جلسہ سالانہ کے آغاز کی مختصر تاریخ
جلسہ سالانہ جماعتِ احمدیہ کی اخلاقی اور روحانی تربیت میں جہاں ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے وہیں جماعتی تشخص کو عالمی افق پر اُجاگر کرنے میں بھی اِس روحانی اجتماع نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ اور اِسی طرح جماعتِ احمدیہ کی روز افزوں ترقی کا مظہر بھی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جماعتِ احمدیہ کی بنیاد رکھنے کے دو سال بعد 1891ء میں جماعت کی روحانی و اخلاقی تربیت کے لئے جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی۔
آپؑ نے اس جلسہ کے انعقاد کے بنیادی اغراض و مقاصد اپنے رسالہ ’’آسمانی فیصلہ‘‘ کے ساتھ شائع فرمائے۔ آپؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہوجائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو لیکن اس غرض کے حصول کیلئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے تا اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو کسی بُرہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہوجائے سو اس بات کیلئے ہمیشہ فکر رکھنا چاہئے اور دعا کرنا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ یہ توفیق بخشے اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہئے کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پروا نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی۔ اور چونکہ ہریک کیلئے بباعث ضعف فطرت یا کمی ٔ مقدرت یا بُعد مسافت یہ میسر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کیلئے آوے کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کیلئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں لہٰذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کیلئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قویہّ تاریخ مقرر پر حاضر ہوسکیں سو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ 27 دسمبر سے 29دسمبر تک قرار پائے یعنی آج کے دن کے بعد جو تیس دسمبر 1891ء ہے آئندہ اگر ہماری زندگی میں 27 دسمبر کی تاریخ آجاوے تو حتی الوسع تمام دوستوں کو محض للہ ربانی باتوں کے سننے کیلئے اور دعا میں شریک ہونے کیلئے اس تاریخ پر آجانا چاہئے اور اِس جلسہ میں ایسے حقایق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کیلئے ضروری ہیں اور نیز اُن دوستوں کیلئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بدرگاہ ِارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر یک نئے سال میں جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے ُمنہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تودّد و تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا اور جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا اس جلسہ میں اس کیلئے دعائے مغفرت کی جائے گی اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کیلئے ان کی خشکی اور اجنبیّت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کیلئے بدرگاہ حضرت عزت جلّ شانہٗ کوشش کی جائے گی اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو ان شاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے۔‘‘
(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 351، 352)
