• 29 جون, 2025

سلسلہ کے ایک عظیم خادم مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب مرحوم کا ذکر خیر

مکرم و محترم چوہدری شبیر احمد صاحب مرحوم سابق وکیل المال اول تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان، نہائیت محبت کرنے والی شفیق ہستی تھیں۔ خاکسار سے ان کا بڑی محبت کا تعلق تھا۔ 2006ء میں جب میں حافظ والا (میانوالی) میں تعینات تھا توآپ سے تحریراً درخواست کی کہ اپنی زندگی کے کچھ واقعات تحریر کر کے ارسال فرمائیں۔ چنانچہ آپ نے یہ تعارف اس وقت کے ناظر صاحب اشاعت کی ہدایت پر تحریر فرمایا اور اس کی کاپی خاکسار کو بھی از راہ شفقت ارسال فرمائی ۔ جزاھم اللہ احسن الجزاء۔ یہ مضمون من وعن ہدیۂ قارئین کیا جاتا ھے۔

اپنے گھر کا ابتدائی تعارف

خاکسار شبیر احمد سیالکوٹ چھاؤنی کے ایک دیندار احمدی گھرانہ میں پیدا ہوا۔ میری تاریخ پیدائش 28 نومبر 1917ء ہے۔ حضرت والد صاحب حافظ عبدالعزیز صاحب رفیق سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ 1895ء میں مختصر سی تحقیق کے بعد بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔ کچھ عرصہ شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعاؤں اور استقامت سے نہ صرف مخالفت بے اثر ہوگئی بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے صدر بازار کے متعدد گھرانے جماعت احمدیہ میں شامل ہوگئے۔ ان میں ہمارے چچا سردار عبدالحمید صاحب بھی تھے۔ ہمارے دادا مکرم چوہدری نبی بخش صاحب اپنے بیٹوں کے احمدی ہوجانے کے باوجود جماعت میں شامل ہونے سے متردد رہے تاہم انہوں نے بھی خلافت ثانیہ کے دور میں احمدیت قبول کرلی۔ الحمد للہ

حضرت والد صاحب بفضل خدا کثیر العیال تھے۔ ہم بہن بھائیوں کی تعداد گیارہ تھی۔ آٹھ بھائی اور تین بہنیں۔ اسی طرح حضرت والد صاحب کی اولاد بشمول پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں پچاس کی تعداد میں ہوگئی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک

بچپن کے چند ناقابل فراموش واقعات

بچپن کا زمانہ قریباً سارا ہی ناقابل فراموش ہوتا ہے۔ متمول گھرانے کے بچے کے دل و دماغ پر میٹھی میٹھی یادیں نقش رہتی ہیں اور تنگدست گھرانے کے بچے پر اکثر بڑی تلخ یادیں ناقابل فراموش بن جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارا گھرانہ سیالکوٹ چھاؤنی کے صدر بازار کے حصے میں متمول گھرانوںمیں شمار ہوتا تھا۔ بفضل خدا دادا جان کم و بیش بیس رہائشی مکانوں کے مالک تھے جو کرایہ پر دئیے ہوئے تھے۔ خاکسار نے اپنے بچپن کے واقعات انتخاب کرنے کے لئے شیریں یا تلخ کو میعار نہیں بنایا بلکہ ایسے واقعات کو مقدم رکھا ہے جو کسی نہ کسی جہت سے سبق آموز ہوں یا وہ والدین کے لئے تربیت اولاد کے سلسلہ میں راہنمائی کے حامل ہوں۔

سب سے پہلا واقعہ جو خدا تعالیٰ کے عظیم فضل و کرم کا مظہر ہے اور واقعی ناقابل فراموش ہے حسب ذیل ہے:

