قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ لَهُ ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ فَإِذَا أُهِلَّ هِلَالُ ذِي الْحِجَّةِ فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا حَتَّى يُضَحِّيَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے پاس ذ بح کرنے کے لئے کوئی ذبیحہ ہو تو جب ذوالحجہ کا چاند نظر آجائے، وہ ہرگز اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے، یہاں تک کہ قربانی کرلے (پھر بال اور ناخن کاٹے۔)
(صحیح مسلم، حدیث نمبر:5121)
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ قَالَ:مَا الْعَمَلُ فِي أَيَّامٍ الْعَشْرِ أَفْضَلَ مِنْهَا فِي هَذِهِ ، قَالُوا : وَلَا الْجِهَادُ ، قَالَ : وَلَا الْجِهَادُ ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ان دنوں کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں۔ لوگوں نے پوچھا اور جہاد میں بھی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں جہاد میں بھی نہیں سوا اس شخص کے جو اپنی جان و مال خطرہ میں ڈال کر نکلا اور واپس آیا تو ساتھ کچھ بھی نہ لایا (سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا )۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر:969)
یوم عرفہ کا روزہ:۔
ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ، وَصِيَامُ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللّٰهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ، وَصَوْمُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللّٰهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر ماہ کے تین روزے اور رمضان کے روزے ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہیں، یوم عرفہ کے روزہ کے بارے میں میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ وہ گزشتہ ایک سال اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا، اور اللہ سے یہ بھی امید کرتا ہوں کہ یوم عاشورہ (دس محرم الحرام) کا روزہ گزشتہ ایک سال کےگناہوں کا کفارہ ہو گا۔
(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:2425)
عید کی رات قیام اللیل:۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلّٰهِ، لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص عیدین کی راتوں میں ثواب کی نیت سے اللہ کی عبادت کرے گا، تو اس کا دل نہیں مرے گا جس دن دل مردہ ہو جائیں گے۔
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر:1782)
عید کے دن روزہ:۔
• سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ وَلَا صَوْمَ فِي يَوْمَيْنِ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ، وَلَا بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ
میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا اور عیدالفطر اور عید الاضحی کے دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اور صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک کوئی نماز جائز نہیں۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر1995)
اَبُو عُبَيْدٍ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ ، أَنَّهُ شَهِدَ الْعِيدَ يَوْمَ الْأَضْحَى مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَصَلَّى قَبْلَ الْخُطْبَةِ ، ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَاكُمْ عَنْ صِيَامِ هَذَيْنِ الْعِيدَيْنِ ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَيَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَيَوْمٌ تَأْكُلُونَ مِنْ نُسُكِكُمْ۔
ابن ازہر کے غلام ابو عبید نے بیان کیا کہ وہ بقر عید کے دن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عیدگاہ میں موجود تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ سے پہلے عید کی نماز پڑھائی پھر لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور خطبہ میں فرمایا اے لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ان دو عیدوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ایک وہ دن ہے جس دن تم (رمضان کے) روزے پورے کر کے افطار کرتے ہو (عیدالفطر) اور دوسرا تمہاری قربانی کا دن ہے۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر5571)
وقال ابن عباس واذكروا اللّٰه في أيام معلومات أيام العشر، والأيام المعدودات أيام التشريق. وكان ابن عمر وأبو هريرة يخرجان إلى السوق في أيام العشر يكبران، ويكبر الناس بتكبيرهما. وكبر محمد بن علي خلف النافلة۔
اور اللہ تعالیٰ کا ذکر معلوم دنوں میں کرو ’’میں ایام معلومات سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں اور «اأيام المعدودات» سے مراد ایام تشریق ہیں۔ ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما ان دس دنوں میں بازار کی طرف نکل جاتے اور لوگ ان بزرگوں کی تکبیر (تکبیرات) سن کر تکبیر کہتے اور محمد بن باقر رحمہ اللہ نفل نمازوں کے بعد بھی تکبیر کہتے تھے۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر:969)
تکبیرات عید:۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللّٰہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: مَا مِنْ أَیَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللّٰہِ وَلَا أَحَبُّ اِلَیْہِ مِنَ الْعَمَلِ فِیْہِنَّ مِنْ ھٰذِہِ الْأَیَّامِ الْعَشْرِ، فَأَکْثِرُوْا فِیْہِنَّ مِنَ التَّہْلِیْلِ وَالتَّکْبِیْرِ وَالتَّحْمِیْدِ
سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی دن نہیں، جو اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ عظمت والے ہوں اور جن میں نیک عمل اس کو سب سے زیادہ پسند ہو، بہ نسبت ان دس دنوں کے، پس ان میں بہت زیادہ تہلیل، تکبیر اور تحمید بیان کیا کرو۔
(مسند احمد، حدیث نمبر:5446)
٭…٭…٭
(انجم احمد)