• 25 ستمبر, 2025

میدان تبلیغ میں پیش آنے والے چند دلچسپ واقعات

اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء اور صلحاءسے وعدہ ہےکہ وہ ان کی تائید و نصرت کے لئے خارق عادت نشان ظاہر کرتا ہے تا مؤمنین کے دلوں کو تقویت دے اور مخالفین پر حجت تمام کرے۔ جیسا کہ اس نے فرمایا

إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ۔

(سورة المؤمن:52)

ترجمہ : یقینا ًہم اپنے رسولوں کی مدد کریں گے اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ، اس دنیا کی زندگی میں بھی اور اس روز بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کی تائید و نصرت میں لاکھوں نشان ظاہر فرمائے۔ اسی طرح مبلغین احمدیت کی تبلیغی میدانوں میں ایسے طور پر مدد فرمائی اور ان کو غیروں پر غلبہ عطا فرمایا کہ جس کی نظیر ملنا مشکل نظر آتی ہے۔ ان نشانات اور تائید الہٰی کے واقعات کو دیکھ کر ہزاروں سعید روحوں کو قبو ل احمدیت کی توفیق ملی۔حضرت مسیح موعودؑ اللہ تعالیٰ کے نشانات کے بارہ میں فرماتے ہیں

یہ امر پوشیدہ نہیں کہ میری تائید میں خدا کے کامل اور پاک نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں اور اگر ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے تمام گواہ اکٹھے کئے جائیں تو مَیں خیال کرتا ہوں کہ وہ ساٹھ لاکھ سے بھی زیادہ ہوں گے مگر افسوس کہ تعصّب اور دنیا پرستی ایک ایسا لعنتی روگ ہے جس سے انسان دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتا اور سُنتے ہوئے نہیں سنتا اور سمجھتے ہوئے نہیں سمجھتا۔ مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ وہ نشان جو میرے لئے ظاہر کئے گئے اور میری تائید میں ظہور میں آئے۔ اگر اُن کے گواہ ایک جگہ کھڑے کئے جائیں تو دنیا میں کوئی بادشاہ ایسا نہ ہوگا جو اُس کی فوج ان گواہوں سے زیادہ ہو۔

(اعجاز احمدی ،روحانی خزائن جلد 19 ص:107-108)

نصرت الہٰی کے واقعات سے تاریخ احمدیت بھری پڑی ہے۔ ان میں چند ایک واقعات نمونةذیل میں درج کئے گئے ہیں۔

دوران تبلیغ الٰہی حفاظت کے عظیم الشان نظارے

حضرت مولانا ابو العطاء صاحب ؓجالندھری بیان کرتے ہیں (جب آپ فلسطین میں تبلیغ کے فرائض سر انجام دے رہے تھے) کہ میں ایک بار ایک احمدی دوست کے ساتھ ایک تبلیغی پروگرام سے رات کے وقت واپس کبابیر آرہا تھا کہ ایک جنگل میں سے گذرتے ہوئے یہ محسوس ہوا کہ جیسے جھاڑیوں میں کچھ حرکت ہوئی ہے ،لیکن یہ سمجھ کر کہ شاید کوئی جانور ہو ،زیادہ توجہ نہیں دی اور ہم آگے گذر گئے ۔تھوڑی دیر کے بعد ہمیں دو دھماکوں کی آوازیں سنائی دی۔لیکن اسے بھی اتفاق سمجھ کر ہم نے کوئی توجہ نہ دی ،یہاں تک کہ ہم اپنے مکان پر پہنچ گئے ۔اس واقعہ کو خالص آسمانی حفاظت کے ایک محیر العقول اور نادر الوقوع مظاہر ہ کے طور پر بیان کر تے ہوئے آپ فرماتے ہیں

بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ تھا ،جو یاد بھی نہ رہا ۔لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو موت کا سفر تھا ،جو اﷲ تعالیٰ کی تائید کے سایہ میں حفاظت سے طے ہو گیا۔ یعنی کافی عر صہ کے بعد اس واقعہ کی حقیقت کا انکشاف ہوا ،جو اس طرح پر تھی کہ کچھ معاند احمدیت عرصہ سے مجھے قتل کر نے کی کوشش میں تھے ۔اُس رات اُن میں سے دو نو جوان بندوقوں سے مسلح ہو کر اور پوری تیاری کے ساتھ میری تاک میں جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے ۔میں اور میراساتھی باتیں کر تے ہوئے جب ان کے پاس سے گزر ے تو ان میں سے ایک نے مجھ پر بندوق چلائی ،لیکن وہ نہ چلی ،پھر دوسرے نوجوان نے بندوق چلانے کی کوشش کی ،لیکن اس کی بندوق بھی نہ چل سکی ۔ادھر ہم ان قاتلانہ کوششوں سے کلیةً بے خبر اﷲ تعالی کی حفاظت کے سایہ میں آگے بڑھتے چلے گئے ۔ہمارے گزر جانے کے بعد جب ان دونوں نوجوانوں نے اپنی بندوقوں کودوبارہ چلا کر دیکھا ،تو انہوں نے بالکل ٹھیک کام کیا یعنی ان میں قطعا ً کوئی خرابی نہ تھی ۔صرف یہ بات ہوئی تھی کہ جس وقت ان کا رخ دو درویشان احمدیت کی طرف تھا ،تو اﷲ تعالیٰ کی غالب تقدیرنے انہیں چلنے سے روک دیا اور جب یہ درویشان سلامتی سے آگے گزر گئے تو ان بندوقوں نے بالکل ٹھیک کام کیا ۔وہ دونوں دھماکے انہیں بندوقوں کے چلنے کے تھے۔

