• 31 اکتوبر, 2024

بچوں میں سلام کرنے کی عادت ڈالیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں:۔
’’عام طور پرٹِین ایجرز (teenagers) میں اس جوانی میں یہ بڑی بیماری ہوتی ہے، عام طور پر عادتیں کچھ بگڑ جاتی ہیں لیکن اگر شروع میں عادتیں اچھی ڈال دی جائیں تو یہ سلامتی کا پیغام بن کر گھروں میں جا رہے ہوں گے۔ پس یہ ماں باپ کی ذمہ د اری ہے کہ اپنے اندراس سلامتی کے پیغام کو رائج کریں تاکہ ان کی اولادیں بھی نیکی اور تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے سلامتی کا پیغام پہنچانے والی ہوں۔ اور چھوٹی عمر میں یہ عادت ڈالنی چاہئے۔ دیکھا ہے کہ بعض دفعہ بچے سلام نہیں کر رہے ہوتے، ماں باپ کہہ دیتے ہیں کہ حیا کی وجہ سے، شرم کی وجہ سے یہ سلام نہیں کر رہا۔ اگر بچے کے ذہن میں چھوٹی عمر میں ڈالیں گے کہ سلام میں حیا نہیں ہے بلکہ بری باتوں میں حیا ہے اور اس میں حیا کرنی چاہئے تو باتوں باتوں میں ہی پھر بچے کی تربیت بھی ہو جاتی ہے۔ بعض بچے آپس میں لڑائی جھگڑے کر رہے ہوتے ہیں،مَیں نے دیکھا ہے کہ مسجد فضل کے احاطہ میں بھی کھیل کھیل میں لڑائیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور ظالمانہ طور پر ایک دوسرے کو مار بھی رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت کوئی حیا اور شرم نہیں ہوتی۔ حالانکہ وہ چیزیں ہیں جن میں حیا مانع ہونی چاہئے، جن میں شرم آنی چاہئے اور روک بننی چاہئے۔

پس اللہ کی سلامتی کا وارث بننے کے لئے بچوں میں بھی سلام کی عادت ڈالیں اور یہ عادت اسی صورت میں پڑے گی جب بڑے چھوٹوں کو سلام کرنے میں پہل کریں گے۔‘‘

سلام کو پھیلانے سے جماعتی قوت بیدار ہوگی

’’…… سلام کو پھیلانے سے آپس کے محبت کے تعلقات ہوں گے اور یہ محبت کے تعلقات ایک جماعتی قوت پیدا کریں گے اور یہ جماعتی قوت اور مضبوطی ہی ہے جس سے پھر غلبہ کے سامان پیدا ہوں گے۔ ورنہ اگر آپس کی پھوٹ رہی، سلامتی نہ رہی، اس کے پھیلانے کی کوشش نہ کی تو ایک طرف تو آپس کی، ایک جماعت کی طاقت جاتی رہے گی۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ اَطِیعُوا اللّٰہَ وَرَسُولَہٗ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفشَلُوا وَتَذھَبَ رِیحُکُم وَاصبِرُواط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِینَ (الانفال:47) یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہا کرو، آپس میں اختلاف نہ کیا کرو۔ ایسا کرو گے تو دل چھوڑ بیٹھو گے اور تمہاری طاقت جاتی رہے گی۔ اور صبر کرتے رہو، اللہ یقینا صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’اسلام کے فرقوں میں دن بدن پھوٹ پڑتی جاتی ہے۔ پھوٹ اسلام کے لئے سخت مضر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لَا تَنَازَعُوا فَتَفشَلُوا وَتَذھَبَ رِیحُکُم۔ جب سے اسلام کے اندر پھوٹ پڑی ہے دم بدم تنزل کرتا جاتا ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے اس سلسلے کو قائم کیا تا لوگ فرقہ بندیوں سے نکل کر اس جماعت میں شامل ہوں جو بیہودہ مخالفتوں سے بالکل محفوظ ہے اور سیدھے راہ پر چل رہی ہے جو نبی کریم ﷺ نے بتایا۔‘‘

(بدرجلد 7نمبر20-19 مورخہ 24/مئی 1908ء صفحہ 4)

’’……ہر احمدی کو غور کرنا چاہئے، یہ الفاظ ہمیں اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے والے ہونے چاہئیں۔ اپنے گھروں میں بھی، اپنے آپس کے تعلقات میں بھی ہمیں زیادہ سے زیادہ محبت و پیار اور سلامتی کے پیغام کو پہنچانے والا بننا چاہئے۔ اس طرح معاشرے میں، ماحول میں، اس سلامتی کے رواج سے پھر احمدیت اور حقیقی (دین حق) کا پیغام پہنچانے کی بھی توفیق ملے گی۔جب آج کل کے معاشرے کی فضولیات میں ایک طبقہ کی منفرد حیثیت نظر آ رہی ہو گی جو سلامتی اور محبت کی پیامبر ہے تو (دعوت الی اللہ کے) میدان میں بھی وسعت پیدا ہو گی اور اس زمانہ میں یہ دعا اور محبت اور سلامتی ہی ہے جس نے (دین حق) اور احمدیت کو انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ عطا کرنا ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 15/جون تا21/جون2007ء) خطبہ جمعہ فرمودہ25/مئی2007ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جولائی 2020