• 29 اپریل, 2024

تعارف سورۂ طٰہٰ (بیسویں سورۃ)

(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 136 آیات ہیں)
اردو ترجمہ ازترجمہ قرآن انگریزی (حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ) ایڈیشن 2003ء
(مترجم: وقار احمد بھٹی)

وقت نزول اور سیاق و سباق

یہ سورۃ مکی دور کی ابتدائی سورتوں میں سے ہے۔ یہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کا خیال ہے جو آپ ﷺ کے ابتدائی صحابہ میں سے تھے ۔ اس سورۃ میں گزشتہ سورۃ کے مضامین کے تسلسل میں عیسائیت کے عقائد کا بیان ہوا ہے۔ عیسائیت کے بنیادی عقائد میں سے ہے کہ شریعت ایک لعنت ہے۔ اس سورۃ کے ابتداء میں اس عیسائی عقیدہ کی شد و مد سے تردید کی گئی ہے۔ شریعت کے بارے میں اس سورۃ میں بتایا گیاہے کہ نہ صرف یہ کہ یہ لعنت نہ ہے بلکہ در حقیقت خدائی افضال اور نعماء میں سے ایک نعمت ہے ۔ ایک بوجھ اور رکاوٹ ہونے کی بجائے اس کا مقصد راحت و آرام پہنچانا اور انسان کی روحانی تسکین کے سامان کرتی ہے۔ یہی قرآن کریم کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد ہے جس کو یہ بھرپور انداز سے پورا کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو اس پیغام کے ساتھ تسکین پہنچائی گئی ہے کہ خدا نے قرآن کریم انسان کے بوجھ ہلکے کرنے کے لئے نازل فرمایا ہے نہ کہ اس کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے لئے۔ یہ جملہ انسانی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

مضامین کا خلاصہ

اس سورۃ میں عیسائیوں کو بتایا گیاہے کہ قرآن کریم میں مذکور سچائی کو سمجھنے اور جانچنے کے لئے انہیں چاہیئے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات پر غور کریں، جن سے انہیں گزرنا پڑا۔ یہ بتایا گیاہے کہ انکی روحانی پرورش کی تکمیل کے بعد جب آپ نبوت جیسی بڑی ذمہ داری کو نبھانے کے لئے بہترین پائے گئے اور نبوت جیسی نعمت سے نوازا گیا تو حضرت موسیٰ کو حکم دیا گیا کہ وہ فرعون کے پاس جائیں اور الٰہی پیغام اس کو پہنچائیں۔ فرعون نے اس پیغام کو ماننے سے انکار کردیا ، متکبرانہ انداز سے پیش آیا اور حضرت موسیٰ کو قتل کرنا چاہا۔ بعد ازاں حضرت موسیٰ کو خدا نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے باہر کنعان کی طرف لے جائیں۔ فرعون نے ان کا تعاقب کیا لیکن خدا کی پکڑ نے اس کو آلیا اور وہ بنی اسرائیل کی آنکھوں کے سامنے اپنی فوج کے ساتھ سمندر میں غرق ہو گیا۔ پھرحضرت موسیٰ پہاڑ پر چلے گئے جہاں آپ کو شریعت عطا کی گئی۔ پھر اس سورۃ میں عیسائیوں کو موردِ الزام کیا گیاہے اور انہیں بتایا گیاہےکہ حضرت عیسیٰ کی بعثت سے پہلے بنی اسرائیل توحید کے قائل تھے۔ پھر بعد میں قرآن کریم میں توحید ، شریعت کی اہمیت اور فضیلت پر بھی پر خاص طور پر زور دیا گیاہے پھر کیونکر ایسی تعلیم (عیسائیت) جو شریعت کو لعنت قرار دیتی ہو اور شرک کی تعلیم دیتی ہو ، ایسی دو توحید پر سختی سے کار بند عقائد (سلسلہ موسویہ اور سلسلہ محمدیہ ﷺ) کے درمیان راہ پا سکتی ہے۔

پھر اس خدائی سزا کا بیان کیا گیا ہے جو عیسائی اقوام کو ان کے گناہوں اور بے اعتدالیوں کی وجہ سے ملے گی۔ اس دنیاوی کامیابی کے بعد جو ایک ہزار سال تک ان کے حصہ میں آئی۔ ان ایک ہزار سالوں میں سے آخری تین صدیاں غیر معمولی اور اعلیٰ ترقیات اور کامیابیوں کی متحمل ہوں گی۔ یہ ترقیات انہیں اس الٰہی تنبیہ سے غافل کردیں گی کہ ایک بھیانک مقدر ان کے انتظار میں ہے۔ یہ سورۃ پر زور طریق پر بیان کرتی ہے کہ واقعات لازماً رونما ہوں گے اور مغربی عیسائی ممالک پر طرح طرح کے مصائب آئیں گے، بڑے بڑے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور گرد و غبار کی مانند ہو جائیں گے۔

(سورۃ طٰہٰ آیات 106-107)

پھر اسی مضمون کا اعادہ کیا گیاہےجس سے یہ سورۃ شروع ہوئی تھی یعنی یہ کہ قرآن کریم عام فہم ہے کیونکہ یہ اپنی مخاطب قوم کی زبان میں نازل ہوا ہے ۔ عیسائی صحف کی مانند یہ بالعموم تشبیہات اور تمثیلی رنگ میں بات نہیں کرتا کہ اپنے مضمون کوواضح کرنے کی بجائے مزید الجھنوں میں ڈال دے ، مگر اپنی تعلیمات کو آسان اور عام فہم زبان میں بیان کرتا ہے ۔ پھر شریعت کی اہمیت کو نہایت مضبوط اور طاقتور دلائل سے روشن کیا گیاہے اور اس کے لعنت ہونے کی تردید کی گئی ہے اورالٰہی انعام ہونے کے دلائل دئے گئے ہیں۔ پھر اس سورۃ میں حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے نکالے جانے کا ذکر ہے۔ یہ وہ واقعہ ہے جس کی بنیاد پر عیسائی عقیدہ کفارہ گھڑا گیا ہے جو یا تو غلط فہمی کی بنیاد پر ہے یا عیسائیوں کی طرف سے عمداً غلط تاویل کی صورت میں پیش کیا گیاہے۔ حقیقت یہ ہےکہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش ایک مقدر الٰہی منصوبہ کے تحت ہوئی تھی اور الٰہی منصوبے کبھی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام نہیں ہوتے۔ جبکہ بائیبل کے مطابق خدا نے آدم کو اپنی شکل پر پیدا کیا (پیدائش باب 1 آیت 27)، پھر حوا کے پھسلانے پر آدم نے گناہ کیا۔جبکہ قرآن کریم یہ بیان فرماتا ہے کہ خدا کی مشابہت کے باعث آدم ایسے جرم کا مرتکب نہیں ہو سکتا تھا۔ قرآن کریم کے نزدیک آدم سے نادانستہ طور پر یہ بھول ہوگئی تھی ۔

(سورۃ طٰہٰ آیت 116)

اس سورۃ کے اختتام پر کفار کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ ان کی مرضی کے نشانات اور معجزے انہیں نہیں دکھائے جائیں گےاور بے شمار الٰہی نشانات کے مشاہدہ کے باوجود اگر وہ الٰہی پیغام سے منہ موڑ یں گے تو وہ ایسے ہی موردِ غضبِ الٰہی ہوں گے جیسے ان سے پہلے نبیوں کے منکرین ہو چکے ہیں۔

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اگست 2020