• 28 اپریل, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے

ذاتی تجربات کی روشنی میں
(قسط سوم)

وائس آف ایشیا میں 23 اگست 1993ء صفحہ 13 پر ایک اعلان غیراحمدی مسلمانوں کی طرف سے شائع ہوا ہےجس کاعنوان تھا Message to All

اس میں وہ اعلان کراتے ہیں کہ قادیانی گروپ یا احمدیوں کی بہت سارے مضامین خبریں وغیرہ اسلام اور مسلمانوں کے عنوان کے تحت شائع ہو رہی ہیں۔ ہم اعلان کرتے کہ احمدی ؍قادیانی، غیرمسلم (کافر) ہیں۔ کیونکہ وہ آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین (آخری نبی) نہیں مانتے۔

یہ اعلان جمیعۃ العلماء آف ہیوسٹن کی طرف سے شائع ہوا تھا۔

نوٹ: اول تو یہ غلط ہے کہ احمدی آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے۔ دوسرے اس فتویٰ یا اعلان کا خداتعالیٰ کے فضل سے یہاں کسی اخبارTV یا کسی اور ادارہ پر اثر نہیں پڑا۔ ہماری خبریں، مضامین، اسی طرح بلکہ پہلے سے بڑھ کر شائع ہوتی رہی ہیں۔

وائس آف ایشیا 30 اگست 1993ء کی اشاعت صفحہ 51 پر ہمارے خدام کے ریجنل اجتماع کی خبر تصاویر کے ساتھ قریباً 3 چوتھائی صفحہ پر شائع ہوئی۔ الحمدللہ

یہ خبر واشنگٹن ڈی سی سے دی گئی تھی۔ کیونکہ خدام کا اجتماع وہاں ہوا تھا اور قریباً 500 خدام و اطفال نے شرکت کی۔ مکرم برادر مظفر احمد صاحب ظفر نائب امیر کی بچوں کو انعامات دیتے ہوئے تصاویر بھی دی گئی تھیں۔ اس خبر میں وہ جماعت احمدیہ کا تعارف بھی دیتا ہے کہ کب اس کی بنیاد رکھی گئی اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کا کیا دعویٰ تھا۔ اس اجتماع میں خاص بات حضرت مرزا طاہر احمد صاحب جماعت کے چوتھے روحانی پیشوا کا پیغام تھا جو لندن سے اس موقع کے لئے آیا تھا جس میں آپؒ نے خدام کے اجتماع کا مقصد روحانی تربیت حاصل کرنا بتایا تھا۔مکرم ڈاکٹر مظفر احمد ظفرصاحب (نائب امیر) نے خدام و اطفال کو بتایا کہ وہ دوسرے لوگوں کو امن، پیار اور محبت سے تبلیغ کریں۔ مکرم ڈاکٹر قمر احمد شمس صاحب صدر خدام الاحمدیہ امریکہ نے خدام و اطفال میں تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اچھے شہری بن کر قوم و ملک کی خدمت کریں۔ نیز خاکسار کے بارے میں لکھا کہ مکرم شمشاد احمد ناصر ریجنل مبلغ ساؤتھ ریجن نے بھی خدام و اطفال سےخطاب کیا جس میں انہوں نے کہا کہ نوجوان ہماری ریڑھ کی ہڈی ہیں انہیں اسلام کی خدمت کرنے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

انڈو امریکن نیوز یہ بھی ہیوسٹن کا ایک اور اخبار ہے اس نے بھی اپنی اشاعت 30 اگست 1993ء کے صفحہ 34 پر ہمارے اس اجتماع کی خبر ¼ صفحہ پر خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کی۔

وائس آف ایشیا میں ہم نے جب مندرجہ بالا اعلان پڑھا کہ (نعوذ باللہ احمدی مسلمان نہیں ہیں بلکہ کافر ہیں) تو ہم نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تحریرات اردو اور انگریزی میں اسی اخبار میں شائع کرائیں جن میں آنحضرت ﷺ کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ کی تصنیف ایام الصلح کی ایک تحریر روحانی خزائن جلد 14صفحہ 323 سے شائع کرائی۔ جس میں تمام ارکان اسلام کو بھی بیان کیا گیا تھا۔

ہیوسٹن کرانیکل نے اپنی اشاعت 22مئی 1993ء صفحہ 3E پر یہ خبر دی ہے کہ مسلمان نوجوانوں اور خواتین کے سالانہ اجتماع میں مکرم قمر احمد شمس صاحب صدر خدام الاحمدیہ، سسٹر حلیمہ نصیر صاحبہ اور خاکسارشمشاد احمد ناصر تقاریر کریں گے۔

وائس آف ایشیا نے 21 جون 1993ء صفحہ 41 پر جماعت کی یہ خبر شائع کی:

