• 28 اپریل, 2024

جماعت کی توجہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بننے کی طرف

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
میں اکثر جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں اور حقیقی شکر گزاری اسی صورت میں ادا ہو سکتی ہے جب ہمارے دل میں تقویٰ ہو، جب ہم اپنے مقصدِ پیدائش کو سمجھتے ہوئے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اور اس دورے کے دوران جو میں نے یورپ کے مختلف ممالک کا کیا ہے میں نے گزشتہ دو تین خطبات میں خاص طور پر اس طرف توجہ دلائی تھی۔ یہ باتیں دوہرانے کی مجھے اس وجہ سے بھی توجہ پیدا ہوئی کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں MTA کی سہولت سے نوازا ہوا ہے جس میں میرے خطبات باقاعدہ آتے ہیں اور دوسرے ایسے پروگرام بھی جاری رہتے ہیں جو ہماری روحانی ترقی کے لئے ضروری ہیں پھر بھی سو فیصد افرادِ جماعت اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور ایک خاصی تعداد مردوں، عورتوں اور نوجوانوں میں ایسے افراد کی ہے جو باقاعدگی سے خطبہ بھی نہیں سنتے۔ یا سن لیں تو یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید جس جگہ خطبہ دیا جا رہا ہے وہاں کے لوگوں کے لئے ہے۔ حالانکہ ہر خطبہ کا مخاطب ہر احمدی ہوتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو۔ خاص طور پر جوپرانے احمدی ہیں ان میں یہ بڑی غلط رَو پیدا ہو گئی ہے۔ نئے ہونے والے احمدیوں میں عربوں میں سے بھی لکھتے ہیں، یا جو نو مبائعین ہیں ملاقاتوں میں بتاتے ہیں کہ بعض خطبات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے حالات کے متعلق آپ کہہ رہے ہیں۔ اب کچھ عرصہ سے رشین میں بھی باقاعدہ خطبہ کا ترجمہ MTA سے نشر کیا جاتا ہے اور روس کے مختلف ممالک سے احمدیوں کے، جو وہاں کے مقامی احمدی ہیں، خطوط بڑی کثرت سے آنے لگ گئے ہیں کہ خطبات نے ہم پر مثبت اثر کرنا شروع کر دیا ہے اور بعض اوقات تربیتی خطبات پر یوں لگتا ہے کہ جیسے خاص طور پر ہمارے حالات دیکھ کر ہمارے لئے دئیے جا رہے ہیں۔ بلکہ شادی بیاہ کی رسوم پر جب میں نے خطبہ دیا تھا تو اس وقت بھی خط آئے کہ ان رسوم نے ہمیں بھی جکڑا ہوا ہے اور خطبہ نے ہمارے لئے بہت سا تربیتی سامان مہیا فرمایا ہے۔ تو جو احمدی اس جستجو میں ہوتے ہیں کہ ہم نے خلیفہ وقت کی آواز کو سننا ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے، اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہے وہ نہ صرف شوق سے خطبات سنتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی ان کا مخاطب سمجھتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہاایک تعداد ایسی بھی ہے جو یا تو خطبات کو سنتی نہیں یا اپنے آپ کو اس کا مخاطب نہیں سمجھتی یا رسمی طور پر سن لیتی ہے۔ اس لئے میں بعض معاملات کی طرف ہر ملک میں بار بار اپنے خطبات میں توجہ دلاتا ہوں کیونکہ دورے کی وجہ سے احمدیوں کی ایک بڑی تعدادجمعہ پر حاضر ہو جاتی ہے۔ ہر احمدی کے اندر ایک نیکی کا بیج تو ہے۔ خلافت سے ایک تعلق تو ہے جس کی وجہ سے باوجود عمومی کمزوریوں کے جب سنتے ہیں کہ خلیفہ وقت کا دورہ ہے اور خطبہ ہے، جلسہ ہے تو ایک خاص شوق اور جذبے سے اس پروگرام میں شامل ہوتے ہیں چاہے خطبہ ہو یا کوئی اور پروگرام ہو۔

پس آج اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں سوئٹزرلینڈ کے احمدیوں کو بھی بعض امور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور سب سے پہلی بات تو یہی ہے جو شروع میں مَیں نے کہی کہ عبدِ شکور بنیں، شکر گزار بندے بنیں۔ خاص طور پر یورپ کے ممالک میں آنے والے احمدی اور آپ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے سوئٹزرلینڈ میں آ کر رہنے اور مالی سکون و کشائش عطا فرمائے، ان کو بہت زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ نے شکر گزاری کے مضمون کو قرآنِ کریم میں مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ اِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکُمۡ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ (ابراہیم: 8) اور جب تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ لوگو! اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔

پس یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کی شکر گزاری کی طرف توجہ دلائی ہے یا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اظہار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکر گزاری اور اس کا اظہار کیا ہے؟ اس کی شکر گزاری کا اظہار اس کی کامل فرمانبرداری ہے۔ اس کے حکموں کی پابندی ہے۔ جن باتوں کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے انہیں پوری توجہ سے سرانجام دینا ہے اور جن باتوں سے اس نے روکا ہے ان سے کامل فرمانبرداری کا نمونہ دکھاتے ہوئے رُک جانا ہے۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے تو ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ اپنی زندگی عبدِ شکور بن کر گزارے اور عبدِ شکور بننے کے لئے اپنے دل و دماغ میں اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد رکھے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد17 شمارہ20 مورخہ 14مئی تا 20مئی 2010 صفحہ5 تا 8)

(خطبہ جمعہ 23؍ اپریل 2010ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 ستمبر 2020