اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں دی ہیں جن سے ہماری زندگیوں میں خوشگوار احساس پیدا ہوتا ہے اور ان کے ساتھ ایک لذت اور سرور کا احساس جوڑا ہوا ہے ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جنتیوں کو دی گئی نعمتوں کے ذکر میں فرماتا ہے کہ
وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ (الزخرف 72) کہ ان نعمتوں سے ان کی آنکھیں لذت پائیں گی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
قرۃ عینی فی الصلوٰۃ. ﴿نسائی، حدیث نمبر: ۳۳۹۱﴾ ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے‘‘
گویا آنکھوں کے ساتھ ایک لذت کا احساس رکھا گیا ہے ۔اس لیے اس میں پاکیزگی ضروری ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’دِل پاک نہیں ہوسکتا جب تک آنکھ پاک نہ ہو‘‘
(روحانی خزائن جلد 15۔تریاق القلوب ص164,165)
نظر اپنا اثرضرور دکھاتی ہے ۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
’’علم النفس کے ماتحت مرد و عورت کے باہمی تعلقات کی ابتداء ہمیشہ دونوں کی نظریں ملنے سے ہوتی ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ جب کسی پر نظر پڑتی ہے تو خواہ دوسرے کی نظر نیچی ہی ہو تب بھی اس پراثر پڑ جاتا ہے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ298)
غض بصر کیا ہے؟ اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’یاد رہے کہ خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غضِّ بصر کہتے ہیں‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی۔روحانی خزائن جلد10ص344)
گویا غض بصر کے دو حصہ ہیں
(1) ایک خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچانا
(2) دوسرا جائز النظر چیزوں کو دیکھنا
غیر محل پر نظرڈالنے سے اپنےآپ بچانے کا پہلا اور سب سے اہم ذریعہ یہی ہے کہ اپنی نظر پر پابندی لگائے اسے نیچا رکھے ۔تب ہی وہ بدنظری سے بچ سکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نظر کی حفاظت کے لیے بیان فرمایا کہ
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
(النور:31)
’’ترجمہ: ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں، یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے، بیشک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’مومن کو نہیں چاہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محابا اپنی آنکھ کو ہر طرف اٹھائے پھرے بلکہ یغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ (النور:31) پر عمل کر کے نظر کو نیچی رکھنا چاہئے اور بد نظری کے اسباب سے بچنا چاہئے۔‘‘…
(ملفوظات جلد اول صفحہ 53مطبوعہ ربوہ)
بد نظری کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
النَّظْرَةُ سَہْمٌ مَسْمُومٌ مِنْ سِہَامِ إبْلِیسَ مَنْ تَرَکَہَا مِنْ مَخَافَتِی أَبْدَلْتہ إیمَانًا یَجِدُ حَلَاوَتَہُ فِی قَلْبِہِ
(المنذری،عبدالعظیم،الترغیب والترھیب،بیروت ،دارالکتب العلمیہ،۱۴۱۷ھ، جلد۳، صفحہ۱۵۳۔)
’’بدنظری شیطان کے زہر آلود تیروں میں سے ایک زہریلا تیرہے، جو شخص اس کو میرے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے، میں اس کو ایک ایسی ایمانی قوت دوں گا، جس کی شیرینی وہ اپنے دل میں پائے گا‘‘۔
نگاہ نیچی رکھنا ایک معاشرتی حق بھی ہے جسے ادا کرنا ضروری ہے ۔
صحابہ کرامؓ سے ایک دفعہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کہ راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو!صحابہؓ نے اپنی مجبوری پیش کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کو جب کوئی مجبوری ہو تو راستہ کا حق ادا کرو! صحابہؓ نے سوال کیا راستہ کا حق کیاہے‘‘۔؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غَضُّ الْبَصَرِ وَکَفُّ الْأَذَی وَرَدُّ السَّلَامِ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیُ عَنْ الْمُنْکَرِ
(مسلم بن حجاج،امام ،الصحیح ،بیروت ،داراحیاء التراث العربی، جلد۴،صفحہ ۱۷۰۴۲۳۰۴۔)