اس اعلان کے مطابق مقررہ تواریخ پر قادیان دارالامان میں جماعتِ احمدیہ کی تاریخ کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔ جس میں مؤرخہ 27 دسمبر 1891ء کو حاضرین کے روبرو رسالہ ’’آسمانی فیصلہ‘‘ پڑھ کر سنایا۔ اس جلسہ میں 75 کے قریب سعادت مند شامل ہوئے۔ شاملین کی فہرست حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی اِسی کتاب ’’آسمانی فیصلہ‘‘ میں درج فرما کر تمام اصحاب کو تاریخ کا حصہ بنا دیا۔
(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 336، 337)
جلسہ سالانہ کے انعقاد سے آپ کی اصل غرض یہ تھی کہ آپؑ جماعت کو تقویٰ و طہارت کے اعلیٰ مقام پر دیکھنا چاہتے تھے اور آپ کی یہ غرض قطعاً نہ تھی کہ لوگ دیگر جلسوں کی طرح محض تفریح طبع کی غرض سے اِس جلسہ میں جمع ہوں اور اپنے اعمال و اخلاق اور روحانی حالت میں پاک تبدیلی پیدا نہ کریں۔
الغرض آپؑ نے جلسہ سالانہ کے انعقاد کی بنیادی راہیں متعین فرما دیں جن کی روشنی میں آج تک جماعتِ احمدیہ تمام اکنافِ عالم میں اپنے جلسہ ہائے سالانہ منعقد کرتی ہے۔
اِلتوائے جلسہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ میں جلسہ سالانہ معلوم تاریخ کے مطابق 3 مرتبہ ملتوی ہوا۔ لیکن یہاں سب سے پہلے ملتوی ہونے والے جلسہ سالانہ کا تذکرہ مقصود ہے۔
یہ 1893ء کا سال تھا جب آپ نے اپنی تصنیف لطیف ’’شہادۃ القرآن‘‘ میں اِمسال جلسہ کے التوا کا اعلان فرمایا۔ اور اِس کی وجوہات کا تذکرہ آپؑ نے نہایت درمندانہ اور مؤثر انداز میں رقم فرمایا جو آج بھی غور سے پڑھنے کے لائق ہے۔ سلسلہ کے ان ابتدائی ایام میں آپؑ نے اِس التوا سے افرادِ جماعت کو واضح طور پر یہ باور کرایا کہ آپؑ ایک متقی جماعت قائم کرنا چاہتے ہیں جو اپنے آپ میں ایک روحانی اور اخلاقی انقلاب پیدا کر کے دکھلاویں۔ اور اِس جلسہ کے انعقاد کا مقصد کوئی دنیاوی اغراض کا حصول نہیں بلکہ خدا اور رسول ﷺ کی سچی محبت دل میں پیدا کریں اور حقیقی معنوں میں ایمان، یقین اور معرفت میں ترقی کریں۔
چنانچہ آپؑ نے ’التوائے جلسہ 27 دسمبر 1893ء‘ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں آپؑ نے جلسہ کے التواء کے اسباب میں سے ایک بنیادی وجہ کا نہایت پُر درد انداز میں یوں ذکر فرمایا:
’’ہم افسوس سے لکھتے ہیں کہ چند ایسے وجوہ ہم کو پیش آئے جنہوں نے ہماری رائے کو اس طرف مائل کیا کہ اب کی دفعہ اس جلسہ کو ملتوی رکھا جائے اور چونکہ بعض لوگ تعجب کریں گے کہ اس التوا کا موجب کیا ہے لہٰذا بطور اختصار کسی قدر ان وجوہ میں سے لکھا جاتا ہے۔
اول۔ یہ کہ اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیزگاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں لیکن اس پہلے جلسہ کے بعد ایسا اثر نہیں دیکھا گیا بلکہ خاص جلسہ کے دنوں میں ہی بعض کی شکایت سنی گئی کہ وہ اپنے بعض بھائیوں کی بدخوئی سے شاکی ہیں اور بعض اس مجمع کثیر میں اپنے اپنے آرام کے لئے دوسرے لوگوں سے کج خلقی ظاہر کرتے ہیں گویا وہ مجمع ہی ان کے لئے موجب ابتلا ہوگیا اور پھر میں دیکھتا ہوں کہ جلسہ کے بعد کوئی بہت عمدہ اور نیک اثر اب تک اس جماعت کے بعض لوگوں میں ظاہر نہیں ہوا اور اس تجربہ کے لئے یہ تقریب پیش آئی کہ ان دنوں سے آج تک ایک جماعت کثیر مہمانوں کی اس عاجز کے پاس بطور تبادل رہتی ہے یعنی بعض آتے اور بعض جاتے ہیں اور بعض وقت یہ جماعت سو (100) سو (100) مہمان تک بھی پہنچ گئی ہے اور بعض وقت اس سے کم لیکن اس اجتماع میں بعض دفعہ بباعث تنگی مکانات اور قلت وسائل مہمانداری ایسے نالائق رنجش اور خودغرضی کی سخت گفتگو بعض مہمانوں میں باہم ہوتی دیکھی ہے کہ جیسے ریل میں بیٹھنے والے تنگی مکان کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں اور اگر کوئی بیچارہ عین ریل چلنے کے قریب اپنی گٹھری کے سمیت مارے اندیشہ کے دوڑتا دوڑتا ان کے پاس پہنچ جاوے تو اس کو دھکے دیتے اور دروازہ بند کر لیتے ہیں کہ ہم میں جگہ نہیں حالانکہ گنجائش نکل سکتی ہے مگر سخت دلی ظاہر کرتے ہیں اور وہ ٹکٹ لئے اور بقچہ اٹھائے ادھر ادھر پھرتا ہے اور کوئی اس پر رحم نہیں کرتا مگر آخر ریل کے ملازم جبراً اس کو جگہ دلاتے ہیں۔ سو ایسا ہی یہ اجتماع بھی بعض اخلاقی حالتوں کے بگاڑنے کا ایک ذریعہ معلوم ہوتا ہے اور جب تک مہمانداری کے پورے وسائل میسرنہ ہوں اور جب تک خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں اپنے خاص فضل سے کچھ مادہ رفق اور نرمی اور ہمدردی اور خدمت اور جفاکشی کاپیدا نہ کرے تب تک یہ جلسہ قرین مصلحت معلوم نہیں ہوتا حالانکہ دل تو یہی چاہتا ہے کہ مبائعین محض لِلّٰہ سفر کرکے آویں اور میری صحبت میں رہیں اور کچھ تبدیلی پیدا کرکے جائیں کیونکہ موت کا اعتبار نہیں۔ میرے دیکھنے میں مبائعین کو فائدہ ہے مگر مجھے حقیقی طور پر وہی دیکھتا ہے جو صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرتا ہے اور فقط دین کو چاہتا ہے سو ایسے پاک نیت لوگوں کا آنا ہمیشہ بہتر ہے کسی جلسہ پر موقوف نہیں بلکہ دوسرے وقتوں میں وہ فرصت اور فراغت سے باتیں کرسکتے ہیں اور یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خواہ انخواہ التزام اس کا لازم ہے بلکہ اس کا انعقاد صحت نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے ورنہ بغیر اس کے ہیچ اور جب تک یہ معلوم نہ ہو اور تجربہ شہادت نہ دے کہ اس جلسہ سے دینی فائدہ یہ ہے اور لوگوں کے چال چلن اور اخلاق پر اس کا یہ اثر ہے تب تک ایسا جلسہ صرف فضول ہی نہیں بلکہ اس علم کے بعد اس اجتماع سے نتائج نیک پیدا نہیں ہوتے۔ ایک معصیت اور طریق ضلالت اور بدعت شنیعہ ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں بلکہ وہ علت غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں اصلاح خلق اللہ ہے پھر اگر کوئی امر یا انتظام موجب اصلاح نہ ہو بلکہ موجب فساد ہو تو مخلوق میں سے میرے جیسا اس کا کوئی دشمن نہیں اور اخی مکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب سلمہ تعالیٰ بارہا مجھ سے یہ تذکرہ کرچکے ہیں کہ ہماری جماعت کے اکثر لوگوں نے اب تک کوئی خاص اہلیت اور تہذیب اور پاک دلی اور پرہیز گاری اور للہی محبت باہم پیدا نہیں کی سو میں دیکھتا ہوں کہ مولوی صاحب موصوف کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض حضرات جماعت میں داخل ہوکر اوراس عاجز سے بیعت کرکے اور عہد توبہ نصوح کرکے پھر بھی ویسے کج دل ہیں کہ اپنی جماعت کے غریبوں کو بھیڑیوں کی طرح دیکھتے ہیں وہ مارے تکبر کے سیدھے منہ سے السلام علیکم نہیں کرسکتے چہ جائیکہ خوش خلقی اور ہمدردی سے پیش آویں اور انہیں سفلہ اور خود غرض اس قدر دیکھتا ہوں کہ وہ ادنیٰ ادنیٰ خود غرضی کی بناء پر لڑتے اور ایک دوسرے سے دست بد امن ہوتے ہیں اور ناکارہ باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر حملہ ہوتا ہے بلکہ بسااوقات گالیوں تک نوبت پہنچتی ہے اور دلوں میں کینے پیدا کرلیتے ہیں اور کھانے پینے کی قسموں پرنفسانی بحثیں ہوتی ہیں اور اگرچہ نجیب اور سعید بھی ہماری جماعت میں بہت بلکہ یقیناً دو سو سے زیادہ ہی ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو نصیحتوں کو سن کر روتے اور عاقبت کو مقدم رکھتے ہیں اور ان کے دلوں پر نصیحتوں کا عجیب اثر ہوتا ہے لیکن میں اس وقت کج دل لوگوں کا ذکر کرتا ہوں اور میں حیران ہوتا ہوں کہ خدایا یہ کیا حال ہے۔ یہ کونسی جماعت ہے جو میرے ساتھ ہے۔ نفسانی لالچوں پر کیوں ان کے دل گرے جاتے ہیں اور کیوں ایک بھائی دوسرے بھائی کو ستاتا اور اس سے بلندی چاہتا ہے۔
