• 29 اپریل, 2024

مضمون نویسی کی طرف توجہ دیں

’’ہر احمدی کو قلم چلانے کی مشق کرنی چاہیے‘‘

(حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ)

آج اداریہ میں اپنے پیارے قارئین سے مضامین اور آرٹیکلز لکھنے کی درخواست بانی الفضل سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی زبان مبارک سے کرنی ہے۔ آپ ہی کے الفاظ کی روشنی میں روزنامہ الفضل کے شمارہ مورخہ 6 جون 2020ء میں 250 عناوین کی ایک فہرست شائع ہوچکی ہے۔ ان کو مدنظر رکھ کر قارئین مختصر مضامین لکھ کر info@alfazlonline.org پر بھجوائیں۔ جزاکم اللّٰہ۔

حضرت مصلح موعودؓ خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 1924ء میں فرماتے ہیں:
’’آج میں جس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے لوگوں کی خواہش ہے کہ اسلام تما م دنیا میں پھیل جائے۔یہ ان کی خواہش سچی ہوتی ہے۔ جس وقت وہ اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں ایک صداقت کی چمک ہوتی ہے۔ اور ان کے چہرے پر صداقت کے آثار ہوتے ہیں۔ ان کی آواز ان کے ہونٹ غرض ان کے چہرہ کی حالت بتاتی ہے کہ یہ بات ان کے دل سے نکل رہی ہے۔ جب میں ان کی یہ حالت دیکھتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ یہ خواہش سچی ہے۔ لیکن اس خواہش کے ساتھ جب میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ کوشش نہیں تو پھر حیران ہوتا ہوں کہ ان کی یہ خواہش کیسے پوری ہو سکتی ہے۔ ساری دنیا کو اسلا م قبول کرانے کاکتنا بڑا کام ہے۔ یہ ساری دنیا سے جنگ ہے اور جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ایک ملک کے فتح کرنے کے لئے کتنی طاقت اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔تو اس کے لئے کسی قدر کوشش اور محنت کی ضرورت ہے ………….ہمارا جن سے مقابلہ ہے وہ تم سے کسی بھی میدا ن میں پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔اور تم ان کے مقابلےمیں مٹھی بھر ہو۔پھر وہ ایسے نہیں جو یوں میدان سے ہٹ جائیں کیا تم خیال کرتے ہوکہ عیسائی یونہی تمہاری باتیں مان لیں گےوہ چپہ چپہ نہیں چاول چاول بھر زمین پرتم سے مقابلہ کریں گے۔ وہ اپنے جھوٹے عقائد کو یونہی نہیں چھوڑیں گے۔ وہ ان کے لئےجنگ کریں گے اور اس وقت تک کریں گے جب تک ان کی مذہبی جنگ کی طاقت نہ ٹوٹ جائے گی۔ پس عقائد کا بدلنا کوئی آسان کام نہیں اور یہ عیسائیوں پرہی موقوف نہیں یہی حال دیگر مذاہب کے لوگوں کا ہو گا۔کیاتم خیال کرتے ہو۔ہندو خوشی سے تمہارے ہم عقیدہ ہوجائیں گے۔ اور اپنے آپ کو اس لئے تمہارے سپرد کردیں گے۔ کہ ہمیں اسلام سکھاؤ۔ وہ اپنے عقیدوں کی حفاظت کے لئے اپنا آخری پیسہ اور اپنےخون کا آخری قطرہ تک گرا دیں گے۔ تب وہ مسلمان ہوں گے اوریہی حال سکھوں کا،چینیوں کا اور جاپانیوں کاہو گا۔ تمہارے پاس خودبخود کوئی قوم نہیں آئے گی۔ جو کہے کہ ہمیں مسلمان بنا لو۔ہر ایک سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔

