• 29 اپریل, 2024

ایک معیاری مقالے کی خصوصیات

(قارئین مضمون لکھتے وقت درج ذیل قیمتی ہدایات کو مدنظر رکھیں)

ہر ایک محقق جانتا ہے کہ علم ایک سمندر ہے ، جس کی گہرائی کو مکمل طور پر جاننا انسان کے لئے ممکن نہیں ۔ انسان کی علمی عظمت کا تمام انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اس سمندر کی گہرائی میں کس حد تک اتر سکتا ہے اور قیمتی علمی نتائج کے کس قدر جواہرات اپنے ساتھ لا کر دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ ہر محقق جانتا ہے کہ اس کی علمی کوششیں کامیاب ہوں اور بلاشبہ ہر محقق کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے ۔

اس لئے مقالہ کچھ ایسی صفات اور خصوصیات کا حامل ہونا ضروری ہے جس کے بغیر تحقیقی سفر کی کامیابی کے خواب کی تعبیرنہیں مل سکتی۔ یہ خصوصیات ہر علم کے سمندر میں غوطہ زنی کے دوران ایک محقق کی معاون اور مدد گار ہوتی ہے ۔

مقالہ اس رپورٹ کو کہتے ہیں جسے کوئی محقق اپنے تحقیقی کام کو تکمیل کے بعد پیش کرتا ہے ۔ ایک معیاری مقالہ وہ ہوتا ہےجس کی تیاری میں درج ذیل ان اصولوں کالحاظ رکھا گیا ہو:

مواد کی ترتیب و تنظیم

مقالہ نگاری کاایک اصول یہ ہے کہ موضوع سے متعلق جمع شدہ مواد کو اچھے اسلوب میں مدون و مرتب کیاجائے۔ مواد کی ترتیب و تنظیم کے مرحلہ پر پہنچ کر محقق کو چاہئے کہ:

i۔ وہ اپنے خیالات اور علم کی ایک شکل مقرر کر لے

ii۔ صرف متعلقہ مواد کو خوب احتیاط کے ساتھ منظم و مرتب کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ کام کسی بھی نوعیت کا کیوں نہ ہو اس کی ترتیب و تنظیم عمدہ ہو تو اسے پذیرائی بھی ملتی ہے۔

ان مقاصد کے حصول کی خاطرضروری ہے کہ محقق پہلے تحریری شکل میں ایک خاکہ تیار کر لے۔ اس طرح مطالعہ کی صورت حال اس کے ذہن میں واضح ہو جائے گی اور اس کے مطابق وہ اس کو خوب صورت انداز میں پیش کر سکے گا۔ تحریری خاکہ سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ مقالہ کے مختلف اجزاء کا ربط واضح ہو جاتا ہے۔ مقالے کا ہر ایک حصہ باہم مربوط ہونا چاہئے ۔ تب ہی اس کو صحیح معنوں میں معیاری مقالہ کہا جا سکتا ہے ۔

مواد کی تنظیم و ترتیب میں خاکہ کی افادیت یہ بھی ہے کہ اس کی روشنی میں ابواب کے عنوان اور ذیلی سرخیاں بنائی جا سکتی ہیں۔ اس کا م کو احتیاط سے کرنا چاہئے کیونکہ سرخیاں قاری کے لئے تمام مواد کو ایک نظر میں پیش کرتی ہیں، اس کی مدد کرتی ہیں کہ وہ مقالہ میں اپنے مطلب کی چیز پا لے۔

۲۔ تسوید مقالہ

مقالہ سے متعلقہ مواد کو منظم و مرتب کر لینے کے بعد اسے لکھنے کی باری آتی ہے۔ اصطلاح میں اسے ’’تسوید‘‘ کہتے ہیں۔ تسوید مقالہ بہت اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ اس پر پہنچ کر محقق کو اپنے موضوع سے متعلقہ مرتب شدہ مواد کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔

ماہرین لکھتے ہیں:

