• 29 اپریل, 2024

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقتداری معجزات

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقتداری معجزات کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اس درجۂ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں‘‘۔ (اور ایسا مقام پہنچ جاتا ہے جو ایسے معجزات بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں کہ بظاہر ممکن نہیں بلکہ بشری طاقتوں سے بہت بڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور انسانی طاقتوں سے باہر ہوتے ہیں) فرمایا کہ ’’جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الٰہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سیّد و مولیٰ سیّد الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفّار پر چلائی۔ اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی۔ مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو‘‘۔ (بیشک قانونِ قدرت کے تحت اُس مٹھی کے پیچھے ایک آندھی آئی لیکن وہ مٹھی ہی تھی جس نے وہ آندھی کا سبب پیدا کر دیا) فرمایا ’’اور وہ سب اندھوں کی طرح ہوگئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہوگئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا۔ اسی معجزہ کی طرف اللہ جلّ شانُہٗ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی (الانفال: 18) یعنی جب تُونے اس مٹھی کو پھینکا وہ تُونے نہیں پھینکا بلکہ خدا تعالیٰ نے پھینکا۔ (کیونکہ اُس مٹھی کے پیچھے خدا تعالیٰ کی طاقت کارفرما تھی) ’’یعنی درپردہ الٰہی طاقت کام کر گئی۔ انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا‘‘۔

پھر فرمایا: ’’اور ایسا ہی دوسرا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جوشق القمر ہے‘‘ (یعنی چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا جو واقعہ آتا ہے) ’’اسی الٰہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا کہ کوئی دعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الٰہی طاقت سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آگیا تھا۔ اور اس قسم کے اَور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعانہ تھی۔ کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جو صرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کردیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا‘‘۔ (یہ معجزات دکھائے) ’’اور کئی دفعہ دو چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزار ہا بھوکوں پیاسوں کا ان سے شکم سیر کردیا‘‘۔ (یعنی پیٹ بھر دیا) ’’اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھر دیا۔ اور بعض اوقات شور آب کنوئیں میں‘‘ (یعنی نمکین پانی والے کنوئیں میں) ’’اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہایت شیریں کردیا۔ اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا۔ اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جا پڑے تھے‘‘ (آنکھیں باہر آ گئی تھیں، ڈیلا) ’’اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کردیا‘‘۔ (واپس رکھ دیا اور آنکھ اُسی طرح سالم ہو گئی) ’’ایسا ہی اور بھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کئے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقتِ الٰہی مخلوط تھی‘‘۔

(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ66-65)

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشہ کی آسمانی زندگی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں ناں کہ عیسیٰ آسمان پر زندہ ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ہمیشہ کی آسمانی زندگی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ فرمایا کہ: ’’باتفاق جمیع کتب الٰہیہ ثابت ہے کہ انبیاء و اولیاء مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں۔ یعنی ایک قسم کی زندگی اُنہیں عطا کی جاتی ہے جو دوسروں کونہیں عطا کی جاتی۔ اسی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ مجھے قبر میں میّت رہنے نہیں دے گا اور زندہ کر کے اپنی طرف اُٹھا لے گا‘‘۔

(ازالہ ٔ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 225)

یہ ازالہ اوہام کا حوالہ تھا جو مَیں نے پڑھا تھا۔ اسی کی تشریح آگے فرما رہے ہیں۔ اس بات کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’یعنی مَیں اس مدت کے اندر اندر زندہ ہو کر آسمان کی طرف اُٹھایا جاؤں گا‘‘۔ (اب یہ آپؐ فرما رہے ہیں لیکن کوئی مسلمان نہیں کہتا کہ آپؐ جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر موجود ہیں)۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اب دیکھنا چاہئے کہ ہمارے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر میں زندہ ہوجانے اور پھر آسمان کی طرف اٹھائے جانے کی نسبت مسیح کے اُٹھائے جانے میں کونسی زیادتی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عیسیٰ بن مریم کی حیات حضرت موسیٰ کی حیات سے بھی درجہ میں کمتر ہے۔ اور اعتقاد صحیح جس پر اتفاق سلف صالح کا ہے اور نیز معراج کی حدیث بھی اس کی شاہدناطق ہے، یہی ہے کہ انبیاء بحیات جسمی مشابہ بحیات جسمی دنیاوی زندہ ہیں‘‘۔ (یعنی اس کی اس طرح، اس لحاظ سے مشابہت ہے لیکن عملاً اس طرح نہیں ہوتا)۔ پھر فرمایا ’’اور شہداء کی نسبت اُن کی زندگی اکمل واَقویٰ ہے‘‘۔ (اب شہداء کے بارے میں فرماتے ہیں اُن کو مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں۔ لیکن انبیاء اُن سے بہت بڑھ کر ہیں) ’’اور سب سے زیادہ اَکمل واَقویٰ واَشرف زندگی ہمارے سیّد ومولیٰ فدا ئً ًلہٗ نفسی واَبی واُمّی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ حضرت مسیح تو صرف دوسرے آسمان میں اپنے خالہ زاد بھائی اور نیز اپنے مرشد حضرت یحییٰ کے ساتھ مقیم ہیں لیکن ہمارے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اعلیٰ مرتبہ ٔ آسمان میں جس سے بڑھ کر اور کوئی مرتبہ نہیں تشریف فرما ہیں۔ عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی۔ اور اُمّت کے سلام وصلوات برابر آنحضرتؐ کے حضور میں پہنچائے جاتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ اَکْثَر مِمَّا صَلَّیْتَ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْ اَنْبِیَآئِکَ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ۔‘‘ (ازالہ ٔ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 226 حاشیہ) یہ بھی ازالہ اوہام کا حوالہ تھا جو مَیں نے ابھی پڑھا ہے۔

(خطبہ جمعہ یکم فروری 2013ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اکتوبر 2020