• 28 اپریل, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں

(قسط دوم)

علاقہ کے ایک اور اخبار The Xenia Daily Gazette نے اپنی اشاعت 6؍اکتوبر 1991ء صفحہ 5 پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی طرف سے آمدہ ہدایات اور گلف کرائسس کا حل شائع کی ہیں۔

اسی طرح ڈیٹن کے نواحی علاقہ میں ایک اخبار The Kettering-Ookwood Times نے 10؍اکتوبر 1990ء کی اشاعت میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہدایات کو خط کی صورت میں شائع کیا ہے جو کہ مربی صاحب کی طرف سے ہے۔

ڈیٹن ڈیلی نیوز کی 9؍اکتوبر 1990ء کی اشاعت کے 7-A پر مربی صاحب کا ایک خط شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے:

An Islamic Solution To The Middle East Crisis

اس خط میں بھی مربی صاحب نے حضور رحمہ اللہ کی ہدایت کے مطابق اسلامی تعلیمات بیان کیں۔

انہی دنوں سعودیہ حکومت نے اپنے ایک اعلامیہ میں کہا کہ انہوں نے سعودی عرب میں عورتوں پر گاڑی چلانے کی پابندی عائد کی ہے۔

مربی صاحب نے یہ خبربی بی سی پر سنی تو فوری طور پر ڈیٹن کے علاقہ میں اخبارات اور TVمیں اپنا بیان دیاکہ اسلام اس قسم کی کوئی تعلیم نہیں دیتا۔ چونکہ یہ اعلان سعودی حکومت کی طرف سے ہے اس لئے یورپ اور دیگر ممالک یہ خیال کریں گے کہ یہ اسلام کی تعلیم ہے تو میں بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام عورت کو اس حق سے محروم نہیں کرتا۔ بعض صورتیں ایسی آسکتی ہیں کہ ناگزیز حالات کی وجہ سے عورت کو گاڑی چلانی پڑ جاتی ہے تو وہ چلا سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے مربی صاحب کا یہ بیان TV اور اخبارات میں شائع ہوا۔ چنانچہ ڈیٹن ڈیلی نیوز کی 16؍نومبر 1990ء کی اشاعت صفحہ 5-A پر بڑی جلی حروف میں اس عنوان کے تحت خبر شائع ہوئی جس میں خاکسار کا انٹرویو بھی تھا۔ خبر کا حوالہ کہ سعودی عرب میں عورتوں پر گاڑی چلانے کی پابندی ہوتی ہے لاس اینجلس ٹائمز کا حوالہ سے تھی اور سٹاف رائٹرEdwina Black Well Clark نے یہ خبر بنائی۔

ڈیٹن کے ساتھ ایک اور بڑے اخبار ’’سنسناٹی پوسٹ‘‘ نے اپنی 25؍دسمبر جو کہ کرسمس کا ایڈیشن تھا میں ’’کارمن کارٹر‘‘ پوسٹ سٹاف رائٹر نے خاکسار کا انٹرویو اسلامی تعلیمات کے بارے میں شائع کیا جس میں بتایا کہ اسلام کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں مثلاً جہاد کا نظریہ اور حضرت عیسیٰ کی حیات و وفات کے بارے میں اور کرسمس کے تہوار کو منانے کے بارے میں مربی صاحب کی گذارشات کو شائع کیا گیا۔ یہ نصف صفحہ سے زائد پر ہے۔ اور ڈیٹن ڈیلی نیوز کی 7؍دسمبر 1990ء میں صفحہ 8-Aپر ہماری خبر ہے کہ لوکل مسلم لیڈر کہتا ہے کہ امریکہ کو گلف سے نکل جانا چاہیئے۔ یہ اس کا کام نہیں ہے۔ مسلمان مل کر اس مسئلے کا حل نکالیں۔ مربی صاحب کا انٹرویو شائع ہوا ہے۔

