• 28 اپریل, 2024

دعاؤں کی قبولیت کے طریق

حضرت قاضی محمد ظہورالدین اکمل صاحب مرحوم کا یہ مضمون تشحیذ الاذہان مئی 1917ء میں شائع ہوا تھا جو قارئین الفضل کے استفادہ کے لئے پیش خدمت ہے۔

میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ دعاؤں کی قبولیت کے طریقوں پر ایک مضمون لکھوں۔ میں نے ایک کاغذ پر کچھ باتیں جمع کیں ۔اب میں لکھتا ہوں جو میں مختلف کتابوں کے مطالعہ سے جمع کرسکا یا میرے اپنے فہم اور تجربہ میں آیا۔ پہلے مجھے وہ اسباب لکھنے چاہئیں جن سے دعاؤں کی قبولیت میں روک پیدا ہو جاتی ہے۔

دعا کی قبولیت میں روک پیدا کردینے والی چیزیں

1۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک شخص سفر دراز کرتا ہے اس کے بال پریشان اورکپڑے گرد آلود ہیں وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے یا ربّ،یا ربّ کر رہا ہےمگر اسکا کھانا حرام ہے، پینا حرام ہے اور پوشاک حرام ہے۔ پس کیونکر اس کی دعا قبول کی جائے ؟معلوم ہوا کہ خوراک پوشاک حرام ہونا بھی مانع استجابت دعا ہے۔

2۔مصیبت جس حکم الہٰی کی عدم تعمیل کی وجہ سے ہے اسے نہ چھوڑنا اور دعا کرتے جانا کہ یہ مصیبت دور ہو۔ مثلاً (الف) ایک شخص دیدہ ودانستہ ایک ویرانے میں اترتا ہے جس کی مضرّتوں سے آگا ہ ہے (ب) مسافر ہے اور سر راہ اتر کر قیام کرتا ہے۔(ج) جانور کو کھلا چھوڑتا ہے اور پھر دعا کرتا ہےکہ اللہ تعالیٰ اُسے روک دے۔ (د) کسی سے مالی معاملہ کرتا ہے اور گواہ نہیں رکھتا ۔(ہ) سفیہ کو مال سپرد کرتا ہے پھر ان باتوں سے جو نقصان عائد ہوتے ہیں ،ان سے محفوظ رہنے کی دعا کرتا ہے تو حدیث میں آیا ہے کہ قبول نہ ہوگی ۔ غلطی سے یا مجبوری سے ایسا ہوجائے یا انسان سچےدل سے تائب ہو تو یہ باتیں قبولیت دعا میں مانع ہیں۔ (و) ایسا ہی باوجود تہیّہ اسباب محض کسل یا تکبّر کی وجہ سے اسباب سے کام نہ لینا اور فَانۡتَشِرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ (الجمعہ:11) کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرتے ہوئے دعا کئے جانا کہ مجھے رزق واسع ملے (ز) ایسی جگہ بغیر خاص مجبوریوں یا حکم مطاع کے رہنا جہاں دین کے بارے میں خطرہ ہے اور پھر یہ دعا کہ میں کسی قسم کی تکلیف نہ اٹھاؤں بقولہ تعالیٰ اَلَمۡ تَکُنۡ اَرۡضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوۡا فِیۡہَا(النساء:98) (ح) جو ا کھیلنے ،چوری کرنے، جھوٹ بولنے ،بے نماز رہنے کی عادت چھوڑنے کے متعلق خود کچھ کوشش نہ کرنا اور دعا کی استدعا۔ یہ سب ایسی صورتیں ہیں کہ قبولیت دعا میں روک ہو سکتی ہیں۔ پہلے ازالہ سبب ضروری ہے اور اگر ازالہ سبب کی توفیق نہ پائے تو پھر اس توفیق کے لئے دعا کرنی چاہئے ۔ہمارے حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے اگر دعا کی توفیق نہ ملے تو میں تو یہی کہوں گا کہ پہلے اس توفیق کے پانے کے لئے بھی دعا ہی کرنی چاہئے کہ الہٰی مجھے دعا کی توفیق دے۔