لیکن اگر تم اس کے لئے کوشش نہیں کرتے۔ اور وہ ذرائع اختیار نہیں کرتے۔جو اس مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے مقرر ہیں تو تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ دعا ہی سے یہ کام ہوجائے گا۔حالانکہ دعا کوشش کے بعد ہوتی ہے پہلے خدا تو یہ دیکھتا ہے کہ جو تمہارے پاس تھا وہ خدا کے لئے نکال دیا ہے یا نہیں۔ خواہ وہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو اس کےبعد جس قدر سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ مہیا کردیتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ ان کو کچھ دیتا ہے جو پہلے جو کچھ ان کے پاس ہو۔اس کو خرچ کر دیتے ہیں۔ دیکھوخدا کھیتوں میں بیج ڈالے بغیر غلہ پیدا نہیں کرتا بلکہ اسی زمیندار کی کھیتی میں غلہ پیدا کرتاہے جو پہلے اپنے گھر کا غلہ نکال کر زمین میں بکھیر دیتا ہے۔ کیا اگر کوئی کہے کہ زمین میں غلہ بکھیرنے کی کیا ضرورت ہے۔خدا نے جتنا غلہ پیدا کرنا ہے۔ اس میں سے اتنا کم پیدا کردے۔جتنا بیج کے لئے ڈالا جاتا تھا۔ اور باقی کا دے دے تو کیااس کی یہ بات مانی جائے گی۔ہرگز نہیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ پہلے خرچ کراتاہے پھر اس سے کئی گنا زیادہ واپس کرکے دیتاہے یوں تو ایک ایک دانہ جو زمیندار ڈالتا ہے اس کے بدلے سو سو بلکہ اس سے بھی زیادہ دانے دیتا ہے لیکن اگر کوئی دانہ ہی نہ ڈالے تو اس کو سو کی بجائے ایک بھی نہ دے گا۔ پس خدا تعالیٰ کمی کو پورا کیاکرتا ہے۔ مگر پہلے ان چیزوں کو نکلوالیتا ہےجو انسان کے پاس ہوتی ہیں۔

میں اس بات کو مانتا ہوں اورسب سے زیادہ مانتا ہوں کہ دعا سے کام ہوتا ہے لیکن قبولیت دعا کے لئے یہ ضروری ہے کہ خود انسان پہلے محنت کرے اس کے بعد دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی کمی کو پورا کردیا جاتاہے جب تک یہ نہ ہو کوئی کام نہیں ہو سکتا۔

ہم چاہتے ہیں کہ اسلام دنیامیں پھیل جائے اور صداقت پرلوگ جمع ہوجائیں لیکن اگر اس لڑائی کےلئےجن ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم ان کو مہیا نہ کریں۔ کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں بہرحال ہمیں وہ ہتھیار اور سامان مہیا کرنے چاہئیں۔خواہ وہ دشمن کے مقابلہ میں کتنے ہی تھوڑے کیوں نہ ہوں اور اپنی ساری قوت اور طاقت اس کے لئے صرف کردینی چاہئے۔ جب ہم ایسا کریں گے تو خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہمارے لئے نازل ہوگی۔ اور ہم ہر میدان میں فتح یاب ہوں گے۔

مجھے ایک واقعہ یاد کرکے حیرت کے ساتھ ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتاہے۔ جب روس نے بخارا پر فوج کشی کی تو امیربخارا نے علماء و عمائدین کو جمع کیا اور پوچھا اس وقت کیا کرنا چاہئے ؟ روس کی طرف سے یہ یہ شرائط پیش کی گئی ہیں اور یہ مفید ہیں۔ان سے صلح کرلینی چاہئے۔ کیونکہ روسیوں کی تعداد زیادہ اور ان کے پاس سامانِ جنگ بہت ہے ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ علماء نےجو آج کل کے مولویوں ہی کی طرح کےہوں گے۔ اس کی مخالفت کی۔ اور مقابلہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔چنانچہ صلح کا پیغام مسترد کردیا گیا۔ اور تیاریاں شروع ہو گئیں۔ علما ءاور ان کے توابع جمع ہو گئے۔ تلواریں اور نیزے اور بھالے اٹھا لئے اور قرآن کریم کی آیتوں کو بطور منتر پڑھتے ہوئے روسیوں کے مقابلہ کےلئے میدان میں نکلے۔مگر جب ان کے جواب میں روسی فوج نے گولہ باری شروع کی۔ تو علما ءسحر۔سحر۔ جادو ہے۔جادو ہے۔ کہتے ہوئے پیچھے کو بھاگے۔اس کے بعد روس نے بخارا کے ساتھ وہی سلوک کیا جو فتح یاب دشمن کرتاہے۔ یہ کس بات کا نتیجہ تھا۔ اسی کا کہ انہوں نے جنگ کا سامان مہیا کرنے کی طرف توجہ نہ کی۔