Holy Quran presented to Rev. Moon

ہیوسٹن میں ریورنڈ مون کے کچھ لوگ اور پیرو کار پائے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ خاکسا رکے تعلقات بنے ہوئے تھے۔ وہ ہمیں اپنی میٹنگز میں بھی بلاتےتھے۔ ان کے ریجنل کوآرڈنیٹر نے خاکسار کو بتایا کہ ان کے پیشوا Rev. Moon یہاں ہیوسٹن میں آرہے ہیں اور ایک مجمع میں تقریر کریں گے۔ خاکسار نے کہا کہ اس موقع پر مجھے بھی دو تین منٹ دیئے جائیں۔ انہوں نے یہ بات منظور کر لی اور Rev. Moon کی تقریر کے بعد خاکسار کو بلایا گیا۔ خاکسار نے دو تین منٹ میں جماعت کا تعارف کرایا اور پھر انہیں قرآن مجید کورین ترجمہ کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اس کی خبر وائس آف ایشا میں شائع ہوئی۔

انڈو امریکن نیوز اخبار نے 12 جولائی 1993ء کی اشاعت میں یہ ہیڈلائن شائع کی:

Ahmadis can’t use Islamic Forms of worship: Court

اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ایک مذہبی فرقہ کو اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے سے منع کیا ہے۔ پانچ رکنی بینچ نے جماعت احمدیہ کی طرف سے دائر کئے گئے کیس کو خارج کر دیا ہے۔ اس کی بنیاد 1984ء کا صدارتی آرڈیننس ہے جنرل ضیاء الحق نے جاری کیا تھا۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ جواحمدی مسلمان ہیں وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کو انیسویں صدی کا ریفارمر مانا ہے جنہوں نے اسلام کو ازسر نو زندہ کیا ہے۔ جبکہ دوسرے مسلمان اسے کفر گردانتے ہیں۔ اخبار نے مزید لکھا ہے کہ ہزاروں احمدیوں کو اس وقت جیل میں ڈال دیا گیا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان بھی سمجھتے ہیں اور پنجوقتہ نمازوں کےالتزام پر یقین رکھتے ہیں۔ اور قرآن کریم پر ایمان لاتے ہیں۔

اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ 9سال سے ان کے سالانہ کنونشن کو بھی کرنے نہیں دیا جا رہا۔

وائس آف ایشیا کی اشاعت میں ہمارا ایک اشتہار جواباً شائع ہوا جس میں اردو اور انگریزی میں ازالہ اوہام سے ایک اقتباس شائع ہوا ہے۔

’’ہمارا مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ ہمارا عتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزراں سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفیٰ ﷺ خاتم النبیین و خیر المرسلین ہیں ………… اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے۔‘‘

نیز اس اشتہار میں جماعت کے تعارف کے علاوہ مشن کا ایڈریس اور فون نمبر بھی دیا گیا تھا۔

وائس آف ایشیا کی 19 جولائی 1993ء کی یہ خبر ہے۔

Houston Ahmadiyyas React to Pak Supreme Court Verdict

اخبار لکھتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جو حال ہی میں جماعت احمدیہ کے خلاف فیصلہ دیا ہے جس میں ان سے ان کی مذہبی آزادی چھینی گئی ہے اور انہیں اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ہیوسٹن کے مبلغ سید شمشاد احمد ناصر نے ایک پریس ریلیز ایشو کیا ہے جس میں کہا گیاہے کہ ایک وقت تھا کہ مسلمان انصاف کرنے کے بارے میں مشہور تھے اور جانے جاتے تھے مگر اب ایسا وقت آن پڑا ہے کہ حکومتیں اور قومی اسمبلی لوگوں کے ایمانوں کا فیصلہ کرتی ہیں۔ جبکہ ایمان خدا اور بندے کے درمیان ہے کسی اور کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کے ایمان کا فیصلہ کرے۔

پریس ریلیزمیں بازنین مسلمانوں کا حال بھی بیان کیا گیا ہے کہ سربین ان کے ساتھ کیا سلوک کر رہے پیش کئےگئےتھے۔

وائس آف ایشیا کی 19 جولائی 1993ء میں ہمارا اشتہار جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے ایک بار پھر شائع ہوا جس میں جماعت احمدیہ کے عقائد حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات سے ہیں۔

وائس آف ایشیا نے اپنی اشاعت 19 اگست 1997ء صفحہ 47 پر جماعت احمدیہ یوکے کے جلسہ سالانہ منعقدہ 30جولائی تا یکم اگست 1993ء بمقام اسلام آباد ٹلفورڈ کی خبر شائع ہے جو¼ صفحہ پرمشتمل ہے۔ اس خبرمیں 15 ہزار احباب کے شامل ہونے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے دوسرے روز کےخطاب میںبیان فرمودہ جماعتی ترقیات کا جائزہ بھی شائع ہوا۔ خبر کے آخر میں عالمگیر بیعت کا بھی ذکر ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جلسہ کے آخری روز اپنے خطاب میں اسلام کی امن، پیاراور محبت کی خوبصورت تعلیم پیش کی۔

انڈو امریکن نیوز۔ ہیوسٹن کے اس اخبار نے اپنی 19 جولائی 1993ء کی اشاعت میں خاکسار کاایک خط ایڈیٹر کے نام شائع کیا ہے جس میں لکھا گیا تھاکہ بازنیا میں مسلمانوں کی مساجد کو منہدم کیا جارہا ہےجوکہ ایک بہت شرمناک بات ہے۔ یہ ساری دنیا میں مذمت کے قابل ہے کہ کسی کو اس کی مذہبی عبادات سے اور عبادت گاہ سے روکا جائے۔ عیسائی اور یہودی بھی اس کام کی مذمت کرتے ہیں۔