(درویشان احمدیت ،جلد:3 ،ص:289-290)

1913ء میں تبلیغ کی غرض سے حضرت چوہدری فتح محمد سیالؓ صاحب لنڈن تشریف لے جا رہے تھے ۔آپ فرماتے ہیں کہ دوران سفر سمندر میں طوفان آگیا اور جہاز ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تو جہاز کے کپتا ن نے کہا کہ آپ سب لوگ لائف بیلٹ باندھ لیں۔ایک ہندو بھی ہمارے ساتھ سفر کر رہا تھا۔وہ یہ سن کر بہت گھبرا گیا ۔میں نےاس ہندو کو کہا کہ تم بالکل پریشان نہ ہو یہ جہاز نہیں ٹوٹے گا کیونکہ میں مسیح وقت کا پیغام لندن لے کر جا رہا ہوں ۔اس ہندو نے کہا اگر یہ جہاز نہیں ڈوبے گا تو میں لندن پہنچ کر مسلمان ہو جاؤ ں گا۔چنانچہ خدا تعالیٰ کا کر نا ایسا ہوا کہ طوفان تھم گیا اورجہاز بخیروعافیت سے لندن پہنچ گیا ۔ لندن پہنچ کر وہ صاحب خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے مسلمان ہو گئے ۔الحمد ﷲ۔ مگر تین دن کے بعد وہ جہاز دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہوا اور کھلے سمندر میں پہنچنے سے پہلے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔

(سیرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب،ص:101)

مولوی عبد الوہاب احمد صاحب فرماتے ہیں کہ میں تنزانیہ میں نیا نیا پہنچا تھا کہ ایک دفعہ رات تین بجے مجھے مجبوراً ایک سفر پر جانا پڑا ۔مجھے میڈا سے کیٹنگاری تک کا تقریباً آٹھ دس میل کا سفر پیدل طے کرنا تھا اور پھر بس میسر آنی تھی ۔میں جنگل میں رواں دواں تھا کہ یکدم دو ڈاکو تلواریں لہراتے اور للکارتے ہوئے نمودار ہوئے ۔میں نے جلدی سے کلمہ طیبہ اور سورة یسین کی آیات پڑھ کر درود شریف کا ورد کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی دعا رب کل شییء خادمک رب فاحفظنی وانصرنی وارحمنی پڑھنے اور دنیا کو الوداعی نظروں سے دیکھنے لگا ۔کیونکہ ڈاکوؤں کا مقصد لو ٹنے سے زیادہ ایک غیر ملکی کو قتل کرنا ہوتا ہے۔اس اثنا میں وہ ڈاکو پیچھے سے میرے قریب آچکے تھے ۔انہوں نے آتے ہی مجھ پر تلواریں سونت لیں ۔ان کی تلوار مجھ پر پڑنا ہی چاہتی تھی کہ میرے منہ سے ایک چیخ نکلی کہ اے پیارے مولیٰ!مجھے اپنی گود میں لے لے۔اسی لمحہ یعنی جونہی میری زبان سے یہ الفاظ نکلے ،میری انکھوں کے سامنے قدرت خداوندی کا ایک عجیب منظر پیش ہوا ۔میں نے دیکھا کہ کسی غیر مرئی طاقت نے ان ڈاکوؤں کو اٹھا کر آگے کی طرف پھینک دیا ہے۔جب وہ آگے سے حملہ آور ہوئے تو اسی غیر مرئی چیز نے انہیں اٹھا کر دوبارہ میرے پیچھے کی طرف پھینک دیا ہے۔اور جب وہ دو سری بار پیچھے سے حملہ کر نے لگے تو پھر آگے کی طرف پھینک دیے گئے ۔ یہ سلسلہ اسی طرح کو ئی پندرہ بیس منٹ جاری رہا ۔یہاں تک کہ وہ غیر مرئی چیز انہیں دھکے دے دے کر جنگل کی طرف لے کر چلی گئی اور اس طرح وہ دونوں ڈاکو میری نظروں سے بالکل غائب ہو گئے۔