مواد کی ترتیب کے بعد مقالہ لکھنے کا کام شروع ہوتا ہے۔ اس مواد کی تلاش، چھان بین اور ترتیب میں جس محنت، دیانت اور وقت نظر کا ثبوت دیا گیا ہے ، مقالہ کی تسوید میں بھی اس کا اہتمام ضروری ہے۔ واضح فکر، مواد کی منطقی ترتیب، صحیح ترجمانی اور مؤثر طرز تحریر میں ایک قطعی رشتہ ہے۔ جس سے مقالہ کی تحریر میں عالمانہ شان اور محققانہ وقار پیدا ہوتا ہے۔

آغاز تحریر کے اصول

تحریر کا آغاز موضوع سے کرنا

مقالے کی تحریر کا آغاز براہ راست اپنے موضوع سے کرنا ہی اچھا اور سائنسی طریقہ کار سمجھا جاتا ہے ۔طویل تمہید اور تبصروں سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ اس سے مقالہ کی ضخامت بڑھ جاتی ہے جو ایک عیب سمجھا جاتا ہے ۔ مقالہ کی قدروقیمت اس بات سے نہیں جانچی جاتی کہ محقق نے اپنے موضوع کے بارے میں کتنا کہا ہے۔ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کیا کہا ہے اور کس انداز سے کہا ہے۔ بعض محققین بظاہر خوبصورت لیکن موضوع سے غیر متعلقہ بیانات اور غیر ضروری معلومات مقالے میں شامل کر کے اس حجم کو بڑھا دیتے ہیں لیکن واضح طور پر کسی اہم نتیجے پر پہنچتے ہوئے معلوم نہیں ہوتے۔ اس لئے براہ راست موضوع سے شروع کرنا مقالہ نگاری کا اہم اصول ہے ۔ وہ مقالہ جس کی تیاری میں اس اصول کا لحاظ رکھا گیا ہو وہ معیاری کہلاتا ہے۔

اسلوب تحریر

مقالے کے لئے اس کے اسلوب تحریر کا معیاری ہونا لازمی ہے۔ اہل علم حضرات اس حقیقت سے بخوبی آشناہیں کہ ایک اہم اور عمدہ بات کو اگر دلکش انداز میں بیان نہ کیا جائے تواس کی طرف سامعین اور قارئین متوجہ نہیں ہوتے۔ اس کے مقابلہ میں عام سی بات کو اگر اچھے انداز میں پیش کیا جائے تو وہ ان کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔

اس مقصد کے حصول کے لئے محقق کو خوب محنت اور لگن سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ جو بات بھی لکھے سوچ سمجھ کر موقع محل کے مطابق سیدھے سادھےانداز میں لکھے اور قاری کے لئے اس میں دلچسپی ولگن پیدا کرے۔

انداز تحریر کی خصوصیت

انداز تحریرہر ایک شخص اور موضوع کے اعتبار سے تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔ مقالہ کے اسلوب تحریر کو دو خصوصیات سے مزین ہونا چاہئے ایک سنجیدگی اور دوسری اثر ۔ ان دونوں کے ساتھ تکمیل، وحدت اور وضاحت وغیرہ کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

مقالے کی زبان

مقالے کی زبان عام فہم ، سادہ اور دلکش ہو ۔ ثقیل اور طویل نوعیت کے جملوں سے گریز کیاجائے۔ جس زبان میں مقالہ لکھا جا رہا ہے اس کے علاوہ کسی دوسری زبان کے الفاظ استعمال نہ کئے جائیں۔ اگر استعمال ضروری ہو تو انہیں بریکٹ میں لکھا جائے۔

ماہرین نے زبان کے متعلق درج ذیل تجاویز پیش کی ہیں:

i۔ مقالہ عام طور پر زمانہ ماضی یا ماضی قریب میں لکھا جائے ۔

ii۔ ضمائر متکلم (میں،ہم،میرا،ہماراوغیرہ) کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔

iii۔ گنتی کےاعداد اگر سو تک ہوں تو ان کو حروف میں لکھا جانا چاہئے سو سے زائد گنتی کو اعداد میں لکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر جملے کی ابتدا گنتی سے ہوتی ہے تو ان کو حروف میں ہی لکھنا چاہئے۔