پاکستان نے بھی یہی کچھ کیا ہے۔ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کے سابق ذوالفقار علی بھٹو نے سو سالہ مسئلہ کاحل یہ کیا تھاکہ انہوں نے ایک مذہبی گروہ کو غیرمسلم قرار دیا اور اس کے بعد آنے والے ڈکٹیٹرجنرل ضیاء الحق نے اس پر مزید دروازے بند کئے اور پھر انہیں خدا کے عذاب سے کوئی نہ بچا سکا۔

مسلمان تو زمینوں کو فتح نہیں کرتے وہ تو دلوں کو فتح کرتے ہیں۔

انڈوامریکن نیوز 16 اگست 1993ء کی اشاعت میں صفحہ 36پرواشنگٹن ڈی سی میں منعقدہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کی خبرشائع کی ہے کہ اس میں مکرم ڈاکٹر برادر مظفر احمد ظفرصاحب، مکرم قمر احمد شمس صاحب اور خاکسارسید شمشاد احمد ناصر ریجنل مبلغ تقاریر کریں گے۔ اسی طرح اس اخبار نے اپنی 9 اگست 1993ء کی اشاعت میں جلسہ سالانہ یوکے کی خبر بھی شائع کی ہےجس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے خطابات کا ذکر ہے کہ اسلام کی تعلیم امن کی تعلیم ہے۔ان کے پیروکاروں کو چاہئے کہ وہ اسلام کی اس حسین تعلیم پر عمل پیرا ہوں۔

1960 West Sun۔ ہیوسٹن کے اس اخبار نے خدام الاحمدیہ کے واشنگٹن میں ہونے والے اجتماع کی خبر شائع کی ہےجس میں بتایا گیا تھاکہ مکرم ڈاکٹر برادر مظفر احمد ظفر صاحب قائمقام امیر جماعت USAنے افتتاحی اور اختتامی تقاریر کیں اور جیتنے والے خدام و اطفال میں انعامات تقسیم کئے۔ مکرم قمر احمد شمس صاحب صدر خدام الاحمدیہ نے اپنی تقریر میں کہاکہ نوجوانوں کو اچھے شہر ی بن کر قوم اور ملت کی خدمت کرنی چاہئے۔ نیز لکھا کہ مکرم سید شمشاد احمد ناصر صاحب ریجنل مبلغ نے بھی خدام کے اجتماع میں تقریر کی۔ ان کی تقریر کا عنوان ’’نوجوانوں کے سنہری کارنامے‘‘ تھا۔ ریجنل مبلغ صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ نوجوانوں کو وقت کی قربانی کی طرف خاص توجہ دلائی اور بتایا کہ انہیں اس کام کی کامیابی کے لئے دعائیں بھی کرنی چاہئیں۔

اجتماع میں بازنین مہمانوں نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے بازنیا میں ہونے والے مظالم سے خدام کو آگاہ کیا۔ اجتماع میں نمازتہجد باجماعت اور پانچوں نمازوں کا اہتمام رہا نیزخدام و اطفال نےعلمی و ورزشی مقابلہ جات میں حصہ لیا۔

وائس آف ایشیا کی6ستمبر1993ء کی اشاعت میں مکرم داؤد منیر صاحب کا ایک خط شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے اخبار کی آزادانہ صحافت کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور پھر کچھ حقائق بھی بیان کئے ہیں۔ مثلاً جماعت احمدیہ یوکے کے جلسہ سالانہ کے بارے میں تحریر کیا پھر مسلمانوں کی طرف سے ایک اعلان کاذکرکیاجس میں بتایا گیا تھاکہ احمدی مسلمان نہیں ہیں کیونکہ پاکستان کی اسمبلی نے انہیں غیرمسلم قرار دیا ہے۔ اس بارے میں آپ نےلکھا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ کیا اس وقت ایسی باتوں کے کرنے کی ضرورت ہے جبکہ تمام مسلمان ساری دنیا میں ایک بے چارگی کی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔علماء کو تو چاہئے تھا کہ وہ سب کے اندر یک جہتی اور اتحاد پیدا کرتے جو کہ اسلام کی تعلیم اور محمد رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کے مطابق ہے۔علماء کو چاہئے کہ اسلام کی تعلیم کو امن اور پیار کے ساتھ پھیلائیں بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کو کافر کہیں۔ ان علماء کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کسی شخص کو بھی کسی دوسرے کو کافر کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے جبکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو۔

مکرم داؤد منیر صاحب نے لکھا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کلمہ پڑھتا ہے اسے کسی طرح بھی کافر کہنا درست نہیں ہے۔ ایسے علماء جو اس قسم کی تعلیم پھیلاتے ہیں اور مسلمانوں کو،کلمہ گو کو کافر کہتے ہیں وہ حقیقی طور پر علماء کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ اگر ان علماء کو قادیانیوں سے اختلاف ہے تو یہ طریق تو نہیں ہے کہ ان کےبارےمیں جھوٹی خبریں پھیلائی جائیںبلکہ پیار اور محبت سے اپنے اختلافات کو سلجھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