(درویشان احمدیت ،جلد : 3ص:409-410)

حضرت مولانا غلا م حسین صاحب ایازنے لمبا عر صہ سنگاپور میں تبلیغ اسلام کی سعادت پائی ۔جاپانیوں کے تسلط کے زمانہ میں کسی شخص کو زبان کھولنے کی ہمت نہ ہوتی تھی مگر آپ بے دھڑک ہر جگہ تبلیغی کاموں میں مصروف رہتے اور دنیا حیران ہوتی تھی کہ آپ ان جاپانیوں کے ہاتھ سے کس طرح بچ جاتے ہیں ۔درحقیقت یہ سب اﷲ تعالی کی حفاظت کا کرشمہ تھا جو ایک داعی الیٰﷲ کو قدم قدم پر نصیب ہو تی ہے۔ایک بار سنگاپور کی ایک مسجد میں تقریر کر تے ہوئے ایک غیر احمدی مولوی نے یہ الزام لگایا کہ احمدی لوگ جس قرآن پر یقین رکھتے ہیں وہ مسلمانو ں کے قرآن سے مختلف ہے۔آپ نے اسی وقت بڑی جرأت کے ساتھ مجمع میں کھڑے ہو کر اس الزام کی پر زور تردید کی۔ملاؤں نے عوا م الناس کو پہلے سے مشتعل کیا ہوا تھا ۔آپ کی بات سن کر بعض نے وہیں پر آپ کو مارنا شروع کر دیا اور ادھ موا کر کے گھسیٹتے ہو ئے مسجد کی سیڑھیوں تک لے گئے۔اور وہاں سے نیچے دھکیل دیا ۔آپ سر کے بل نیچے گرے جس سے آپ کے سر اور کمر پر شدید چوٹیں آئیں اور نیچے گر تے ہی آپ بے ہوش ہو گئے۔

آپ اسی طرح بے ہوشی کے عالم میں سڑک کے کنارے پڑے رہے ۔نہ کسی نے پولیس کو اطلاع کی نہ خود اٹھا کر ہسپتال پہنچایا ۔اﷲ تعالی نے اپنی تائید ونصرت کایہ کرشمہ دکھایا کہ حسن اتفاق سے ایک احمدی فوجی افسر کر نل تقی الدین احمد صاحب کا وہاں سے گز ر ہوا ۔انسانی ہمدردی جذبہ سے سڑک کے کنارے ایک شخص کو مردے کی حالت میں پڑا دیکھ کر آپ نے اپنی جیپ روکی اور دیکھتے ہی پہچان لیا ۔فوری طور پر ہسپتال پہنچایا اور اس طر ح اﷲ تعالی نے معجزانہ طور پر آپ کی جان بچائی ور نہ غیر احمدی دشمنوں نے تو اپنی طرف سے مار کر یہ یقین کر لیا تھا کہ ان کا کام تما م ہو چکا ہے۔

(تبلیغی میدان میں ایمان افروز واقعات،ص:41-42)

بیماروں کی معجزانہ شفایابی کے واقعات

حضرت مولوی غلام رسول راجیکیؓ صاحب نے ایک مر تبہ موضع مکھنا والی میں ایک جلسہ میں شمولیت کی اور لو گوں کو تبلیغ کی۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اس جلسہ کا وہا ں موجود غیر احمدیوں پر بہت اچھا اثر ہوا۔ جلسہ کے بعد اﷲ تعالی نے اپنی قدرت کا ایک کر شمہ دکھایا۔مولوی صاحب لکھتے ہیں

