مبلغین برطانیہ کا تعارف
حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بھٹیؓ
آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابی حضرت قاضی ضیا ءالدین صاحبؓ متوطن کوٹ قاضی (ضلع گوجرانوالہ) کے صاحبزادے تھے جنہیں بیعت اولیٰ کے پہلے ہی روز سلسلہ احمدیہ سے منسلک ہونے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
مختصر سوانح
حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب ؓ بھٹی ، 9نومبر 1886ءکو پیدا ہوئے۔
(تاریخ احمدیت جلد 28صفحہ 210)
حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب ؓ کے والد حضرت قاضی ضیا ء الدین صاحب ؓ 1885ء میں جب پہلی بار قادیان آئے تو جاتے ہوئے مسجد اقصیٰ کی دیوار پر یہ تحریر لکھ دی کہ اگر وطن میں بوڑھی اور ضعیف والدہ نہ ہوتیں تو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معیت سے جدا نہ ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بار حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب ؓ کے متعلق فرمایا ’’اس شخص کو ہمارے ساتھ عشق ہے۔‘‘ حضرت اقدس علیہ السلام نے 1897ءمیں۔’’ضمیمہ انجام آتھم‘‘ میں جن 313 صحابہ کا ذکر فرمایا ہے ان میں آپؓ اور آپکی وجہ سے حضرت قاضی ضیا ء الدین صاحب ؓکے دونوں بیٹے حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحبؓ اور حضرت قاضی عبد الرحیمؓ شامل ہیں۔
(الفضل انٹرنیشنل 12مارچ1999ء)
ابتدائی تعلیم
حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب ؓاپنے والد ماجد کے ساتھ پہلی بار مارچ 1900ء میں قادیان آئے اور مدرسہ تعلیم الاسلام میں داخلہ لے لیا۔ بعد ازاں بی اے کا امتحان علی گڑھ سے اور بی ٹی کا ٹریننگ کالج لاہور سے پاس کیا۔
(تاریخ احمدیت جلد 28صفحات210تا211)
وقف زندگی کی تحریک
ستمبر 1907ء میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے وقف زندگی کی پہلی منظم تحریک فرمائی جس پر آپ نے لبیک کہا۔ حضرت اقدسؑ نے اپنے قلم مبارک سے آپ کی درخواست پر لکھا: ’’خط کے مضمون سے آگا ہی ہوئی۔ امید ہے آپ کو انتظام کے وقت میں یاد کروں گا اور مناسب جگہ میں خدمت دین کے لئے بھیجوں گا۔ مناسب ہے اپنا نام مفتی صاحب کے رجسٹر میں درج کرادیں۔
والسلام مرزا غلام احمد (علیہ السلام)۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد28 صفحات 212 تا 213)
اہلیہ و اولاد
حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب ؓ کا نکاح ایک صحابیہ حضرت سیدہ کلثوم بانو صاحبہؓ سے ہوا جن کے بطن سے ایک بیٹی ہوئی۔ ان کانام امتہ الوہاب صاحبہ ہے۔ آپ کی دوسری شادی 1927ء میں ڈاکٹرعطا٫ محمد خاں صاحب آف دسوھہ کی صاحبزادی امتہ الرشیدبیگم صاحبہ سے ہو ئی۔ جس سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
(تاریخ احمدیت جلد 28صفحہ 230)
انگلستان
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ؓنے حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحبؓ کو 1913ء میں بغرض تبلیغ انگلستان روانہ ہونے سے پہلے آپ کو حضور نے ہدایات و نصائح اپنے دست مبارک سے تحریر فرما کر دیں۔ ان کا ملخص یہ ہے: ’’اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ یورپ کو فتح کرنے جاتے ہیں نہ کہ مفتوح ہونے۔ یورپ کی ہوا کے آگے نہ گریں۔ بلکہ اہل یورپ کو اسلامی تہذیب کی طرف لانے کی کوشش کریں۔ خدا کی بادشاہت کے دروازوں کو تنگ نہ کریں لیکن عقائد صحیحہ کے اظہار سے کبھی نہ جھجکیں۔ کھانے ،پینے اور پہننے میں اسراف اور تکلیف سے کام نہ لیں۔ اخلاص سے سمجھائیں اور محبت سے کلام کریں۔ ہر ہفتہ مفصل خط لکھتے رہیں۔ اگر کوئی تکلیف ہو تو خدا تعالیٰ سے دعا کریں۔ اگر کسی فوری جواب کی ضرورت ہو۔ خط لکھ کر ڈال دیں۔ اور خاص طور پر دعا کریں تعجب نہ کریں اگر خط کے پہنچتے ہی یا پہنچنے سے پہلے ہی جواب مل جائے خدا کی قدر تیں و سیع اور اس کی طاقت بے انتہا ہے۔ اپنے اندر تصوف کا رنگ پیدا کریں کم خوردن ، کم گفتن ، کم خفتن عمدہ نسخہ ہے۔ اور تہجد ایک بڑا ہتھیار ہے۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد 4ص177)