ہیوبرہائٹس کوریر:ایک اور علاقہ کے اخبار نے اپنی اشاعت 16؍جنوری 1991ء میں مربی صاحب کا انٹرویو شائع ہوا ہے کہ لوکل مسلم کمیونٹی مڈل ایسٹ کے بارہ میں بہت زیادہ تشویش رکھتی ہے۔ اور مربی صاحب کا انٹرویو شائع ہوا ہے کہ حالات کی خرابی میں زیادہ بڑا ہاتھ اسرائیل کا ہے۔ اور اسرائیل کو ہی اس کا فائدہ ہوگا اس لئے مسلم ممالک خود مل کر اسلامی طور پر اس کا حل نکالیں۔

فیئربورن ڈیلی ہیرلڈ نے 14؍جنوری 1991ء کی اشاعت میں مربی صاحب کا انٹرویو شائع کیا کہ جس میں مربی صاحب نےبتایا کہ اسلام Aggression کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ کسی کی زمین یا ملک یا علاقے پر جابرانہ قبضہ کیا جائے۔ اور یہ کہ مسلم ممالک خود مل کر مڈل ایسٹ میں امن قائم کریں اور غیر ملکی فوجوں کا یہاں سے انخلاء ہونا چاہیئے۔

کلیولینڈ کے لوکل اخبار نے بھی مربی صاحب کا یہی انٹرویو شائع کیا۔ جو بیڈفورڈ ٹائمز کی 3؍جنوری 1991ء کی اشاعت میں ہے۔

پنسلوینیا کے اخبار ’’یارک ڈسپیچ‘‘ نے اپنی 23؍جنوری 1991ء کی اشاعت میں اس عنوان سے ایک خبر دی کہ ’’یارک پولیس مسلمانوں کی مسجد کی حفاظت کرے گی۔‘‘ اس خبر میں مربی صاحب کے اس شہر یعنی یارک میں وزٹ کرنے، خطبہ جمعہ کے اس بیان کو خبر کا حصہ بنایا کہ ’’احمدیہ مسلم مشنری نے مسجد یارک کا وزٹ کیا ہے اوراپنے خطبہ جمعہ میں بتایا کہ عراق اور کویت اور جو کچھ وہاں ہو رہا ہے اس کو ’’ہولی وار‘‘ نہیں سمجھتی۔ یہ جنگ اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف اور برعکس ہے۔ اسلام کا تو مطلب ہی ’’امن‘‘ ہے اس کا مطلب نہیں کہ ’’قبرستان میں امن ہوگا۔‘‘

اس خبر کی وجہ یہ بنی کہ بعض شرپسند عیسائیوں میں ملک کے اندر مڈل ایسٹ میں حالات کی خرابی کی وجہ سے مساجد کو گرانے یا اُن پر حملہ کی خبر گردش کر رہی تھی۔ اس خبر میں ایک اور احمدی برادر سلیم مہیمن کا بیان بھی شامل ہے۔

یارک ڈیلی ریکارڈ

یارک ڈیلی ریکارڈ بھی پنسلوینیا کے شہر کا ایک بڑا اخبار ہے اس کی 19 جنوری 1991ء کی اشاعت صفحہ 10A پر ہماری اچھی بھلی خبر شائع ہوئی تصویر کےساتھ جس میں جماعت کے لوگ بیٹھے خطبہ سن رہے ہیں۔