جلسہ کے برخاست ہو نے کے بعدجب ہم سب دوست نماز ادا کر نے کے لئے مسجد میں آئے تو ہمارے پیچھے اس گاؤں کے دو ماچھی سقہ قوم کے فرد بھی آگئے اور پکار پکار کر کہنے لگے کہ مہدی اور مسیح کا دعوی تو کیا جاتا ہے مگر نور اور ایمان اتنا بھی نہیں کہ کو ئی کرامت دکھا سکیں ۔میں نے انہیں مخاطب کر تے ہوئے پوچھا تمہاری اس سے کیا مراد ہے ؟تب ان میں سے ایک نے کہا کہ میرا ایک بھائی قریباً ڈیڑھ سال سے ہچکی کے مر ض میں مبتلا ہے ۔طبیبوں اور ڈاکٹروں کے علاج سے بھی اس کو کوئی فائد ہ نہیں ہوا۔ میں نے کہا اس میں ہمارا کیا قصور ہے ۔اگر آپ لوگ حضرت مسیح موعود ؑسے دعا کر واتے اور اس کو کو ئی فائدہ نہ ہو تا تو اعتراض بھی تھا اب ہم پر کیا اعتراض ہے ۔اس نے کہا پھر آپ ہی احمدیت کا کچھ اثر دکھا ئیں تاکہ ہم بھی دیکھ لیں کہ احمدی اور غیر احمدی لوگوں میں کیا فرق ہے ۔میں نے کہا کہ اچھایہ بات ہے تو لاؤکہاں ہے تمہارا مر یض ۔چنانچہ اسی وقت اس شخص نے اپنے بھائی کو جو پاس ہی بیٹھا کراہ رہا تھا میرے سامنے کھڑا کر دیا خدا کی حکمت کہ اس مریض کا میرے سامنے آنا ہی تھا کہ میں نے ایک غیبی طاقت اور روحانی اقتدا اپنے اندر محسوس کیا اور مجھے یوں معلوم ہونے لگا کہ میں اس مرض کے ازالہ کے لئے خدا تعالی کی طرف سے ایک اعجاز نما قدرت ر کھتا ہوں چنانچہ میں نے اسی وقت اس مریض کو کہا کہ تم میرے سامنے ایک پہلو پر لیٹ جاؤاور تین چارمنٹ تک جلد جلد سانس لینا شروع کر دو ۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا ۔ اس کے بعد میں نے اسے اٹھنے کو کہا ۔ جب وہ اٹھاتو اس کی ہچکی بالکل نہ تھی ۔اس کرامت کو جب تمام حاضرین نے دیکھاتو حیرت زدہ ہو گئے اور وہ دونوں بھائی بلند آوازسے کہنے لگے کہ ہم تسلیم کر تے ہیں کہ مرزا صاحب واقعی سچے ہیں۔

(حیات قدسی ،حصہ دوم، ص:57-58)

بارش رُکنے اور برسنے کے نشان

سیّدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر حضرت مولوی غلام رسول راجیکی ؓصاحب تبلیغ کے لئے ہندوستان کے دورہ پر گئے۔ جب آپ بھدرک پہنچے تو وہاں تائید الہٰی کا ایک نشان اﷲ تعالیٰ نے دکھایا۔ آپ فرماتے ہیں(تبلیغی جلسہ پر) جب ہماری تقریریں شروع ہو ئیں تو اوپر سے اَبرِ سیاہ برسنا شروع ہو گیا ۔تمام چٹائیاں اور فرش بارش سے بھیگنے لگا ۔اس وقت احمدیوں کے دلوں میں لیکچروں میں رکاوٹ کی وجہ سے سخت گھبراہٹ پیدا ہو ئی ۔میرے دل میں بھی سخت اضطراب پیدا ہوا اور میرے قلب میں دعا کے لئے جوش بھر گیا ۔میں نے دعا کی کہ اے ہمارے مولی ہم اس معبد اصنا م میں تیری تو حید اور احمدیت کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں اور تیرے پاک خلیفہ اور مصلح موعود کے بھیجے ہو ئے ہیں ۔لیکن آسمانی نظام اور ابر وسحاب کے منتظم ملائکہ بارش بر سا کر ہمارے مقصد میں روک بننے لگے ہیں ۔میں دعا ہی کر رہا تھا کہ قطرات بارش جوابھی گر نے شروع ہی ہو ئے تھے طرفة العین میں بند ہو گئے اور جو لوگ بارش کے خیال سے جلسہ گاہ سے اٹھ کر جا نے لگے تھے ۔میں نے ان کو آواز دے کر روک لیا اورکہا کہ اب بارش نہیں بر سے گی ۔لوگ اطمینان سے بیٹھ کر تقریریں سنیں ۔چنانچہ خدا تعالی کے فضل سے سب مبلغین کے لیکچر ہوئے اور بارش بند رہی اور تھوڑے وقت میں مطلع بالکل صاف ہو گیا۔

(حیات قدسی حصہ سوم ،ص:24-25)

حضرت خلیفہ المسیح الرابع جلسہ سالانہ برطانیہ 1999ء کے موقع پربینن کا ایک واقعہ بیان فرمایا۔فرمایا کہ علی جمعہ گیوا صاحب مبلغ بینن سرکٹ (نائجیریا) لکھتے ہیں کہ ہم ایکسا کو کے علاقہ میں تبلیغ کے لئے گئے ۔اردگرد کے دوسرے علاقوں میں بارشیں ہو ئی تھیں ۔لیکن یہ علاقہ بالکل خشک تھا ۔وہاں کے مسلمانوں نے بھی بارش کے لئے اجتماعی دعا کی تھی اور عیسائیوں نے بھی۔جب جماعت احمدیہ کا وفد تبلیغ کے لئے وہاں پہنچا تو گاؤں والوں نے یہی شرط رکھی کہ ہم آ پ کی بات پھر سنیں گے۔پہلے آپ لوگ بارش کے لئے دعا کریں اور بارش ہو جائے ۔اس پر علی جمعہ گیوا صاحب نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی ۔اس وقت دوپہر دو بجے کاوقت تھا ۔عصر کے وقت اچانک بادل آئے اور بڑی تیز بارش ہوئی اور پھر ساری رات ہوتی رہی۔ یہ نشان دیکھ کر بغیر کسی اور تبلیغی پروگرا م کے اس علاقے کے کثیر لوگ احمدیت میں شامل ہو گئے اور بیعتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

