• 28 اپریل, 2024

مصائب میں صبر کا کامل نمونہ

مصائب میں صبر کا کامل نمونہ
تبرکات
از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ

دنیا دارالابتلاء ہے جس میں انسان کے لئے کئی قسم کے ابتلاء اور امتحان اور مصائب اور حوادث پیش آتے رہتے ہیں اور کوئی انسان بھی ان مصائب سے مستثنیٰ نہیں۔ بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ سب سے زیادہ مصائب کا نشانہ انبیاء کی مقدس جماعت بنتی ہے۔ کیونکہ خدا ان کے ذریعہ مومنوں میں اخلاق کی پختگی پیدا کرنا اور صبرورضا کی تعلیم دینا چاہتا ہے۔ اور پھر جو لوگ صبر کرتے ہیں وہی خدا کی طرف سے خاص رحمتوں اور برکتوں کے وارث بنتے ہیں۔ قرآن مجید فرماتا ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌلا قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo اُولٰۤئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ قف وَاُولٰۤئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَo

(البقرہ:158-156)

یعنی ہم تمہیں اس دنیا کی زندگی میں بعض امتحانوں میں ڈالیں گے۔ تم پر کبھی کبھی خوف و ہراس کی حالت پیدا ہو گی اور کبھی تمہیں بھوک اور تنگی ستائے گی اور کبھی تمہارے اموال کا نقصان ہوگا اور کبھی جانیں ضائع کی جائیں گی۔ اور کبھی تم اپنی محنتوںکے پھل سے محرومی دیکھو گے۔ پھر جو لوگ ان حالات میں صبر اور رضا بالقضاء سے کام لیں گے انہیں اے رسول تو ہماری طرف سے بشارت دے۔ ہاں وہی صبر کرنے والے کہ جب انہیں کوئی مصیبت پیش آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم سب خدا کے بندے ہیں۔ جو چیز وہ دیتا ہے اور جو چیز وہ لیتا ہے وہ سب خدا کی ہے اور اسی کی طرف ہم نے اپنی اخروی زندگی کے لئے لوٹ کر جانا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی برکتیں اور رحمتیں ہوں گی اور یہی لوگ زندگی کے صحیح معیار اور ہدایت پر قائم ہیں۔

یہ لطیف اور جامع آیت صبرو رضا کے متعلق اسلامی تعلیم کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس میں تین اصولی باتوں کی تعلیم دی گئی ہے۔ اول یہ کہ دنیا میں انسان کو مختلف قسم کے مصائب پیش آنے ضروری ہیں جو انسانی اخلاق کی تکمیل اور اخلاق کی پختگی کے لئے ضروری ہے۔ جیسا کہ لفظ لَنَبْلُوَنَّکُمْ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ پس ہر مومن کو اس قسم کے مصائب کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ دوسرے اس آیت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب کسی انسان کو کوئی مصیبت پیش آئے تو اسے جزع فزع یا خدا کی تقدیر پر اعتراض اور نکتہ چینی کرنے کی بجائے کامل صبر اور رضا کے مقام پر قائم رہنا چاہئے۔ اور اس کی زبان پر اور اس کے دل میں اس ابدی حقیقت کے سوا کوئی بات نہیں آنی چاہئے کہ جو خدا نے لیا وہ اسی کا تھا اور جو خدا دے گا وہ بھی اسی کا ہو گا اور ہم سب نے بالآخر اسی کے پاس جمع ہونا ہے۔ تیسرے اس آیت میں یہ عظیم الشان بشارت دی گئی ہے کہ مومنوں کا صبر ہرگز ضائع نہیں جائے گا۔ بلکہ وہ خدا کی طرف سے بے شمار رحمتیں اور بے شمار برکتیں پائیں گے۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو خد ا کی رضا کے مطابق صحیح ہدایت اور صحیح مقام پر قائم ہیں۔ اور دوسری جگہ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ یعنی صبر کرنے والوں کا سب سے بڑا اجر یہ ہے کہ خدا جو زمین و آسمان کا مالک ہے ایسے لوگوں کے ساتھ ہو گا جو صبر کریں گے۔ اور خدا کی رفاقت اور اس کی حفاظت سے بڑھ کر کس کی رفاقت اور کس کی حفاظت ہو سکتی ہے ؟ کیا صبر کے متعلق اس سے بڑھ کر تفصیلی اور جامع ہدایت کسی اور مذہب نے دی ہے یا دے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔

