• 29 اپریل, 2024

خَیْرُالْجَلِیْسِ فِی الزَّمَانِ کِتَاب

(قسط اول)

اپنے اداریہ کےعنوان کا چناؤ کرنے کے لئے خاصی مشکل کا سامنا ہے کیونکہ مجھے آج اپنے ایسے وفادار ساتھی، ہم نشین، قابلِ قدر رہنما ،معلم اور مربی کا ذکر کرنا ہے جو ’’کتاب‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ کتب سے محبت علم اور ترقی کی ضمانت ہے۔ میں نے مشہور عربی شاعر متنبی کے مصرعہ کو اپنے اداریہ کا عنوان دے کر بہت سےکتب خانوں کے مالکوں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے اور آج کے دَور میں کتاب سے دوری اور کتب بینی سے عدم لگاؤ کی وجہ سے کتاب بینی سے محبت کو اُجاگر کرنا مقصود ہے۔

اس مصرعہ کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’فی زمانہ بہترین ساتھی کتاب ہے‘‘ علم دوست احباب نے کتاب کو اچھے ہم نشین و رفیق و ساتھی، بہت اچھی مونس وغم خوار، ہمدم و شریک، سیرگاہ، علم سے بھرا خزانہ اور دانشمندی سے بھرا ہوا ظروف قرار دیا ہے۔

کسی عرب کا قول ہے کہ ’’میں نے چالیس برس اس طرح بسر کیے کہ میں نہ کبھی رات میں سویا نہ میں نے کبھی دوپہر کو آرام کیا نہ کبھی ٹیک لگائی مگر کتاب میرے سینے پر اورگود میں رہی۔‘‘

(اسلامی کتب خانے از محمد عبدالحلیم چشتی صفحہ 222)

مشہور شاعر آتش نے کہا کہ

؏ سینہ مرا کتاب ہے علم الکلام کی

اس سے مراد یہ ہے کہ میں اس قدر مطالعہ کرتا ہوں کہ ہر وقت علم الکلام کی کتاب میرے سینہ پر رہتی ہےیا سینے سے مراد علوم بھی ہیں جیسے رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِی (طہ:26) کی دعا سکھلائی گئی کہ اے اللہ !میرا سینہ کھول دے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں نے اس قدر مطالعہ کتب کیا ہے کہ سینہ کے اندر بے شمار اور انگنت کتب ہیں کہ اب وہ سینہ علوم کی کتاب ہی لگتا ہے۔

عربوں میں کتب سے محبت

عرب بھی کتابوں کا ذکر بڑی محبت اور عزت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ آنحضورﷺ کے دور مبارک میں ہی قرآن کریم کو جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا اور آپؐ کی وفات کے بعد احادیث کی تدوین کا کام شروع ہو گیا تھا اور چھوٹے چھوٹے اور بعض بڑے ذخیرے اکٹھےہو گئے تھے یا جلدوں میں محفوظ ہوچکے تھے اور صحابہ وتابعین ان کو بڑے پیار کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ پڑھا کرتے تھے بلکہ صرف دیکھنے کے لئے سینکڑوں میل کا سفر بھی طےکرتے رہے۔

عرب ،کتب کو اپنا وفادار ساتھی اور رہنما تصور کرتےاور کتب کا تذکرہ شفیق بھائی یا دوست کی محبت کے تذکرے کی طرح کرتے۔

تاریخ اسلام نے ایک دلچسپ واقعہ محفوظ کیا ہے کہ کسی خلیفہ نے ایک عالم کو ایک دن شام کوگفتگو کے لئے بلوا بھیجا۔ عالم نے جواب بھجوایا کہ اس وقت میرے پاس کئی حکماء بیٹھے ہوئے ہیں اور میں ان سے مصروف گفتگو ہوں۔ فارغ ہوکر آتا ہوں۔اس وقت ان کے اردگرد کتب کا انبار لگا ہوا تھا اور وہ مطالعہ میں مصروف تھے۔ جن کو انہوں نے حکماء سے تشبیہ دی۔

(کتب خانے از محمد شفیق قیصر صفحہ 73-74)