(درویشان احمدیت جلدنمبر2 ص:197)

منکروں پر اللہ تعالیٰ کی گرفت

حضرت مولوی غلام رسول راجیکیؓ صاحب فرماتے ہیں کہ سید نا حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک میں جبکہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں طاعون کے حملے ہو رہے تھے میں تبلیغ کی غرض سے موضع گو ٹر یالہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات گیا اور وہاں ایک مخلص احمدی چوہدری سلطان عالم صاحب کے پاس چند دن رہا ۔دو ران قیام میں ہر رات میں ان کے مکان کی چھت پر چڑھ کر تقریریں کر تا رہا اور لوگوں کو احمدیت کے متعلق سمجھاتا رہا ۔ چونکہ ان کی تقریروں میں میں ان لوگوں کو طاعون وغیرہ کے عذابوں سے بھی ڈراتا رہا ۔اس لئے ایک دن صبح کے وقت اس گاؤں کے کچھ افراد میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ نے اپنی تقریروں میں مرزا صاحب کے نہ ماننے والوں کو طاعون وغیرہ سے بہت ڈرایا ہے مگر آپ کو معلوم ہو ناچاہیے کہ موضع گوٹریالہ بہت بلندی پر واقع ہے اور پھر اس کی فضا اور آب وہوا اتنی عمدہ ہے کہ یہاں وبائی جراثیم پہنچ ہی نہیں سکتے میں نے کہا یہ تو بالکل درست ہے مگر آپ لوگ یہ بتا ئیں کہ مجھ سے پہلے کبھی کو ئی احمدی مبلغ اس گاؤں میں آیا ہے جس نے آکر آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کی تبلیغ کی ہو؟ کہنے لگے نہیں آپ سے پہلے کو ئی مبلغ اس گاؤں میں نہیں آیا ۔ میں نے کہا تو بس یہی وجہ ہے کہ آپ کاگاؤں ابھی تک محفوظ ہے ۔ اب میری تبلیغ اور آپ لوگوں کے انکا ر کے بعد بھی اگر یہ گاؤں خدا تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہا تو پھر میں سمجھوں گاکہ واقعی اس گاؤں کی عمدہ فضا ،خدا تعالیٰ کے ار شاد وما کنا معذبین حتی نبعث رسولاًکے وعید کو روک سکتی ہے۔ خدا تعالی کی حکمت ہے کہ میں تو ان لو گوں کو یہ بات کہہ کر چلا آیا مگر اس کے چند دن بعد ہی اس گاؤں میں چوہے مر نے شروع ہو گئے اور پھر طاعون نے ایسا شدیدحملہ کیا کہ اس گاؤں کے اکثر محلے موت نے خالی کر دیے اور کئی لو گ بھاگ کر دو سرے دیہات میں چلے گئے۔

(حیات قدسی ،حصہ دوم ،ص:88-89)

حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ نے 2003 کے جلسہ سالانہ کے موقع پربور کینا فاسو میں پیش آنے والے ایک ایمان افروز واقعہ کا ذکر فرمایا ۔

آپ فرماتے ہیں کہ امیر صاحب لکھتے ہیں کہ بورکینا فاسو ڈوری ریجن میں وہابیوں نے سوڈان سے ایک مولوی ’’حسن گربہ‘‘ نامی کو جماعت کے خلاف بولنے کے لئے بلایا ۔ موصوف کے متعلق انہیں یقین تھا کہ یہ شخص احمدیوں کی ترقی کو روک سکے گا۔چنانچہ اس شخص نے تین صوبوں کا چکر لگا کر ہر جگہ احمدیت کے خلاف اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا۔ ہم نے اسے مقابلہ کے لئے بلایا ،مگر وہ ٹالتا رہا۔ اس پر ہم نے اس کے سارے اعتراضات کو بیان کر کے یہ اعلان کیا کہ سب جھوٹ ہے اور ہم جھوٹے پر لعنت ڈالتے ہیں ۔یہ شخص چکر لگاتے ہو ئے ایک احمدی گاؤں ’’غل غنتے‘‘ میں جمعہ کے روز داخل ہوا اور نماز جمعہ کے بعد کہنے لگا ۔لوگو بات سنو !میں کہتا ہوں کہ مسیح موعود جھوٹے ہیں اور میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر میں جھوٹا ہو ں تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو ۔تمام احمدیوں نے کہا الحمد ﷲ اب فیصلہ خدا کی عدالت میں ہے ۔ہم ضرور نتیجہ دیکھیں گے۔ (چنانچہ اس پر) ڈیڑھ ہفتہ نہ گذرا تھا کہ یہ شخص بیمار ہوا اور اسے ڈوری ہسپتال میں لیجایا گیا ۔مگر ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ۔پھر اسے بورکینا فاسو کے سب سے بڑے ہسپتال میں لے جایا گیا ۔وہاں بھی ڈاکٹروں نے جواب دے دیااور کہا اسے گھانا لے جاؤ۔

