اس موضوع پر گرد پیش کا جائزہ لینے کے بعد اور مختلف کتب تاریخ پر نظر ڈالنے کے بعد اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کریم کی اس آیت کو دیکھ کر جس میں خداتعالیٰ نے حکماً ایک بات کا اظہار کیا کہ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا (النساء 59) ترجمہ: ىقىناً اللہ تمہىں حکم دىتا ہے کہ تم امانتىں ان کے حقداروں کے سپرد کىا کرو اور جب تم لوگوں کے درمىان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو ىقىناً بہت ہى عمدہ ہے جو اللہ تمہىں نصىحت کرتا ہے ىقىناً اللہ بہت سننے والا (اور) گہرى نظر رکھنے والا ہے۔
اب اس آیت کریمہ میں جو حکم دیا گیا اس کی دو شاخیں ہیں ایک کہ امانتیں ان کے حقداروں کے سُپرد کیا کرو اور دوسرا حکم یہ کہ جب کسی معاملہ کا فیصلہ کیا جائے تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا جائے۔
نہایت ہی افسوس کی بات یہ کہ جب امانتیں حقداروں کے سُپرد نہیں کی جاتیں تو کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا کہ فوراً ہی آسمان سے بجلی گری ہو بلکہ اس افسوس سے بھی بڑھ کر افسوس یہ کہ بجلی گرنے کا یہ عمل آسمان پر شروع ہوجاتا ہے اور پھر وقت معینہ پر بجلی ایسے وقت میں گرتی ہے جب ہم سوچتے ہیں معامالات تو بالکل درست سمت پر گامزن تھے مگر ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب امانتیں ان کے حقداروں کے سُپرد نہیں کی جاتیں تو اس وقت ایسے صابر لوگ اور ایسے اطاعت شعار لوگ تختہ مشق بن رہے ہوتے ہیں جن میں ان معاملات کو برداشت کرنے کی قوت بھی ہوتی ہے اور مقدرت بھی مگر ایک نسل بعد یا دو نسلیں بعد ایسے لوگ آجاتے ہیں کہ جب ان کو یہ معاملات پتہ چلتےہیں تو وہ یکسر ان چیزوں سے دل برداشتہ ہوجاتے ہیں اور آہستہ آہستہ وہ کام جو جاہلوں کے زمانہ میں عاقل ان کے تحت رہتے ہوئے بھی کرتے ہیں اور چونکہ معاملات یکسر تبدیل ہوچکے ہوتے ہیں اس لیے اب انہیں عاقلوں کی نسلیں اپنے آباء پر ہونے والی زیادتیوں کا مداواکچھ یوں کرتی ہیں کہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا چھوڑ دیتی ہیں کیونکہ وہ دیکھ چکتی ہیں کہ صلاحیتوں اور قابلیتوں کے ہوتے ہوئے اخلاص و وفا کا دم بھرنے کے باوجود ان کے آباء محض اپنی زندگیاں تکالیف اور جاہلوں کے تصرف میں بسر کرچکے ہیں ،اب نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چونکہ جن کے ہاتھ میں انصرام حکومت ہوتی ہے وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ اپنی عقل کے تحت کوئی کام کرسکیں اور جیسی روح ویسے فرشتے نہ ہی ان کے تحت وہ نااہل لوگ اس قابل ہوتے ہیں کہ کام کو سنبھال سکیں ،نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قومیں تباہی کی طرف جانا شروع ہوجاتی ہیں اور تباہی کی طرف ان کی رفتار اس قدر تیز ہوتی ہے کہ اس کا رُکنا یا اس کو روکنا اب ناممکنات میں ہوجاتا ہے اور پھر انسان جو كَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا (الكهف 55) یعنی انسان ہر چىز سے زىادہ جھگڑالو ہے اس تمام صورت حال کا ذمہ تقدیر کے نوشتوں پر ڈال دیتا ہے اور پھر چار ناچار خود کو معتبر کرنے کے لیے راضی بقضاء کا دم مارنے اور اپنی تمام تر ناکامیوں کا ملبہ خداتعالیٰ کے نوشتوں پر ڈالنے کے لیے یا تو تاریخ کی مثالیں سامنے لے آتا ہے یا چار ناچار ایسی پیشگوئیاں نکالنے لگ جاتا ہے کہ یہ تو تقدیر کا لکھا تھا جبکہ جانتے ہیں کہ تقدیر کا لکھا اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے ،اور انذاری پیشگوئیوں کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے اعمال میں درستی پیدا کرکے مختلف قسم کی بلاؤں سے اپنے تئیں بچا سکےاور جن بیش انعام واکرام کے وعدے خداتعالیٰ نےانسان سے کیےہوتے ہیں ان کا حصول خداتعالیٰ کے قانون أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ (البقرة 41) یعنی مىرے عہد کو پورا کرو، مىں بھى تمہارے عہد کو پورا کروں گا۔ اب ان ہی عہدوں میں ایک عہد وہ آیت بھی ہے اگر غور کیا جائے جس کی بنا پر مضمون شروع کیا گیا تھا کہ امانتیں ان کے حقداروں کے سُپرد کرو۔