3۔حدیث میں ہے کہ اگر تم امر بالمعروف ونہی عن المنکر چھوڑدو گے تو تم پر ظالم مسلّط ہوں گے اور پھر جو تمہارے نیک بھی دعا کریں گے تو قبول نہ ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ عیسیٰ بدین خود موسیٰ بدین خود کہتے ہوئے بِلا ُاس حالت کے، جس کا ذکر حدیث کل ذی رای رایۃ میں ہے،عمل بالمعروف چھوڑ دیتے ہیں ان کی دعاؤں کی قبولیت میں بھی ان کا یہ فعل روک ہو جاتا ہے اور وہ خود بھی باوجود اس کے کہ خود وہ مصیبت لانے والا کام نہیں کرتے اس بلا میں جو بدوں کے لئے نازل ہوتی ہے گرفتار ہو جاتے ہیں۔اگر وہ نہی عن المنکر کرتے تو بچے رہتے جیسا کہ یہود کے متعلق قرآن مجید سورۃ االاعراف میں ہے فَلَمَّا نَسُوۡا مَا ذُکِّرُوۡا بِہٖۤ اَنۡجَیۡنَا الَّذِیۡنَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ السُّوۡٓءِ وَ اَخَذۡنَا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا بِعَذَابٍۭ بَئِیۡسٍۭ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ (اعراف:166)

4۔خدا تعالےٰ کے مامور جن مقاصد کے لئے آتے ہیں ان کے خلاف دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں اور جس کی خدا تعالےٰ وجاہت قائم کرنا چاہے اس کی ذلّت کی دعائیں بھی مسترد ہوں گی وَ مَا دُعَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ (الرعد:15) ایسا ہی بنی اسرائیل کا واقعہ کہ جن ہتھیاروں سے انہوں نے بابلیوں کے خلاف کامیابی حاصل کی انہی ہتھیاروں سے وہ حضرت نبی کریمﷺ کے خلاف کام لینے لگے۔

ایسا ہی وہ حادثہ یا واقعہ جس کی نسبت کسی نبی کی پیشگوئی موجود ہو۔ اب اس کے لئے یہ دعا ہورہی ہے کہ یہ بات پوری ہی نہ ہو۔ یہ ٹھیک نہیں البتّہ اسکے نتائج سے محفوظ رہنے کے لئے دعا بے شک کی جائے۔ یہ مطلب نہیں کہ مثلاً عذاب کی پیشگوئی ہے اور یہ توبہ استغفار انابت الی اللہ نہ کرے کیونکہ عذاب تو ایذا رساں نافرمانوں کے لئے ہے۔

5۔دعا کی قبولیت میں یہ بھی روک ہے کہ انسان ایسے کام کرے یا ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھے جس سے جناب الہٰی سے دوری ہوتی جائے۔

وہ باتیں جن کے لئے دعا کرنا منع ہے

1۔ یستجاب للعبد مالم یدع باثم او قطیعۃ رحم مالم یستعجل۔ بندہ کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک گناہ یا قطع رحم کی دعا نہ کرے اور جلد بازی سے کام نہ لے۔

2۔ کوئی لغو اور بے فائدہ دعا نہ کرے کہ مومن کی شان ہے وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ (مومنون: 4) مثلاً ایسے امور کے لئے جن کا نہ دین میں کچھ فائدہ ہے نہ دنیا میں یا جو بطور تحصیل حاصل ہوں یا برنگ استہزاء۔

3۔ اللہ سے کوئی حقیر چیز نہ مانگے کہ یہ بھی اس عالی جناب کی بے ادبی ہے۔ ہمارے صوفیاء ایک طرف دنیا کے بارے میں مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ارشاد الہٰی سن کر اسے بھی حقیر سمجھتے ہیں دوسری طرف جوتی کا تسمہ اور ہانڈی کا نمک بھی خدا ہی سے مانگنے کی تحریک کرتے ہیں اپنے اپنے مقام پر دونوں باتیں درست ہیں۔

4۔ ایک حدیث میں ہے کہ لَا تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، وَلَا تَدْعُوا عَلَى أَوْلَادِكُمْ، وَلَا تَدْعُوا عَلَى أَمْوَالِكُمْ۔ اپنی جان پر، اپنی اولاد پر، اپنے اموال پر، بددعا نہ کرو۔ ایک حدیث میں ہے اپنے خدّام پر بھی۔

5۔ کسی گناہ کے لئے دعا نہ کرے مثلاً یہ کہ فلاں مال جو کسی دوسرے کا حق ہے مجھے مل جائے یا کسی دوسرے کے تعلقات زوجیت میں خلل اندازی۔

6۔ بلا اور مشکلات سے گھبرا کر اپنی موت کی دعا نہ کرے بلکہ یوں دعا کرنی چاہئے کہ اللہم احیینی ما کانت الحیٰوۃ خیرا و توفنی اذا کانت الوفاۃ خیراً لی۔

