اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
وَ مَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا۔
ترجمہ: اور جو جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے وہ اس میں بہت لمبا عرصہ رہنے والا ہے اور اللہ اس پر غضب ناک ہوا اور اس پر لعنت کی، اور اس نے اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
(النساء :94)
حضرت حسینؓ عالم و فاضل، بہت روزہ رکھنے والے، بہت نماز یں پڑھنے والے، حج کرنے والے، صدقہ دینے والے اور تمام اعمال حسنہ کثرت سے بجالانے والے تھے۔ انہوں نے 25حج کئے۔
(اسد الغابہ جلد2 ص20۔ ابن اثیر جزری)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نوّر الله مرقدهٗ فرماتے ہیں: ’’حضرت امام حسینؓ نے معرکۂ کربلا میں بے شک جان دے دی۔ مگر آج تک اسلام اس قربانی پر ناز کرتا ہے۔‘‘
(خطبات محمود جلد نمبر16 ص396)
فرمایا: حضرت امام حسینؓ نے یزید کے سامنے جان دی۔ کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ حضرت امام حسینؓ اپنی جان نہیں بچا سکتے تھے اگر وہ چاہتے تو مداہنت سے کام لے کر اپنی جان بچا سکتے تھے لیکن انہوں نے مداہنت سے کام نہ لیا بلکہ اپنی جان قربان کر دی مگر باوجود اس کے زندہ حضرت امام حسینؓ ہی ہیں، یزید نہیں۔ یزید پر ہر منٹ موت آرہی ہے میں نے ابھی اس کا نام لیا تو میرا دل اس کے اعمال کے متعلق نفرت و حقارت سے بھر گیا تم نے سناتو تمہارے دل میں بھی نفرت و حقارت کے جذبات پیدا ہوئے لیکن جب میں نے حضرت امام حسینؓ کا نام لیا تو میرا دل ان کی عزت و عظمت اور محبت سے بھر گیا اور جب تم نے سنا تو تمہارے دل میں بھی ان کے متعلق عزت و عظمت اور محبت کی لہر دوڑ گئی ہوگی۔ تو جو شخص سچائی کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے وہ نہیں مرتا پس تم دشمن کا سچائی سے مقابلہ کرو چاہے تمہاری ساری جائیدادیں چھین لی جائیں چاہے تم کو جھوٹے مقدمات میں مبتلا کر کے پکڑوا دیا جائے اور چاہے جھوٹی گواہیاں دے کر تمہیں قید کر ادیا جائے تم ہمیشہ سچ بولو اور کبھی جھوٹ کے قریب بھی مت جاؤ۔‘‘
(خطبہ جمعہ فر مو وہ 21 جون 1935ء)
فرمایا: یزید کی خلافت پر دوسرے لوگوں کی رضا تو الگ رہی خود اس کا اپنا بیٹا متفق نہ تھا بلکہ اس نے تخت نشین ہوتے ہی بادشاہت سے انکار کر کے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ یہ ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے مگر میں نہیں جانتا مسلمان مؤرخین نے کیوں اس واقعہ کو زیادہ استعمال نہیں کیا……تاریخ میں لکھا ہے کہ یزید کے مرنے کے بعد جب اس کا بیٹا تخت نشین ہوا جس کا نام بھی اپنے دادا کے نام پر معاویہ ہی تھا تو لوگوں سے بیعت لینے کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا اور چالیس دن تک باہر نہیں نکلا۔ پھر ایک دن وہ باہر آیا اور منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہنے لگا کہ میں نے تم سے اپنے ہاتھوں پر بیعت لی ہے مگر اس لئے نہیں کہ میں اپنے آپ کو تم سے بیعت لینے کا اہل سمجھتا ہوں بلکہ اس لئے کہ میں چاہتا تھا کہ تم میں تفرقہ پیدا نہ ہو اور اس وقت سے لےکر اب تک میں گھر میں یہی سوچتا رہا کہ اگر تم میں کوئی شخص لوگوں سے بیعت لینے کا اہل ہو تو میں یہ امارت اس کے سپرد کر دوں اور خود بری الذمہ ہو جاؤں مگر باوجود بہت غور کرنے کے مجھے تم میں کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آیا۔ اس لئے اے لوگو! یہ اچھی طرح سن لو کہ میں اس منصب کے اہل نہیں ہوں اور میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا باپ اور میرا دادا بھی اس منصب کے اہل نہیں تھے۔ میرا باپ حسینؓ سے درجہ میں بہت کم تھا اور اس کا باپ (یعنی یزید کا باپ) حسنؓ حسینؓ کے باپ سے کم درجہ رکھتا تھا۔ علیؓ اپنے وقت میں خلافت کا حقدار تھا اور اس کے بعد بہ نسبت میرے دادا اور باپ کے حسن ؓاور حسین ؓخلافت کے زیادہ حقدار تھے اس لئے میں اس امارت سے سبکدوش ہوتا ہوں۔
(خلافت علیٰ منہاج النبوۃ۔ انوارالعلوم جلد دوم ص 176-177)
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اس مہینے میں درود بہت پڑھیں۔ یہ جذبات کا سب سے بہترین اظہار ہے جو کربلا کے واقعہ پر ہو سکتا ہے، جو ظلموں کو ختم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی مد د چاہنے کے لئے ہو سکتا ہے۔ آنحضرت ﷺ پر بھیجا گیا یہ درود آپؐ کی جسمانی اور روحانی اولاد کی تسکین کا باعث بھی بنتا ہے۔ ترقیات کے نظارے بھی ہمیں نظر آتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کے پیاروں سے پیار کا بھی یہ ایک بہترین اظہار ہے۔ اور اس زمانے میں آپ کے عاشقِ صادق مسیح موعودؑ کے مقاصد کی تکمیل میں بھی یہ درود بے انتہا ءبر کتوں کے سامان لے کر آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دنوں میں خاص طور پر درود پڑھنے کی، زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور پھر یہ درود جو ہے ہماری ذات کے لئے بھی برکتوں کا موجب بننے والا ہو گا۔
(خطبہ جمعہ فرموده 10 دسمبر 2010ء)
وَاٰخِرُدَ عْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ
٭…٭…٭