• 29 اپریل, 2024

قرآن کریم خاتم الکتب اور اکمل الکتب ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
قرآن کریم کے کامل کتاب اور اس کی خوبصورت تعلیم کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’چونکہ قرآن کریم خاتم الکتب اور اکمل الکتب ہے اور صحائف میں سے حسین اور جمیل ترین ہے۔ اس لئے اس نے اپنی تعلیم کی بنیاد کمال کے انتہائی درجہ پر رکھی ہے اور اس نے تمام حالتوں میں فطری شریعت کو قانونی شریعت کا ساتھی بنادیا ہے تا وہ لوگوں کو گمراہی سے محفوظ کر دے اور اس نے ارادہ کر لیا ہے کہ وہ انسان کو اس بے جان چیز کی طرح بنا دے جو خود بخود دائیں بائیں حرکت نہیں کر سکتی اور نہ ہی کسی کو معاف کر سکتی یا اس سے انتقام لے سکتی ہے جب تک کہ خدائے ذوالجلال کی طرف سے اجازت نہ ہو‘‘۔

(ترجمہ از عربی عبارت خطبہ الہامیہ۔ روحانی خزائن جلد 16صفحہ316)

پس قرآن کریم کی تعلیم پر حقیقی عمل یہ ہے کہ اس کے ہر حکم کو بجا لانے کی کوشش کی جائے تبھی عمل کرنے والے کی یا پڑھنے والے کی ہر حرکت و سکون جو ہے وہ خداتعالیٰ کی رضا کے تابع کہلائے گی اور یہ بھی نہیں کہ اس کی تعلیم میں کوئی مشکل ہے بلکہ یہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ اس کا ذکر خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ پہ کیا ہے۔ مثلاً روزوں کے جو احکام ہیں اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ (البقرۃ: 186) کہ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا۔ یہ ایک اصولی اعلان ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم فطرت کے مطابق ہے اور اس کے بارہ میں یہ بتایا گیا کہ اس میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ تمہاری طاقتوں کے مطابق تمہیں تعلیم دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور پھر یہ تعلیم ان اعلیٰ معیاروں کا پتہ دینے والی ہے جو معیار تمہیں خداتعالیٰ کے قریب ترین کر دیتے ہیں۔ پھر ایک جگہ خداتعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ یَسَّرْنَاالْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِفَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر: 18) اور یقینا ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنا دیا۔ پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟ یہاں نصیحت اس لئے نہیں کہ نصیحت برائے نصیحت ہے۔ کر دی اور مسئلہ ختم ہو گیا۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان نصائح کو پکڑو اور ان پر عمل کرو۔ اگر یہ خیال ہے کہ مشکل تعلیم ہے تو یہ خیال بھی غلط ہے۔ یہ اس خدا کا کلام ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور ہر انسان کی استعدادوں کابھی اس کو علم ہے۔ وہ خدا یہ اعلان کرتا ہے کہ اس کی نصیحتیں اور اس قرآن کی تعلیم پر جو عمل ہے وہ انسانی استعدادوں اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ پس کیا اس کے بعد بھی تم اس سوچ میں پڑے رہو گے کہ اس تعلیم پر میں کس طرح عمل کروں؟ اس تعلیم پر عمل کرو تو جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے بے انتہا انعامات کے وارث ٹھہرو گے۔

پھر اس قرآن میں پرانی قوموں کے جو حالات بیان کئے گئے ہیں وہ بھی اس لئے ہیں کہ نصیحت پکڑ و اور اپنے اعمال کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق رکھو تاکہ وہ آفات اور پکڑ اور عذاب جو پرانی قوموں پر آتے رہے اس سے بچے رہو۔

ایک آیت میں پھر خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن کریم کی تعلیم جو ہے وہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔ فرمایا کہ رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ۔ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البینۃ: 4-3) اللہ کا رسول مطہر صحیفے پڑھتا تھا۔ ان میں قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات تھیں۔ اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی تفصیل سے مختلف جگہوں پر روشنی ڈالی ہے۔ ایک بیان مَیں پڑھتا ہوں۔ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن مجید لانے والا وہ شان رکھتا ہے کہ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البینۃ: 4-3) ایسی کتاب جس میں ساری کتابیں اور ساری صداقتیں موجود ہیں۔ کتاب سے مراد اور عام مفہوم وہ عمدہ باتیں ہیں جو بالطبع انسان قابل تقلید سمجھتا ہے‘‘۔ (وہ باتیں ہیں جن کو انسانی طبیعت سمجھتی ہے کہ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ ان کی پیروی کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہئے)۔

