تبرکات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
بعض مخلص اور جلد باز مگر خدائی سنت سے ناواقف لوگوں کی طرف سے پوچھا جا رہا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ اتنے عرصہ سے بیمار چلے آرہے ہیں اور حضور کی صحت کے لئے جماعت کی طرف سے اتنے صدقات کئے جا رہے ہیں اور اتنی دعائیں ہو رہی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ یہ دعائیں بظاہر قبول نہیں ہو رہیں اور حضور بدستور بیمار چلے جاتے ہیں؟
اس سوال کے مختصر سے جواب میں سب سے پہلے یہ بات یا در کھنی چاہئے کہ اس قسم کے سوالات دعا کے فلسفہ سے ناواقفیت اور انسانی فطرت کی جلد بازی سے پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ جلد بازی کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے۔ خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ (الانبیاء:38) یعنی انسان فطرۃً جلد باز واقع ہو اہے اور ہر کام کے متعلق چاہتا ہے کہ وہ فوراً ہو جائے۔ حالانکہ خدا نے اپنی حکمتِ کاملہ کے ماتحت ہر بات کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے اور خدا مومنوں کا امتحان بھی لیا کرتا ہے۔اس طرح حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
اِنَّہُ یَسْتَجَابُ لِاَحَدِکُمْ مَالَمْ یُعَجِّلْ فَیَقُوْلُ قَدْ دَعَوْتُ رَبِّی فَلَمْ یَسْتَجِبْ لِیْ۔ قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَاالْاسْتِعْجَالُ۔ قَالَ یَقُوْلُ قَدْ دَعُوْتُ وَ قَدْ دَعُوْتُ فَلَمْ یَسْتَجَابَ لِیْ۔ فَیَسْتَحْسِرُ وَ عِنْدَ ذَالِکَ یَدَعُ الدّعاَئَ۔
یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں ضرور قبول فرماتا ہے بشرطیکہ وہ جلد بازی سے کام نہ لیں۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ! جلد بازی سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا جلد بازی سے یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کچھ وقت تک دعا کرنے کے بعد یہ کہنا شروع کر دے کہ میں نے بہت دعا کر کے دیکھ لیا مگر میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ جس پر ایسا شخص تھک کر بیٹھ جائے اور دعا کرنا چھوڑ دے۔
اور دعا کے فلسفہ کے متعلق قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے شک اللہ مومنوں کی دعائیں قبول کرتا ہے (اور دعا تو دین کی جان ہے) مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ دعا کرنے والا خدا پر سچا ایمان رکھے اور عمل صالح بجا لائے۔ چنانچہ فرماتا ہے :
اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ
(البقرۃ:187)
یعنی میں دعا کرنے والے کی دعا کو ضرور سنتا اور قبول کرتا ہوں۔ مگر ضروری ہے کہ دعا کرنے والے بھی میرے حکموںکو مانیں اور مجھ پر سچا ایمان لائیں تاکہ وہ اپنی دعاؤں میں کامیابی کا منہ دیکھ سکیں۔
اور اس تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَجِیْبُ الدُّعَاءُ مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لاھِمٍ۔
یعنی خدا ایسے دل سے نکلی ہوئی دعا قبول نہیں کرتا جو غافل اور بے پرواہ ہے۔
یعنی نہ تو وہ دل میں حقیقی درد رکھتا ہے اور نہ ہی وہ دعا کے حقیقی فلسفہ سے واقف ہے۔
اور ایک حدیث قدسی میں دعا کی قبولیت کا یہ گُر بھی بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ۔
یعنی میرا بندہ میرے متعلق جیسا گمان کرتا ہے میں (دیگر شرائط کے تابع) اسی کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں۔ یعنی امید رکھنے والے کو مایوس نہیں کرتا۔
مگر دعا کی قبولیت کے لئے بعض اور شرائط بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ دعا کسی ایسے امر کے لئے نہ ہو جو خدا کے کسی وعدے یا اس کی سنت کے خلاف ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ (آل عمران:10) وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا(الاحزاب:63)
یعنی خدا تعالیٰ کسی صورت میں اپنے وعدہ کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا اور نہ تم خدا کی کسی سنت میں کوئی تبدیلی پاؤ گے۔
اور قبولیت دعا کی مختلف امکانی صورتوں کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَدْعُوْ بِدَعْوَۃٍ لَیْسَ فِیْھَا اِثْمٌ وَلَا قَطِیْعَۃَ رَحْمٍ اِلَّا اُعْطَاہُ اللّٰہُ بِھَا اِحْدَیٰ ثَلَاثٍ۔ اِمَّا یُعَجَّلُ لَہ دَعْوَتَہ وَ اِمَّا اَنْ یُدَّ خَرُ ھَالہ فِی الْاٰخِرَۃِ وَ اِمَّا اَنْ یَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْءَ مِثْلَھَا۔