7۔ کسی مسلمان کے حق میں یہ دعا نہ ہو کہ وہ کافر ہوجائے یا خدا اسے خوار کرے سچے مسلمان پر اسکا نام لے کر لعنت کرنا بھی منع ہے۔

اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ (الاعراف:56) سے ظاہر ہے کہ دعا میں اعتداء بھی منع ہے اعتداء کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں مثلاً دعا میں قافیہ بندی اور سجع۔ لوگوں کو کوسنے دینے اور خلاف شریعت امور کے لئے۔

9۔ نزول بلا سے پہلے صبر کی دعا بھی نہیں چاہئے کیونکہ اس طرح پر دعا کا یہ مطلب ہے کہ گویا وہ بلا کو خود طلب کرتا ہے حدیث شریف میں ہے کہ و سمع النبی ﷺ رجلاً وھو یقول اللہم انی اسئلک الصبر فقال سالت اللہ البلاء فسئلہ العافیۃ (رواہ الترمذی مشکوٰۃ)

10۔ جو بحالت کفر و شرک مرے اس کے لئے مغفرت کی دعا منع ہے بقولہ تعالیٰ مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ یَّسۡتَغۡفِرُوۡا لِلۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ لَوۡ کَانُوۡۤا اُولِیۡ قُرۡبٰی مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُمۡ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ (التوبہ:113)

11۔ ایسی دعا بھی منع ہے جس سے تمام آیات قرآنی و احادیث صحیحہ کی تکذیب لازم آئے۔

12۔ یوں دعا نہ کرے کہ اللہم اغفرلی ان شئت۔ ارحمنی ان شئت۔ ارزقنی ان شئت (بخش دے اگر تو چاہے۔ رحم کر اگر تو چاہے۔ رزق دے اگر تو چاہے) کیونکہ خدا تعالےٰ کی ذات غایت استغنا میں ہے اور بندہ بہرحال محتاج ،اس طرح تو بے پروائی پائی جاتی ہے۔

دعا کو عبادت سمجھ کر کرے

اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دعا کو عبادت سمجھ کر کرے کیونکہ اگر صرف اسی لئے کرے گا کہ میرا مطلب حاصل ہو جائے تو خود غرضی پیدا ہو گی۔ اور طبیعت میں خلوص نہ رہے گا۔ قال رسول اللہ ﷺ الدعاء ھو العبادۃ ثم قرا و قال ربکم ادعونی استجب لکم (۲) قال رسول اللہﷺ الدعاء مخ العبادۃ (دعا عبادت کا گُودہ ہے) (۳) قال رسول اللہ ﷺ لیس اکرم علی اللہ من الدعاء۔ دعا سب سے بزرگ قدرشے اللہ کے نزدیک ہے۔ دیکھو مشکوٰۃ

دعا سے کبھی غافل نہ ہو

بعض لوگ صرف کسی مصیبت یا مشکل کے وقت دعا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں حالانکہ انسان ایک ایک لمحہ میں مولا کریم کے فضل کا محتاج ہے حدیث میں ہے ۔ قال رسول اللہ ﷺ ان الدعاء ینفع مما نزل و مما لم ینزل فعلیکم عباد اللہ بالدعاء (رواہ الترمذی) فرمایا رسول کریم ﷺ نے کہ دعا اس چیز سے نفع کرتی ہے جو اتری اور جو نہیں اتری اس سے بھی۔ پس اللہ کے بندو! تم دعا میں لگے رہو۔ پس دعا بہرحال مفید ہے۔ اگر حادثہ نازل ہوچکا ہے تو اس میں تخفیف ہوگی اور اگر نازل نہیں ہوا تو دعا اسے مضمحل کردے گی۔ دعا نہ کرنا تو موجب غضب الہٰی ہے چنانچہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ من لم یسال اللہ یغضب علیہ۔

دعا کے اوقات

یوں تو جس وقت بھی دعا کی جائے اچھی ہے مگر بعض اوقات قبولیت کے ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ اوقات ہیں جو خدا تعالےٰ نے نمازوں کے مقرر فرمائے ہیں۔ یہ وہ اوقات ہیں جن میں خدا تعالےٰ نے اپنے بندے کو اپنی بارگاہ عالی میں حاضر ہو کر عرض معروض کرنیکا موقعہ دیا ہے یعنی فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء۔ پس نمازوں میں اپنی زبان میں دعائیں کرنی چاہئیں علاوہ ازیں یہ اوقات احادیث سے معلوم ہوئے ہیں۔