فرمایا: ’’قرآن شریف حکمتوں اور معارف کا جامع ہے اور وہ رطب ویا بس فضولیات کا کوئی ذخیرہ اپنے اندر نہیں رکھتا‘‘ (اس میں کوئی فضول بات نہیں)۔ ’’ہر ایک امر کی تفسیر وہ خود کرتا ہے اور ہر ایک قسم کی ضرورتوں کا سامان اس کے اندر موجود ہے۔ وہ ہرایک پہلو سے نشان اور آیت ہے۔ اگر کوئی اس امر کا انکار کرے تو ہم ہر پہلو سے اس کا اعجاز ثابت کرنے اور دکھلانے کو تیار ہیں‘‘۔ (یہ چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس وقت دیا)

فرمایا کہ ’’آجکل توحید اور ہستی الٰہی پر بہت زور آور حملے ہو رہے ہیں‘‘۔ (اور اس زمانے میں پھر آجکل اللہ تعالیٰ کے وجود کے خلاف بہت زیادہ کتابیں لکھی جا رہی ہیں تو آج کل پھر قرآن کریم کو پڑھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔) فرمایا کہ آجکل توحید اور ہستی الٰہی پر بہت زور آور حملے ہو رہے ہیں۔ عیسائیوں نے بھی بہت کچھ زور مارا اور لکھاہے۔ لیکن جو کچھ کہا اور لکھا وہ اسلام کے خدا کی بابت ہی لکھا ہے۔ نہ کہ ایک مُردہ، مصلوب اور عاجز خدا کی بابت۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی اور وجود پر قلم اٹھائے گا۔ اس کو آخر کار اسی خدا کی طرف آنا پڑے گا۔ جو اسلام نے پیش کیا ہے۔ کیونکہ صحیفۂ فطرت کے ایک ایک پتّے میں اس کا پتہ ملتا ہے اور بالطبع انسان اسی خدا کا نقش اپنے اندر رکھتا ہے۔ غرض ایسے آدمیوں کا قدم جب اٹھے گا وہ اسلام ہی کے میدان کی طرف اٹھے گا‘‘۔ فرمایا: ’’یہ بھی تو ایک عظیم الشان اعجاز ہے۔ اگر کوئی شخص قرآن کریم کے اس معجزہ کا انکار کرے تو ایک ہی پہلو سے ہم آزما لیتے ہیں یعنی اگر کوئی شخص قرآن کریم کو خدا کا کلام نہیں مانتا تو اس روشنی اور سائنس کے زمانہ میں ایسا مدعی خدا تعالیٰ کی ہستی پر دلائل لکھے۔ بالمقابل ہم وہ تمام دلائل قرآن کریم ہی سے نکال کر دکھلا دیں گے اور اگر وہ شخص توحید الٰہی کی نسبت دلائل قلمبند کرے تو وہ سب دلائل بھی ہم قرآن کریم ہی سے نکال کر دکھا دیں گے۔ پھر وہ ایسے دلائل کا دعویٰ کرکے لکھے جو قرآن کریم میں نہیں پائے جاتے۔ یا ان صداقتوں اور پاک تعلیموں پر دلائل لکھے جن کی نسبت اس کا خیال ہو کہ وہ قرآن کریم میں نہیں ہیں۔ تو ہم ایسے شخص کو واضح طورپر دکھلا دیں گے کہ قرآن شریف کا دعویٰ فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البینۃ: 4) کیسا سچا اور صاف ہے اور یا اصل و فطرتی مذہب کی بابت دلائل لکھنا چاہے تو ہم ہر پہلو سے قرآن کریم کا اعجاز ثابت کرکے دکھلا دیں گے اور بتلا دیں گے کہ تمام صداقتیں اور پاک تعلیمیں قرآن کریم میں موجود ہیں۔ الغرض قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہر ایک قسم کے معارف اور اسرار موجود ہیں لیکن ان کے حاصل کرنے کے لئے مَیں پھر کہتا ہوں کہ اسی قوتِ قدسیہ کی ضرورت ہے۔ چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لَایَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ (الواقعہ: 80)۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ 51-52 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

(خطبہ جمعہ 11؍ ستمبر 2009ء) (الفضل انٹرنیشنل جلد 16شمارہ 40 مورخہ 2 اکتوبر تا 8 اکتوبر 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 اکتوبر 2020