• 29 جون, 2025

ہستی باری تعالیٰ

تبرکات
ہستی باری تعالیٰ
(قسط نمبر4)

پانچویں دلیل

پانچویں دلیل ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت میں قرآن مجید ان لفظوں میں بیان فرماتا ہے۔ لَا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ (النمل:66) یعنی علمِ غیب ایک ایسا علم ہے جو دنیا میں کسی انسان کو معلوم نہیں اور آئندہ ہونے والے واقعات سے روئے زمین پر کوئی شخص واقف نہیں۔ اور واقعہ میں اگر انسان غور کرے تو اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ جو باتیں ابھی ظہور میں نہیں آئیں ان سے کوئی شخص آگاہ نہیں۔ اور انسان تو یہ بھی نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے والاہے اور پرسوں اس پر کونسی مصیبت پڑنے والی ہے۔ غرض آئندہ کا حال کوئی نہیں جانتا اور مستقبل کے واقعات کسی کو معلوم نہیں۔ لیکن باوجود اس کے پھر ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ جن راستبازوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور خدا کی طرف سے آ نے کے مدعی ہوئے۔ وہ بعض خبریں قبل از وقت دیتے رہے اور وہ واقعہ کے مطابق پوری بھی ہوتی رہیں۔ حالانکہ یہ مسلمہ امر ہے کہ کوئی انسان آئندہ کی خبریں معلوم نہیں کر سکتا۔ تو اب ہم نبیوں کے معاملہ میں غور کرنے سے اس نتیجہ تک پہنچے کہ وہ بھی ہم جیسے انسان تھے۔ وہ بھی آئندہ کے واقعات سے ہماری طرح محض لاعلم تھے لیکن یہ جو غیب کی بہت سی اہم خبریں قبل از وقت وہ دنیا پر ظاہر کرتے رہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْم ہستی ہے۔ اور جو انہیں خاص طور پر ان پیش آنے والے واقعات سے مطلع کرتی رہی ہے۔ اس بات کو قرآن حکیم اس طرح پر بیان فرماتا ہے۔ لاَ یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖۤ اَحَدًاO

اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ (الجن:27-28) یعنی نبیوں اور رسولوں پر جو غیب کی خبریں منکشف ہوتی ہیں یہ ان کی ذاتی خوبی نہیں بلکہ ایک وراء الوریٰ ہستی ہے جو ان کو قبل از وقت واقعات سے مطلع کرتی ہے۔ غرض نبیوں کا پیشگوئیاں شائع کرنا اور بڑے بڑے اہم واقعات کا قبل از وقت بیان کر دینا اور پھر وقت پر ان باتوں کا پور ا ہو جانا خدا تعالیٰ کی ہستی کی ایک بڑی زبردست دلیل ہے۔ دیکھو حضرت موسٰیؑ کے ذریعہ ایک پیشگوئی شائع کی جاتی ہے کہ میں تیرے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور ٹھیک دو ہزار برس بعد یہ پیشگوئی پوری ہوتی ہے اور اس بات پر مہر لگاتی ہے کہ حضرت موسٰیؑ کا تعلق یقینا ًایک ایسی ہستی سے تھا جو عالم الغیب ہے۔ پھر حضرت عیسٰیؑ کا فرمانا مُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ اَحْمَدُ (الصف:7) اپنے وقت پر کس وضاحت سے پورا ہوا۔ اور پیشگوئی کے پورا ہونے نے ایک ثبوت قائم کر دیا کہ مسیح ناصری کا ایک وراء الوریٰ وجود سے تعلق تھا اور اسی نے انہیں آئندہ ہونے والے واقعات سے مطلع کیا۔ پھر رسول کریمؐ نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا اور آپؐ نے سینکڑوں باتیں قبل از وقت دنیا پر ظاہر کیں اور وہ اپنے وقت پر پوری ہوئیں۔ الم O غُلِبَتِ الرُّوْمُO (الروم:3-2) کا ملاحظہ کرو۔ پھر دجال یاجوج ماجوج کی پیشگوئیاں آج ہمارے سامنے پوری ہو رہی ہیں اور دجال کا گدھا تیرہ سو برس کے بعد ہمارے زمانہ میں نمودار ہوتا ہے۔ پھر کتابوں کا پھیلنا، دریاؤں کا پھاڑا جانا، اونٹوں کا بیکار ہونا، مسیح و مہدی کا آنا، دجال کا قتل ہونا، صلیب کا پاش پاش کیا جانا یہ سب ایسی باتیں ہیں جو ہماری آ نکھوں نے دیکھی ہیں اور یہ سب کی سب پکار پکار کر عالم الغیب کی ذات بابرکات کا پتہ دے رہی ہیں۔ پھر اس زمانہ میں ایک صادق منصب نبوت و رسالت پر مبعوث ہو کر صدہا نہاں در نہاں باتوں سے دنیا کو آگاہ کرتا ہے اور ایسے ایسے عظیم الشان اور عجیب واقعات کی اطلاع دیتا ہے کہ بظاہر وہ ناممکن معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن تھوڑا زمانہ گزرنے نہیں پاتا کہ وہ باتیں منصہ شہود پر ظہور میں آ جاتی ہیں۔ دیکھو ابھی کل کی بات ہے کہ اس نے پنڈت لیکھرام کو کہا کہ سید الوریٰ خیر الرسل کے حق میں بدزبانی مت کر کہ اس کا انجام خراب ہے۔ مگر پنڈت لیکھرام باز نہ آیا۔ اس پر اس صادق نے کہا۔