یہ اسی پاک تعلیم کا اثر تھا کہ ہمارے آقا سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اکلوتے بچے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات پر جو آپ کی عمر کے آخری حصہ میں واقع ہو ئی تھی جس کے بعد آپ کو کسی اور نرینہ اولاد کی امید نہیں تھی وہ عظیم الشان الفاظ فرمائے جو رہتی دنیا تک صبر اور رضا بالقضاء کا بہترین نمونہ رہیں گے۔ آپؐ نے فرمایا :

اِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ یَحْزَنُ وَلَا نَقُوْلُ اِلَّا مَا یَرْضَیٰ رَبَّنَا وَ اِنَّا بِفَراقِکَ یَا اِبْرَاھِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْن۔

(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول النبیؐ انا بِک لمحزونون)

یعنی ہماری آنکھ اپنے پیارے بچے کی وفات پر آنسو بہاتی ہے اور دل غم محسوس کرتا ہے مگر ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہتے کہ جس بات میں خدا راضی ہے اسی میں ہم راضی ہیں۔ اور ہم خدا کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق ہر حال میں صابر و شاکر ہیں۔ ہاں بچہ کی جدائی کا غم ہمیں ضرور ہے اور وہ انسان کی فطری محبت اور فطری شفقت کا ایک طبعی نتیجہ ہے۔

اب دیکھو اور غور کرو کہ ہمارے مقدس رسولؐ (فداہ نفسی) نے ہمیں جو تعلیم خدائے عرش سے علم پاکر قرآن کے ذریعہ دی تھی اس کا آپ نے خود کیسا اعلیٰ اور کیسا مکمل نمونہ پیش کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے بچے ابراہیم کی وفات کا غم توہے اور بہت ہے جو ایک طبعی اور فطری امر ہے۔ اس غم کو میرا دل محسوس کرتا ہے اور میری آنکھ آنسوؤں کے ذریعہ اس کی غمازی بھی کر رہی ہے مگر میری زبان پر کوئی ایسا کلمہ نہیں آسکتا جو خدا کی دی ہوئی تعلیم اور اس کی رضا کے خلاف ہو۔ بلکہ میں ہر حال میں اس کی تقدیر پر صابر وشاکر ہوں۔ اور آپ زبان سے جزع فزع کرنے یا بال نوچنے یا چھاتی پیٹنے یا خدائی تقدیر کے متعلق کوئی اعتراض کا کلمہ زبان پر لانے کو ایسی نفرت اور ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے کہ ایک دفعہ جب بعض عورتوں نے اپنے کسی عزیز کی وفات پر ناجائز جزع فزع کیا اور اپنی زبان سے بعض نامناسب کلمات نکالے تو آپؐ نے سخت غصہ کے ساتھ فرمایا کہ ’’جاؤ ان کے منہ میں مٹی بھر دو‘‘ یہ اس لئے تھا کہ آپؐ کی تمام توجہ کا مرکزی نقطہ خدا کی ذات تھی اور آپؐ اس پختہ ایمان پر قائم تھے کہ انسان کی اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ جب کہ اس نے اس دنیا کے اعمال کا پھل پانا اور خدا کے حضور حاضر ہونا ہے۔ یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا۔ چنانچہ جب آپ کا آخری بچہ اور ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد فوت ہوا اور فوت بھی ایسے وقت میں ہوا کہ جب خدا کے متواتر الہامات کے ماتحت خود آپ بھی اپنی زندگی کے آخری دن گن رہے تھے تو آپ نے کمال ہمت اور کمال صبر کے ساتھ فرمایا :

جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خو تھا
وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر
برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اسے بلایا
بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

(درثمین اردو)

دیکھو ان اشعار میں بھی بعینہٖ انہی جذبات کا اظہار ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچے حضرت ابراہیم کی وفات پر ظاہر فرمائے۔ یعنی ایک طرف اپنے گہرے قلبی غم کا اظہار ہے جو ایک فطری امر ہے اور دوسری طرف خدا کی تقدیر پر کامل صبر و رضا کا مقام ہے جو توحید کا مرکزی نقطہ ہے۔ اور جب مبارک احمد کی وفات کا سن کر بعض احباب بیرون جات سے افسوس کے لئے قادیان آئے اور مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کے ساتھ ایسے ایمان افروز رنگ میں گفتگو فرمائی کہ مجھے خوب یاد ہے کہ حضور کی یہ گفتگو سن کر خلیفہ رجب دین صاحب مرحو م نے جو خواجہ کمال دین صاحب مرحوم کے خسر تھے حیران ہو کر کہا کہ:

