• 9 مئی, 2025

ہجرت کرنے والے احمدیوں کی ذمہ داریاں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔

ہجرت کرنے والے احمدیوں کی ذمہ داریاں

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دو چیزوں کا محتاج ہے۔ ایک دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں جو کچھ مصائب شدائد ابتلا وغیرہ اسے پیش آتے ہیں ان سے امن میں رہے۔ دوسرے فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو اسے خدا سے دُور کرتی ہیں ان سے نجات پاوے‘‘۔ (انسان کے لئے دو باتیں ہیں ایک دنیاوی مشکلات اور بیماریاں دوسرے روحانی مشکلات اور بیماریاں۔ پس انسان ان دونوں سے نجات پانے کی کوشش کرتا ہے۔) فرمایا کہ ’’تو دنیا کا حَسَنَہ یہ ہے کہ کیا جسمانی اور کیا روحانی دونوں طور پر یہ ہر ایک بلا اور گندی زندگی اور ذلّت سے محفوظ رہے‘‘۔

(ملفوظات جلد 4صفحہ 302۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپ پھر رَبَّنَآ کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’۰۰۰۰۰ دیکھواللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً۰۰۰۰۰۔‘‘ اس بارے میں آپ نے فرمایا کہ ’’اصل رَبَّنَآ کے لفظ میں توبہ ہی کی طرف ایک باریک اشارہ ہے‘‘۔ جب انسان رَبَّنَآ کہتا ہے یعنی اے ہمارے رب تو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے۔ فرمایا ’’کیونکہ رَبَّنَآ کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ بعض اور ربّوں کو جو اس نے پہلے بنائے ہوئے تھے ان سے بیزار ہو کر اس ربّ کی طرف آیا ہے اور یہ لفظ حقیقی درد اور گداز کے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا۰۰۰۰‘‘۔ جب انسان حقیقی طور پر رَبَّنَآ کہتا ہے تو پھر ایک درد سے رَبَّنَآ نکلتا ہے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو صرف ظاہری طور پر ہی رَبَّنَآ کی دعا پڑھ لیتے ہیں۔ لیکن اگر انسان دلی کیفیت سے دعا مانگ رہا ہو تو تبھی حقیقت میں رَبَّنَآ کا لفظ منہ سے نکلتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطابق تو رَبَّنَآ کا لفظ منہ سے نکل ہی نہیں سکتا جب تک حقیقی دردنہ ہو اور گداز نہ ہو۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اصل میں انسان نے اپنے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اپنے حیلوں اور دغا بازیوں پر اسے پورا بھروسہ ہوتا ہے تو وہی اس کے ربّ ہوتے ہیں۔ اگر اسے اپنے علم کا یا قوت بازو کا گھمنڈ ہے تو وہی اس کے ربّ ہیں۔ اگر اسے اپنے حسن یا مال و دولت پر فخر ہے تو وہی اس کا ربّ ہے۔ غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ جب تک ان سب کو ترک کر کے ان سے بیزار ہو کر اس واحد لاشریک سچے اور حقیقی ربّ کے آگے سرنیاز نہ جھکائے اور رَبَّنَآ کی پُردرد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اس کے آستانے پر نہ گرے تب تک وہ حقیقی ربّ کو نہیں سمجھا‘‘۔ جیسا کہ میں نے کہا لوگ کہتے ہیں ہم رَبَّنَآ کی دعا بھی پڑھتے ہیں۔ لیکن فرمایا کہ حقیقی رَبَّنَآ اسی وقت ادا ہوتا ہے جب پُردرد اور دل کو پگھلانے والی آواز نکل رہی ہو۔ اس حقیقت کو جانتا ہو کہ جب میں نے رَبَّنَآ کہا ہے تو میں ایک وحدہٗ لاشریک خدا کو پکار رہا ہوں جو میرا ربّ ہے۔ اور آپ نے فرمایا جب یہ ہو گا تو تبھی وہ حقیقی ربّ کو سمجھتا ہے، اسی سے دعا مانگتا ہے۔ پس فرمایا ’’پس جب ایسی دل سوزی اور جان گدازی سے اس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے توبہ کرتا اور اسے مخاطب کرتا ہے کہ رَبَّنَآ یعنی اصل اور حقیقی ربّ تو تُو ہی تھا مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے۔ اب میں نے ان جھوٹے بتوں اور باطل معبودوں کو ترک کر دیا ہے اور صدق دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں۔ تیرے آستانے پر آتا ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 188-189۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس یہ ہے وہ حالت جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے اور اس کی عبادت کرنے اور اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب ہم اس طرح اپنے ربّ کو پکارنے کا حق ادا کریں گے تو دنیا کی حسنات بھی ہمیں مل جائیں گی اور آخرت کی حسنات بھی ملیں گی بلکہ دنیا کی حسنات بھی انسان آخرت کی حسنات کے حصول کے لئے ہی مانگتا ہے تا کہ صحت ہو تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا ہو۔ صحت ایک دنیاوی خیر ہے، بھلائی ہے، حسنات میں شامل ہے۔ اگر صحت ہو گی تو انسان عبادت بھی صحیح طرح کر سکتا ہے۔ مال ہو تو اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اس کی قربانی کا حق ادا کر سکتا ہے۔ اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق اسے مل سکتی ہے۔

پس اس اہم اصول کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ عبادت کا حق ادا کرنے کی بات ہوئی ہے تو اس بارے میں ہمیشہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اس وقت ادا کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے جب ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے پیدائش کے مقصد کو پورا کرنے والے بھی ہوں گے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات:57) اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف جب ہم دیکھتے ہیں تو ایک حکم کے بعد دوسرا حکم جس طرف ہمیں لے کر جاتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کو کبھی نہ بھولو۔ تمہاری دنیاوی کوششیں بھی تمہیں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کرنے والی نہیں ہونی چاہئیں اور نہ کبھی صرف دنیا حاصل کرنے کی غرض سے دنیاوی خواہشات کی تکمیل تمہارا مطمح نظر ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’مَیں نے جنّ اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔ پس اس آیت کی رُو سے اصل مدّعا انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہو جانا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں ’’یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدّعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے۔ کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا۔ بلکہ وہ ایک مخلوق ہے۔ اور جس نے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قویٰ اس کو عنایت کئے‘‘ (یعنی باقیوں کی نسبت انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، بہترین قویٰ عنایت کئے) ’’اسی نے اس کی زندگی کا ایک مدّعا ٹھہرا رکھا ہے خواہ کوئی انسان اس مدّعا کو سمجھے یا نہ سمجھے۔ مگر انسان کی پیدائش کا مدّعا بلا شبہ خدا کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ میں فانی ہو جانا ہی ہے‘‘۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 414)

(خطبہ جمعہ 6؍ اپریل 2018ء، فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اگست 2020