اسی طرح آج بھی اگر کوئی نادان یہ سمجھے کہ یوں ہی کام ہوجائے گا۔تو یہ اس کی غلطی ہوگی۔اس زمانہ کو خدا نے اشاعت ہدایت کا زمانہ قرار دیا ہےاور یہ زمانہ دلائل کا زمانہ ہے۔ تلوار کا نہیں آج جو جہاد ہوتا ہے۔ وہ تقریر اور تحریر سے کیا جاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جو شخص تلوار چلانا نہیں سیکھتا تھا۔ وہ قومی مجرم تھا۔ کیونکہ وہ زمانہ تلوار سے جہاد کرنے کا تھا۔ اور آج جو شخص تقریر اور تحریر میں مشق بہم نہیں پہنچاتا۔ وہ بھی مجرم ہے۔ آج جو شخص اپنی زبان اور اپنے قلم کو تیز نہیں کرتا وہ اس زمانہ کی جنگ کے لئے گویا نہ تلوار کو تیز کرتا ہے نہ اس کو استعمال کرنا سیکھتا ہے۔ اس لئے اگر اس کے دل میں اشاعت اسلام کی خواہش اور تمنا ہے۔ تو یہ سچی تمنانہیں۔ بلکہ جھوٹی ہے۔ کیونکہ جو شخص دشمن پر فتح پانے کے لئے جاتا ہے۔ وہ نہتا نہیں جایا کرتا۔ بلکہ جس قدر اس سے ممکن ہوتا ہے۔لڑائی کاسامان لے کرجاتا ہے۔ اسی طرح اس جنگ کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ کہ جو اس میں کامیابی حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہو۔ وہ ان سامانوں کو مہیا کرے۔ جو اس میں فتح پانے کے لئے ضروری ہیں۔ اوراس کے بعد خدا کی نصرت کا امیدوار رہے۔قرآن کریم میں مقابلہ کے لئے تیاری نہ کرنے والوں کو منافق قرار دیا گیا ہے کہ وَ لَوۡ اَرَادُوا الۡخُرُوۡجَ لَاَعَدُّوۡا لَہٗ عُدَّۃً (التوبہ:46) اگرارادہ کرتے مخالف کے مقابلہ میں نکلنے کا تو یقیناً اس کے لئے پہلے سے کچھ سامان بھی تیار کرتے۔ چونکہ وہ تیاری نہیں کرتے۔ اس لئے معلوم ہوا کہ ان کا ارادہ ہی نہیں ہوتا۔ اور جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ صرف ان کی زبانی باتیں ہوتی ہیں۔ جو قوم پہلے سے تیار نہیں ہوتی۔ وہ وقت پر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے۔ یہ زمانہ دلائل اور براہین سے اشاعت اسلام کرنے کا ہے۔ اس لئے اگر ہماری جماعت تقریر کرنے اور لکھنے کی مشق نہیں کرتی۔ تو پھر اشاعت اسلام کے میدان میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔

مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ گو میں نے بار بار مختلف اوقات میں ادھر توجہ دلائی ہے۔مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ جماعت کے احباب چندہ دینے میں چست ہیں گو کئی لوگ چندے میں بھی سستی کرتے ہیں۔ مگر عمومًا چندوں میں سست نہیں لیکن میں دیکھتا ہوں۔ جماعت کی اس طرف توجہ کم ہے کہ جو قلم چلانا جانتے ہیں یا چلا سکتے ہیں وہ قلم سے کام لیں یاجو تقریر کرسکتے ہیں یا تقریر کرنا سیکھ سکتے ہیں۔ وہ زبان سے کام لیں۔رسول ِکریم ﷺ فرماتے ہیں کہ وہ عالم جو موقع پر حق نہ کہے۔شیطان اخرس یعنی گونگا شیطان ہے۔ اول توشیطان ہی کیا کم تھا۔ اخرس فرما کر بتا یا کہ وہ شیطانوں میں سے بھی ذلیل درجہ کا شیطان ہے،کیونکہ شیطان اپنی شیطانی باتیں تو پھیلاتا ہے۔ مگر وہ حق بیان کرنےکی بھی جرات نہیں کرتا۔ میرے نزدیک اس سے بڑھ کر اور کیا زجر ہو سکتی ہے۔جو ایسے لوگوں کے متعلق رسول کریمﷺ نے فرمائی ہے۔ جو حق کو بیان کرنے کی طاقت رکھتے ہوئے خاموش رہیں۔مگر بہت ہیں جو حق کے کہنے کے لئے تیا ر نہیں ہوتے۔اور نہ حق کو بیان کرنے کی قابلیت پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

میں احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس سستی کو چھوڑیں خدا تعالیٰ نے ہر ایک شخص کو زبان دی ہے اس سے وہ حق پھیلانے کاکام لے اور جو لکھنا جانتے ہیں۔ وہ زبان اور قلم سے کام لیں۔جن کو قلم سے کام لینا نہیں آتا۔ وہ سیکھ لیں۔وہ کون سا کام ہے۔ جو کوشش کے بعد نہیں آ سکتا۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ جو قلم سے کام لے سکتے ہیں وہ بھی نہیں لیتے۔

میں نے پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی تھی اور اب بھی توجہ دلاتا ہوں۔گو پہلی دفعہ کا تو کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوامگر اب کے امید رکھتا ہوں کہ میرا کہنا رائگا ں نہ جائے گا اور ہماری جماعت کے اہلِ قلم اس طرف توجہ کریں گے۔ میں سلسلہ کے اخبارات باقاعدہ پڑھتاہوں اور یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنی بڑی جماعت کے جواخبار اور رسالے نکلتے ہیں۔ ان میں مضامین لکھنے والے صرف دو تین ہوتے ہیں۔ باقی لوگوں نے مضامین لکھنا صرف ایڈیٹروں کا فرض سمجھ رکھا ہے۔ اور اپنے آپ کو اس سے آزاد سمجھتے ہیں۔یہ نہایت ہی افسوسناک بات ہے میں اپنی جماعت کے علماء کو بھی توجہ دلاتا ہوں۔ اور ہماری جماعت کے علماءقادیان ہی میں نہیں باہر بھی ہیں۔قادیان والے بھی تحریر میں سست ہیں۔ انہیں خصوصیت سے سستی کو دور کرنا چاہیئے۔ پھر علماء سے مرا د ظاہری علوم رکھنے والے ہی نہیں۔ بلکہ وہ بھی ہیں جو دینی علماء ہیں۔ اور خشیۃاللہ رکھتے ہیں ………اب یا تو اخباروں میں ایڈیٹر مضمون لکھتے ہیں۔ یا وہ چند طالب ِعلم جو اپنا قلم صاف کر رہے ہیں اور مشق کر رہے ہوتے ہیں اوروہ لوگ جن کو مضمون لکھنے کی مشق ہے۔ یا تھوڑی مشق سے اچھا لکھنے اور بولنے والے ہو سکتے ہیں۔ خاموش ہیں۔