الفاظ کا استعمال

معیاری مقالہ وہ ہوتا ہے جس کے جملوں میں عام فہم،سادہ اور مناسب و موزوں الفاظ کا استعمال موقع و محل کے مطابق کیا گیا ہو۔زیادہ طویل، مرکب، غیر مستعمل اور فرسودہ الفاظ کے استعمال سے مقالہ کا مفہوم واضح نہیں ہوتا ۔ الفاظ کے استعمال کے بارے میں یہ مشورہ بھی دیا جاتاہے کہ جدید انداز میں واضح کئے ہوئے الفاظ تخلیقی ادب میں چاہےکتنی ہی اہمیت رکھتے ہوں ، لیکن تحقیقی مقالے میں اس کا استعمال ایک نقص ہی سمجھا جائے گا۔ مقالہ میں مقامی یا بازاری الفاظ کا استعمال بھی ناپسندیدہ ہوتا ہے۔ ان کے استعمال سے زبان کی سنجیدگی ختم ہو جاتی ہے۔

تکرار کلمات سے اجتناب

معیاری مقالہ وہ ہوتا ہے جو کلمات کے تکرار سے خالی ہو کیونکہ مقالہ کا اسلوب کلمات کی تکرار سے متاثر ہوتا ہے۔ اس لئے جملوں کی ساخت میں ایسے کلمات کو استعمال کیاجائے جو مروج او رعام فہم ہو ۔ جملوں میں ایسے الفاظ اور کلمات کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہئے جو مستعمل نہ ہوں یا متروک ہوں۔

مناسب اختصار

مناسب اختصار معیاری مقالہ کی خصوصیات میں سے ہے۔ جس قدر مقالہ میں کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مفہوم ادا ہو سکتا ہواتنا ہی بہتر ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس قدر اختصار سے کام لیا جائے کہ مقالہ نگار قاری کو اپنا مافی الضمیر بطریق احسن منتقل نہ کر سکے۔ مقالہ کے جملوں کو مختصر، پُر مغز، سادہ، آسان اور باہم مربوط ہونا چاہئے تا کہ مفہوم کو واضح طور پر سمجھا جا سکے۔

مطالعہ مواد

ایک معیاری مقالہ کی تیاری کےلیےضروری ہےکہ محقق نے موضوع سے متعلقہ مواد کاتوجہ اور گہرائی سے مطالعہ کیا ہو۔ اپنے موضوع پر یا اس سے ملتی جلتی کتب ، تحقیقی مقالے اور مضامین سے بھرپور استفادہ کیا ہو۔

جدت

اچھےمقالےکی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں کسی نہ کسی طرح کی جدت اور نیا پن پایا جاتاہو۔ تحقیق کے میدان میں جدت کئی طرح کی ہو سکتی ہے، مثلاً:

i۔ معلوم اور معروف مواد کو نئے اور مفید اسلوب میں مرتب و مدون کیا جائے۔

ii۔ منتشر مواد کو ایک عنوان کے تحت مدون و مرتب کیا جائے۔

اقتباسات کا صحیح استعمال

i۔اقتباس کی عبارت احتیاط سے نقل کی جائے اور اسے واویں میں رکھا جائے۔

ii۔ اگر عبارت مختصر (یعنی چار سطروں پر مشتمل) ہو تو اسے متن کے ساتھ اور متن کے قلم سے لکھنا چاہئے ۔

iii۔ اگر عبارت طویل (یعنی چار سطروں سے زیادہ) ہو تو اسے متن سے الگ کر کے لکھنا ہو گا اور اس کا قلم متن کے قلم سے نمایاں طور پر خفی ہو گا۔ اس کی سطریں بھی نسبتاً مختصر ہوں گی، یعنی دائیں بائیں جگہ چھوٹی رہے گی۔ اس طرح وہ متن کی عبارت سے نمایاں ہو گی۔‘‘

iv۔ اقتباس لیتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسے متن میں اس طرح جوڑ دیا جائےکہ وہ متن کا ایک لازمی حصہ معلوم ہو۔