ابتدائی مسلم معاشرے میں کتب کی عظمت، اہمیت اور افادیت بہت زیادہ رہی ہے۔ بادشاہوں اور حکمرانوں نے بہت بڑے بڑے کتب خانے بنوائے جہاں رعایا کتب پڑھنے آیا کرتی تھی۔کتب لکھنے اور تیار کرنے کے لئے رعایا میں حوصلہ افزائی کے لئے انعامات تقسیم کئے جاتےتھے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے علوم کے موجد اور بانی مبانی مسلمان سائنس دان اور دانشور رہے ہیں۔

  • جرجی زیدان لکھتے ہیں کہ

’’مسلمانوں نے اس وقت کے تمام علوم و فنون ،فلسفہ ، طب، نجوم، ریاضی، ادب، تاریخ وغیرہ وغیرہ جو تمام اقوام عالم میں رائج تھے اپنی زبان میں لے لیا اور امم متمدنہ میں سے کسی کو نہ چھوڑا جس کی زبان سے عربی میں کتابیں نہ ترجمہ کی ہو…. مسلمانوں نے تمام علمی ذخیرہ صرف ڈیڑھ صدی میں جمع کر لیا تھا ۔‘‘

(علوم عرب اردو ترجمہ اسلم جیراجپوری مطبوعہ علی گڑھ 1907 ء۔از کتب خانے از محمد شفیق قیصر صفحہ 49-50)

  • مسلمانوں نے اپنی علم دوستی کی بدولت عربی زبان کو اس قدر متمول بنا دیا کہ لیبان کو یہ کہنا پڑا کہ

’’یورپ کی یونیورسٹیاں 600 برس تک عربی کتابوں کے ترجمہ پر زندہ رہیں۔‘‘

(العلم و العلماء اردو ترجمہ عبدالرزاق ملیح آبادی، ندوۃ المصنفین دہلی صفحہ 27)

  • ایک ہندو فاضل ڈاکٹر سر پی رائے نے بیان کیا کہ

’’اگرچہ میں خود مسلمان نہیں ہوں لیکن اسلام نے علوم و فنون کے میدان میں جو بازی جیتی ہے اس کو سوچتا ہوں تو میرا ایشیائی دل فخر و مسرت سےبدل جاتا ہے۔‘‘

(اسلامی تہذیب اور قومی تعلیم از سرپی رائے جامعہ دہلی صفحہ 1924ء)

  • عہد عباسی کے روح رواں خلیفہ مامون نے اپنے دور میں کتاب کی عظمت و اہمیت اور افادیت کو رعایا میں عام کیا۔ کثرت سے کتب خانے تعمیر کروائے۔ وہ کتاب کے حوالے سے لکھتا ہے:

’’نفس انسانی کو کتاب سے بڑھ کر کوئی چیز فضیلت دینے والی نہیں اور نہ اس سے زیادہ کوئی چیز انسان کے سینہ کو کھولنے والی ہے نہ اس سے بڑھ کر کوئی شے باعثِ فخر ہے نہ اس سے زیادہ دل و دماغ کو روشن کرنے والی کوئی اور شے ہے نہ اس سے بڑھ کر کوئی چیز زبان کو کھولنے والی ہے نہ اس سے مضبوط ترین کوئی ڈھال ہے نہ اس سے زیادہ موافقت کرنے والی کوئی چیز ہے نہ اس سےکمتر مخالفت کرنے والی کوئی چیز ہے وہ بلیغ ترین اشارہ ہے اور سب سے زیادہ مواد کو واضح کرنے والی چیز کتاب ہے۔

اس کا فائدہ بہت ہے یہ زیادہ گرانبار نہیں اس میں فساد کچھ نہیں اس کا انجام قابلِ تعریف ہے، کتاب ایسی بیان سرا اور داستان گو ہے جو کبھی ملول نہیں ہوتی اور ایسی ساتھی ہے جو کبھی نادار ومفلس نہیں ہوتی اور ایسی ہم نشین شے ہے جو تم سے کبھی گریز نہیں کرتی۔ یہ گزرے ہوئے دانشوروں کی دانش کی، حکمتوں کی اور گزشتہ اقوام کے کارناموں کی ترجمان ہے، یہ ان چیزوں کو زندہ کرتی اور حیات تازہ بخشتی ہے جنہیں نصیبہ مٹا دیتا ہے، زمانہ پوشیدہ کردیتا ہے جن باتوں کو غباوت ڈھانپتی ہے یہ ان کو ظاہر کرتی ہےثقہ جب ان سے قطع تعلق کرتا ہے یہ اس سے تعلق نہیں توڑتی ہے، بادشاہ بھی اس کے ساتھ خیانت کرتے ہیں توبھی یہ اس سے رشتہ قائم رکھتی ہے، ہر کلمہ اُس کی تعریف میں بہت سے معانی کا جامع ہے کیا اس سے بھی زیادہ کوئی عجیب تر بات ہو گی جو تم دیکھتے ہو کہ عرب بھی کتاب کے اثر کو قبول کرتے ہیں اور کتاب نے ان کی زندگی میں بہت ہی بڑا انقلاب پیدا کیا ہے۔‘‘