حضور فرماتے ہیں اب دیکھیں اﷲ تعالیٰ کا بھی کیسا انتقام ہوتا ہے کہ احمدیہ ہسپتال میں اسے داخل کروا دیا ۔جماعت کے ڈاکٹروں نے تو بہرحال خدمت کر نی ہوتی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ مخالف ہے یا حق میں ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر یہ شخص آج رات نکال گیا تو صبح اس کا آپریشن کر دیں گے۔ (مگر) یہ شخص رات کے وقت پیشاب کر نے کے لئے بیت الخلا گیا اور وہیں دم توڑ دیا۔

(بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 19ستمبر 2003)

روئیا وکشوف کے ذریعہ رہنمائی

مولانا محمد صدیق صاحب نے اپنے دور میں افریقہ میں پیش آنےوالے ایک ایمان افروز واقعہ بیان کیا جس میں ایک نوجوان عیسیٰ احمد فولانی کو اﷲ تعالیٰ نے ایک مبشر خواب کے ذریعہ احمدیت قبول کر نے کی توفیق عطا فرمائی۔

آپ لکھتے ہیں کہ اس نوجوان نے مجھ سے بیان کیا کہ ‘›میں 1941ء کے دوران احمدیت کا مطالعہ کر رہا تھا جبکہ میرے قبیلہ کے لوگ احمدیت کی سخت مخالفت کر رہے تھے ۔میں نے ایک شب خواب میں دیکھا کہ سخت اندھیری رات ہے ۔مگر آسمان پر ستارے جھلملا رہے ہیں جن کے درمیان سنہری حروف میں یہ انگریزی عبارت لکھی ہے

The Amadiyya Muslims are the last boat to save the world from Noah’s flood

یعنی احمدی مسلمانوں کی جماعت دنیا کو (ضلالت اور گمراہی کے عالمگیر) طوفان سے بچانے والی آ خری کشتی ہے۔

اس خواب کے بعد اس نوجوان نے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔

(روح پرور یادیں ص:216)

علمی دلائل سے مخالفوں کو ساکت کر دینا

مولوی محمد حسین صاحب صحابی حضرت مسیح موعودؑ کا ایک واقعہ ہے ۔مولوی صاحب نے ایک مناظرہ میں جو کلانور کے مقام پر عیسائیوں سے ہوا محض ایک سوال کر کے پادریوں کی بولتی بند کر دی ۔آپ فرماتے ہیں ‘›حضرت مسیح ناصری کے کفارہ پر مناظرہ تھا ۔پہلی ٹرن میں مسیح کا کفارہ ہو نے کے متعلق چند لایعنی سی باتیں پادری نے بیان کیں ۔میں نے جواباً پادری سے سوال کیا کہ پادری صاحب یہ مناظرہ لمبا کر نے کی ضرورت نہیں ہے ۔صرف میرے سوال کا آپ جواب دے دیں ۔آپ نے بتایا ہے کہ آدم کی اولاد میں ورثہ میں گناہ آیا ہے ۔جو بھی آدم کی اولاد ہے وہ گناہ گار ہے ۔اب بائیبل کی رو سے ہم نے فیصلہ کر نا ہے ۔مسیح نے خود فرمایا ہے کہ عورت کو گناہ کی وجہ سے یہ سزاملی کہ تودردِزہ سے بچہ جنے گی ۔اب آپ فرماتے ہیں کہ مسیح نے سب گناہ اٹھا لیے۔ مگر حالات بتاتے ہیں کہ یہ بات صحیح نہیں کیونکہ عیسائی عورتیں بچہ جننے سے پہلے اسی طرح درد زہ میں مبتلا ہوتی ہیں اور جتنے عیسائی جھاڑو بردار ہیں ان سب کو سر سے پاؤں تک پسینہ آیا ہوا ہوتا ہے ۔جس سے صاف ثابت ہے کہ مسیح کسی کا کفارہ نہیں ہو سکے۔اگر آپ کو شک ہو تو اپنی بیویوں سے پوچھ لیں کہ بچہ جننے سے پہلے دردِزہ ہوتی ہے یانہیں ۔۔۔۔ میر ی اس ایک ہی دلیل کو سن کر پادری ایسا بوکھلایا کہ کہنے لگا چونکہ ہمارے مناظر پادری صاحب آج نہیں آئے اس لئے ہم مناظرہ ملتوی کر تے ہیں۔اس چیزکا غیر احمدی احباب پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ سب اٹھ اٹھ کر آپ کومبارک باد دینے اور کہنے لگے کہ اب یہ لوگ ہمارے سامنے آنے کی جرأت نہ کر سکیں گے۔