میں نصیحت کرتا ہوں کہ بولنے اور لکھنے کی طرف توجہ کرو۔ مگر اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہر شخص جو کچھ لکھے وہ ضرورچھپ جائے۔کئی لوگ میرے پاس شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے مضمون بھیجا تھا۔ مگر ایڈیٹر نے درج نہیں کیا۔میں کہتا ہوں ایڈیٹر اسی لئے رکھا جاتاہے کہ مضمون کو درج کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے اور دیکھے کہ کون سا مضمون درج ہونےکے قابل ہے اور کون سا نہیں۔یہ اس کا فرض ہے۔ اسے کرنے دو۔ اور اس کی جگہ نہ چھینو۔ اگر ایسا ہو کہ جو کچھ کوئی لکھے وہ ضرور چھپ جائے۔ تو پھر ایڈیٹر رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک پوسٹ بکس لگا دیا جاتا۔جو کچھ کوئی اس میں ڈالتا وہ کاتب نکال کر لکھ دیتا اور اس طرح اخبار تیا رہوکر شائع ہوجا تا۔

پس ضروری نہیں کہ ہرایک مضمون جو لکھا جائے وہ ضرور اخبار میں درج ہوجائے۔ ایڈیٹر جس کوبھی منا سب سمجھے گا۔ شائع کرے گا۔ لیکن ہر ایک کو چاہئے مضمون نویسی کی مشق ضرور کرے۔اور کوشش کرے کہ اس کا مضمون اخبار میں درج ہونے کے قابل ہو جب وہ اس قابل ہو گا۔تو ایڈیٹر کیوں نہ درج کرے گا۔

لیکن مشق کے لئے مضمون کا اخبار میں چھپنا ضروری نہیں بلکہ تم اپنے احباب اور دوستوں کو خطوط لکھ کر لکھنے کی مشق کرو۔ایڈیٹر اگر تمہارے مضمون کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہے۔ تو تمہارے دوست ایسا نہیں کریں گے۔ بلکہ وہ شوق سے تمہارے مضامین کو پڑھیں گے۔ لیکن میں کہتاہوں سب ایسے نہیں کہ ان کے مضامیں ناقابل اندراج ہوں بلکہ ہماری جماعت میں سینکڑوں مضمون نویس ہوں گے یا ہو سکتے ہیں کہ جن کے مضامین کو فخر سے ایڈیٹر اپنے اخبار یا رسالہ میں درج کریں گے۔

اسی طرح لیکچروں کے متعلق بولنے کی مشق کی جائے۔ علاوہ لیکچر کے ایسا بھی ہوسکتاہے کہ مجالس میں بیٹھ کر مذہبی گفتگو کی جائے مگر میں دیکھتا ہوں۔ وہ لوگ جو اس طرح مجالس میں باتوں باتوں میں دین کی خدمت کر سکتے ہیں۔ وہ بجائے مذہبی باتوں کے عام دنیوی امور کے متعلق گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ اگر مجالس میں تبلیغ کرنے کی کوشش کریں۔ تو بہت مفید ہو سکتا ہے۔ پس میں جماعت کے تمام اصحا ب کوکہتا ہوں جو بول سکتے ہیں وہ بولنےاور جو لکھ سکتے ہیں۔وہ لکھنے کی طرف زیادہ توجہ کرکے دین کی خدمت میں مشغول ہوں۔

میں امید کرتا ہوں کہ آج کی نصیحت کارگر ہوگی ہماری جماعت کو تحریر اور تقریر کے میدا ن میں ترقی کرنے کی نہایت ضرورت ہے۔ ہرایک احمدی کو قلم اور زبان چلانے کی مشق کرنی چاہئے جو شخص مشق کرکے زبان اور قلم سے دین کی خدمت میں کام لے گا۔وہ فتح کو قریب لائے گا۔ ہماری جماعت کو چاہیئے کہ وہ مفید سامان اشاعت سے کام لے۔ تاکہ خداکی عظمت و جلال ظاہر ہو۔ اور دین حق کی صداقت روشن ہواور باطل پیٹھ دکھا کر بھاگ جائے۔ اللھم آمین‘‘

(خطبات محمود، جلد8، صفحہ291-299)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اگست 2020

اگلا پڑھیں

قارئین کرام سے ضروری درخواست برائے اطلاعات و اعلانات