اس کی ہیڈ لائن یہ ہے کہ ’’Local Muslims praying for peace‘‘ یعنی لوکل مسلمان امن کے لئے دعا کر رہے ہیں۔ اخبار نے گلف کے حوالہ سے خبر دی اور مربی صاحب کے خطبہ جمعہ کا حوالہ دیا کہ ہمیں امن قائم کرنا چاہئے اور یہی اسلام کی تعلیم بھی ہے۔ ہمارا خداتعالیٰ سے تعلق ہے ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں۔ اگر ہم نے فتح پانی ہے تو ہمیں یہ فتح محبت کے ساتھ حاصل کر نی چاہئے نہ کہ جنگ کرنے سے۔ اس وقت خالد خان صاحب یہاں کے صدر جماعت تھے ان کا بیان اور برادر سلیم مہیمن صاحب کا بیان بھی اس خبر میں شامل ہے۔ تصویر میں ناموں کے ساتھ اخبار نے یہ لکھا کہ آج کا پیغام یہ ہے کہ ’’محبت سب کے لئےنفرت کسی سے نہیں‘‘

یو ایس اے ٹوڈے(USA Today)

یہ امریکہ کا انٹرنیشنل اخبار ہے بہت اشاعت ہے اس کی اور باہر کے ممالک میں بھی پڑھا جاتا ہے۔ گلف کرائسس کے ابتدائی دنوں ہی میں ایک دن مربی صاحب نے شام کے وقت خبر پڑھی کہ اس اخبار نے لوگوں سے جنگ کے بارے میں رائے لی ہے اور جو بھی رائے دے گا اسے شائع کیا جائے گا۔ مربی صاحب ان دنوں کچھ عرصہ کے لئے واشنگٹن مسجد فضل میں ڈیوٹی سرانجام دے رہےتھے۔ مربی صاحب نے اسی وقت شام کو ہی اخبار والوں سے رابطہ کیا اور اپنا پیغام ریکارڈ کروا دیا۔ یہ جیسا کہ میں نے کہا ہے امریکہ کا لیڈنگ اخبار ہے چنانچہ اخبار نے اپنی 11 جنوری 1991ء کی اشاعت کے صفحہ 13A پر سب سے اوپر مربی صاحب کا بیان شائع کیا اور دوسروں کے بیانات بعد میں نیچے۔ مربی صاحب نے دراصل ایک حدیث نبوی ﷺ بیان کر کے بتایا اور وہ یہ تھا کہ امریکہ سپرپاور ہے اسے باقیوں کی نسبت زیادہ صبر اور تحمل دکھانا چاہئے۔ کیونکہ بہادر وہ نہیں جو کشتی میں دوسرے کو پچھاڑ دے اصل بہادری غصہ کو کنڑول کرنا ہے۔ اگر اس وقت صبر کا مظاہرہ کیاجائے تو امن ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ (شمشاد ناصر واشنگٹن ڈی سی)

مربی صاحب کے بیان کے نیچے ایک اور امریکن کا بیان تھا کہ ہمیں عراق پر 24 گھنٹے بمباری کرنی چاہئے۔

دی سینٹر وِل ۔بیل بروک ٹائمز

علاقہ کا ایک اور اخبار جو دیگر مزید 3 شہروں میں جاتا ہے نے اپنی اشاعت27 مارچ 1991ء صفحہ 4A پر مربی صاحب کا ایک خط شائع کیا جس میں مربی صاحب نے مڈل ایسٹ میں جنگ کے خطرات اور بدنتائج 9 نقاط میں بیان کئے۔ یہ سب Points اور نقاط حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بیان فرمائے تھے۔

میامی ویلی سنڈے نیوز کی 17 مارچ 1991ء کی اشاعت صفحہ 5 پر مربی صاحب کا مندرجہ بالا خط شائع ہوا اس اخبار نے مربی صاحب کے خط کا سارا متن شائع کیا ہے اور 11 پوائنٹس بیان کئے گئے تھے۔ یہ اخبار Troy اوہایو سٹیٹ سے شائع ہوتا ہے۔

بیڈ فورڈ ٹائمز رجسٹر کی 21 مارچ 1991ء کی اشاعت صفحہ 4 پر مربی صاحب کا ایک اور خط مڈل ایسٹ (عراق) میں جنگ کے بارے میں شائع ہوا۔ اس خط کی ہیڈ لائن اخبار نے یہ لگائی