(درویشان احمدیت ،جلد 2 ص:119)

مکرم شیخ عبدالقادر صاحب (سابق سوداگر مل) فرماتے ہیں (اس وقت آپ کراچی میں بطور مربی متعین تھے) سندھ مدرسہ کے پاس والے انجمن کے مکان میں ایک دفعہ ایک دیسی پادری صاحب تبلیغ کے لئے آگھسے ۔پندرہ بیس منٹ اس نے تبلیغ کی۔ اس کو ہمارے سلسلہ کے اغراض ومقا صد کا علم نہیں تھا ۔جب وہ اپنا مشن پور ا کر چکا تو ہم نے انجیل سے ان آیتوں (جن کو انجیل سے نکال دیا گیا ہے) کی فہرست نکال کر اس کی خدمت میں پیش کردی ۔اور اس سے دریافت کیا کہ یہ آیتیں اب کہاں ہیں؟انہیں اصل متن سے کیوں نکال دیا گیا ہے۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہنے لگا۔مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔ میں اپنے بڑے پادری صاحب کی خدمت میں جو امریکن ہیں ۔آپ کا یہ سوال پیش کروں گا۔ اور پھر جو جواب انہوں نے دیا۔ میں کل آکر آپ کو بتاؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ چلاگیا ۔اپنے وعدے کے مطابق جب دوسرے روز وہ آیا تو بہت ہی سہماہوا، کبیدہ خاطر اور پریشان نظر آتا تھا۔ ہم نے اسے امریکن پادری کی خدمت میں پیش کر نے کے لئے ایک جلد تحفہ شہزادہ ویلز بھی دی تھی ۔اس نے آتے ہی کہا صاحب میں آپ کی انجمن میں آتو گیا ہوں ۔لیکن برائے خدا آپ کسی کو میری آ مد کی اطلاع ہر گز نہ دیں ور نہ میری نوکری جاتی رہے گی ۔اور گھبراہٹ کی وجہ یہ بتائی کہ کل جب میں نے امریکن پادری صاحب کی خدمت میں آپ کی کتاب پیش کی تو وہ بڑے خوش ہوئے اور جھوم جھوم کراسے پڑھنا شروع کیا۔ ابھی انہوں نے دو تین صفحے ہی پڑھے تھے کہ میں نے آپ کی دی ہوئی وہ فہرست پیش کر دی اور کہا کہ کتاب دینے والوں نے ان آیات کے اناجیل سے نکالنے کی وجہ پوچھی ہے ۔میرا اتنا کہنا تھا کہ پادری صاحب غصہ سے لال پیلے ہو گئے ۔کتاب کو فرش پر دے مارا اور مجھے بڑے تحکمانہ لہجے میں کہا کہ یہ فہرست یقینا تمہیں کسی قادیانی نے دی ہے۔تم یہ بتاؤکہ تم ان لوگوں کے پاس کیوں گئے۔ خبر دار اگر ہمیں علم ہو گیا کہ تم پھربھی ادھر گئے ہو تو ہم تمہیں نوکری سے جواب دے دیں گے۔ اب میں صرف اپنا وعدہ پورا کر نے کے لئے آیا ہوں ۔ور نہ میں ہر گز نہ آتا۔

(تابعین اصحاب احمد :جلد اول ص:60-61)