نیز لکھا کہ عیسائیوںاور یہودیوں کے بھی بے شمار فرقے ہیں مگر نہیں دیکھا گیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو اس طرح کافر کہتے ہوں جس طرح مسلمان ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں۔ مجھے تنگ نظر علماء اور مسلمانوں کے اس اعلان کو پڑھ کر سخت افسوس ہوا ہے۔ حالانکہ اسلام وہ مذہب جس نے پہلی بار دنیا کو پیار، محبت اور عالمگیر اخوت کا پیغام دیا ہے اور برداشت کی تعلیم دی ہے جس کو اب حال کے علماء نے اپنے سیاسی عزائم کی وجہ سے پس پشت ڈال دیا ہے۔

وائس آف ایشیا نے اپنی اشاعت 27 ستمبر 1993ء کی اشاعت میں صفحہ 19 پر یہ خبر دی ہے :

Ahmadiyya to boycott poll in Pakistan.

اس خبر میں جماعت احمدیہ جو کہ پاکستان میں مظالم کا شکار ہے نے پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں غیرمسلم کی سیٹ پر الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کیا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ 1974ء میں بھٹو حکومت کی قومی اسمبلی نے انہیں غیرمسلم اقلیت قرار دیاتھا اور ضیاء حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعہ ان کے حقوق کو پامال کیا جس کی وجہ سے وہ نہ مسلمان کہلا سکتے ہیں نہ ہی اذان دے سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہہ سکتے ہیں۔ جبکہ احمدی اپنے آپ کو مسلم سمجھتے ہیں وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ وہ انیسویں صدی میں آنے والے ریفارمر حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ پر ایمان رکھتے ہیں جوکہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے آئے ہیں۔ اس خبر میں مزید بتایا گیا تھاکہ احمدیوں کا اپنے آپ کو غیر مسلم سمجھنا حقیقت کے خلاف ہے۔ اس میں مزید لکھا ہے کہ گزشتہ مہینے سپریم کورٹ نے بھی اپنے ایک حالیہ فیصلے میں جماعت احمدیہ کو اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے سے منع کیا ہے۔

انڈو امریکن نیوز نے بھی اپنی اشاعت 6 ستمبر 1997ء صفحہ 10 پریہی خبر پھر شائع کی ہے۔

دی پاکستان پوسٹ انگریزی اخبار نے ستمبر 1993ء صفحہ 10 پر خاکسار کا تبصرہ شائع کیا ہے جس کا عنوان تھا:

Persecution Verses Perseverance

یعنی مظالم کے مقابلہ میں برداشت اور استقلال اس مضمون میں خاکسار نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر کہ احمدی اپنے آپ کو نہ مسلمان کہلا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی اسلامی اصطلاحات کا استعمال کر سکتے ہیں،تبصرہ کیا ہے۔ 1974ء اور 1984ء کے فیصلہ جات اور آرڈیننس پر تبصرہ کیا گیا ہے اور جماعت کا تعارف ہے کہ کب اور کس وقت جماعت کا آغاز ہوا۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ پانچ ارکان اسلام پر پورا یقین رکھتی ہےاور ان پرمکمل طورپرعمل کرتی ہے۔ جماعت احمدیہ بھائی چارہ اوراسلامی اخوت پر عمل کرتی ہے اور جماعت اس وقت 130 ممالک میں پھیل چکی ہے۔ جماعت احمدیہ کسی کے لئے بھی کسی بھی رنگ میں کوئی خطرہ نہیں ہے اور نہ اس کے قیام کا یہ مقصد ہے۔ لیکن جماعت شروع دن سے ہی تکالیف اور مظالم کا نشانہ بنی ہوئی ہے جو اس کی صداقت کی دلیل ہے۔ احمدیت نے بڑے جلیل القدر سپوت پیدا کئے ہیں مثلاً مکرم سر محمد ظفراللہ خان صاحب جو کہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ تھے اور عالمی عدالت کے جج بھی رہے، مکرم ڈاکٹر عبدالسلام نوبیل پرائز، ایئرمارشل مکرم ظفر چوہدری صاحب، مکرم ایم ایم احمد صاحب چیئرمین پلاننگ کمیشن کابھی ذکرِخیر کیا گیا تھا اس مضمون میں 1974ء کے اسمبلی کافیصلہ اور 1984ء کے آرڈیننس کا ذکر کر کے لکھا تھاکہ یہ سب مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کے خلاف فیصلہ جات ہیں اوربنیادی حقوق کی پامالی ہے جو کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے۔ ان قوانین کو قانونی حیثیت دینے سے احمدی مسلمانوں کو تکالیف اور ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بہت سارے احمدی صرف کلمہ پڑھنے، بسم اللہ لکھنے پر اور السلام علیکم کہنے پر پاکستان کی جیلوں میں مقیّد ہیں۔ اور 4 احمدیوں کو تو اس پاداش میں سزائے موت بھی سنائی جا چکی ہے جبکہ 6 احمدیوں کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ یہ سب سزائیں ہمارے نزدیک غیر اسلامی ہیں۔ احمدیوں کا پورا بھروسہ اور توکل خداتعالیٰ کی ذات پر ہے۔ احمدی ہر قدم پر قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔ اخبار نے یہ مضمون خاکسار کی ایک تصویر کے ساتھ شائع کیا تھا جو خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں لی گئی تھی۔