(۱) عرفہ کا روز ۔حضرت خلیفہ اوّلؓ کا معمول تھا کہ حج والے دن ظہر کے بعد لوگوں سے فرماتے کہ سب بیٹھ کر دعائیں کروتا تمہاری دعائیں میدان عرفات میں دعائیں کرنے والوں کے ساتھ مل کر قبول ہو جائیں۔(۲) رمضان کا مہینہ (۳) جمعہ کا روز ۔ اس میں ایک ساعت ہے جس کی نسبت مختلف اقوال ہیں ۔کوئی وہ وقت بتا تا ہے جب خطیب دو خطبوں کے درمیان بیٹھتا ہے کوئی غروب آفتاب سے کچھ پہلے (۴) ہر رات جب تہائی پچھلی رات رہتی ہے اور خدا تعالےٰ آسمان ِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور ارشاد کرتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھ سے دعا مانگے اور میں قبول کروں؟۔ وَ بِالۡاَسۡحَارِ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ (الذاریات:19) سے بھی اسکا پتہ چلتا ہے۔ (۵) تکبیر فرض نماز کے وقت (۶) مینہ برسنے کے وقت (۷) جب فوجیں خدا کی راہ میں بھڑیں یا میدان کارزار خوب گرم ہو (۸) مسجد جاتے ہوئے (۹) اذان کے وقت (۱۰) عین زوال سورج پر کہ ان وقتوں میں آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں (۱۱) اذان اور اقامت کے درمیان (۱۲) رات جس وقت سوتے سے آنکھ کھل جائے (۱۳) قرآن مجید خود پڑھ کر یا سن کر (۱۴) جب مومن کی جان نکلنے لگے کہ وہ وقت رقت اور نزول ملائکہ رحمت کا ہے (۱۵) جب خدا اور اس کے رسول کے ذکر کی کوئی محفل قائم ہو (۱۶) سجدے میں (۱۷) روزہ کھولنے کے وقت (۱۸) جب قلب میں رقت پیدا ہو اور طبیعت میں اضطرار و اضطراب۔

