگاہی دی۔ اور بالخصوص یہ بتایا کہ ’’نماز زندگی ہے۔ زندگی نماز ہے۔‘‘

اسی سلسلہ میں والد صاحب کی نماز سے محبت کا ایک واقعہ بتاتی چلوں۔ کچھ ماہ پہلے ان کو طبعیت خراب ہونے کی وجہ سے چند دن کے لیے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ وہاں وہ روز مجھ سے شدید تکلیف اور نیم غنودگی کی حالت میں نماز کے اوقات پوچھتے تھے۔پھر اشاروں سے ہی بستر پر نماز پڑھتے تھے۔ میں اِن کی اس حالت پراُن کو دیکھتی رہ جاتی۔

احمدیت کی برکت سے خدا تعالیٰ نے نظام خلافت کی صورت میں ہم پر بہت بڑا انعام کیا ہے۔ یہ محض خدا تعالیٰ کا خاص فضل اور رحم ہے کہ ہم پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ کی شفقت، دعاؤں اور رہنمائی سے زندگی کے ہر موڑ پر فیض یاب ہوتے ہیں۔ آپ کا وجودِ مبارک زندگی کی مشکل راہوں میں ایسے چمکتے ہوئے ستارے کی مانند ہے جو ہماری سیدھے رستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ آپ کے خطبات اور ارشادات ہمارے لیے آبِ حیات ہیں۔ الحمداﷲ

احمدیت کی بدولت ہمیں پیاری خدائی جماعت ملی،جو اطاعت، اخلاص و وفا، اخوت، اپنائیت، خدمت انسانیت، ہمدردی، ایثارو قربانی اور نظم و ضبط کے رنگوں سے رنگی ہوئی ہے۔ ذیلی تنظیمیں جماعت کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔ گو یا جماعت کے ایک فردِ واحد کی تعلیم و تربیت پر جماعت کی مختلف تنظیمیں پیارے آقا کی رہنمائی میں خلوص اور محنت سے کام کرتی ہیں۔ خواہ وہ انصار اﷲ کی تنظیم ہو یا خدام یا لجنہ، یا ناصرات و اطفال کی تنظیم ہو یہ سلسلہ ۷ سال کی عمر سے شروع ہو کر پھرساری عمر چلتا رہتا ہے۔ ایسی الہی جماعت کی مثال تمام اقوام عالم میں کہیں نہیں مل سکتی۔

احمدیت نے ہمیں ایسا اعتماد بخشا کہ ہمارے دل غیر اﷲ کے رعب و خوف سے پاک کر دیئے۔ ہم خواتین کو ’’پردہ‘‘ جو کہ اسلام کی اہم تعلیم ہے کہ متعلق مکمل رہنمائی دی کہ آج ہم دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں یہ برقع ہماری پہچان ٹھہرتا ہے۔

احمدیت نے ہمیں معاشرے کے رسم و رواج، بدعات، فضولیات،تصنع و نمائش کے بوجھوں سے نجات دی اور ہماری زندگیوں میں آسانیاں بانٹیں۔ اس بات کا اعتراف غیر از جماعت حلقہ احباب بھی کرتے ہیں اور وہ ہمیں کہتے ہیں کہ اس سادہ طرز زندگی کی وجہ سے آپ کی زندگیوں میں بہت سکون ہے۔ ہم تو رسموں تلے اتنا دب چکے ہیں جینا تو جینا ہمارے لیے مرنا بھی مشکل ہے۔

پس احمدیت کے نور سے خدا تعالیٰ نے ہمارے خاندان پر فضلوں، برکتوں، رحمتوں کے انگنت سامان فرمائے ہیں۔ جن پر خدا تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ ایک اکیلے میرے والد صاحب سے شروع ہونے والا احمدیت کا یہ سفر اب ہمارے پورے خاندان کے ساتھ رواں دواں ہے۔ الحمداﷲ

جو کچھ میری مراد تھی سب کچھ دِکھا دیا
میں اک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا

اب ہماری ذمہ داری کیا ہے؟

جس طرح ہمارے والدین نے اخلاص و وفاسے ہمیں احمدیت سے جوڑے رکھا اور احمدیت کی محبت ہمارے دلوں میں بھر دی، اُسی طرح ہمارا یہ فرض ہے کہ آگے سے ہم بھی اپنے بچوں کا تعلق احمدیت سے اُسی طرح جوڑ دیں کہ ’’خدا تعالیٰ کی رضا ان کی زندگی کا حاصل ہو اور اطاعت خلافت ان کی زندگی کا نصب العین ہو‘‘ تاکہ ان کی زندگیاں برکاتِ خلافت سے ہمیشہ بھری رہیں۔

اس لیے بے حد ضروری امر یہ ہے کہ ہمارا اپنا نمونہ نیک ہو۔ ہم اپنے بچوں کو لاکھ نیکی و تقویٰ کے درس دے دیں، اگر ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے تو بچہ ایک تو کبھی سنے گا نہیں اور اگر بالفر ض سن بھی لے تو کبھی اس پر عمل نہیں کرے گا۔

حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں:
’’پس خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لیے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤ اور اس کو متقی اور دین دار بنانے کے لیے سعی اور دعا کرو۔ جس قدر کوشش تم ان کے لیے مال جمع کرنے کی کرتے ہو، اس قدر کو شش اس امر میں کرو۔ خوب یاد رکھو کہ جب تک خدا تعالیٰ سے رشتہ نہ ہو اور سچا تعلق اس کے ساتھ نہ ہو جاوے، کوئی چیز نفع نہیں دے سکتی۔‘‘

(ملفوظات جلد ۸ : صفحہ۱۱۰)

(قدسیہ محمود سردار)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جولائی 2020