’’حضرت! ہم تو آپ کو تسلی دینے آئے تھے اور آپ ہمیں تسلی دے رہے ہیں !!‘‘

مگر اسلامی صبرو رضا کے بارے میں ایک اور بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ صبر کا اصل وقت کسی مصیبت کے دھکے کا ابتدائی مرحلہ ہوتا ہے ورنہ بعد میں تو ہر انسان کو آہستہ آہستہ صبر آ ہی جاتا ہے اور دلوں کے گہرے گھاؤ بھی کچھ وقت کے بعد مندمل ہو جاتے ہیں۔ پس اسلامی تعلیم کے مطابق حقیقی طور پر صابر انسان وہی سمجھا جائے گا جو کسی مصیبت کے ابتدائی دھکے کے وقت صبر کرتا اور رضا بالقضاء کے مقام پر فائز رہتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے جہاں ایک عورت اپنے بچے کے مرنے پر بڑی بے صبری کا اظہار کر کے ناجائز جزع فزع کر رہی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب تشریف لے گئے اور فرمایا ’’مائی صبر کرو خدا تمہیں اس صبر کا اجر دے گا‘‘۔ اس جاہل عورت نے سامنے سے کہا ’’تمہارا بچہ فوت ہوتا تو تب تمہیں پتہ لگتا‘‘۔ آپؐ اس کی حالت کو دیکھ کر وہاں سے خاموشی کے ساتھ چلے آئے اور غالباً دل میں فرماتے ہوں گے کہ یہ نالائق کیا جانے کہ میرے کتنے بچے فوت ہو چکے ہیں؟ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے تو اس عورت کو لوگوں نے بتایا کہ ’’یہ تو نے کیا جواب دیا یہ تو رسول پاکؐ تھے‘‘ اس پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ’’یا رسول اللہؐ! میں صبر کرتی ہوں‘‘ آپؐ نے فرمایا :

اِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْاُولیٰ

(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب زیارۃ القبور)

یعنی اصل صبر تو وہ ہے جو انسان کسی صدمہ کے ابتدائی دھکے کے وقت دکھاتا ہے۔

اور یہی صحیح صورت ہے۔ ورنہ جب کسی نے جزع فزع کر کے اور چیخ و پکار سے اپنے دل کی بھڑاس نکال کر صبر کیا تو وہ صبر کس کام کا ؟ وہ تو دراصل تھک کر اور اپنے آپ کو بے بس پاکر ہتھیار ڈالنے والی بات ہے۔ پس میں اپنے عزیزوں اور دوستوں اور جماعتی بھائیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ہمیشہ صحیح اسلامی صبر کے مقام پر قائم رہیں۔ ا ور ایسا کامل صبر دکھائیں جو قرآن نے سکھایا ہے اور جس کا ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر ہمارے سردار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگیوں میں بہترین نمونہ پیش کیا ہے۔ اسلام فطرت کا مذہب ہے وہ نہ تو طبعی غم کے واجبی اور جائز اظہار سے روکتا ہے اور نہ ایسی جزع فزع اور ایسی چیخ و پکار کی اجازت دیتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان توحید کے مرکزی نقطہ سے متزلزل ہو جائے۔ اور وہ سچا صبر یہی ہے جس پر رسول پاکؐ (فداہ نفسی) قائم تھے یعنی :

اِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ یَحْزَنُ وَلَا نَقُوْلُ اِلَّا مَا یَرْضَیٰ رَبَّنَا

(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول النبیؐ انا بکَ لمحزونون)

اور یہ وہی صبر ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس مصرع میں ارشاد فرمایا ہے کہ :

بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

او ر یقینا یہ وہی صبر ہے جس کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ:

اُولٰۤئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ

(البقرہ:158)

وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

(محررہ 15جون 1959ء)

(روزنامہ الفضل ربوہ 18 جون 1959ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 ستمبر 2020