حاصل کلام یہ کہ وہ مقالہ جس میں اقتباسات کی صورت میں دوسروں کی آراء یا عبارت نقل کرنے میں خوب احتیاط اور وقت نظر سے کام لیا گیا ہو وہی اصل میں معیاری مقالہ ہوتا ہے۔

جملوں اور پیرا گرافز میں ربط

ایک اچھے مقالہ کی اندرونی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کے جملے آپس میں مربوط ہوتے ہیں اور اس میں کسی قسم کا انقطاع اور بُعد نہیں ہوتا۔ وہ سادہ، آسان اور واضح ہوتے ہیں۔ اسی طرح پیرا گراف کے درمیان میں بھی ربط پایا جاتا ہے۔ یہ ایسی خوبی ہوتی ہے جو مقالہ کی خوبصورتی اور دلکشی میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔

حواشی و حوالہ جات

جس مقالہ میں مقررہ اصولوں کے مطابق حواشی و حوالہ جات کا اہتمام کیا گیا ہو وہ معیاری مقالہ کہلاتا ہے ۔ مقالہ میں چونکہ اقتباسات کو نقل کیا جاتا ہے، اس لئے حاشیہ میں حوالہ کی صورت میں ان کتب کا اعتراف کرنا ضروری ہوتا ہے جس سے مواد اخذ کیا جاتا ہے۔

خوب توجہ سے نظر ثانی کرنا

مقالہ پر نظر ثانی کرنا ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے ، جو مقالہ کے مسودہ کی تکمیل کے بعد شروع ہوتا ہے۔ محقق کو چاہئے کہ وہ خوب محنت ، توجہ اور وقت نظر سے کئی بار اپنے مقالہ پر نظر ثانی کرے۔

مقاصد

نظر ثانی دہرانے کے عمل سے کئی مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں ، مثلاً

1۔ حذف واضافہ :

مقالہ کے پہلے مسودہ کی تکمیل کے بعد نظر ثانی کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ غیر متعلقہ مواد شامل ہو گیا ہے اور کچھ متعلقہ باتیں باقی رہ گئی ہیں۔ اس لئے حذف و اضافے کی ضرورت پڑتی ہے جو صرف نظر ثانی کے ذریعے ہی پوری ہو سکتی ہے۔

2۔ بہتر ترتیب:

حذف و اضافہ کا نتیجہ اصل میں ترتیب نو ہوتا ہے۔ ترتیب ایسی منطقی ہونی چاہئے کہ ایک باب دوسرے باب سے زنجیر کی کڑیوں کی طرح منسلک ہو۔

3۔ حوالوں کی تصحیح:

بعض اوقات حوالوں کو لکھتے وقت محقق سے کچھ غلطیاں ہو جاتی ہیں، مثلاً:

i۔ مؤلفین اور کتب کے ناموں کے اندراج میں رد و بدل ہو جاتا ہے۔ نظر ثانی کرتے وقت اس نوعیت کی غلطیوں کا پتہ چل جاتا ہے۔

ii۔ حوالوں کے اندراج میں تکرار واقع ہو جاتا ہے ۔ وہ اس طرح کہ جب کوئی حوالہ پہلی بار درج کرنا ہو تو اسکی پوری تفصیل دینا ہوتی ہے ۔ یہی حوالہ جب دوبارہ دینا ہو تو مختصراً دینا ہوتا ہے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کی جملہ تفصیلات دوبارہ درج ہو جاتی ہیں ۔ ایسے تکرار کو صرف نظر ثانی اور دہرانے کے عمل سے دور کیا جا سکتا ہے ۔