اللہ تعالیٰ نے اغواء ہونے سے بچا لیا

میری تاریخ پیدائش 28-11-1917 ہے۔ میری عمر چار پانچ سال ہوگی۔ بندہ گھر سے باہر ایک گیند سے کھیل رہا تھا کہ ایک گھڑ سوار مجھے نظرآیا جو گھوڑے سے اتر کر مجھے ایک گیند دیتے ہوئےکہنے لگا یہ لے لو ایک گیند۔ میرے گھر میں بہت اچھے اچھے گیند ہیں کبھی میرے گھر آؤ تو اپنی پسند کی گیند لے لینا۔گیند سے غیر معمولی دلچسپی سے مجھے اس شخص سے خاصا لگاؤ ہوگیا حالانکہ تنومند سیاہ رنگ اور بڑی بڑی مونچھوں والا آدمی تھا۔ سر پر سپاہیانہ قسم کی پگڑی تھی۔ کچھ دنوں بعد پھر وہی شخص آیا اس مرتبہ وہ پیدل آیا اور سوء اتفاق سے پھر بندہ گھر سے باہر کھیل رہا تھا۔ اس نے بڑے پیار سے پوچھا گیند لینے کے لئے میرے ساتھ چلو گے؟میں گیند کی محبت میں اس کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگیا۔ گھر سے قریباً دو میل طے کر نے کے بعد بھی اس کا گھر نہ آیا سورج غروب ہوچکا تھا۔ سفر جلد طے کرنے کے خیال سے اس شخص نے مجھے گود میں اٹھا لیا اور تیز رفتاری سے چلنے لگا۔ میرا ماتھا ٹھنکا اور میں زار و قطار رونے لگ پڑا۔ اب ہم پختہ سڑک چھوڑ کر ایک میدان سے گزر رہے تھے کہ سامنے سے پانچ چھ افراد آتے ہوئے نظر آئے۔ وہ کچھ مزدور معلوم ہوتے تھے جو مزدوری کر کےواپس آرہے تھے۔ انہیںدیکھ کر اس شخص نے مجھے زمین پر کھڑا کر دیا اور بڑی تیز رفتاری سے ایک طرف کو ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے مزدوروں کو میرے لئے فرشتہ رحمت بنا کر بھیجا اور ایک بڑے المیہ سے محفوظ رکھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

سفید پیسہ

پہلی جماعت کا طالب علم تھا۔ سکول جانے سے پہلے والد صاحب سے ایک پیسہ مانگا۔ انہوں نے فرمایا جاؤ میرے کوٹ کی جیب میں سے ایک پیسہ نکال لو۔ میںٰ نے جیب میں ہاتھ ڈالا اس میں بہت سے پیسے نظر آئے۔ ایک پیسہ سفید چمکتا ہوا نظر آیا۔ وہ مجھے اچھا لگا میں نے وہی لے لیا اور سکول چلا گیا۔ سکول کے گیٹ پر ایک کھانے پینے کی دکان تھی۔ دوکاندار کا نام تھا۔ پنوں۔ آدھی چھٹی ہوئی تو میں خوشی خوشی دکان پر پہنچ کر اور سفید پیسہ اسے دے کر کہا کہ مجھے چنے اور کچوریاں دے دو۔ اس نے چار کچوریاں اور چنے مجھے دے دیئے۔ دکاندار سمجھ گیا کہاس بچہ سفید پیسے کی مالیت کا علم نہیں اور واقعی اس وقت مجھے علم نہیں تھا۔ میں نے سمجھا کہ سفید پیسہ کی چار کچوریاں ہی ملتی ہوں گی سو وہ مجھے مل گئیں۔ اللہ خیر سلا۔ اتنے میں معلوم ہوا کہ محتروم والد صاحب مجھے تلاش کررہے ہیں۔ میں اس وقت اپنی کلاس میں پہنچ چکا تھا۔ ٹاٹ پر بیٹھے ہوئے نگاہ اوپر کی تو والد صاحب کھڑے نظر آئے۔ فرمانے لگے تم نے میرے کوٹ کی جیب سے کیا نکالا ہے۔ میں نےعرض کیا کہ ایک چمکتا ہواسفید پیسہ۔ والد صاحب نے دریافت فرمایا تو پھر تم نے اس پیسے کا کیا کیا۔ عرض کیا کہ پنوں سے کچوریاں لے کر کھائیں۔ فرمانے لگے چلو میرے ساتھ پنوں کے پاس۔ وہاں پہنچ کر والد صاحب نے پنوں سے پوچھا کہ اس بچنے نے تم سے کیا لیا اور تم نے یا دیا۔ پنوں کو میرے والد صاحب کی شخصیت کا علم تھا کہ ہمارے ہیڈ ماسٹر کے کلاس فیلو رہ چکے ہیں اور صدر کی بستی میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ احساس ندامت میں ڈوب گیا اور مرعوب ہو کر کہا کہ بچے نے روپیہ دیا تھا اس کو باقی پیسے دینے مجھے یاد نہیں رہے۔ یہ لیجئے باقی پندرہ آنے اور بڑی لجاجت سے معافی طلب کرتا رہا۔ اس دن مجھے علم ہوا کہ میں تو اس سفید پیسہ میں 64 کچوریاں کھا سکتا تھا۔ بہر حال اس واقعہ سے میرے علم میں بہت قیمتی اضافہ ہوا۔شکر ہے پہلی جماعت میں ہی عالم فاضل بن گیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر قسم کھانے کا مطالبہ