تائید الہٰی کا ایک منفرد واقعہ

شیخ عبد القادر صاحب اپنا ایک واقعہ لکھتے ہیں
میں ابھی کراچی میں ہی تھا کہ سندھ میں نبی سر روڈ کے مقام پر غیر احمدیوں کے ساتھ ایک مناظرہ قرار پایا ۔غزنوی خاندان کے بعض مولوی اور عبد اﷲ معمار امرتسری مقابل پرتھے ۔قادیان دار الامان سے کتابیں اس وقت پہنچیں جب خاکسار و احباب میدان مناظرہ میں پہنچ چکے تھے اور عملا مناظرہ کی کاروائی شروع ہونے والی تھی چونکہ مجھے کتابوں کی فہرست کاکوئی علم نہ تھا اس لئے کتابوں سے فائدہ بھی نہیں اٹھا سکتا تھا دوران مناظرہ ایک کتا ب کا جو غالباً جلالین تھی میں نے حوالہ پیش کیا۔ مولوی عبد اﷲ معمار نے جو مقابل پر تھے فوراً اٹھ کر کہا کہ یہ غلط ہے جھوٹ ہے ۔اس کتا ب میں ہرگز یہ حوالہ نہیں ہے جوتم پیش کر رہے ہو اور اگر ہے تو اصل کتاب نکال کر پیش کرو ۔میں نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ کتابیں ابھی پہنچی ہیں اور مجھے علم نہیں کہ یہ کتاب آئی بھی ہے یانہیں اور اگر آپ کے پاس کتاب ہے تو بھیجو ۔میں حوالہ نکال کر آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔اس نے آؤ دیکھا نہ تا ؤ۔ فوراً کتاب بھیج دی ۔میں نے یہ کہ کر وہ کتاب اپنی کتابوں کے درمیان رکھ دی کہ جب تم تقریر کرو گئے تو میں اطمینان سے حوالہ نکال کر تمہیں دکھا دوں گا۔بعد تقریر جب میں نے حوالہ نکالنے کے لئے کتاب کو ہاتھ میں لیا توفرشتوں نے اس کی کتاب کے بجائے وہ کتاب میرے سامنے کر دی جو قادیان سے آئی تھی اور جس میں بین السطور وہ حوالہ موجود تھا ۔ میں نے کتاب جو کھولی تو فوراً حوالہ نکل آیا ۔اس پر میں نے باآواز بلند حاظرین کو مخاطب کر کے کہا کہ صاحبان دیکھئے یہ حوالہ موجود ہے۔ اور اگر کوئی شخص پرائمری پاس بھی ہو اور وہ یہ حوالہ دیکھنا چاہے تو ہم اسے دکھا سکتے ہیں ۔اس پر دو تین آدمی حوالہ دیکھنے کے لئے آگئے آئے اور جب انہوں نے شہادت دی کہ حوالہ موجود ہے تو مجمع پر ایک سناٹا چھا گیا ۔

مولوی عبد اﷲ معمار بہت پریشان ہوا کیونکہ جو کتاب اس نے بھیجی تھی اس کے متعلق اسے یقین تھا کہ اس میں وہ حوالہ موجود نہیں ۔مگر حقیقت کا مجھے بھی علم نہیں تھا ۔میرا بھی یہی خیال تھا کہ اس کی بھیجی ہوئی کتاب سے ہی حوالہ نکلا ہے۔ لہذا میں نے وہی کتاب اسے واپس بھیج دی ۔اس کے بعد جب میں اطمینان سے دوسری کتابیں دیکھنے لگا تو پہلی کتاب جومیرے ہاتھ آئی وہ وہ تھی جو معمار مذکورنے بھیجی تھی۔تب مجھ پر معمہ کھلا اور میں نے خدا تعالی کا شکر ادا کیا جس نے میری آبرو رکھ لی اور سلسلہ کو ذلت سے بچا لیا۔

(ملخص از تابعین اصحاب احمد جلد اول، ص:161)

اللہ تعالیٰ کی خارق عادت مدد کے یہ چند واقعات نصرت الہٰی کے سمندروں میں سے چند قطرے ہیں جو ہمیں اس طرف رغبت دلاتے ہیں کہ ہم اپنے اندر ایک معجزانہ تبدیلی پیدا کرنےوالے ہوں تاکہ ہم بھی حضرت مسیح موعودؑ کے روحانی فیض سے مستفیض ہوکر اللہ تعالیٰ کی برکات اور فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں۔ نیز ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان نشانات کے ذکر سے اپنی محفلوں کو تازہ رکھیں تا کہ خدا پر ایمان اور یقین میں ترقی ہو۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں

ہماری جماعت جس نے مجھے پہچانا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اِن نشانات کو باسی نہ ہونے دیں۔ اس سے قوت یقین پیدا ہوتی ہے۔اس لئے ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ ان نشانات کو پوشیدہ نہ رکھے اور جس نے دیکھے ہیں وہ ان کو بتلا دے، جوغائب ہیں، تا کہ برائیوں سے بچیں اور خدا پر تازہ ایمان پیدا کریں اور ان نشانات کو عمدہ براہین سے سجا سجا کر پیش کریں۔ یاد رکھو! خدا کے دلائل اور براہین کو جو غور سے نہیں دیکھتے، وہ اندھے ہوتے ہیں اور حق کو دیکھ نہیں سکتے اور ان کے سننے کے کان نہیں ہوتے۔یہ لوگ چار پائے بلکہ ان سے بھی بد تر ہیں اور خدا ان کی زندگی کا متکفل نہیں ہوتا۔خدا تعالیٰ مومن اور متقی کی زندگی کا ذمہ دار ہے۔ ھو یتولی الصالحین (الاعراف:١٩٧)

(ملفوظات جلد نمبر1 ص:379)

٭…٭…٭

(مرسلہ: شہود آصف (استاد جامعہ احمدیہ گھانا))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اکتوبر 2020