(خاکسارخدام الاحمدیہ کا سکارف پہنے ہوئےتھا)

اسی طرح اس خبرکےساتھ خدام الاحمدیہ کےاجتماع کی خبر ہے جس میں دو تصاویر ہیں مکرم قائمقام امیر برادر مظفر صاحب خدام و اطفال کو انعامات دے رہے ہیں۔

دی پاکستان پوسٹ نےستمبر 1993ء کی اشاعت کے صفحہ 11 پر پورے صفحہ کی خبر دی ہے۔ اس میں دو چیزیں بیان ہوئی ہیں۔ اخبار نے ٹائٹل دیا ہے ’’Islam Today‘‘۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی تصویر کےساتھ یہ عنوان لگایا ہے۔

Muslim Caliph 0.25million members one night.

اخبار نے لکھا کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمدصاحبؒ نے یکم اگست 1993ء کو عالمی بیعت لی جس میں 204000 نئے لوگوں نے احمدیت میں شمولیت اختیار کی۔ اس جلسہ میں 15000 لوگوں نے دنیا کے مختلف ممالک سے شرکت کی جس میں یو ایس اے، کینیڈا، رشیا، پاکستان، انڈونیشیا، جاپان، بازنیا، مغربی جرمنی، بنگلہ دیش، انڈیا، سیرالیون، نائیجیریا، گھانا، آئیوری کوسٹ، سینیگال، فلسطین، ایسٹ افریقن ممالک اور یورپین ممالک کےافرادشامل تھے۔ جلسہ کی تقاریر کا رواں ترجمہ 8 دیگر زبانوں میں بھی نشر ہوا۔

حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے اپنے خطاب میں لوگوں کو بتایا کہ باوجود اس قدر مخالفت کے جس میں حکومت پاکستان بھی شامل ہے پھر بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت کی تائید اور مدد فرمائی ہےاور ہر سطح پر ہر جگہ کامیابی عطا ہوئی ہے۔ 9سال کی جماعتی ترقیات کا خاکہ اس میں پیش کیاگیاہے۔ اس وقت تک 50 سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ ہوچکاتھا اور اخبار نے لکھا کہ قرآن مجید کا 100 زبانوں میں ترجمہ کرنے کا اصل منصوبہ ہے۔ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے سوالوں کے جواب بھی دیئے۔ مضمون کے آخر میں جماعت کا تعارف بھی دیا گیا ہے۔

¼ صفحہ پر ’’گلف وار‘‘ کے بارے میں تبصرہ ہے۔ اس جنگ میں مسلمان ممالک کا یہ خیال غلط تھا کہ اس جنگ سے مسلمان ممالک میں امن قائم ہو گا اور مسلمان اس میں جیت جائیں گے۔اس وقت صرف اور صرف ایک ہی آواز تھی جو مسلمانوں کو تنبیہ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ آوازجماعت احمدیہ کے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کی تھی۔ آپؒ نے گلف وار پر پے در پے خطبات دیئے اور مسلمانوں کو اس جنگ سے باز رہنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات بھی بیان کیںکہ وہ امریکہ اور دوسرے ممالک کو اس جنگ سے باہر رکھیں۔ اور خود مل کر یعنی مسلم ممالک مل کر، اس کا حل سوچیں اور ثالثی کو ترجیح دیں کیونکہ یہ اسلام کی عین تعلیمات کے مطابق ہے۔

حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ؒنے اپنے خطبات میں جو کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکے ہیں بتایا کہ یہ یورپین ممالک کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف ایک پراپیگنڈا اور ناانصافی کی زبردست مثال ہے جو لوگ یہ خطابات اور اس کتاب کو پڑھیں گے وہ ضرور حقیقت حال سے واقف ہوں گے۔

انڈو امریکن نیوز کے صفحہ 16 پر ہمارا ایک اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کےساتھ شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے۔ ’’مسیح موعود آچکے ہیں‘‘ جماعت کے تعارف کے ساتھ اس اشتہار میں احمدیہ مشن ہیوسٹن کا ایڈریس اور فون نمبر بھی دیا گیا ہے۔

وائس آف ایشیا کی اشاعت میں حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر اورحضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی تحریر آپ کی کتاب ایام الصلح سے اردو اور انگریزی میں ہے جس میں ارکان اسلام کی تفصیل ہے۔ نیز اس وقت حضورؒ کے خطبات سیٹیلائٹ چینل پر جمعہ کے دن نشر ہوئےتھے۔اس کی تفصیل اور مشن کے ایڈریس اور فون نمبر درج ہیں۔

وائس آف ایشیا کی اشاعت 27 ستمبر 1993ء میں صفحہ 42 پر پورے صفحہ پر ایک تبصرہ ہے جو کہ M.M. Clarke of Birmingham UK کا ہے۔ انہوں نے جماعت احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے 3 جولائی 1993ء کے فیصلہ پر کیا ہے۔ اس کا عنوان یہ تھا

Is there a patent for ideas and practices of Islam.