یعنی جب ایک مومن خدا سے کوئی دعا کرتا ہے تو (بشرطیکہ وہ دعا کسی گناہ کی بات یا قطع رحمی پر مشتمل نہ ہو) خدا مندرجہ ذیل تین صورتوں میں سے کسی نہ کسی صورت میں اس کی دعا ضرور قبول فرما لیتا ہے۔ یعنی (1) یا تو وہ اسے اسی صورت میں اسی دنیا میں قبول کر لیتا ہے جس صورت میں کہ وہ مانگی گئی ہو۔ اور (2) یا اس دُعا کو آخرت میں دعا کرنے والے کے لئے یا جس کے حق میں دعا کی گئی ہو ایک مبارک ذخیرہ کے طور پر محفوظ کر لیتا ہے اور (3) یا (اگر اسے قبول کرنا خدا کی کسی سنت یا وعدہ یا مصلحت کے خلاف ہو تو ) اس کی وجہ سے اس سے کسی ملتی جلتی تکلیف یا دکھ یا مصیبت کو دور فرما دیتا ہے۔
بایں ہمہ دعا میں بڑی زبردست طاقت ودیعت کی گئی ہے۔ چنانچہ یہ دعا ہی ہے جو خدا کی تلخ تقدیروں کو روکنے کی طاقت رکھتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: لَا یُرَدُّ الْقَضَآءَ اِلَّا الدُّعَا
یعنی خدائی قضاء و قدر کو روکنے کے لئے دعا کے سو ا اور کوئی حیلہ نہیں۔
لیکن یا درکھنا چاہئے کہ دعا کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ :
جو مَنْگِے سو مر رہے
مرے سو منگن جا
یعنی حقیقی دعا گویا ایک موت ہے جس میں سے دعا کرنے والے کو گزرنا پڑتا ہے اور اپنے دل میں ایک ایسی سوزوگداز کی کیفیت پیدا کرنی پڑتی ہے جو موت کے مترادف ہے۔ اور پھر اس قسم کی موت کی کیفیت بھی دراصل ایک دوسری موت کے نتیجہ میں ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ جس میں انسان کے دل میں یہ درد اور یہ احساس پیدا ہو جائے کہ اگر یہ کام نہ ہو اتو میرے لئے گویا ایک موت درپیش ہو گی۔
پھر دعا خود دعا کرنے والے کے لئے بھی ایک بہترین عبادت بلکہ عبادت کی جان ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: الدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ (سنن الترمذی کتاب الدعوات)
یعنی دعا صرف ایک عام عبادت ہی نہیں بلکہ دعا کرنے والے کے لئے ایسی ہے جیسے کہ ایک ہڈی کے اندر کا گودا ہوتا ہے۔ جس کے بغیر ایک ہڈی بے کار چیز کی طرح پھینک دی جاتی ہے۔
پس میں احبابِ جماعت سے کہتا ہوں کہ جلد بازی کی رو میں بہہ کر مایوسی کی باتیں نہ کرو بلکہ خدا کی وسیع قدرت اور وسیع رحمت پر بھروسہ رکھ کر صبرو استقلال کے ساتھ دعائیں کرو، دعائیں کرو، دعائیں کرو۔ یہ دعائیں یقینا ًحضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کے لئے بابرکت ہوں گی۔ (جیسا کہ پہلے سے حضور کی طبیعت میں افاقہ شروع ہے اور برکت کی اور بھی کئی صورتیں ہیں) جماعت کے لئے بھی بابرکت ہوں گی اور خودد عا کرنے والوں کے لئے بھی بابرکت ہوں گی۔ اس سے بڑھ کر اور کیا چاہتے ہو ؟
اس مختصر سے نوٹ کے ختم کرنے سے قبل میں صدقات کے متعلق بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ صدقہ مختلف صورتوں میں دیا جا سکتا ہے۔ اوّل جانور ذبح کرنے کی صورت میں۔ کیونکہ جان کے بدلے جان کا اصول تمام مذاہب میں مسلّم ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت سے ثابت ہے۔ دوسرے مسکینوں اور یتیموں اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کی صورت میں جیسا کہ قرآ ن مجید کی متعدد آیات میں تاکید کی گئی ہے۔ تیسرے غریبوں اور بیواؤں اور بے سہارا لوگوںکو ان کی ضرورت کے لئے نقد امداد کا انتظام کر کے۔ چوتھے نادار بیماروں کے لئے ادویہ اور ضروری غذا یا لباس مہیا کر کے۔ پانچویں ہونہار مگر غریب طالبعلموں کے لئے فیسوں اور کتابوں کی امداد کی صورت میں اور چھٹے اگر کسی غریب یا یتیم یا بیوہ کا مکان گِر گیا ہو یا وہ ایسی ضروری تکمیل چاہتا ہو جس کے بغیر گزارہ نہ ہو مگر اسے اس کی طاقت نہ ہو تو اس کا انتظام کرا کے وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب صدقہ کی مقبول اور مستحسن صورتیں ہیں جو ہمارے دوستوں کے مدّنظر رہنی چاہئیں۔ اور صدقہ میں احمدیوں، غیر احمدیوں، غیر مسلموں بلکہ جانوروں تک کو شامل کرنا چاہئے۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فِیْ کُلِّ کَبَدٍ حَرٍّ اَجْرٌ۔ یعنی ہر زندہ چیز کی امداد کرنے اور اسے تکلیف سے بچانے میں خدا نے اجر مقرر کر رکھا ہے۔ اور ایک حدیث میں آپؐ فرماتے ہیں کہ ایک کنچنی یعنی فاحشہ عورت کو خدا نے اس لئے بخش دیا کہ اس نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا۔ اللہ، اللہ رحمت کی کتنی وسعت ہے !!!
وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
(محررہ 3جون 1959ء)
(روزنامہ الفضل ربوہ 6 جون 1959ء)
٭…٭…٭