• 28 اپریل, 2024

اساتذہ کا احترام اور بلند مرتبہ

5؍اکتوبر کا دن عالمی سطح پر یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد اساتذہ کے کردار کو اُجاگر کرنا اور طلباء کو اساتذہ کا احترام اور اطاعت سکھانا ہے۔ یہ اہم دن 1994ء سے اقوام متحدہ کے تحت منایا جانے لگا۔

ایک وقت تھا کہ شاگرد کا تمام انحصار اپنے استاد پر ہی ہوتا تھا اور استاد بھی اپنے شاگرد کے ساتھ ایک مثالی تعلق رکھتا تھا۔ وہ جہاں اپنے شاگرد کو نصاب کی کتب پڑھاتا تھا وہاں وہ اُسے اپنی حرکات و سکنات اور دعاؤں سے ادب و احترام کا خاموش درس بھی دے رہا ہوتا تھا۔وہ راتوں کو اُٹھ کر اپنے شاگردوں کے لئے دُعا کرتا تھا۔ اًن سے ہمدردی اور شفقت کا سلوک کرتا تھا۔ اور آج بھی جب پُرانے اساتذہ اپنے شاگردوں کو کسی اعلیٰ مقام پر فائز دیکھتے ہیں تو خوشی سے نہال ہوتے اوراپنے خالق حقیقی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہماری محنت رنگ لے آئی ہے۔ وہ اساتذہ اپنے شاگردوں کو اولاد کا مقام دیتے تھے اورطلبہ بھی اساتذہ کو والدین کا مقام دے کر ان کا احترام کرتے تھے۔ یوں ایک ادب و احترام اور شاگردی کی صورت میں شفقت و محبت کا تعلق تھا۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے۔ والدین تین طرح کے ہوتے ہیں۔

  1. وہ جو جنم کا باعث بنے۔
  2. وہ جس نے تعلیم دی یعنی استاد۔
  3. وہ جس نے آپ کو اپنی بیٹی دی یعنی ساس سسر۔

مگر جوں جوں سائنس نے ترقی کی اور نت نئی ایجادات سامنے آئیں اور شاگردوں سے ان ایجادوں اور الیکٹرانک میڈیا سے خود ہی تعلیم حاصل کرنی شروع کر دی۔ والدین یا اساتذہ کی ضرورت کم محسوس ہونے لگی۔ اُدھر مادیت نے بھی ماحول میں بھرپور دخل اندازی کی اور اساتذہ نے اپنی بعض حرکات وسکنات کی وجہ سے خود ہی اپنے کردار کومجروح کیا اور اپنے مطالبات منانے کے لئے وکلاء اور ڈاکٹروں کی طرح وہ بھی سڑکوں پرنکلے تو ان کے کردار پر ایک سوال کھڑا ہوا تب عالمی ادارے یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ وہ اساتذہ کا عالمی دن منا کر ان کے مقام کو بلندو بالا اور محترم کرنے کی تلقین کریں۔

ایک وقت تھا کہ ایک اعلیٰ عدالت میں جب ایک ٹیچر بطور ملزم پیش ہوتا تو جج اپنی کرسی چھوڑ کرکھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے یہ وہ شخص ہے جس کی تعلیم و تربیت سے میں اس مقام پر پہنچا ہوں اور میری قوم کو بھی اس نے اس مقام پر پہنچایاہے ۔

مشہور کالم نگار اور مصنف اشفاق احمد نے اپنی کتاب زاویہ میں لکھا ہے کہ مجھے روم قیام کے دوران ٹریفک چالان ہوا۔ مجھے 12 آنے کی سزا ہوئی جسے میں وقت پر جمع نہ کروا سکا۔ لہذا مجھے عدالت میں حاضر ہونا پڑا۔ سوالوں کے دوران جج نے پوچھا کہ آپ کرتے کیا ہیں؟ آپ نے شرمندگی سے سرجھکائے جواب دیا کہ میں ٹیچر ہوں۔ یہ سننا تھا کہ جج نے اپنی کرسی سے کھڑے ہوکر بلند آواز سے کہا کہ