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے۔ اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چارپائی پر قبضہ کرتا ہوں تاوہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سور ہوں اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں بلکہ مجھے چاہیئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کرو ں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے اگر میرا بھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہیئے کہ میں اس سے ٹھٹھا کروں یا چیں برحبیں ہوکر تیزی دکھاؤں یا بدنیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو جب تک وہ اپنے تئیں ہریک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دور نہ ہوجائیں۔ خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہوکر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ یہ باتیں ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں نہیں بلکہ بعض میں ایسی بے تہذیبی ہے کہ اگر ایک بھائی ضد سے اس کی چارپائی پر بیٹھا ہے تو وہ سختی سے اس کو اٹھانا چاہتا ہے اور اگر نہیں اٹھتا تو چارپائی کو الٹا دیتا ہے اور اس کو نیچے گرا تاہے ٭(یہ باتیں ہماری طرف سے اپنی عزیز جماعت کے لئے بطور نصیحت کے ہیں دوسرا کوئی مجاز نہیں کہ کسی کا نام لے کر ان کا تذکرہ کرے ورنہ وہ سب سےبڑھ کر گناہ اور فتنہ کی راہ اختیار کرے گا۔) پھر دوسرا بھی فرق نہیں کرتا اور وہ اس کو گندی گالیاں دیتا ہے اور تمام بخارات نکالتا ہے یہ حالات ہیں جو اس مجمع میں مشاہدہ کرتا ہوں تب دل کباب ہوتا اور جلتا ہے اور بے اختیار دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اگر میں درندوں میں رہوں تو ان بنی آدم سے اچھا ہے پھر میں کس خوشی کی امید سے لوگوں کو جلسہ کے لئے اکٹھے کروں۔ یہ دنیا کے تماشوں میں سے کوئی تماشا نہیں ابھی تک میں جانتا ہوں کہ میں اکیلا ہوں بجز ایک مختصر گروہ رفیقوں کے جو دو سو سے کسی قدر زیادہ ہیں جن پر خدا کی خاص رحمت ہے جن میں سے اول درجہ پر میرے خالص دوست اور محب مولوی حکیم نور الدین صاحب اور چند اور دوست ہیں جن کو میں جانتا ہوں کہ وہ صرف خدا تعالیٰ کے لئے میرے ساتھ تعلق محبت رکھتے ہیں اور میری باتوں اور نصیحتوں کو تعظیم کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کی آخرت پر نظر ہے سو وہ انشاء اللہ دونوں جہانوں میں میرے ساتھ ہیں اورمیں ان کے ساتھ ہوں۔ میں اپنے ساتھ ان لوگوں کو کیا سمجھوں جن کے دل میرے ساتھ نہیں جو اس کو نہیں پہچانتے جس کو میں نے پہچانا ہے اور نہ اس کی عظمتیں اپنے دلوں میں بٹھاتے ہیں اور نہ ٹھٹھوں اور بیراہیوں کے وقت خیال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور کبھی نہیں سوچتے کہ ہم ایک زہر کھا رہے ہیں جس کا بالضرور نتیجہ موت ہے۔ درحقیقت وہ ایسے ہیں جن کو شیطانی راہیں چھوڑنا منظور ہی نہیں۔ یاد رہے کہ جو میری راہ پر چلنا نہیں چاہتا وہ مجھ میں سے نہیں اور اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے اور میرے مذہب کو قبول کرنا نہیں چاہتا بلکہ اپنا مذہب پسندیدہ سمجھتا ہے وہ مجھ سے ایسا دور ہے جیسا کہ مغرب مشرق سے۔ وہ خطا پر ہے سمجھتا ہے کہ میں اس کے ساتھ ہوں۔ میں بار بار کہتا ہوں کہ آنکھوں کو پاک کرو اور ان کو روحانیت کے طور سے ایسا ہی روشن کرو جیسا کہ وہ ظاہری طور پر روشن ہیں ظاہری رویت تو حیوانات میں بھی موجود ہے مگر انسان اس وقت سوجا کھا کہلا سکتا ہے جب کہ باطنی رویت یعنی نیک و بد کی شناخت کا اس کو حصہ ملے اور پھر نیکی کی طرف جھک جائے سو تم اپنی آنکھوں کے لئے نہ صرف چارپاؤں کی بینائی بلکہ حقیقی بینائی ڈھونڈو اور اپنے دلوں سے دنیا کے بت باہر پھینکو کہ دنیا دین کی مخالف ہے جلد مرو گے اور دیکھو گے کہ نجات انہیں کو ہے کہ جو دنیا کے جذبات سے بیزار اور بری اور صاف دل تھے۔