دنیا میں اگر دیکھا جائے تو سب سے بڑا عہدہ درحقیقت بادشاہت کا ہوتا ہے اور پھر تمام عہدے اس کے ذیل میں آتے ہیں تو جب خداتعالیٰ نے اس عہدہ کے حقیقی حقدار کا ذکر کرتے ہوئے جو نشانیاں بتائی ہیں جن کا ذکر خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک نبی اور اس کے مخالفین کی زبانی درج کردیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقرة 248) اور ان کے نبى نے ان سے کہا کہ ىقىناً اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرر کىا ہے انہوں نے کہا کہ اس کو ہم پرحکومت کا حق کىسے ہوا جبکہ ہم اس کى نسبت حکومت کے زىادہ حقدار ہىں اور وہ تو مالى و سعت (بھى) نہىں دىا گىا اُس (نبى) نے کہا ىقىنا اللہ نے اسے تم پر ترجىح دى ہے اور اُسے زىادہ کردىا ہے علمى اور جسمانى فراخى کے لحاظ سے اور اللہ جسے چاہے اپنا ملک عطا کرتا ہے اور اللہ وسعت عطا کرنے والا (اور) دائمى علم رکھنے والا ہے۔
اب یادرکھنا چاہیے کہ دنیامیں جو بھی کام ہوتے ہیں درحقیقت ان کے پیچھے علم کی فراخی اور جسم کی فراخی نہایت ہی ضروری ہیں اور یہی وہ چیزیں ہیں جو کسی بھی کام کے کرنے میں درحقیقت کلیدی کردار اداکرتے ہیں اور ان دوچیزوں کو دیکھنا ہر معاملہ میں نہایت ہی ضروری ہے۔
مگر نہایت افسوس کی بات یہ کہ جب انسان جو خود کو عقل کل سمجھتا ہے اس سے اس معاملہ میں بھی غلطی ہوتی ہے تو وہ اس معاملہ کو بھی آیت کے اس حصہ کو وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ (البقرة 248) اور اللہ جسے چاہے اپنا ملک عطا کرتا ہے۔) پیش کر کے خود کو بری الذمہ کرنے کی لاحاصل کوشش کرنے لگ جاتا ہے، جبکہ وہ اسی آیت میں خدائے حکیم کی حکمت کا ذکر ان الفاظ میں سن بھی چکا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بادشاہت جو سُپرد کی اس کی وجہ تھی اور وجہ علم اور جسم کی فراخی کو قرار دیا۔مزید یہ کہ اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ خداتعالیٰ ہی قرآن کریم میں انسان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ {بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ٘ وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ} (القيامة 15-16) (ترجمہ) حقىقت ىہ ہے کہ انسان اپنے نفس پر بہت بصىرت رکھنے والا ہے، اگرچہ وہ اپنے بڑے بڑے عذر پىش کرے۔ پس انسان کا نفس اس کو اس کی جہالت اور اس کی بے انصافیوں پر ملزم تو کرتا ہے مگر ہائے افسوس کہ انسان اس دنیاوی زیست کے لیے آخرت کو بھی بھلادیتا ہے اور نہ صرف آخرت بلکہ اس دنیا میں بھی تباہیوں اور ناکامیوں کے وہ بیج بو دیتا ہے جو اپنے وقت پر تناور درخت بن جاتے ہیں جن کا کڑوا پھل ان کو نہیں تو ان کی آنے والی نسلوں کو کھانا ہی پڑتا ہے، اور افسوس تو یہ کہ اگر کسی کو اس کی غلطی پر اطلاع دے دی جائے تو وہ اپنی غلطی دور کرنے کی بجائے کوشش کرتاہے کہ کسی طرح اسی شخص کی غلطیاں نکال کر سامنے لے آئے اور اپنے دل کو خوش کرسکےکہ اس نے کمال کرڈالا مگر یاد رہے کہ یہ فعل اس کو کلیۃً اس معاملہ سے آزاد نہیں کرسکتا۔
اس حوالہ سے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خداتعالیٰ کی ذات جیسا کہ تمام مذاہب، تمام ملتوں، تمام قوموں، تمام فرقوں، تمام ذاتوں اور تمام زمانوں سےبے نیاز ہے اس لیے اگر کوئی شخص یا گروہ یہ سمجھتا ہے کہ ہم ایسی باتوں سے مستثنیٰ ہیں تو درحقیقت یہ اس کی خام خیالی ہے اور ایک نہ ایک دن اس کی نسل یاآنے والا مورخ ضرور اس کی اس غلطی پرشاہد ناطق بن کر سامنے آجائے گا مگر یہ ایک ایسی چیز ہوگی جو ایسے ہی ہے کہ اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت یا پھر سانپ کی لکیریں پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اس لیے دانائی اسی میں ہے کہ ان معاملات کو غور سےدیکھا جائے، سمجھا جائے، اس کے پہلووں پر نظر عمیق ڈالی جائے اور پھر عمل بھی کیا جائےکیونکہ حقیت میں دانائی بھی یہی ہے کہ انسان پہلی قوموں کے حالات سے فائدہ اٹھائے اور وہ غلطیاں نہ دہرائے جس سے قوموں کی قومیں تباہ ہوئی ہوں خواہ وہ تباہی دنیاوی ہو یا مذہبی قومی ہو یا انفرادی ۔
(شیخ عبدالوکیل)