حضرت قاضی محمد عبد اللہؓ صاحب اکتوبر 1915ء میں انگلستان پہنچے۔ مارچ 1916ء میں آپؓ نے حضرت چوہدری فتح محمد سیالؓ صاحب سے چارج لیا۔ آپ ؓ نے اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی کہ احمدیہ مسلم مشن بجائے کرایہ کے مکان میں ہونے کے اپنا مکان کیوں نہ خرید لیا جائے۔ چنا نچہ 2۔ اسٹا ر سٹریٹ عقب آکسفورڈ سٹریٹ مارگیج پر حاصل کیا گیا اور آپ ؓ وہاں منتقل ہوگئے۔ آپ ؓ نے لیکچر ز، تقسیم لڑیچر اور خط و کتابت کے ذریعہ تبلیغ اسلام کاکام جاری رکھا۔ قریب ہی ہائیڈ پارک سپیکرکا رنر تھا۔ اس لئے ہفتہ اور اتوار کو وہاں بھی لیکچر دینے شروع کئے۔ حضرت قاضی صاحب ؓ کے ساتھ اپریل 1917ء سے جنوری 1920ء تک حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کام کرتے رہے۔
(الفضل 20ستمبر 2013ء صفحہ 3)
حضرت قاضی صاحبؓ 28نومبر 1919ء کوانگلستان سےمرکز احمدیت قادیان میں تشریف لائے۔ 1922ء میں مجلس مشاورت کا آغاز ہوا۔ آپ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جو اس پہلی تاریخی مشاورت میں مرکزی نمائندہ کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ مارچ 1923ء میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے شُدھی کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اس سلسلہ میں حضرت قا ضی صاحب کو نائب امیر و فد مجاہد ین کی حیثیت سے اچھنیرہ(ضلع آگرہ) اور وتیرہ (ضلع متھرا) میں تبلیغ خدمات بجالانے کی توفیق ملی ۔ آپ کو 1924ء میں ملکانہ سے واپس آنے پر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کا ہیڈ ماسٹر بنا دیا گیا۔ آپؓ نے کئی سال تک بطور قاضی سلسلہ بھی خدمات سر انجام دینے کی توفیق پائی اور سالہا سال تک کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری بھی رہے۔ 13 تا 16ستمبر 1962ء کے دوران آپ نے قائمقام ناظر امور عامہ و خارجہ کے فرائض سر انجام دئیے۔ نومبر 1934ء میں تحریک جدید کا آغازہوا اور آپ نے اس کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔ فروری 1932ء میں آپ دفتر کشمیر ریلیف فنڈ کے انچارج مقرر ہوئے۔ 1944ء تا 1945ء اور 1946ء کے جلسہ ہائےسا لانہ قادیان کے انتظامات آپ ہی کی نگرانی میں ہوئے کیونکہ آپ ہی ناظر ضیافت تھے۔ ہجرت قادیان 1947ء کے بعد آپ کچھ عرصہ لاہور میں قیام فرمارہے اور پھر مستقل طور پر ربوہ میں رہائش اختیا ر کر لی اور اپریل 1951ء تک ناظر ضیافت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 29اگست 1955ء سے لے کر 30اپریل 1956ء تک آپ نے قائمقام افسر لنگر خانہ کے فرائض سر انجام دئیے۔ دفتر انصار اللہ مرکزیہ کی تعمیر کے لئے بھی1957ء میں آپ ؓ نے ایک سو روپیہ چندہ دیا اور وقف جدید کی تحریک پر لبیک کہنے والوں میں بھی آپ السابقون الاولون میں شامل تھے۔
آپ کے عرصہ قیام میں آپ نے انگلستان کے تثلیث کدوں میں والہانہ شان سے حق کی آواز بلند کی ، ملکی سوسائٹیوں ،ممتاز شخصیات اور اونچے طبقوں تک اثر و نفوذ پیدا کیا اور سعیدروحوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق صداقت کا آشکار کیا
(تاریخ احمدیت جلد28صفحات228تا230)
وفات اور نماز جنازہ
حضرت قاضی محمدعبد اللہ صاحب نے27ستمبر 1972ء کو انتقال فرمایا۔ اگلے روز سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثالثؓ نے سوا پانچ بجے شام مقبرہ بہشتی ربوہ کے وسیع میدان میں آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثالثؒ نے تدفین مکمل ہونے پر دعا کرائی۔ اس طرح وہ آخری تاریخی وجود بھی ہمیشہ کے لئے نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ جسے 313 کے ممتاز اصحاب میں شامل ہونے کا خصوصی فخر و امتیاز حاصل تھا۔
(تاریخ احمدیت جلد 28 صفحات 229 تا 230)
(ندیم احمد بٹ۔ مربی سلسلہ)