اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
ترجمہ: یقینا اللہ کے نزدیک، جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، اللہ کی کتاب میں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہی ہے۔ اُن میں سے چار حرمت والے ہیں۔یہ ہے قائم رہنے والا دین۔ پس ان (مہینوں) کے دوران اپنی جانوں پر ظلم نہ کرنا۔ اور (دوسرے مہینوں میں) مشرکوں سے اکٹھے ہو کر لڑائی کرو جس طرح وہ تم سے اکٹھے لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔ (توبہ:36)
ہمارے آقاﷺ نے اس خطبہ حجۃ الوداع میں نصیحت فرمائی کہ ’’خبردار! میرے بعد تم گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘ اس نصیحت سے قبل آنحضرتﷺ نے حرمت والے مہینوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ان اقوال میں در اصل ایک پیشگوئی مضمر ہے کہ امت میں ایک وقت ایسا آئے گا جب محرم الحرام کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے ایک گروہ میرے اہل بیت کا خون بہائے گا۔
چنانچہ آنحضرتﷺ کی یہ پیشگوئی سن محرم61 ھ میں بعینہ پوری ہوئی جب نواسئہ رسول حضرت حسین ؓ کو کربلا کے مقام پر مع اپنے عیال کے شہید کیا گیا ۔
کیا واقعہ کربلا سے اسلام زندہ ہوا؟
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ سے ایک غیر از جماعت دوست نے مجلس عرفان میں شعر کے ایک مصرعہ ’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘ کے متعلق سوال کیا کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد اسلام کو زندگی ملی۔ آپ کا اس بارہ میں کیا نظریہ ہے؟
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اس کے جواب میں فرمایاکہ ’’ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام اس وقت زندہ ہو چکا تھا اور ہمیشہ کے لئے زندہ ہو چکا تھا جب قرآن تکمیل کو پہنچا ہے اور جب آنحضرتﷺ کو آخری شارع نبی کے طور پر ہمیشہ کے لئے دنیا کا نمونہ بنا دیا گیا۔ اس لئے واقعہ کربلا نے اسلام کو نقصان پہنچایا ہے فائدہ نہیں پہنچایا۔ نقصان پہنچایا ہے اور گہرا نقصان پہنچایا ہے کیونکہ دنیا کے سب سے بڑے محسن کے ساتھ احسان فراموشی کا سلوک کیا گیا ہے اور آپ کی اولاد سے محبت سے پیش آنے اور عزت سے پیش آنے کی بجائے اس کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس طرح مذہب کو زندہ نہیں کیا کرتا کہ اپنے پیاروں کی بے عزتیاں کروا کر اپنے مذاہب کو زندہ کروائے ….. اسلام کی زندگی کا تعلق رسول اللہﷺ اور قرآن کریم اور وہ صحابہ جو آپ نے پیدا کئے ان کے اخلاق، ان کے اعمال حسنہ سے ہے اور یہ کسی واقعہ کربلا کا محتاج نہیں ہے۔
واقعہ کربلا سے پہلے بھی تو میدان جنگ میں مسلمانوں کو قربانیاں دینی پڑی ہیں اور رسول اللہﷺ خود ایک موقع پر اتنے زخمی ہوئے کہ دشمنوں نے اعلان کردیا کہ شہید ہو گئے۔ انہوں نے شہید نہیں کہا،قتل کر دیا کہا (نعوذباللہ)۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن کریم نے اس طرح پیش فرمایا ہے کہ اس سے بہت نقصان پہنچا ہے، تکلیف ہوئی ہے اور استغفار کرنا چاہیئے ان لوگوں کو جو اس واقعہ کے شاہد ہیں۔ اور اس کے نتائج سے اللہ نے محض اپنے رحم سے بچالیا۔ تو رسول اللہﷺ کی قریبی شہادت سے تو اتنا نقصان پہنچا تھا کہ قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا ہے اور اپنے فضل کا اظہار فرمایا کہ خدا کا فضل نہ ہوتا تو وہ تمہیں نہ بچاتا لیکن رسول اللہﷺ کے نواسوں کی شہادت سے اسلام زندہ ہو گیا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
پھر واقعہ کربلا میرے نزدیک انتہائی دردناک واقعہ ہے۔ اس پر مسلمانوں کو استغفار کرنا چاہیئے اور پہلوں کے لئے بھی استغفار جائز ہے اور آئندہ والوں کے لئے بھی استغفار جائز ہے۔ قرآن کریم تعلیم دیتا ہے۔ کہ اپنے آباؤ اجداد کے لئے بھی استغفار کرو۔ پس میرا تو یہ ردّ عمل ہےکہ جب میں یہ دردناک واقعہ پڑھتا ہوں تو استغفار کرتا ہوں ان لوگوں کے لئے بھی جنہوں نے ظلم کیا ہے اگر وہ آنکھیں کھول کر ظلم کرنے والے ہیں تو میرا یہ عقیدہ ہے کہ ایسے لوگوں کو سزا کے بغیر نہیں چھوڑا جائے گالیکن اگر غلطیاں ہوئی ہیں یا دونوں طرف سے غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں تو اس معاملہ میں ہمیں بحث نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ انہوں نے ہمارے سامنے نہیں پیش ہونا اور اس لئے بھی کہ تاریخ پر اتنے ابہام کے پردے ہیں۔ شیعہ روایتیں، سنی روایتیں اور اسناد الگ الگ اور واقعہ ایک لیکن مختلف طریق سے بیان ہوا۔ اس لئے ان باتوں پر جج بیٹھنے کا کس کو حق ہے جبکہ ہمارے فیصلے سے فرق بھی نہیں پڑنا فیصلہ اللہ نے کرنا اور قیامت کے بعد کرنا ہے۔ تو فضول بحثوں میں امت کوپھاڑا جائے، اختلاف کیا جائے یہ اپنے نقصان کے علاوہ کچھ نہیں آپ کو دے گا۔ اس لئے میں نے کہا تھا کہ نقصان زیادہ ہوا ہے۔ امت بیچ میں سے پھٹ گئی اور اگر ایک امت شیعہ سنی دو امتوں میں نہ بدلتی تو آج اسلام کی ترقی کہیں سے کہیں پہنچ جانی تھی۔ بہت بڑے نقصان امت میں شیعہ سنی اختلاف کی وجہ سے ہوئے۔ ہلاکو خان کا حملہ ہوا اور اسی طرح کے بہت سے نقصان پہنچے جن پر تاریخ گواہ ہے۔ جس کی بنیادی وجہ شیعہ سنی اختلاف تھا۔
اس لئے میرے نزدیک اگر آپ اجازت دیں۔ معذرت کے ساتھ میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ اسلام زندہ ہوا ہے۔ اس واقعہ سے اسلام کی زندگی کو سخت صدمہ پہنچا ہے اور اس کے نقصان آج تک ہم دنیا میں دیکھ رہے ہیں‘‘۔
(مجلس عرفان از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ)
(حسان محمود۔ کراچی)