Muslim missionary says Israel benefits from war

مسلم مبلغ کہتا ہے کہ جنگ سے صرف اور صرف اسرائیل کو فائدہ پہنچے گا۔

ڈیٹن ڈیلی نیوز 9 مارچ 1991ء کی اشاعت صفحہ 4-6 پر مربی صاحب کا بیان شائع کرتا ہے کہ مڈویسٹ ریجنل مبلغ سید شمشاد احمد ناصر نے امریکہ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے کہ وہ مڈل ایسٹ میں حالات خراب کر کے اسرائیل کی مدد کرنا چاہتا ہے جو کہ درست نہیں ہے اگر ہم یہ دیکھیں کہ عراق نے کویت پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے تو پھر آپ اسرائیل کے بارے میں کیوں یہ نہیں کہتے کہ اس نے عربوں کی زمین پر یورپین سیکورٹی کونسل کی خلاف ورزی میں قبضہ کیا ہوا ہے۔ آپ عراق کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں مگر اسرائیل کو نہیں۔

زینیا ڈیلی گزٹ نے بھی 25 مارچ 1991ء صفحہ 4 پر مربی صاحب کا پورا خط شائع کیا ہے جس میں یہی نقاط دہرائے گئے ہیں جس میں امریکہ کی زیادتی اور اسرائیل کی طرف داری اور مڈل ایسٹ میں حالات خراب کرنے کی ذمہ داری امریکہ پرڈالی ہے۔

ہیوبر ہائٹس کوریر: 20 مارچ 1991ء میں مربی صاحب کا یہی خط شائع ہوا ہے اس کی ہیڈلائن اخبار نے یہ دی ہے کہ

Muslim missionary shares views on Gulf war situation.

کہ مسلمان مبلغ گلف وار کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔

فیئر بارن ڈیلی ہیرلڈ: اپنی اشاعت 15 مارچ 1991ء صفحہ 7 رمضان المبارک کی خبر دیتا ہے اور ہمارا نقطہ نظر بیان کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دو فوٹوز بھی شائع کرتا ہے۔ ایک فوٹو میں مربی صاحب جاپان کے منسٹر پبلک آفیسر Hon Hideaki Ueda کو جاپانی زبان میں قرآن کریم پیش کر رہےہیں۔ دوسری تصویر میں مربی صاحب انگریزی ترجمہ قرآن کریم مسٹر کرسٹوفر لیمب کو جو کہ آسٹریلیا کے ایمبیسی میں مذہبی امور کے نمائندہ کے طور پر کام کر رہے ہیں کو دیا۔ اخبار نے مزید لکھا کہ شمشاد یہاں ہمارے شہر میں اکثر اسلام کی تعلیم بیان کرنے کے لئے وزٹ کرتے رہتے ہیں۔

اسی طرح اس اخبار کی 6 اگست 1990ء کی ایک اشاعت میں صفحہ 9 پر اسسٹنٹ ایڈیٹر اخبار Kay Click نے مربی صاحب کاانٹرویو شائع کیا جس میں اس نے یہ ہیڈلائن دی ہے۔

Islamic Missionary bringing his message to fairbarn

کہ اسلامی مبلغ اپنا پیغام ہمارے شہر فیربارن میں لے کر آیا ہے اور اس نے بھی مربی صاحب کی ایک تصویر شائع کی جس میں مربی صاحب نے سیرالیون کے ایمبیسیڈر M.B. Carw کو اسلامی کتب کا تحفہ دیا۔مربی صاحب کے ساتھ ڈیٹن کے برادر بشیر احمد بھی ہیں۔

زینیا Xenia گزٹ: 22 جون 1991 کی اشاعت میں صفحہ61 پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی تصویر کے ساتھ ہمارے یہاں ڈیٹرائٹ کی یونیورسٹی میں جلسہ سالانہ کے انعقاد کی خبر (پریس ریلیز شائع کرتا ہے) جس میں حضورؒ کے بارے میں تعارف بھی ہے اورجلسہ میں شامل ہونے کی خبر بھی۔

