• 26 جون, 2025

اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا اعلیٰ معیار

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ (آل عمران:93) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ تم ہرگز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو یقیناً اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وہ مضمون بیان فرمایا ہے جسے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے والے مومنین نے ہی بہتر رنگ میں سمجھا ہے۔ اس کا سب سے بڑھ کر اظہار تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کیا جنہوں نے اپنا مال، اپنی جان، اپنا وقت دین کے لئے قربان کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ’’اَلْبِرّ‘‘ کی حقیقت کو سمجھا۔ یعنی نیکی کے اس معیار کو سمجھا اور حاصل کرنے کی کوشش کی جو نیکیوں کا اعلیٰ ترین معیار تھا۔ جو تقویٰ کا اعلیٰ معیار تھا۔ جو اخلاق کا اعلیٰ معیار تھا۔ جو مالی قربانی کرنے کا اعلیٰ معیار تھا۔ جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا اعلیٰ معیار تھا۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! میرا ایک باغ ہے جو بیرحاء کے نام سے جانا جاتا ہے اور مسجدنبوی کے قریب ہی وہ باغ تھا۔ انہوں نے عرض کی کہ مجھے اپنی جائیدادوں میں سے سب سے زیادہ پیارا یہی باغ ہے۔ آج مَیں اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔ (صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب لن تنالوا البر … الخ حدیث 4554)

تو یہ معیار تھے صحابہ کے اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر قسم کی قربانیوں کا سب سے زیادہ اِدراک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو ماننے والوں کو ہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ عملی اظہار بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہی کرتے ہیں۔ آج دنیا تو مال و دولت سمیٹنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔ احمدیوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو پیسہ کماتے ہیں دولت کماتے ہیں اور جب انہیں مالی قربانی کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ اپنا مال پیش کرتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس مسلسل تربیت کا نتیجہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہماری فرمائی ہے۔ مختلف موقعوں پر مختلف پیرائے میں اور مختلف نصائح کے ساتھ آپ نے ہمیں قربانیوں کی نصیحت فرمائی۔ چنانچہ ایک موقع پر مالی قربانی کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ
’’دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ اسی واسطے علم تعبیر الرؤیا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے (خواب میں دیکھے) کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لئے فرمایا۔ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ کہ حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک کہ تم عزیز ترین چیز خرچ نہ کرو گے۔ کیونکہ مخلوق الٰہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے‘‘۔ (حقوق العباد ادا کرنے کے لئے یہ فرمایا کہ حق العباد کے لئے اس کا بہت بڑا حصہ، اس کی ضرورت مال کی ضرورت ہے)۔ فرماتے ہیں کہ ’’اور ابنائے جنس اور مخلوق الٰہی کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے جو ایمان کا دوسرا جزو ہے جس کے بدوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا۔‘‘ (حقوق العباد بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ اس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا۔ مضبوط نہیں ہوتا۔ پکا نہیں ہوتا۔) فرمایا کہ ’’جب تک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے۔‘‘ (دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شئے ہے) ’’اور اس آیت میں، لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے۔ پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے۔‘‘ (یعنی وہ کسوٹی ہے جس سے تقویٰ کو پرکھا جاتا ہے۔) فرمایا کہ ’’ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں للّہی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دین کے لئے) ایک ضرورت بیان کی اور وہ کُل اثاث البیت لے کر حاضر ہو گئے‘‘۔

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 95-96۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس یہ وہ اعلیٰ ترین معیار ہے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قائم فرمایا اور آپ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قائم فرمایا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر گھر کا کُل سامان لے کر آ گئے۔ حضرت عمر گھر کا نصف سامان لے کر آ گئے اور اسی طرح باقی صحابہ بھی اپنی اپنی استعداد کے مطابق قربانیاں دیتے رہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 95۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اور یہی وہ روح اور معیار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ مثالیں دے کر ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ بہت سے احمدی ہیں جو قربانیوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب وہ قرآن اور حدیث میں اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات پڑھتے ہیں تو اس بات پر ان کو یقین بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کے اموال اور نفوس میں برکت کا بھی فرمایا ہے۔ جب انسان اپنی پیاری ترین چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں اس کو بڑھا کر دیتا ہوں اور سات سو گنا تک بھی دے سکتا ہوں اور اس سے زیادہ بھی دے سکتا ہوں۔ تو جب احمدی یہ قربانی کرتے ہیں اور جب احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق خرچ کرتے ہیں تو ان کو یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑھا کر دے گا اور ہمارے سے بھی یہ سلوک کرے گا۔ جس میں آپ نے فرمایا کہ ’’جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی میں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دی اور اللہ تعالیٰ پاک چیز کو ہی قبول فرماتا ہے‘‘۔ یہ بڑی ضروری چیز یاد رکھنے والی ہے۔ دھوکے سے کمائی ہوئی کمائی اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ پاک کمائی قبول کرتا ہے۔ اور فرمایا کہ ’’جس نے پاک کمائی اللہ تعالیٰ کی راہ میں دی تو اللہ تعالیٰ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا (چاہے وہ کھجور کے برابر ہی کمائی ہو) اور اسے بڑھاتا جائے گا یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہو جائے گی‘‘۔ فرمایا کہ ’’جیسے تم میں سے کوئی اپنے چھوٹے سے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے اور اسے بڑا جانور بنا دیتا ہے‘‘۔ (صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب الصدقۃ من کسب طیب … الخ حدیث 1410)

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍ نومبر 2017ء)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اگست 2020