• 27 اپریل, 2024

حضرت چودھری فضل داد صاحب رضی اللہ عنہ

تعارف صحابہؓ
حضرت چودھری فضل داد صاحب رضی اللہ عنہ۔چک 146 رب کھیوہ ضلع فیصل آباد

حضرت چودھری فضل داد صاحب رضی اللہ عنہ ولد قطب دین صاحب جٹ اصل میں موضع سرمے دانی (Surmedani) ضلع نارووال (اُس زمانے میں یہ گاؤں تحصیل شاہدرہ ضلع شیخوپورہ میں تھا) کے رہنے والے تھے، انگریز دور میں جب نہری نظام کے ذریعے زمینیں آباد ہوئیں تو آپ موضع چک 146 رب کھیوہ ضلع فیصل آباد منتقل ہوگئے اور پھر ساری زندگی وہیں گذاری۔ آپ اندازًا 1872ء میں پیدا ہوئے اور 1895ء میں بیعت کی توفیق پائی، آپ بیان کرتے ہیں:
’’میں جلسہ 1895ء میں سید محمد علی شاہ صاحب ساکن کلاس والہ کے کہنے پر قادیان گیا۔ اُنھوں نے بتایا کہ ایک صبح کو وہ سیالکوٹ گئے تو ایک شخص کو دیکھا کہ وہ چبوترہ پر بیٹھا ہے، پاس ہی حقہ ہے۔ خط لکھ رہا ہے۔ مَیں نے پوچھا کہ حقہ پی لوں؟ اُنھوں نے اجازت دی۔ مَیں نے پوچھا کہ کیا لکھتے ہو؟ اُس نے کہا کہ مجھے قولنج کی درد تھی، حکماء یونانی اور ڈاکٹری کا علاج کرایا فائدہ نہ ہوا، آخر منت مانی کہ خدایا اگر مرزا غلام احمد قادیانی تیری طرف سے ہے اور سچا ہے تو مجھے اس درد سے شفا دے تو مَیں اُن کی خدمت میں بمعہ اہل و عیال حاضر ہوں گا چنانچہ اسی رات غنودگی میں دیکھا کہ ایک شخص جس کا حلیہ حضرت صاحب کا تھا، آیا اور مجھے کہا کہ اے شخص خدا نے تجھے اس بیماری سے شفا دے دی ہے، اب اپنا عہد پورا کر۔ اُسی وقت مجھے اس درد سے آرام آگیا۔ شاہ صاحب نے بعد میں آکر بیعت کر لی، مَیں نے اُس وقت بیعت نہیں کی تھی۔ (مَیں حلفًا بیان کرتا ہوں کہ مجھے سید محمد علی شاہ صاحب نے ایسا ہی بتایا ہے۔ اے خدا! اگر میں جان بوجھ کر غلط بیانی سے کام لے رہا ہوں تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو۔)

سید محمد علی شاہ صاحب کے اس بات کے کہنے سے مجھے حضرت صاحب کے دیکھنے کا شوق ہوگیا، چنانچہ گیا۔ ان دنوں جلسہ سالانہ پر بہت تھوڑے آدمی ہوتے تھے ….. جلسہ مسجد اقصیٰ میں تھا …..‘‘

(الحکم 7؍اگست 1935ء صفحہ 5)

رجسٹر روایات صحابہ میں محفوظ آپ کی بیان کردہ روایات یوں درج ہیں:
’’میں تحقیق حق کے لئے 1895ء یا 1896ء میں قادیان گیا اور وہاں مجھ پر حق کھل گیا تو میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول مولانا مولوی نور الدین صاحب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر ایک روپیہ نذرانہ پیش کیا (کیونکہ میں نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خیال کیا) مولوی صاحب نے حاضرین کو فرمایا کہ مجھے اس روپیہ کی بڑی ضرورت تھی اور خدا نے اچھے موقع پر دیا ہے۔ مولوی صاحب چونکہ طبیب تھے اور انھوں نے خیال کیا کہ یہ شخص مریض ہے اور مجھ سے دریافت کیاکہ تمہیں کیا بیماری ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں بیمار نہیں ہوں، صرف بیعت کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ مولوی صاحب نے روپیہ مجھے واپس دے دیا اور فرمایا کہ بیعت لینے والا اور ہے، میں نہیں ہوں۔ پھر میں نے ایک شخص کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں رہتا تھا کہا کہ میری بیعت کروا دو۔ اس شخص نے کہا کہ جس وقت حضرت صاحب سیر سے واپس تشریف لاکر مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے راستہ گھر کو تشریف لے جاویں اس وقت بیعت کے لئے عرض کرنا۔ چنانچہ میں ایک روز جب حضور سیر سے واپس تشریف لاکر گھر کو جانے لگے تو میں مسجد مبارک میں گھر کے اندر جانے والے دروازہ کے پاس کھڑا ہوگیا۔ جب حضور تشریف لائے اس وقت مصافحہ کیا، نذرانہ دیا اور بیعت کرنے کے لئے عرض کیا۔ حضور نے ایک شخص کو فرمایا کہ بعد نماز مغرب ان کو بیعت کروادینا چنانچہ بعد نماز مغرب حضرت اقدس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دس شرائط بیعت دہرا کر مجھ سے بیعت لے لی۔ چنانچہ جب میں قادیان سے واپس اپنے چک نمبر 146 میں آیا تو مجھے ایک سید مسمی دولت شاہ ساکن ضلع سیالکوٹ نے یہ کہا کہ تم جس شخص کی بیعت کرکے آئے ہو نہ ہی وہ شفاعت کے قائل ہیں اور نہ ہی نبیوں کے معجزات کے قائل ہیں۔ چنانچہ قادیان حضور کی خدمت میں خط لکھا گیا۔ وہاں سے جو خط آیا وہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ؓ کے ہاتھ کا حسب ذیل مضمون کالکھا ہوا پہنچا۔ ’’جو شفاعت کا قائل نہیں وہ بھی کافر، جو انبیاء کے معجزات کا قائل نہیں وہ بھی کافر، حقیقی مردے زندہ نہیں ہوسکتے، باقی دشمنوں کی زبان کو کون روکے؟‘‘