مضمون لکھنے والے نے لکھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جو احمدیوں کو اسلامی اصطلاحات کو استعمال کرنے سے منع کرتا ہے اور جماعت احمدیہ کی اس بارہ میں اپیلوں کو مسترد کیا گیا ہے جبکہ جماعت احمدیہ کہتی ہے کہ کیا کسی اسمبلی یا حکومت یا عدالت کو کسی کے ایمان کا فیصلہ کرنے کا قانونی حق ہے۔ اور یہ حق کہاں سے لیا گیا ہے؟

مذہبی عقائد کا تعلق مذہبی لیڈرز یا اس شخص سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے آپ کو اس مذہب سے منسلک رکھتا ہے اور اس کی باتوں پر عمل کرتا ہو۔ اس بات کی ہر قانون اجازت دیتا ہے اور یہ انسان کا بنیادی حق ہے کہ جس مذہب کا وہ چاہے اعلان کرے دوسرے کو اختیار نہیں ہے کہ اس میں دخل اندازی کرے۔ جماعت احمدیہ کے خلاف آرڈیننس xx ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور مکمل طور پر ناانصافی ہے اور واضح طور پر امتیازی سلوک ہے۔ انہوں نے لکھا کہ سپریم کورٹ مکمل طور پر صحیح انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے اور انہوں نے احمدیوں کی اپیل کو بلاوجہ مسترد کیا ہے۔

مضمون نگار نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تحریر کر کے اس پر تنقید کی ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ان سب لوگوں کے لئے عالمی سطح پر بھی شاک گزرے گا اور حیرانگی کا باعث ہو گا جو ان چیزوں کو انسان کا بنیادی حق سمجھتے ہیں اور مذہب کو انسان اور اس کے پیدا کرنے والے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس سے احمدیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا ہے۔

یہ بھی خیال رہے کہ قانون مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے لیکن احمدیوں کے لئے یہ نہیں ہے وہ جو اپنا ایمان اور عقائد سمجھتے ہیں اس کے مطابق ان کو عمل کرنے نہیں دیا جاتا بلکہ ان کے بنیادی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلہ سے جماعت احمدیہ پر مزید عرصہ حیات تنگ ہو گا اور ان کے بنیادی حقوق پامال ہوں گے۔ مثلاً کلمہ طیبہ، احمدیوں کا بنیادی ایمان ہے اور اگر کوئی احمدی کلمہ پڑھتا ہے تو اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا۔ اور اس پر 298C کے مقدمات چلیں گے جو کہ عالمی سطح پر بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ کورٹ نے صرف اسی پر بس نہیں کی بلکہ احمدیوں کے خلاف یہ ایک ایسا قانون بنا ہے جس کی بنیاد پر وہ توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت کے مرتکب قرار دیئے جا کر سزا کے مستحق ہوں گے۔

اسی اخبار نے اپنی اشاعت کے 27 ستمبر 1993ء میں ’’پاکستان کی سپریم کورٹ کا فیصلہ‘‘ پر ایک اور تبصرہ بھی شائع کیا ہے جو کہ اوپر لکھے ہوئے مضمون سے ملتا جلتا ہے۔ کہ جماعت احمدیہ کے خلاف سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں ایک امتیازی سلوک روا رکھا ہے جس سے جماعت احمدیہ کے افراد کے بنیادی حقوق کی پامالی کی گئی ہے اور اس کی بنیاد 1974ء میں قومی اسمبلی کا فیصلہ اور 1984 میں xx آرڈیننس ہے۔ جس کی بنیاد پر احمدیوں کے خلاف 5 کیسز سپریم کورٹ میں دائرکئے گئے مگر سپریم کورٹ نے انصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے فیصلہ کو مزید احمدیوں کے خلاف کیا۔ جس سے ان کے حقوق کی مزید پامالی کی گئی۔ دیکھنے والی بات ہے کہ عالمی سطح پر اس فیصلہ کو کیسے دیکھا جا ئے گا۔

انڈوامریکن نیوز کی اشاعت 27 ستمبر 1993ء میں انہوں نے لکھا کہ

Asia Watch Concern on Alleged Rights Abuse.

کے تحت اسلام آباد راؤٹر نیوز کے حوالہ سے مندرجہ بالا سپریم کورٹ کے فیصلہ پر خیالات کا اظہار ہے کہ اس فیصلہ سے انسان کے بنیادی حقوق کو پامال کیا گیا ہے اور یہ خصوصاً جنرل ضیاء الحق کے وقت سے زیادہ ہوا ہے۔ اور یہ قانون بنایا گیا تھا سیاسی اغراض کے مقاصد کے لئے۔ اس قانون کے تحت سینکڑوں لوگوں کو اب تک قید کیا گیا ہے اسی طرح حکومت کےتوہین مذہب و رسالت کے قانون نے بھی ایک ’’امتیازی سلوک‘‘ کی طرف رجحان ڈال دیا ہے اور اس سے اقلیتوں کے حقوق پامال کئے گئے ہیں۔ 1980ء کے بعد سے اب تک دو ایسے قوانین وضع کئے گئے ہیں جن میں احمدیوں کو زیادہ ٹارگٹ بنایا گیا ہے اور انہیں نہ صرف مشکلات کا سامنا ہے بلکہ اسلامی اصطلاحات کے استعمال پر پابندی ہے۔ اخبار نے مزید لکھا کہ 1992ء جنوری میں ایک عیسائی ٹیچر کو قتل کر دیا گیا تھا کہ اس کے سکول میں ایک پوسٹر توہین مذہب کی نشاندہی کر رہا تھا۔ اسی طرح جولائی 1992ء میں ایک احمدی کو بھی اسی وجہ سے مار دیا گیا تھا۔