؎ الا اے دشمن نادان و بے راہ
بترس از تیغ برآن محمدؐ

پھر جاننے والے جانتے ہیں کہ لیکھرام کا کیا انجام ہوا۔ پھر جب بنگالہ تقسیم ہوا اور بنگالی شور مچا کر ایجی ٹیشن چلا کر تھک کر بیٹھ رہے اور ان کے بڑے بڑے مدبّرین نے قطعی رائے دے دی کہ اب یہ تقسیم کبھی منسوخ نہیں ہو سکتی۔ اس وقت اس نے الہام پا کر اعلان کیا کہ تقسیم بنگالہ منسوخ ہو کر بنگالیوں کی دلجوئی ہو گی۔ گو کسی کو یقین نہ آ یا اور ہنسی کرنے والوں نے ہنسی کی۔ مگر 1912ء میں ہمارا زمینی بادشاہ انگلینڈ سے چل کر دہلی آیا اور وہاں تقسیم بنگالہ موقوف کر کے ہمارے ا ۤسمانی بادشاہ کے کلام کی تصدیق کی۔ کیا یہ حیرت انگیز واقعہ اس بات کی دلیل نہیں کہ مسیح موعود کا ایک ایسی ہستی سے تعلق تھا جو علیم و حکیم اور قادر مقتدر ہستی ہے۔

چھٹی دلیل

ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت میں چھٹی دلیل اللہ تعالیٰ خانہ کعبہ کے وجود کو پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے۔

جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَ الشَّھْرَ الْحَرَامَ وَ الْھَدْیَ وَالْقَلَآئِدَ ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ

(المائدہ:98)

یعنی دنیا میں بہت سے بادشاہ ہیں۔ بڑے بڑے قلعے بنواتے ہیں اور آسمان سے باتیں کرنے والی عمارتیں تیار کرواتے ہیں لیکن ایک وقت کے بعد وہ قلعے ٹوٹ پھُوٹ جاتے ہیں۔ وہ عمارتیں ویران ہو جاتی ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں رہتا۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ بادشاہ اپنے وقت میں بیشک بڑی قوت اور شوکت رکھتے تھے لیکن جب موت نے ان کو اس دنیا سے باہر کر دیا پھر اس کارخانہ میں ان کا کوئی دخل باقی نہ رہا۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ایک چھوٹا سا مکان مکہ میں بناتا ہوں۔ وہ ہمیشہ آباد رہے گا۔ اور اس مقام پر کبھی ویرانی دخل نہ پا سکے گی۔ وہ مکان لوگوں کے لئے امن کا موجب ہو گا۔ لوگ دنیا کے کناروں سے قربانیاں گزارنے وہاں آئیں گے اور وہاں پر ہمیشہ حج ہوتا رہے گا اور وہ دینی مرکز بن جاوے گا۔ اب دیکھو اس وعدہ کو تیرہ سو برس ہونے کو آئے اور ہمارے سامنے سینکڑوں قلعے اور عظیم الشان فلک نما عمارتیں زمین کا پیوند ہو گئیں۔ بیسیوں بڑی بڑی سلطنتیں تباہ ہو گئیں اور دنیا پر بڑے بڑے انقلاب آئے مگر مکہ کا وہ معمولی سا مکان اپنی اسی شان و شوکت کے ساتھ قائم ہے۔ لوگوں کے لئے امن کا موجب بنا ہوا ہے۔ دیکھو! آج موجودہ جنگ میں ٹرکی کے ماتحت ہونے کی وجہ سے شام اور عراق اور قسطنطنیہ سخت خطرہ میں ہیں اور وہاں کے لوگ آئندہ آ نے والے حوادث سے پریشان ہو رہے ہیں۔ مگر ملک عرب اور مکہ معظمہ ایک ایسا مقام ہے جہاں کے رہنے والوں کو اس جنگ کا کوئی خطرہ نہیں۔ غرض مکہ معظمہ کی یہ خصوصیت اور ہزاروں لاکھوں آدمیوں کا وہاں ہر سال دیوانہ وار دوڑتے ہوئے جانا اور بیت اللہ کا یہ اعزاز و احترام اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا بنانے والا غیر فانی ہے۔ اور آگے فرمایا۔ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ یعنی بیت اللہ کا وجود جس طرح دلالت کرتا ہے کہ اس کا بانی ازلی ابدی اور قادر مقتدر ہے جو اپنے بنائے ہوئے مکان کی حفاظت اپنی بے نظیر قدرت سے کرتا ہے اسی طرح وہ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْم بھی ہے۔ غرض خانہ کعبہ کا وجود بھی اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایک برہان ہے۔

(الفضل قادیان 4فروری 1915ء)

٭…٭…٭

(حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 ستمبر 2020