(اسلامی کتب خانے از محمد عبدالحلیم چشتی صفحہ 219-220)

  • عہد عباسی کا نامور ادیب عمرو بن بحر جاحظ کہتا ہے:

’’کتاب بہت اچھی ہم نشین و رفیق، بہترین افسوںو سیرگاہ، تنہائی کے وقت میں بہت اچھی مونس و غمخوار، پردیس میں معرفت کا بہت اچھا وسیلہ، بہت اچھی ہمدم و شریک ہے۔ کتاب علم سے بھرا ہوا خزانہ اور دانشمندی سے بھرا ہوا ظرف ہے۔

ایسا کون سا غم خوارومونس ہےجو تمہارے سونے کے ساتھ سوتا اور جوتمہاری چاہت کے ساتھ بولتا ہو،زمین سے زیادہ مامون و محفوظ اور راز کو رازداروں سے بھی زیادہ پوشیدہ رکھنے والا ،امینوں سے بھی زیادہ امانت کی حفاظت کرنے والا ہو (وہ کتاب ہے) اس کا نیا پن پرانا نہیں ہوتا اور اس کے جڑوں اور قوتوں سے انتشارو جدائی نہیں ہوتی۔‘‘

(اسلامی کتب خانے از محمد عبدالحلیم چشتی صفحہ 220)

علی بن الجہم کا بیان ہے کہ
’’جب کبھی مجھے سونے کے وقت کے علاوہ نیند آئی، حاجت سے زیادہ نیند بہت ہی بُری ہے تو میں نے حکمت کی کتابوں میں سے کسی کتاب کو پڑھنے کے لیے اٹھایا پھر دورانِ مطالعہ فوائدِ علمی سے طبیعت میں مسرت کی لہریں دوڑ گئیں اور کام کی باتوں کے مل جانے سے بڑی خوشی ہوئی۔استفادہ کی مسرت قلب و دماغ پر چھاگئی۔‘‘