ایشیا واچ نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ تمام اقلیتوں کو مذہبی آزادی کے ساتھ ان کے بنیادی حقوق کی بھی ضمانت دے۔

ہیوسٹن کرانیکل جیسا کہ میں نے لکھا کہ یہ اخبار ہیوسٹن کا سب سے بڑا اخبار ہے اور اس وقت اس کی 70 ہزار سے زائد اشاعت تھی۔ اس کے مذہبی کالم کی انچارج Cecile Holmes White تھیں۔ یہ ہفتہ میں ایک دفعہ اس اخبار میں مذہبی کالم لکھتیں یا کسی مذہبی لیڈر کا انٹرویو شائع کرتیں۔ یا عقائد پر تبادلہ خیالات یا کسی مذہبی خبر کو شائع کرتیں۔

خاکسار نے ان کے ساتھ بڑے اچھے روابط رکھے۔ اور انہوں نے بھی دل کھول کر جماعتی خبریں اور جماعت کا مؤقف اور مضامین شائع کئے۔ جب خاکسار کی فیملی 5 سال بعد ہیوسٹن آئی تو ایک دفعہ انہوں نے کہا کہ وہ ہمارا انٹرویو لینا چاہتی ہیں۔ چنانچہ وہ مشن ہاؤس تشریف لائیں اور انٹرویو لیا میرا بھی اور میری اہلیہ صفیہ سلطانہ صاحبہ کا بھی اور قریباً پورے صفحہ پر مبنی انٹرویو اور دو تصاویر شائع کیں۔ ایک تصویر خاکسار کی نماز پڑھتے ہوئے (سجدے کی حالت میں) ہے۔ اور دوسری تصویر میں میرے ساتھ میری اہلیہ پردہ میں، خاکسار ہاتھ میں قرآن شریف پکڑے ہوئے ہے۔

انٹرویو میں انہوں نے خبر کو اس طرح شروع کیا کہ
اگرچہ احمدیوں کو دیگر مسلمانوں نے اسلام سے خارج کیا ہوا ہے اور احمدی ان مسلمانوں کے سخت مظالم کا نشانہ بھی بنے ہوئے ہیں اور پاکستان میں خاص طور پر احمدیوں کو اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی اجازت نہیں ہے بلکہ بعض اوقات تو ان کے لئے اپنے آپ کو مسلمان کہلانا بہت بڑا خطرہ مول لینے والی بات ہے۔ 1984ء کے قانون کے مطابق تو اگر وہ اپنے آپ کو مسلمان کہیں تو 3 سال کے لئے قید ہو جائیں گے۔ سید شمشاد احمد ناصر جو کہ پاکستانی ہیں اور احمدیہ مبلغ ہیں یہاں پر، کہتے ہیں کہ یہ ناقابل برداشت بات ہے اور حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم کیا ہے اور انہیں اس کے مطابق اپنی عبادت کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ شمشاد کا کہنا ہے کہ جب ان باتوں کو قانونی حیثیت حاصل ہوگئی ہے تو ملاں کی مخالفت بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی تبلیغ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شمشاد جس بلڈنگ میں یہاں ہیوسٹن میں رہتے ہیں اس کے ساتھ ہی ایک اور کمرہ میں اس کی کمیونٹی کے لوگ ہر جمعہ کو صبح کے وقت اکٹھے ہو کر حضرت مرزا طاہر احمدصاحب جو ان کے عالمگیر روحانی پیشوا ہیں کا خطبہ جمعہ Live سنتے ہیں جو کہ لندن سے نشر ہوتا ہے۔ اور پھر جمعہ کے وقت نماز جمعہ بھی ادا کرتے ہیں۔

جماعت احمدیہ اٹھارویں صدی میں ساؤتھ ایشیا ہندوستان میں شروع ہوئی اور وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور احمدیہ جماعت کے بانی کو وہ امتی نبی سمجھتے ہیں جو کہ اسلام کی نشأۃثانیہ کے لئے آئے تھے یہ عقیدہ باقی مسلمانوں کے عقیدہ کے خلاف ہے وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو آخری نبی سمجھتے ہیں۔

شمشاد نے کہا ہے کہ وہ یہان پر صرف اپنے احمدیہ ممبران کے لئے نہیں ہیں بلکہ اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔ اس سے قبل شمشاد نے مڈویسٹ ریجن میں 5 سال تک خدمت کی ہے۔ وہ اس ریجن میں اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں اور میکسیکو میں بھی تبلیغ کرنے جاتے ہیں۔