وہ مکانات جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں

مکانات کی کوئی خصوصیت تو نہیں بلکہ جہاں حضور قلب میسر آئے اور روح آستانہ الوہیت پر گر پڑے وہی مقام قبولیت کا ہے لیکن تا ہم بزرگوں نے لکھا ہے اور میرے تجربہ میں بھی آیا ہے کہ جو مقام خدا تعالےٰ کی طرف سے مقدس و بابرکت قرار دئے گئے ہیں وہاں دعائیں بیشتر اور جلد قبول ہوتی ہیں (۱) خانہ کعبہ (۲) میدان عرفات (۳) اور روضہ رسول کا تو کیا کہنا وہاں جانا تو قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ہندستان میں خدا تعالےٰ نے ہمیں محض اپنے فضل سے کئی موقعے دئے ہیں۔ (۱) مسجد مبارک خصوصاً اس کا وہ حصہ جہاں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نماز پڑھتے تھے۔ میں 1905ء میں پہلے پہل قادیان آیا تو میں نے یہ جگہ دعا کے لئے ذہن میںرکھی۔ میں اس ذوق، اس رقت، اس حضور قلب کو ابھی تک کہ بارہ برس گزر چکے ہیں ،نہیں بھولا جو مجھے اس مقام پر میسر آئی اور اس پر لطف یہ کہ پورے دو گھنٹے تنہائی رہی۔ ورنہ ایسی صورت بھی کم ہی ہوتی ہے۔میں نے تین دعائیں کیں اور تینوں ہی قبول ہو گئیں ۔بظاہر حالات وہ کام بہت مشکل بلکہ محال معلوم ہوتے تھے۔ہاں مجھے یہ افسوس ہے کہ میری معرفت ان دنوں میں کم تھی اس لئے میں نے جو مانگا خود ہی محدود کر کے مانگا۔ (۲) مقبرہ بہشتی کہ اس کے حق میں ہے انزل فیھا کل رحمۃ۔ خصوصاً اس زمین کا وہ مقدس حصہ جس میں جسم مطہر سیدنا جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء مدفون ہے۔ اکثر اوقات میں وہاں محسوس کرتا ہوں کہ جیسے موسلا دھار مینہ برستا ہے اس طرح انوار رحمت برستے ہیں ۔ہمارے سلسلہ میں ایک صاحب ہیں جو دعائیں کرنے میں بہت مشہور ہیں حتی کہ بعض دوست انہیں دعائیں کرنے کے لئے اپنے ہاں لے جاتے ہیں ۔ایک دفعہ سخت ابتلاء میں آئے۔ بہت ہی دعائیں کیں اور کرائیں ۔آخر ایک روز مجھے ملے اور کہنے لگے کہ کوئی گُر قبولیت دعا کا بتا دو جو تمہارے تجربہ میں آیا ہو۔ میں نے کہا آپ ایسے وقت کہ کوئی نہ ہو روضہ مطہرہ مسیح موعودؑ پر کھڑے ہو کر اپنے مولیٰ کریم سے دعا کریں اور یہ وہم بھی نہ آنے دیں کہ حضرت صاحب دعائیں سنتے یا قبول کرتے یا سفارش کرتے ہیں بلکہ آپ صرف یہ سمجھیں کہ یہ جگہ ایسی ہے جہاں پیہم رحمت الہٰی کے بادل برستے ہیں ۔انہوں نے ایسا ہی کیا اور وہ دعا قبول ہوئی (۳) بیت الذکر حضرت اقدس کا مگر وہاں بیرونی آدمی کو موقعہ ملنا دشوار ہے کیونکہ وہ گھر کے اندر ہے (۴) کسی خدا کے ولی یا عالم باعمل کی صحبت میں کہ ھم القوم الجلساء لا یشقی جلیسہم (مشکوٰۃ) (۵) جہاں ایک دو بار دعا قبول ہو چکی ہو بعض بزرگ تو وہ مصلّی ہی محفوظ رکھتے چلے آتے ہیں (۶) جہاں خدا کے کسی فضل کا نظارہ دیکھے مثلاً جب حضرت زکریاؑ نے بی بی مریم علیہا السلام کے پاس پھل دیکھے تو وہاں اپنے فرزند کے لئے دعا کی۔ کلما دخل علیھا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قا ل یامریم انی لکِ ھذا قالت ھو من عند اللہ ان اللہ یرزق من یشاء بغیر حساب ھنالک دعا زکریا ربہ قال رب ھب لی من لدنک ذرّیۃ طیبۃ انک سمیع الدعآء (آل عمران:39۔38) (۷) جہاں چالیس مومن جمع ہوں کیونکہ خدا ان کی مجموعی استدعا کو رد نہیں فرمائیگا۔ (۸) اسی پر قیاس کرتے ہوئے جلسہ سالانہ دسمبر۔مسافر کی دعا تو یوں بھی قبول ہوتی ہے جو خدا کے لئے سفر میں ہوں اور پھر ہزاروں کی تعداد میں جمع، کیا ان کی دعائیں مسترد ہوں گی مجھے اپنے مولےٰ پر ایسی امید نہیں (۹) جنگل میں جہاں چاروں طرف سناٹا ہو (۱۰) اور ایک میرا اپنا ذوق ہےکہ جہاں شور و شغب ہو اور لوگ دنیا میں مشغول ہوں وہاں دعا کرے کہ الہٰی یہ وہ مقام ہے جہاں کوئی زبان تیرا ذکر نہیں کر رہی ۔میں تیری حمد کرتا ہوں ۔میں تیری جناب میں گرتا ہوں۔ تُو مجھ پر رحم فرما۔کوئی تیرہ چودہ برس ہوئے ایک دفعہ میں ایک شہر میں گیا ۔عجب حالات میں گیا اور میرے ساتھی بھی ایسے کہ شاید عید والے دن بھی سر بسجود ہوئے ہوں، وہاں ایک ہندو کے مکان پر اترے۔ایک بہت بڑی تقریب تھی جس کو دیکھنے کے لئے پھر عمر بھر کسی کو موقعہ نہیں مل سکتا تھا ۔مجھے معلوم ہوا کہ اس مکان کا مالک یہ جلوس دیکھنے نہیں جائے گا محض اسلئے کہ وہ اس کی پوجا کا وقت ہے جو وہ ایک بت کی اس وقت کرتا ہے اور اس سے پہلے کسی غیر کا منہ دیکھنا حرام سمجھتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کبھی اس مکان میں بھی کسی نے نماز پڑھی ہوگی؟ بتایا گیا کہ اغلباً ہرگز نہیں، میرے دل میں ایک جوش پیدا ہوا۔ وضو کر کے (اس پانی سے جو ایک کوزے میں قریباً بیس گھنٹے سے میں نے محفوظ رکھا تھا کیونکہ پانی نہ ملتا تھا) سر بسجود ہوا اور دعا کی کہ الہٰی میں نے سنا ہے کہ یہاں کوئی سر تیرے حضور میں نہیں گرا۔میں تیرا عاجز بندہ اپنا سر تیرے آستانہ پر رکھتا ہوں اور خالص تجھ ہی کو پکارتا ہوں۔ایک دعا کی جو قبول ہوئی۔