’’نگاہ نیچی رکھنا ،تکلیف دہ چیزوں کو دور کرنا ،سلام کا جواب دینا ،اور بھلی بات کاحکم دینا اور بری بات سے منع کرنا‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’غض بصر سے کام لیں ۔یعنی اپنی آنکھ کو اس چیز کو دیکھنے سے روکے رکھیں جس کا دیکھنا منع ہے ۔یعنی بلاوجہ نامحرم عورتوں کو نہ دیکھیں ۔جب بھی نظر اٹھا کر پھریں گے تو پھر تجسس میں آنکھیں پیچھا کرتی چلی جاتی ہیں اس لئے قرآن شریف کا حکم ہے کہ نظریں جھکا کے چلو ۔اسی بیماری سے بچنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نیم وا آنکھوں سے چلو ۔یعنی ادھ کھلی آنکھوں سے ،راستوں پر پوری آنکھیں پھاڑ کر نہ چلو ۔بند بھی نہ ہوں کہ ایک دوسرے کو ٹکریں مارتے پھرو۔لیکن اتنی کھلی ہوں کہ کسی بھی قسم کا تجسس ظاہر نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو مردوں کے لئے تو پہلے ہی حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو اور اگر مرداپنی نظریں نیچی رکھیں گے تو بہت سی برائیوں کا تو یہیں خاتمہ ہوجاتا ہے ۔پھر مومن عورتوں کے لئے حکم ہے کہ غض بصر سے کام لیں اور آنکھیں نیچی رکھا کریں ۔اگر عورت اونچی نظر کر کے چلے گی تو ایسے مرد جن کے دلوں پر شیطان نے قبضہ کیا ہوا ہے وہ تو پھر ان عورتوں کے لئے مشکلات ہی پیدا کرتے رہیں گے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد 2صفحہ 86-87-88)
عورت کے لیے اپنی نگاہ کو نیچا رکھنے کی تاکید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے
’’حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں رسول کریمؐ کے پاس تھی اور آپؐ کے پاس حضرت میمونہؓ بھی تھیں۔ سامنے سے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (جو نابینا تھے) تشریف لائے، حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ ان سے تم دونوں پردہ کرو، ہم نے عرض کیا یارسول اللہؐ کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو انہیں نہیں دیکھتی ہو‘‘
(سنن ابو داؤد، جلد نمبر سوم، حدیث نمبر 720۔)
پھر نگاہ نیچی رکھنے کے ساتھ ساتھ عورت کے لیے اپنی خوبصورتی کو نا محرموں پر ظاہر نہ کرنا بھی ہے۔قرآن کریم میں ہے کہ
يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ (الأحزاب 60) کہ وہ اپنی چادروں کو اپنے اوپر جھکا دیا کریں ۔
اس کے بارہ میں ایک روایت بخاری میں ہی ہمیں ملتی ہے جس میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ :
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ یُصَلِّی الْفَجْرَ فَیَشْھَدُ مَعَہٗ النِّسَآ ءٌ مِّنَ الْمُؤْمِنَاتِ الْمُتَلَفِّعَاتِ فِی مُرُوْطِھِنَّ ثُمَّ یَرْجِعْنَ اِلیٰ بُیُوتِھِنَّ مَا یَعْرِفُھُنَّ اَحَدٌ۔
(صحیح بخاری کتاب الصلٰوۃ باب فِی کَمْ تُصَلِّی الْمَرْأَ ۃُ فِی الثِّیَابِ)
ترجمہ : ’’رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم صبح کی نماز پڑھتے اور آپ کے ساتھ بعض مومن عورتیں بھی اپنی اوڑھنیوں میں منہ چھپائے ہوئے نماز پڑھتیں۔ پھر وہ اپنے گھروں کو لوٹ جاتیں ۔اور انھیں کوئی بھی نہ پہچانتا۔‘‘
غض بصر کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ دل پاک رہے اور خیالات پراگندہ نہ ہوں تو موجودہ زمانہ میں غض بصر کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
’’اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو پہلے کہا کہ غض بصر سے کام لو۔ کیوں؟ اس لیے کہ ذٰلک ازکیٰ لھم۔ کیونکہ یہ بات پاکیزگی کے لئے ضروری ہے ۔اگر پاکیزگی نہیں تو خدا نہیں ملتا ۔پس عورتوں کے پردہ سے پہلے مردوں کو کہہ دیا کہ ہر ایسی چیز سے بچو جس سے تمہارے جذبات بھڑک سکتے ہوں ۔عورتوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا ،ان میں مکس اَپ ہونا، گندی فلمیں دیکھنا ،نامحرموں سے فیس بک پر یا کسی اور ذریعہ سے چیٹ (chat) وغیرہ کرنا ،یہ چیزیں پاکیزہ نہیں رہتیں‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13جنوری 2017ء)
ہر وہ چیز جو انسان کے خیالات کو پراگندہ کرے اس سے بھی غض بصر کرنا چاہیے ۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ آیت کریمہ
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (طٰهٰ:132) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’انسان بعض دفعہ دوسرے کی دولت دیکھ کر لالچ میں آجاتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ دولت اس کو مل جائے لیکن اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب یوروپین قومیں ترقی کریں اور بہت دولت سمیٹ لیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کی دولت دیکھ دیکھ کر لالچ میں نہ آئیں کیونکہ یہی دولت آخر ان کی تباہی کا موجب ہوگی جیسا کہ موجودہ زمانہ میں ہو رہا ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دولت کو دیکھ کر روس کے منہ میں پانی بھر آیا اور اس نے بھی ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم ایجاد کر لئے تاکہ ان کی مدد سے مغربی ممالک کی دولت چھین لے۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے فرماتا ہے کہ تم اپنی دولت خدا کے ہاں جمع کرو۔کیونکہ جو دولت خدا کے ہاں جمع ہوتی ہے اسے کوئی چھین نہیں سکتا ۔اور وہ بہتر بھی ہوتی ہے اور ہمیشہ قائم بھی رہتی ہے۔‘‘
(تفسیر کبیرجلد 5 صفحہ نمبر 482)