کتب کے حوالہ سے دیگر آراء

  • کتاب سے زیادہ نیک سلوک پڑوسی نہیں، اس سے زیادہ منصف ساتھی نہیں، اس سے بڑھ کر فرمانبردار رفیق نہیں، اس سے زیادہ منکسر مزاج استاد نہیں ،اس سے زیادہ کام کا ساتھی نہیں۔ میرے علم میں ایسا کوئی درخت نہیں جو کتاب سے زیادہ طویل العمر ،اس سے زیادہ کارآمد، اس سے زیادہ پاکیزہ پھل دینے والا، اس سے پہلے ثمردینے والا ،اس سے جلد پکنے والا اور ہر موسم میں اس سے زیادہ پایا جانے والا ہو۔
  • کتاب اپنے سبک بار اور چھوٹی جسامت کے باوجود جس وقت اس کو تم چپ کرنا چاہو چپ ہو جاتی ہے اور جب تم بلوانا چاہو تو بولتی ہے، کون تمہارا ایسا ملاقاتی بن سکتا ہے جس کی ملاقات تم چاہو تو ایک دن چھوڑایک دن کرو اور چاہو تو پانچویں دن کرو، اگر تم چاہو تو تمہارے سایہ کی طرح تم سے جدا نہ ہو اور تمہارے ساتھ تمہارے جز اور عضو کی طرح رہے۔
  • کتاب وہ ہے کہ اگر تم اس پر نظر ڈالو گے تو خوب نفع پہنچائے گی، تمہاری طبیعت میں تیزی، تمہاری زبان میں روانی پیدا کرے گی، تمہارے بیان کو بہتر بنائے گی، تمہارے الفاظ کو شوکت بخشے گی، تمہارے جی کو خوش کرے گی، تمہارے سینہ کو علم سے آباد رکھے گی، تمہیں عوام کی تعظیم اور بادشاہوں کی دوستی سے سرفرازکرے گی، نادان کا بوجھ برداشت کیے بغیر، طلب کی مشقت اٹھائے بغیراور کسی اجرت پر پڑھانے والے کے دروازے پر ٹھہرے بغیر،تم جس سے اخلاق کے اعتبار سے افضل اور نسب کے لحاظ سے برتر ہو، ان کے آگے زانوئے تلمذ طے کئے بغیر، حاسدوں کی صحبت سے بچتے ہوئے اور دولت مندوں کی ہم نشینی سے محفوظ رہتے ہوئے کتاب سے ایک مہینے میں وہ حاصل کرو گے جسے لوگوں کی زبان سے ایک زمانہ تک حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ کتاب ہی ایسی چیز ہے کہ رات میں بھی وہ تمہاری اطاعت و فرمانبرداری ایسی کرے گی جیسی اس نے اس دن میں کی ہے۔ پردیس میں بھی وہ تمہاری ایسی مطیع رہے گی جیسی وہ دیس میں مطیع رہی ہے، وہ نیند سے بیمار نہیں ہوتی اور بیداری کی سستی اسے لاحق نہیں ہوتی ہے، کتاب ایسی معلم ہے کہ اگر تمہیں اس کی طرف احتیاج ہو تو وہ تمہارے ساتھ بدعہدی نہیں کرے گی اور اگر تم اس سے پوچھنا چھوڑ دو تو وہ تم سے فائدہ کی راہ منقطع نہیں کرتی اگر تم اس سے کنارہ کشی اختیار کرو تو وہ تمہاری اطاعت سے منہ نہیں موڑے گی اور اگر تمہارے دشمنوں کا زور چلے تو وہ تمہارے خلاف نہیں ہوگی، جب تک تمہارا اس کے ساتھ ادنیٰ سا بھی تعلق قائم رہے گا۔ تنہائی کی وحشت میں بھی تمہیں بُرے ساتھی سے ملنے پر مجبور نہیں کرے گی۔
  • کسی نے کتاب کے حوالہ سے کہا ہے :

’’کتاب کیسی ہی کیوں نہ ہو انسان ضرور کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے۔ اگر کچھ نہیں تو کتاب پر توجہ مرکوز کرنا ہی آجاتا ہے ۔ کتاب سے اگر محبت پیدا ہوجائے توعلم سے محبت پیدا ہوجاتی ہے اور علم سے محبت خدا کے فضل کے ساتھ مل جائے تو لازماً عمل پر منتج ہوتی ہے۔‘‘

کتب بینی کا شوق

کتب بینی کا شوق و ذوق عرب و عجم دونوں میں یکساں طور پر پایا جاتا تھا اس کا کچھ ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ آج کتب بینی اور کتب ذخیرہ کرنے پر جو یتیمی کا دور گزر رہا ہے۔ اس میں اپنے قارئین کو کتب بینی کی طرف مزید توجہ اور کتب بینی کو مرغوب بنانے کے لئے چند حوالے مزید پیش ہیں کہ کس طرح پُرانے لوگ کتب ذخیرہ کرتے۔ کس حد تک مال خرچ کرتے اور کس طرح مطالعہ کرتے۔ بعض نے تو کتب سے ہی شادی کر رکھی تھی۔ بعض ادب کی کتب bathroom میں ساتھ لے جاتے اوروہاں وقت ضائع کئے بغیر ان کا مطالعہ رکھتے اور بعض کسی سے گفتگو کے دوران اپنے ہاتھ میں موجود کتاب پر جستہ جستہ نظر ڈال لیا کرتے تھے۔

  • علامہ جاحظ نامورادیب تو کتابوں کے اس حد تک شیدائی تھے کہ کتب فروشوں کی دکانوں پر کرایہ دے کر بیٹھتے اور کتب کا مطالعہ کرتے۔ بلکہ ان کی موت بھی مطالعہ کرتے کتب کی دیوار گرنے سے ان کے نیچے دب کر ہوئی۔

(الفہرست لابن ندیم صفحہ 169 از کتب خانے محمد شفیق قیصر صفحہ 76)

  • امام ابن شہاب زہری کو مطالعہ کتب میں اس قدر استغراق تھا کہ دنیوی کاموں کو چھوڑ کر شب وروز کتابوں کا ڈھیر لگائے رہتے تھے۔ ایک دن ان کی بیوی نے تنگ آکر کہا:

وَاللّٰہِ ھٰذہٖ اَشَدُّ عَلَیَّ مِنْ ثَلَاثَۃِ الضَّرَائِرُ

یعنی بخدا یہ کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے بھاری ہیں۔

(تاریخ ابوالفداء جلد1 صفحہ 204)

  • ابوالسعید السکری جنہوں نے کتابوں کا ایک ذخیرہ جمع کر رکھا تھا۔ ان کے متعلق یاقوت الحمودی لکھتے ہیں کہ:

’’انہیں مطالعہ کتب میں اس قدر انہماک تھا کہ لوگوں سے ملاقات کے وقت بھی کتاب ان کے ہاتھوں سے نہیں چھوٹتی تھی۔‘‘

(معجم الادباء جلد2 صفحہ 134)

  • ایک مرتبہ امیر نوح بن منصور سامانی والئی خراسان نے صعب اسمعیل بن عباد کو وزارت کے لیے طلب کیا ۔ مگر انہوں نےکئی عذر پیش کیے۔ منجملہ ان کے ایک عذر یہ بھی تھا کہ میرے پاس اتنا بڑا کتب خانہ ہے جو چار سو اونٹوں پر لایا جاتا ہے اور اتنا بوجھ اٹھوا کر میں وہاں آنے سے قاصرہوں۔

(معجم الادباء جلد 2 صفحہ 315)

  • یمن کے فرمانروا داؤد بن یوسف الترکمانی کے کتب خانے میں ایک لاکھ کتابیں تھیں۔ امیر محمود الدولہ ابو الوفاء المبشر بن فاتک مصر کے امراء میں سے تھا۔ اس نے کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع کیا تھا۔ ان میں سے اکثر ابن ابی اصیبعہ کے زمانہ تک موجود تھیں۔

(طبقات الاطباء صفحہ99)

اس ضمن میں یہ امر نہ بھولیے کہ یہ وہ وقت تھا کہ جب صنعت کاغذ سازی اور فن طباعت کو ترقی نہ ہوئی تھی۔ طباعت و اشاعت اور رسل و رسائل کی سہولتیں ناپید تھیں۔ کتابیں کمیاب اور نایاب تھیں اور ان کے حصول کے لیے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہوتی تھی۔

ابن المقری نے اپنی فضالہ کے ایک نسخہ کی خاطر ستر منزل یعنی 840 میل سفر کیا تھا۔

(علمائے سلف، از حبیب الرحمٰن خان شروانی صفحہ 18)

کتاب /اخبار خرید کر پڑھنا

جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں کہ مسلمان بادشاہ اپنی رعایا کو نہ صرف کتب بینی کی ترغیب دلاتے بلکہ مختلف علوم و فنون پر کتب لکھنے والوں میں انعامات تقسیم کرکے ترغیب و تحریص دیتے تھےوہاں بازاراور مارکیٹوں سے کتب خرید کر اپنے گھروں میں لائبریریاں بنانے اورمطالعہ کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے۔

ابتدائے اسلام میں مسلمان علماء خود کتب خریدتے، انہیں پڑھتے، نوٹس لیتے اور اپنے کتب خانے کا حصہ بنا دیتے۔ مسلمانوں میں مختلف علوم عروج کو چھونے کے بعد جب زوال پذیر ہوئےتو عیسائی دنیا نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اب تمام علوم کی آماجگاہ مغربی دنیا بن چکی ہے۔ میں نے بارہا دیکھا ہے کہ یہ قوم اپنی رقوم سے اخبار، رسائل اور کتب خریدتی ہے۔ ریل اور بسوں میں وہ اپنا اخبار خرید کر پڑھتے اور جاتے ہوئے اپنی سیٹ پر چھوڑ جاتے ہیں ۔نیا آنے والا مسافر اس اخبار یا رسالہ کو لے کر پڑھنا شروع نہیں کرتا بلکہ اس کے ہاتھ میں اپنا اخبار، ناول یا کتاب ہوتی ہے جو فوراً وقت ضائع کئے بغیر اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہی اسے پڑھنا شروع کر دے گا اور مطالعہ کے impressions اس کے چہرے سے عیاں ہوتے چلے جاتے ہیں۔

(باقی آئندہ ان شاء اللہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 ستمبر 2020