ہمارے ملنے والوں میں ایک صاحب احمدیت کے بارے میں بہت ہی غلط فہمیوں میں مبتلا تھے۔ میٹرک کی تعلیم کے دوران ایک دن سر راہ ملے۔جمعہ کا دن تھا۔ جامع مسجد قریب تھی جہاں ابھی خطبہ شروع نہیں ہوا تھا۔ فرمانے لگے کیا آپ حضرت مرزا صاحب کی صداقت پر قسم کھاسکتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کیوں نہیں بفضل خدا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاقت پر پورے یقین اور ایمان کے ساتھ قسم کھا سکتا ہوں۔کہنے لگے چلو پھر مسجد چلتے ہیں خطبہ سے پہلے آپ قسم کھائیں۔ میں فوراً تیار ہوگیا۔ حسن اتفاق سے خطیب صاحب میرے والد صاحب کے کسی حد تک عقیدت مند تھے۔ نماز جمعہ سے فارغ ہو کر وہ اکثر میرے والد صاحب سے مل کر جایا کرتے تھے۔ ہمارا مکان جامع مسجد کے بالکل سامنے تھا اور ہمارے گھر میں ہی صدر کے احمدی احباب جمعہ ادا کیا کرتے تھے۔ والد صاحب نماز جمعہ سے فارغ ہو کر اکثر مکان سے باہر کے برآمدے میں بیٹھ جایا کرتے تھے۔ جس دوست نے مجھے قسم کی دعوت دی تھی انہوں نے میرا تعارف خطیب صاحب سے کروایا اور بتایا کہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کے بارے میں قسم کھانے کے لئے آئے ہیں۔ خطیب صاحب اتنے نادان نہ تھے جتنے قسم کا مطالبہ کرنے والے وہ بھانپ گئے کہ اس طرح تو اچھی خاصی احمدیت کی تبلیغ ہوجائے گی۔ انہوں نے بڑی حکمت عملی سے کام لیا۔ کچھ میرے والد صاحب کا لحاظ کر کے اور کچھ معاملہ کی نزاکت کا خیال کر کے نہائیت محبت اور پیار سے میری تھوڑی کو ہاتھ لگایا اور کہا بیٹا یہ مطالبہ درست نہیں ہے۔ میں اسے مناسب خیال نہیں کرتا۔ اس لئے آپ کو قسم کھانے کی ضرورت نہیں۔ میرے ملنے والے دوست اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور میں قدرے فاتحانہ انداز میں مسجد سےباہر نکل آیااور اپنے گھر میں خطبہ اور نماز میں شمولیت کی تیاری کرنے لگا۔

فیروز پور کے ایک گاؤں میں جلسہ

1946-47 میں فیروز پور کی رہائش کے دوران خاکسار کو قائد مجلس خدام الاحمدیہ منتخب ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ وہاں مجلس کی سطح پر ماہانہ دعوت الی اللہ کا پروگرام عمل میں لایا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک گاؤں میں جانے اور رات کو وہاں جلسہ کرنے کا موقعہ ملا۔ جس کے لوگ مسلمان ہونے کے باوجود اسلام سے بکلی ناواقف تھے۔ ہمارا وفد چند خدام پر مشتمل تھا۔ اہل گاؤں کے تعاون سے رات کو جلسہ میں تقریریں کیں۔ ان میں نمایاں تقریر وفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں تھی۔ ہمارے پروگرام میں تقاریر کے علاوہ گاؤں سے باہر کھلی فضا میں خیمہ لگا کر رات بسر کرنااور تہجد اور نماز فجر ادا کرنا بھی شامل تھا۔ ہم بڑے خوش تھے کہ گاؤں والوں نے ہم سے بڑا تعاون کیا ہے۔ نماز تہجد کے لئے جب ہم تیاری کر رہے تھے تو گاؤں والوں میں سے دو افراد ہمارے خیمہ کے پاس سے گزرتے ہوئے یوں باتیں کررہے تھے۔ ایک نے دوسرے کو کہا کہ یہ ان مولویوں کا خیمہ ہے جنہوں نے رات کو ہمارے گاؤں میں تقریریں کی ہیں۔ دوسرا کہنے لگا یہ کہہ رہے تھے کہ عیسیٰ ؑ مر گیا عیسیٰ ؑ مرگیا۔ عیسی ٰ کون سی؟ان کی یہ گفتگو سن کر ہنسی بھی آئی اور افسوس بھی کہ اسلام کے بارے میں گاؤں والوں کا یہ مبلغ علم معلوم کر کے سخت تعجب بھی ہوا اور افسوس بھی کہ یہاں مسلمانوں کا یہ حال ہے۔ افسوس 1947ء میں پارٹیشن کی وجہ سے اس گاؤں سے رابطہ قائم رکھنا ممکن نہ رہا۔