میں کہتے کہتے ان باتوں کو تھک گیا کہ اگر تمہاری یہی حالتیں ہیں تو پھر تم میں اورغیروں میں فرق ہی کیا ہے لیکن یہ دل کچھ ایسے ہیں کہ توجہ نہیں کرتے اور ان آنکھوں سے مجھے بینائی کی توقع نہیں لیکن خدا اگر چاہے اور میں تو ایسے لوگوں سے دنیا اور آخرت میں بیزار ہوں۔ اگر میں صرف اکیلا کسی جنگل میں ہوتا تو میرے لئے ایسے لوگوں کی رفاقت سے بہتر تھا جو خدا تعالیٰ کے احکام کو عظمت سے نہیں دیکھتے اور اس کے جلال اور عزت سے نہیں کانپتے اگر انسان بغیر حقیقی راستبازی کے صرف منہ سے کہے کہ میں مسلمان ہوں یا اگر ایک بھوکا صرف زبان پر روٹی کا نام لاوے تو کیا فائدہ ان طریقوں سے نہ وہ نجات پائے گا اور نہ وہ سیر ہوگا۔ کیا خدا تعالیٰ دلوں کو نہیں دیکھتا۔ کیا اس علیم و حکیم کی گہری نگاہ انسان کی طبیعت کے پاتال تک نہیں پہنچتی۔
پس اے نادانو خوب سمجھو اے غافلو خوب سوچ لوکہ بغیر سچی پاکیزگی ایمانی اور اخلاقی اور اعمالی کے کسی طرح رہائی نہیں اورجو شخص ہر طرح سے گندہ رہ کر پھر اپنے تئیں مسلمان سمجھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو نہیں بلکہ وہ اپنے تئیں دھوکا دیتا ہے اور مجھے ان لوگوں سے کیا کام جو سچے دل سے دینی احکام اپنے سر پر نہیں اٹھا لیتے اور رسول کریم کے پاک جوئے کے نیچے صدق دل سے اپنی گردنیں نہیں دیتے اور راستبازی کو اختیار نہیں کرتے اور فاسقانہ عادتوں سے بیزار ہونا نہیں چاہتے اور ٹھٹھے کی مجالس کو نہیں چھوڑتے اور ناپاکی کے خیالوں کو ترک نہیں کرتے اور انسانیت اور تہذیب اور صبر اور نرمی کا جامہ نہیں پہنتے بلکہ غریبوں کو ستاتے اور عاجزوں کو دھکے دیتے اور اکڑ کر بازاروں میں چلتے اور تکبر سے کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور اپنے تئیں بڑا سمجھتے ہیں اور کوئی بڑا نہیں مگر وہی جو اپنے تئیں چھوٹا خیال کرے۔
مبارک وہ لوگ جو اپنے تئیں سب سے زیادہ ذلیل اور چھوٹا سمجھتے ہیں اور شرم سے بات کرتے ہیں اور غریبوں اور مسکینوں کی عزت کرتے اور عاجزوں کو تعظیم سے پیش آتے ہیں اور کبھی شرارت اور تکبر کی وجہ سے ٹھٹھا نہیں کرتے اور اپنے رب کریم کو یاد رکھتے ہیں اور زمین پر غریبی سے چلتے ہیں۔ سو میں بار بار کہتا ہوں کہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لئے نجات طیار کی گئی ہے۔ جو شخص شرارت اور تکبر اور خودپسندی اور غرور اور دنیا پرستی اور لالچ اور بدکاری کی دوزخ سے اسی جہان میں باہر نہیں وہ اس جہان میں کبھی باہر نہیں ہوگا۔ میں کیا کروں اور کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں جو اس گروہ کے دلوں پر کارگر ہوں خدایا مجھے ایسے الفاظ عطا فرما اور ایسی تقریریں الہام کر جو ان دلوں پر اپنا نور ڈالیں اور اپنی تریاقی خاصیت سے ان کی زہر کو دور کردیں۔ میری جان اس شوق سے تڑپ رہی ہے کہ کبھی وہ بھی دن ہوکہ اپنی جماعت میں بکثرت ایسے لوگ دیکھوں جنہوں نے درحقیقت جھوٹ چھوڑ دیا اور ایک سچا عہد اپنے خدا سے کر لیا کہ وہ ہریک شر سے اپنے تئیں بچائیں گے اور تکبر سے جو تمام شرارتوں کی جڑ ہے بالکل دور جا پڑیں گے اور اپنے رب سے ڈرتے رہیں گے مگر ابھی تک بجز خاص چند آدمیوں کے ایسی شکلیں مجھے نظر نہیں آتیں۔ ہاں نماز پڑھتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ نماز کیا شے ہے۔ جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع خام ہے جیسا کہ قربانیوں کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہنچتا صرف تقویٰ پہنچتی ہے ایسا ہی جسمانی رکوع و سجود بھی ہیچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجود قیام نہ ہو۔ دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو اور رکوع یہ کہ اس کی طرف جھکے اور سجود یہ کہ اس کیلئے اپنے وجود سے دست بردار ہو۔ سو افسوس ہزار افسوس کہ ان باتوں کا کچھ بھی اثر میں ان میں نہیں دیکھتا مگر دعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ میں دم زندگی ہے کئے جاؤں گا اور دعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کرکے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے انکے دلوں سے اٹھا دے اور باہمی سچی محبت عطا کردے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دعا کسی وقت قبول ہوگی اور خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا۔ ہاں میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میری جماعت میں خدا تعالیٰ کے علم اور ارادہ میں بدبخت ازلی ہے جس کے لئے یہ مقدر ہی نہیں کہ سچی پاکیزگی اور خدا ترسی اس کو حاصل ہو تو اس کو اے قادر خدا میری طرف سے بھی منحرف کردے جیسا کہ وہ تیری طرف سے منحرف ہے اور اس کی جگہ کوئی اور لا جس کا دل نرم اور جس کی جان میں تیری طلب ہو۔ اب میری یہ حالت ہے کہ بیعت کرنے والے سے میں ایسا ڈرتا ہوں جیسا کہ کوئی شیر سے۔ اسی وجہ سے کہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی دنیا کا کیڑا رہ کر میرے ساتھ پیوند کرے۔ پس التواء جلسہ کا ایک یہ سبب ہے جو میں نے بیان کیا۔’’
(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394 تا 398)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی یہ نہایت پُرسوز اور قیمتی نصائح آپؑ سے منسوب ہر سلیم الفطرت احمدی کے لئے آج بھی دعوتِ فکر ہیں۔ اور کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا میں پیدا شدہ حالات میں اِمسال جلسہ سالانہ کا التواء یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنی اخلاقی اور روحانی حالتوں پر غور کریں، پہلے سے بڑھ کر اپنے خدا کے آگے مخلص ہو کر جھک جائیں اور ان ایام کو خاص دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے معمور گزاریں۔
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بروح القدس نے بھی چند جمعے پہلے اپنے ایک خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 22 مئی 2020ء میں ہمیں کچھ خصوصی دعاؤں کی تلقین فرمائی ہے جن کا ہمیں روزانہ اہتمام کرنا چاہئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ پر ہی اختتامِ مضمون کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:
’’پس ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آ کر آنحضرت ﷺکے حقیقی متبعین میں شامل ہیں اور اسی میں ہماری بقاہے کہ آپؐ کے غلام صادقؑ کی بیعت میں آ کر آنحضرت ﷺکے حقیقی متبعین میں شامل ہوں اور آپؐ کے اسوہ کو اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ اپنانے کی کوشش کریں اور آنحضرت ﷺکے اسوہ اور آپؐ کے حکموں پر عمل کر کے منعم علیہ گروہ میں شامل ہوں اور اس گروہ کے بداثرات سے ہمیشہ بچے رہیں جو اللہ تعالیٰ کا غضب سہیڑنے والا اور گمراہ ہے۔ اپنی نمازوں میں خاص ذوق و شوق پیدا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں پر چلتے ہوئے ہمیشہ اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں۔’’ آمین ثم آمین
(خطبہ جمعہ فرمودہ 22مئی 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل مؤرخہ 12 جون 2020ء صفحہ 8)
٭…٭…٭
(مرسلہ:جوّاد احمد، مربیٔ سلسلہ)