Teacher in the court

کہ کورٹ میں ٹیچر ہے سب احتراماً اپنی کرسیوں سے کھڑے ہوجائیں۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ پھر جج نے یوں مخاطب کیا کہ جناب آپ ٹیچر ہیں اور ہم آج جج آپ اساتذہ کی بدولت ہیں مجھے افسوس ہے کہ آپ کو انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر چالان تو ادا کرنا ہوگا کیونکہ یہ آپ کی غلطی ہے مگر میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں۔ اس کے بعد جج اور عدالت کا تمام عملہ اشفاق احمد کو گاڑی تک چھوڑنے آئے۔

پُرانے وقتوں میں بادشاہوں نے بھی اپنے اور بعض نے اپنے بچوں کے اساتذہ کی بہت قدر کی۔ سکندر اعظم سے کسی نے اپنے استاد کے بےحد احترام کی وجہ پوچھی تو جواباً کہا کہ « میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا جبکہ میرا ستاد»ارسطو» مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ میرا باپ میری ایسی زندگی کا باعث بنا جو فانی ہے مگر میرا ستاد موجب حیات جاوداں اور میرا باپ میرے جسم کی پرورش کرتا تھا اور استادارسطو میری روح کی دیکھ بھال کرتا ہے۔»

یہی کیفیت خلیفہ ہارون الرشید، مامون الرشید اور مغل شہنشاہ اورنگ زیب کی تھی۔ گویا استاد کی حیثیت روحانی باپ کی سی ہے۔ دنیا میں روحانی باپ کا اعلیٰ و ارفع مقام سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو حاصل ہوا۔ آپؐ نے خود فرمایا « مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (ابن ماجہ) وہ کیا ہی خوش نصیب صحابہ تھے جنہوں نے تلمذ کی سعادت براہ راست آنحضرتﷺ سے حاصل کی۔ جب یہ آپؐ سے تعلیم حاصل کرتے تھے تویوں لگتا تھا کی آپ صحابہ کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ گویا دنیا میں سب سے پہلا اور بڑا معلم تو خود خدا تعالیٰ ہے جس نے فرمایا عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ (رحمٰن:3) اور پھر سرکار دو عالم حضرت محمد ﷺ استادہیں۔ جو روحانی والد کی شکل و صورت میں ایک قابل قدر ہستی، محترم و معظم شخصیت ہے۔ پھر معلم کائنات نے دنیا کی رہنمائی اور تعلیم کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے۔ یہ تمام معلمین، مربیان اور مزکی تھے۔ جو خدا کے بندوں کو دینی، اخلاقی اور روحانی تعلیم دیتے رہے۔ مثل مشہور ہے خَیْرُ الْاَشْغَالِ تَھْذِیْبُ الْاَطْفَالِ کہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کا بہترین مشغلہ بچوں کی تربیت کرنا ہے۔ انہیں مہذب بنانا ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرمایا کرتے تھے کہ جس شخص سے میں نے ایک لفظ بھی سیکھا یا پڑھا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کردے یا بیچ ڈالے۔

الغرض بشریت سے آدمیت اور انسان بنانے کا سفر ایک معلم، استاذ کے ذریعہ طے ہوتا ہے۔ جس کی قدر کرنی بہت ضروری ہے۔

کہتے ہیں جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل سے ججز نے مطالبہ کیا کہ ہماری تنخواہیں بھی اساتذہ کے برابر کریں تو چانسلر نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا یہی اساتذہ کی تعلیم وتدریس کی بدولت آپ اس مقام پر ہیں۔ آپ کس طرح ان کے برابر ہوسکتے ہیں۔