جملوں کی ساخت اور زبان کی بہتری

نظر ثانی کے ذریعے مقالہ کے جملوں کی ساخت اور اس کی زبان میں بہتری پیدا کی جا سکتی ہے ۔ پہلی تسوید میں تو ساری توجہ خیالات کو کاغذ پر منتقل کرنے اور سلسلہ وار جمانے میں صرف کی جاتی ہے۔ انشا کی طرف اس قدر توجہ نہیں کی جاتی ۔ دہرانے کے عمل سے زبان و بیان کو چمکانا اور نکھارنا ہوتا ہے ۔

علاوہ ازیں! نظر ثانی کےدوران درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے:

i۔ اگر کوئی ایسی بات درج ہو گئی ہو جو اختلاف کا موجب بن سکتی ہے تو اسے نظر انداز کر دینا چاہئے۔

ii۔ نظر ثانی کے دوران اگر کوئی تحقیق طلب پہلو سامنے آجائے تو اس پر تحقیق کی جائے۔

iii۔ نظر ثانی کے عمل میں صبر و تحمل سے کام لیا جائے ۔ جلد بازی سے کام لے کر اپنی تحقیق کی قدرو قیمت کم نہ کی جائے۔

عمدہ کتابت اور جلد بندی

مقالے کی عمدہ کتابت ٹائپ اور جلد بندی اس کے معیاری ہونے کا ثبوت ہوتا ہے۔ اگر مقالہ کا مواد بہت قیمتی اور عمدہ ہو لیکن کتابت یا ٹائپ اور جلد بندی اچھی نہ ہو تو وہ مقالہ معیاری نہیں کہلا سکتا اور نہ اس سے انسان متاثر ہو سکتا ہے۔

مقالے کی ہیئت

ماہرین کے نزدیک معیاری مقالہ اسے کہا جاتا جس کی ہیت درج ذیل اجزاء پر مشتمل ہو:

۱۔ سروق:

مقالے کی ابتداء سرورق سے ہوتی ہے۔ اس پر درج ذیل باتوں کا لکھنا ضروری ہے:

۱۔ مقالہ کا عنوان

۲۔ مقالہ نگار کانام ، ولدیت، بمعہ مکمل پوسٹل ایڈریس

۳۔ قیادت مجلس ، حلقہ کانام

۴۔ مقالے کے کل الفاظ کی تعداد

۵۔ صدر مجلس / امیر ضلع کے دستخط

۲۔ ہدیہ تشکر:

اس صفحہ پر مقالہ نگاران افراد اور اداروں کا شکریہ ادا کرے جنہوں نے مقالہ کی تیاری میں اس کی کسی بھی نوعیت کی مدد کی ہوتی ہے ۔ شکریہ مدد کرتے وقت مبالغہ اور چاپلوسی سے اجتناب کیا جائے۔

۳۔ فہرست مضامین :

کلمات تشکر کے صفحے کے بعد مقالے کے مضامین (مشمولات) کی فہرست دی جاتی ہے۔ دیباچہ / تمہید / مقدمہ / پیش لفظ۔ مقدمہ پر مشتمل صفحات پر نمبر دو طرح سے لگائے جا سکتے ہیں۔ ایک حروف تہجی کے اعتبار سے اور دوسرے اعداد کے اعتبار سے۔

۴۔ ابواب:

مقدمہ کے بعد اصلی موضوع شروع ہو جاتا ہے: موضوع کو عام طور پرابواب ، فصول، مباحث ، یا صرف فصول اور مباحث میں بانٹ دیا جاتا ہے۔

۵۔ ملحقات اور ضمیمے:

مقالہ سے متعلقہ مواد لکھتے وقت کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اہم تو ہوتی ہیں مگر انہیں متن میں ذکر کرنا مناسب نہیں رہتا۔ ایسی باتوں کو مقالہ میں ملحقات یا ضمیموں کے طور پر شامل مقالہ کر دیا جاتا ہے۔

۶۔ مصادرو مراجع کی فہرست:

یہ کسی بھی تحقیقی مقالے کی ہئیت کا آخری حصہ ہوتا ہے۔ مصادرومراجع کی فہرست کی بجائے کچھ محققین کتابیات (Bibliography) لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔

(درثمین خان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 ستمبر 2020