خبر اور انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس علاقہ میں قریباً 250 احمدی ہیں ٹیکساس کے علاوہ پاکستانی، ہندوستانی نائیجیرین اور دیگر لوگ احمدیہ مشن میں اپنے عقیدہ کے مطابق عمل کرتے ہیں اور یہ سب لوگ آخری زمانہ میں آنے والے موعود پر ایمان رکھتے ہیں اس کے بعد وہ لکھتی ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحبؑ نے 19 ویں صدی کے شروع میں جب دیکھا کہ اسلام کو دیگر مذاہب کا سامنا اور چیلنج ہے خصوصاً عیسائیت اور ہندو ازم سے تو انہوں نے ان کا مقابلہ کیا اور انہوں نے اپنے مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔ مرزا غلام احمد صاحب کا یہ دعویٰ کہ وہ نبی ہیںدیگر مسلمانوں کے لئے اس کو قبول کرنا بہت مشکل ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر سید سعید نے کیا جو واشنگٹن میں اسلامک آفیسرز کے نگران ہیں۔ انہوں نے کہا کہ احمدیوں کے اس عقیدہ کی وجہ سے وہ اسلام سے باہر ہیں۔ ڈاکٹر سلینہ احمد جو کہ گریٹر ہیوسٹن کے میڈیا کے ڈائریکٹر ہیں نے کہا ہے کہ ان کے لئے احمدیوں کے بارے میں جج کرنا یا خیالات کا اظہار کرنا مشکل ہے وہ کہتی ہیں کہ ان کا علم کچھ زیادہ نہیں ہے اس بارے میں۔ البتہ پاکستان میں انہیں غیرمسلم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہندوستان میں وہ مسلمان سمجھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سلینہ احمد نے کہا کہ میرے نزدیک سب برابر ہیں میں یہ سمجھتی ہوں کہ جو پانچ ارکان اسلام پر ایمان نہ لائے وہ مسلمان نہیں ہے۔

انٹرویو کے آخر میں وہ لکھتی ہیں اس کے برعکس شمشاد اور ان کی اہلیہ صفیہ سلطانہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کا پیغام صحیح صورت میں دوسروں تک پہنچائیں جو کہ ہر قسم کے نسلی امتیاز سے پاک ہو۔

صفیہ نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کو شروع ہی سے اسلامی تعلیم سکھا رہی ہیں اخبار نے خاکسار کے چاروں بچوں کے نام اور ان کی عمریں لکھ کر بتایا کہ ان سب نے چھوٹی عمر ہی میں قرآن کریم پڑھ لیا ہے جو کہ مسلمانوں کی کتاب ہے۔ شمشاد نے بتایا کہ اسلام تو امن اور پیار کا مذہب ہے، ہر شخص کو بلاامتیاز اسلام کا پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے۔

انڈوامریکن نیوز اپنی اشاعت 4 اکتوبر 1993ء میں خاکسار کے حوالہ سے کمیونٹی نیوز میں لکھتا ہے کہ بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ عراق پر بمباری کرنے سے، بازنیا میں مسلمانوں کا بے رحمی سے قتل عام، بمبئی میں خون بہانے سے، اسلام تنزل کی طرف جائے گا۔ اس کے برعکس لاکھوں لوگ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ اس خبر میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی تصویر بھی شائع ہوئی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اس قسم کی خبر ملین لوگوں نے ساری دنیا میں اس وقت دیکھی جب جرمنی میں ان کےاٹھارویں جلسہ سالانہ پر جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا مرزا طاہر احمدؒ نے 10 ستمبر 1993ء کو شرکت کی اور 18 ہزار لوگ اس میں شامل ہوئے۔ جلسہ سالانہ کے دوسرے دن ’’احمد‘‘ نے لوگوں کے سوالوں کے جواب بھی دیئے اور 1600 سے زائد یورپین لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت بھی کی۔ اس سال جولائی میں یوکے میں 20 ہزار سے زائد لوگوں نے وہاں جلسہ سالانہ میں شرکت کی تھی۔ ’’احمد‘‘ نے لوگوں کو تلقین کی کہ وہ اپنی زندگیاں قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔

وائس آف ایشیا نے بھی اپنی اشاعت 18 اکتوبر 1993ء میں یہی جلسہ جرمنی کی خبر اسی طرح دی۔

انڈوامریکن نیوز نے اپنی اشاعت 18 اکتوبر 1993ء صفحہ 14 میں خاکسار کا ایک خط شائع کیا ہے جس میں خاکسار نے لکھا ہے کہ

Four Million Ahmadis Denied vote’s rights.

خاکسار نے اس خط میں ایڈیٹر کے نام یہ لکھا ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کو غیرمسلم اقلیت ٹھہرایا گیا اور اسے قانونی حیثیت دے کر انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا۔ خاکسار نے خصوصی طور پر جنرل ضیا کے XX آرڈیننس کا ذکر کیا اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بارے میں بھی ذکر کیا اور احمدیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے بارے میں لکھا۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 ستمبر 2020