اسی طرح پلین ڈیلر نے بھی مختصراً خبر جلسہ کی، مندرجہ بالا خبر 29 جون 1991ء صفحہ 4C پر دی ہے۔

بیڈفورڈسن بینر: 27 جون 1991ء صفحہ 6A پر جلسہ سالانہ کی خبر میں مربی صاحب کا انٹرویو شائع کرتا ہے یہ امریکہ کا 43 ویں جلسہ سالانہ کی خبر ہے۔ جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی جلسہ سالانہ میں شرکت کے بارے میں بھی ہے اور آخر میں حضرت مسیح موعودؑ اور جماعت کا تعارف بھی شائع ہوا ہے۔

بیڈفورڈ ٹائمز رجسٹر اپنی 27 جون 1991ء کی اشاعت صفحہ 10 پر اس عنوان سے مربی صاحب کا انٹرویو شائع کرتا ہے کہ :

Ahmadiyya Movement believes in Understanding

یہ انٹرویو میری بیتھ Mary Beth نے لیا تھا جس میں جماعت کا تفصیلی تعارف ہے اس انٹرویو میں دو تصاویر ہیں۔ ایک حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی اور آپ کے بارے میں معلومات اور دوسری کلیو لینڈ مسجد کی تصویر ہے۔ دراصل یہ انٹرویو بھی جلسہ سالانہ کے بارے میں ہے جو کہ ڈیٹرائٹ میں ہونا تھا۔ جس کا ذکر پچھلے صفحہ پر گزر چکا ہے۔

بیڈفورڈ ٹائمز رجسٹر: نے اپنی اشاعت 24 اکتوبر 1991ء میں کلیو لینڈ میں ہماری احمدیہ مسجد میں ایک انٹرفیتھ کے انعقاد پر خبر مع تصاویر شائع کی۔ اس وقت یہاں کے صدر مکرم ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب تھے۔

سڈنی ڈیلی نیوز : اپنی اشاعت 25 جون 1991ء صفحہ 8A پر امریکہ کے 43ویں جلسہ سالانہ کی مختصر خبر شائع کرتا ہے۔

فیربورن ڈیلی، ہیرلڈ: نے 27 جون 1991 صفحہ 6 پر ہمارے 43 ویں جلسہ کی خبر شائع کی۔ جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی تصویر کے ساتھ مربی صاحب کی بھی تصویر ہے۔ جس میں مشی گن ڈیٹرائٹ میں حضورؒ کی جلسہ میں شرکت کی آمد اور تعارف پر مبنی رپورٹ ہے۔

Call and Post: اخبار کا نام ہے جو کہ اوہایو سٹیٹ سے ایفرو امریکن کا اخبار ہے۔ اس نے اپنی 27 جون 1991ء کی اشاعت میں مربی صاحب کا انٹرویو امریکہ کے 43 ویں جلسہ سالانہ کے بارے میں اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی شرکت کے بارے میں دیا ہے۔

فجی سن: یہ اخبار کیلیفورنیا سٹیٹ سے نکلتا ہے۔ اس کے ایڈیٹر حنیف کویا صاحب ہیں۔ ان کے اخبار فروری 1992ء کی اشاعت میں ایک پورا مضمون مربی صاحب کے نام کےساتھ شائع ہوا ہے ’’مسلم خلیفہ نے انڈیا کے 25 ہزار پیروکاروں کو خطاب کیا۔‘‘ اخبار میں مربی صاحب کا یہ مضمون مع حضورؒ کی تصویر کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ اور حضورؒ کے خطاب کا خلاصہ بھی ہے۔