ایک دفعہ میں حضور کے ملنے کے لئے قادیان گیا۔ سن یاد نہیں۔ مسجد مبارک میں ان دنوں ایک لائن میں پانچ آدمی کھڑے ہوتے تھے۔ صبح کی نماز کے بعد حضور مسجد میں ٹھہر گئے (نماز صبح مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے پڑھائی تھی) فرمایا۔ اللہ رحم کرے بارشیں بہت ہوگئی ہیں۔ سردی زیادہ پڑے گی اور طاعون بھی زیادہ پھیلے گی۔ ان دنوں طاعون کی پیشگوئی شائع ہوکر قادیان سے باہر طاعون پھیلی ہوئی تھی۔

’’ایک دفعہ جب مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کو ’’کار بنکل‘‘ کا پھوڑا نکلا ہوا تھا اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب علاج کررہے تھے۔ صبح کے وقت حضور نے میرے سامنے یہ فرمایا کہ رات کو خواب میں مجھے اپنے بھائی غلام قادر ملے ہیں۔ اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ مولوی عبدالکریم صاحب کو صحت ہوجاوے گی مگر مولوی صاحب فوت ہوگئے۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 130،131)

اخبار بدر یکم نومبر 1906ء صفحہ 14 پر چک 146 کھیوہ ضلع لائل پور کے 30 سے زائد افراد کے نام بیعت کنندگان میں درج ہیں جن میں آپ دونوں میاں بیوی کا نام بھی شامل ہے۔آپ اپنی جماعت کے سیکرٹری تھے، ناظر صاحب بیت المال قادیان ایک جگہ رپورٹ میں لکھتے ہیں: ’’چک 146 کھیوہ۔ چودھری فضل داد صاحب والد ڈاکٹر نور احمد صاحب سیکرٹری ہیں اور آپ کا ہی چندہ زیادہ ہوتا ہے، دو تین احباب دوسرے بھی ہیں….‘‘

(الفضل 21؍جنوری 1930ء صفحہ 25)

آپ نے 3؍اپریل 1950ء کو وفات پائی، اخبار الفضل میں وفات کی خبر یوں درج ہے:
’’مکرمی چودھری فضل داد صاحب جو چک 146 رکھ برانچ موسومہ کھیوہ تحصیل و ضلع لائل پور کے رہنے والے تھے، ساڑھے تین ماہ لگاتار دمہ کی بیماری سے بیمار رہ کر 3؍اپریل 1950ء بوقت صبح اپنے چک میں 78 سال کی عمر میں فوت ہوگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔

مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے 1895ء سے بیعت کا شرف حاصل تھا۔ مرحوم موصی تھے، 1938ء میں وصیت کی اور اپنی جائیداد ملکیتی …. اپنی زندگی میں ہی بحق صدر انجمن احمدیہ کر کے قبضہ دے دیا تھا۔ مرحوم بہت بڑے مخلص اور اعلیٰ درجہ کے صالح انسان تھے….. آپ کا جنازہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ربوہ میں پڑھایا، اہالیان ربوہ کی بہت بڑی تعداد نے جنازہ میں شامل ہوکر مرحوم کے لیے دعا کی۔ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بوجہ درد نقرس کے جنازہ نہ پڑھا سکے۔ مرحوم کو موصیوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا…..‘‘

(الفضل 11؍اپریل 1950ء صفحہ4)

آپ کی اہلیہ حضرت برکت بی بی صاحبہ بھی صحابیہ تھیں، وہ بیان کرتی ہیں کہ ’’ایک دفعہ جبکہ بارش کے بعد آسمان پر قوس قزح پیدا ہوئی تو حضرت مبارکہ بیگم صاحبہ نے حضرت اقدسؑ سے پوچھا کہ یہ کیوں ہوتی ہے …. چنانچہ بعد میں حضور نے اس کی تشریح فرمائی کہ یہ روشنی کے رنگ ہیں۔‘‘ (الحکم 7؍اگست 1935ء صفحہ 5) حضرت برکت بی بی صاحبہ نے 23؍نومبر 1935ء کو بعمر 50 سال وفات پائی اور بوجہ موصیہ (وصیت نمبر 2256) ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔ آپ کی اولاد میں سے جن کا علم ہوا ہے اُن میں ایک بیٹے محترم ڈاکٹر نور احمد صاحب نے مورخہ9؍ستمبر 1951ء بعمر 53 سال وفات پائی اور بوجہ وصیت بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ ایک اور بیٹے چودھری سید احمد صاحب (ولادت: 1900ء۔ وفات: 11؍دسمبر 1969ء) بھی بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں، ان کی اہلیہ محترمہ محمد بی بی صاحبہ ناصر آباد ربوہ نے مورخہ 21؍دسمبر 1993ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔

٭…٭…٭

(مرتبہ: غلام مصباح بلوچ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اکتوبر 2020