مکرم ڈاکٹر عبدالسلام نوبیل انعام حاصل کرنے کے بعد بھارت میں اپنے ریاضی (Mathematics) کے استاد پروفیسر انلیندرا گانگولی کو ڈھونڈنے لگے جنہوں نے آپ کو ریاضی سکھلائی اور اس مضمون کی محبت مکرم ڈاکٹر صاحب کے دل میں پیدا کی تھی۔ تا استاد کا شکریہ اداکیا جائے اور بتلایا جائے کہ یہ انعام آپ کی محنت کا مرہون منت ہے۔ چنانچہ دو سال بعد 1981ء مین آپ کو اپنے محسن استاد جناب پروفیسر گانگولی سے کلکتہ میں اُن کے گھر جاکر ملاقات کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت پروفیسر گانگولی بہت ضعیف ہوچکے تھے۔ لکھا ہے کہ آپ نے نوبیل انعام پروفیسر گانگولی کے گلے میں ڈال کر کہا کہ اس انعام کے اصل حقدار آپ ہیں۔

اور آج عزت و احترام کروانے کی تلقین کا دن منایا جا رہا ہے۔ عزت کے حوالہ سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ عزت کی جاتی ہے کروائی نہیں جاتی۔ انگلش میں ایک محاورہ کا خاکسار بارہا اپنے آرٹیکلز میں ذکر کر چکا ہے کہ

Education is not only Education but formation

کہ تعلیم صرف تعلیم حاصل کرنے ہی کا نام نہیں بلکہ یہ تب مکمل ہوتی ہے کہ یہ تعلیم حاصل کرنے والے کو format بھی کرے۔ اور اگر اساتذہ ہی اپنے آپ کو format نہ کریں اور طلبہ کے لئے نمونہ نہ بنیں تو پھر کم از کم ایسے دن ہی منا کر عزت کرنے کی تلقین کی جائے گی۔

آج میں اس کالم کے ذریعہ یوم اساتذہ کے موقع پر ساری دنیا کے قارئین الفضل کو یہ درخواست کرنا چاہتاہوں کہ اساتذہ کے عزت واحترام کے دائرہ کو وسیع کریں کیونکہ میرے نزدیک معاشرہ میں ہر انسان، دوسرے انسان کا استاد یعنی ٹیچر ہے۔ حتیٰ کہ بچہ بھی باپ کے لئے استاد کا درجہ رکھتا ہے۔ کیونکہ والد اپنے بچے سے بھی سیکھ رہا ہوتاہے۔ خاوند بیوی سے ،بیوی خاوند سے، بھائی بہن سے، بہن بھائی سے خاموش تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔

اگر ہم میں سے ہر ایک دوسرے کو استاد کا درجہ دے تو معاشرے میں بے امنی اور انتشار، لڑائی جھگڑا، امن و سکون کی فضا میں بدل سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک مثال آج سے 1400سال قبل کی دینا چاہتا ہوں۔ آنحضور ﷺ نے مدینہ میں صحابہ کو کھجوروں کی پیوندکاری کرتے دیکھا یعنی نر اور مادہ شگوفوں کو ملا رہے تھے تو آپ نے فرمایا ۔ ایسا نہ کرو شاید یہ زیادہ بہتر ہو۔ ا س سال کھجور ناقص رہی، کم ہوئی۔ انہوں نے حضورؐ کو بتایا۔ آپؐ نے فرمایا میں تو محض ایک بشر ہوں اگر دینی معاملہ میں کوئی حکم دوں تو اسے پکڑ لیا کرو اور اگر اپنے اندازہ سے کوئی بات کروں تو میں بھی انسان ہوں۔

(مسلم حدیث نمبر2362)

میں اس کالم میں چند اہم اساتذہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اگر ہم ان کو رول ماڈل بنائیں تو ہماری کایا پلٹ سکتی ہے۔ وہ اساتذہ یہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ، قرآن کریم، حضرت محمدمصطفی ﷺ، خلفائے راشدین، صحابہ رسول ﷺ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام، خلفائے عظام، صحابہ حضرت مسیح موعودؑ، ایم ٹی اے، مبلغین و مربیان و معلمین کرام، صحبت صالحین وبزرگان، مساجد، مدرس یا خطیب، اسکولز کالجز اور اکیڈمیز میں اساتذہ ، پروفیسر حضرات، والدین، چھوٹے بچے جن سے خاموش تعلیم ہم حاصل کرتے ہیں۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اکتوبر 2020