تو کسی کی دولت کواس نظر سے دیکھنا کہ اس سے دل میں لالچ اور دولت چھین لینے کے خیالات پیدا ہوں تو ایسے موقع پر غض بصر سے کام لینا چاہیے اور اپنی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر لینی چاہیے۔ اسی طرح ہر وہ چیز جو برے خیالات پیدا کرے اس سے غض بصر سے کام لینا چاہیے ۔
غض بصر کے دوسرے حصہ یعنی جائز النظر کو دیکھنے پر عمل بھی خیالات کو پاکیزہ کرتا ہے۔ قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَكُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِيْنَ (التوبة:119) یعنی نیک لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔اس میں نیک لوگوں کی صحبت میں رہنے کا حکم ہے تو نیک صحبت میں رہیں گے،نیک لوگوں کو دیکھیں گے،نیک باتیں سنیں گے توخیالات پاکیزہ ہی رہیں گے۔
گھر کا ماحول پاکیزہ ہوگا تو وہ بھی آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث بنے گا ۔اس لیے یہ دعا سکھائی گئی ہے:
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ إِمَاماً
(الفرقان:75)
اے ہمارے رب! ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما ۔اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی۔ اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے۔ اگر ہم ایک بھوکے کتے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں۔ سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قویٰ کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آوے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں۔‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10۔صفحہ344-343۔مطبوعہ ربوہ)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے جو حدود مقرر کی ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے ظاہر ہے آپ کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پاتا ہے ۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’حیا ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الایمان ۔حدیث نمبر24) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارا ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں جزا پاتا ہے بشرطیکہ تم مومن ہو ،تمہارے میں ایمان ہو۔‘‘
(مستورات سے خطاب فرمودہ 2جون 2012ء برموقع جلسہ سالانہ جرمنی بمقام کالسروئے جرمنی مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26 اکتوبر 2012ء)
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، (صحیح بخاری) اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔اچانک نظر پڑنا اور نیت کے ساتھ نظر ڈالنا دو مختلف امور ہیں ۔
ایک حدیث میں ہے :
عَنْ اَبِیْ بَرَیْدَۃَ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِیٍّ یٰعَلیُّ لَا تُتْبَعِ النَّظْرَۃُ النَّظْرَۃَ فَاِنَّ لَکَ الْاُوْلیٰ وَلَیْسَتْ لَکَ الْاٰخِرَۃُ۔
(سنن ابو داؤد کتاب النکاح باب مَا یُؤْمَرُ بِہٖ مِنْ غَضِّ الْبَصَر حدیث نمبر382)
ترجمہ : ’’حضرت ابو بریدۃؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علیؓ کو فرمایا کہ تمہاری نگاہیں اچانک پڑنے والی نظر کی پیروی نہ کریں۔ کیونکہ اچانک پڑنے والی نظر معاف ہے۔ لیکن اس کے بعد دیکھنا معاف نہیں ۔‘‘
پھر ایک اور روایت جس میں ایک خاص نیت کے ساتھ دیکھنے کی اجاز ت ہےوہ درج ذیل ہے:
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَ ۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ قَالَ کُنْتُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَتَا ہٗ رَجُلٌ فَأَخْبَرَہٗ اَنَّہٗ تَزَوَّجَ اِ مْرَاَۃً مِّنَ الْاَنْصَارِ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم أَنَظَرْتَ اِلَیْھَا قَالَ لَا قَالَ فَاذْھَبْ فَانْظُرْ اِلَیْھَا فَاِنَّ فِیْ أَعْیُنِ الْاَنْصَارِ شَیْئٌ
(صحیح مسلم کتاب النکاح باب نَدْبِ النَّظْرِ اِلیٰ وَجْہِ الْمَرْأَۃِ وَ کَفَّیْھَا لِمَنْ یُّرِیْدُ تَزَوُّجَھَا
ترجمہ: ’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اسی اثناء میں وہاں ایک شخص آیا اس نے نبی کریم ﷺ کو بتایا کہ اس نے انصار کی ایک عورت سے نکاح کر لیا ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے اس عورت کو دیکھ لیا ہے؟اس نے جواب دیا کہ نہیں جس پر نبی ٔکریم ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اور اسے دیکھ لو کیونکہ انصار کی آنکھ میں کچھ ہوتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں غض بصر کے تمام پہلوؤں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭
(ابن قدسی ؔ)