جھنگڑ حاکم والا میں تصویری لیکچر

ضلع شیخوپورہ میں بعض جماعتوں کا دورہ کرتے ہوئے خاکسار ایک جماعت بمقام جھنگڑ حاکم والا میں پہنچا۔ وہاں مغرب کی نماز کے بعد سلائیڈ لیکچر کا پروگرام تھا۔ جماعت کے اکثر دوست ایک مکان کے وسیع و عریض صحن میں جمع تھے۔ جہاں سلائیڈز کی نمائش مطلوب تھی لیکن بادلوں کی وجہ سے موسم مخالف نظر آرہا تھا۔ جہاں جماعت متذبذب تھی کہ آیا لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ نمائش کے بارے میں اعلان کیا جائے کہ نہ کیا جائے۔ اس کشمکش کے عالم میں مناسب سمجھاگیا کہ اعلان نہ کیا جائے۔ نماز مغرب کا وقت ہوگیا۔ سو ہم نے باجماعت نماز مغرب شروع کردی۔ اسی اثناء میں غیر احمدی بھائیوں کی مسجد سے لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ اعلان سنایا گیا کہ ’’بھائیو مرزائیوں کی مسجد میں ایک جلسہ ہے وہاں کوئی مسلمان نہ جائے‘‘

ہم نے کہا اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق اعلان تو ہوگیا اب لیکچر کی تیاری شروع کرنی چاہئیے۔ نماز شروع ہوتے ہیں بارش کا نزول شروع ہوگیا جو نماز ختم ہونے پر تھم گئی۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا تصرف تھا۔ اس کے فضل نے مطلوبہ تقریب کے لئے حالات سازگار کردیئے۔ اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے قریباً ایک گھنٹہ نمائش اور اس کےساتھ تعارفی لیکچر کا سلسلہ بخیر و خوبی جاری رہا۔ اپنی جماعت کے دوستوں کے علاوہ غیر احمدی بھائی بھی بکثرت شامل ہوئے۔ اسی اثناء میں مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے دوسرا اعلان ان الفاظ میں ہوا ’’او کڑمیو مسلمانو تسی سارے مرزائیاں ول چلے گئے اونماز عشاء واسطے کوئی نہیں آیا‘‘۔ (یعنی کہ آپ سب احباب مرزائیوں کی طرف چلے گئے ہیں نماز عشاء کے لیے کوئی نہیں آیا) اس طرح اللہ تعالیٰ نے مخالفوں کے ذریعہ ہی تقریب کا اعلان کروادیااور آخر میں انہی کے ذریعہ اس کی کامیابی کا اعلان کروادیا۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔

حضرت ام طاہر کی خدمت میں نظم خوانی کی سعادت

قادیان میں طالب علمی کے زمانہ میں ایک مرتبہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ڈرائیور قریشی نذیر احمد صاحب کو ملنے گیا۔ وہ میرے بڑے بھائی ڈاکٹر رشید احمد صاحب کے برادر نسبتی تھے۔ ان کی رہائش حضرت ام طاہر کے مکان کے زیریں حصہ میں تھی۔ بالائی منزل پر حضرت ام طاہر کی رہائش تھی۔ اوپر سے آنمحترمہ کی آواز آئی نذیر احمد آپ کے پاس جو بچہ آیا ہوا ہے سنا ہے کہ وہ نظم بہت اچھی پڑھتا ہے۔ ہمیں بھی وہ کوئی نظم سنائے۔ چنانچہ آنمحترمہ کی فرمائش پر خاکسار نے درثمین کی نظمیں سنائیں جس پر آنمحترمہ نے شکریہ اور خوشی کا اظہار فرمایا۔ میری خوش نصیبی کہ یہ سعادت نصیب ہوئی۔ ایں سعادت بزور بازو نیست۔

تعلیم الاسلام ہائی سکول میں دینیات کے پرچے کی اہمیت

تعلیم الاسلام ہائی سکو ل میں دینیات کے مضمون کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ دسویں جماعت کے لئے داخلہ بھجوانے کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ طالب علم دینیات کے مضمون میں کامیاب ہوچکا ہو۔ دسویں جماعت تک قرآن مجید کا اردو ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب کا خاصا کورس عبور کروادیا جاتا تھا۔ نیز تحریری امتحان کے ساتھ آخر میں زبانی امتحان بھی ہوا کرتا تھا۔جس کے بورڈ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ جیسے صاحب علم و تقویٰ بھی ہوا کرتے تھے۔

(مراسلہ از ڈاکٹر نصیر احمد شریف صاحب)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 ستمبر 2020