بیڈفورڈ سن بینر: 26 دسمبر 1991ء کی اشاعت صفحہ D1 پر کرسمس کے حوالہ سے مربی صاحب کا ایک انٹرویو شائع کرتا ہے۔ جس میں مربی صاحب نے قرآن اور بائبل سے ثابت کیا ہے کہ 25 دسمبر حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا دن نہیں ہے۔

اس وقت تک جتنی خبروں اوراخبارات کا تذکرہ ہوا ہے یہ کل اخبارات کاآٹھواں حصہ بھی نہیں ہےجن میں دیگر جماعتی خبریں شائع ہوئی ہیں۔

میری تقرری دسمبر 1987ء میں ڈیٹن میںہوئی تھی اور قریباً ساڑھے 4 سال یہاں پر کام کرنے کا موقع ملا۔ اور خداتعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے پریس اور میڈیا کے لحاظ سے بہت کامیابی عطا فرمائی اور ہمارے ہر فنکشن کی ہر تقریب کی خبر اخبارات میں شائع ہو جاتی تھی۔ اس کے علاوہ ٹی وی کے سارے لوکل چینل بھی ہماری خبریں دیتے تھے۔ بعض اوقات ہم تھک جاتے تھے خبر بنانے یا پریس ریلیز نکالنے میں، لیکن جب بھی خبر دی ہے وہ شائع ہوئی ہے۔ الحمد للہ ثم الحمدللہ ۔

ہیوسٹن

خاکسار ا س کے بعد ہیوسٹن آتا ہے اور یہ مارچ 1992ء کا سال ہے۔ یہاں پر مبلغ کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور اضافی خدمت یہ تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے یہاں کی جماعت کا صدر بھی مربی صاحب کو بنایا تھا۔ یہاں پر آتے ہی ذمہ داریوں کے ساتھ پریس کے ساتھ بھی رابطہ رکھا گیا۔ مکرم داؤد منیر احمد صاحب، مکرم بابر چوہدری صاحب ابن محمد یونس چوہدری صاحب نے خاص طور پر اس سلسلہ میں میرے ساتھ تعاون کیا۔ اصل میں خبر کی اہم بات یہ ہے کہ خبر وقت پر بنا کر اخبار کو دی جائے۔ یا پریس ریلیز وقت سے پہلے بنا کر اخبارات اور TV کو دیا جائے تاکہ انہیں وقت پر پہنچے اور شامل ہونے میں دقّت محسوس نہ ہو۔

مجھے اس بات کے کہنے میں بالکل عار محسوس نہیں ہوتی کہ امریکہ کی مختلف جماعتوں میں جہاں بھی مربی صاحب کو کام کرنے کا موقع ملا ہے اگر میں یہ کہوں کہ جماعت احمدیہ کی وجہ سے پریس اور میڈیا کو اسلام اور احمدیت کے بارے میں شعور ملا ہے تو اس میں کچھ مغالطہ اور مضائقہ نہ ہو گا۔ اس سے قبل مسلمانوں کی کوئی برانچ، کوئی گروہ بھی پریس کےساتھ رابطہ نہ رکھتا تھا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ جماعت احمدیہ کی اتنی خبریں آرہی ہیں تو انہوں نے بھی پریس کے ساتھ رابطہ کیا اور چونکہ مسلمانوں کے گروہوں کو مڈل ایسٹ اور دیگر حکومتوں سے پیسہ بھی ملتا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے بڑی بڑی عالیشان مساجد اور اپنے مراکز بنائے ہوئے ہیں۔ جس کی زندہ مثال حالیہ سعودی حکومت کا بھی بیان ہے کہ اب ہم یورپ وغیرہ میں لوکل ائمہ کو چارج دے رہے ہیں اور ہم انہیں کوئی فنڈنگ نہیں کریں گے وغیرہ۔ دو تین ماہ پہلے یہ خبر گردش میں رہی ہے۔ (جاری)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر ۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 ستمبر 2020