آداب الدّعا

اس کے بعد میں دعا کے طریقے لکھتا ہوں جن کا لحاظ دعا میں کرنا چاہئے۔

1۔ دعا میں صدق نیت ہو۔اللہ تعالےٰ سے جو دعا بھی کی جائے اس کا دینی او روہ پہلو جو خدا کے حضور پسندیدہ ہو ،پیش کرنا چاہئے۔اس طرح پر ثواب بھی ہوگا اور دنیوی مقصد بھی حاصل ہو جائے گا ۔ایک صحابی نے اپنے مکان کی دیوار میں کھڑکی رکھی ۔رسول اللہ ﷺ نے اس کی وجہ پوچھی تو سادگی سے عرض کیا کہ ہوا اور روشنی کے لئے ۔حضور ﷺ نے فرمایا کہ یوں کیوں نہیں کہتے کہ اذان کی آواز سننے کے لئے۔ اس طرح وہ مقصد بھی حاصل ہو جائے گا اور ثواب بھی بیشتر ہوگا۔ اکثر لوگ حصول اولاد کے لئے دعائیں کرتے ہیں مگر حضرت زکریا ؑ ان الفاظ میں اپنے مولیٰ کو پکارتے ہیں ۔ وانی خفت الموالی من ورآءی و کانت امراتی عاقرا فھب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من ال یعقوب واجعلہ رب رضیا۔ (مریم:7۔6) یعنی مجھے فرزند عطا ہو تو وہ امر نبوت میں میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو اور وہ تیرا برگزیدہ ہو ۔اب دیکھئے اس دعا کی قبولیت پر وہ مطالب بھی حاصل ہیں جو لوگوں کے زیر نظر ہوتے ہیں۔

2۔ دعا میں عزم ہو۔ جو دعا کی جائے وہ اس یقین کے ساتھ کی جائے کہ میرا مولیٰ اس کے دینے پر قادر ہے اور خود بھی ہمہ تن اس کے لئے کوشاں ہو۔گویا ہر موئے تن زبان بن کر وہی چیز مانگ رہا ہے چنانچہ حدیث میں ہے۔ قال رسول اللہ ﷺ اذا دعا احدکم فلا یقل اللہم اغفرلی ان شئت ولکن لیعزم ولیعظم الرغبۃ۔ فان اللہ لا یتغاظمہ شیئی اعطاہ (رواہ مسلم) جب کوئی تم میں سے دعا مانگے تو یہ نہ کہے کہ اے اللہ! مجھے بخشدے اگر تو چاہے بلکہ یقین کے ساتھ عزم سے طلب کرے اور بڑی رغبت اور نہایت الحاح کرے کیونکہ اللہ کے نزدیک بندہ کا سوال عطا کر دینا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔

3۔دعا میں جلد بازی نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ مسلم کوئی دعا نہیں کرتا ،مگر وہ قبول ہوتی ہے جب تک استعجال سے کام نہ لے صحابہ نے عرض کیا استعجال کیا ہے یا رسول اللہ؟ فرمایا کہ دعا کرنے والا کہے میں نے بہت دعا کی بہت دعا کی ،مگر قبول نہیں ہوئی اور پھر تھک کر بیٹھ جائے اور دعا کرنی ہی چھوڑ دے۔ قیل یا رسول اللہ ما الاستعجال قال یقول قد دعوت وقد دعوت و قد دعوت فلم ار یستجاب لی فیستحسر عند ذلک و یدع الدعاء۔ رواہ مسلم

جلد بازوں کو واضح ہو کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ ما من مسلم یدعو بدعوۃ لیس فیھا اسم ولا قطیعۃ رحم الا اعطاہ اللہ بھا احدی ثلث و ما ان یعجل لہ دعوتہ و اما ان یدخرھا لہ فی الاخرۃ و اما ان یصرف عنہ عن السوء مثلھا (مشکوٰۃ) کہ مسلم کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک وہ کسی گناہ یا قطع رحم کے متعلق نہ ہو ۔تین باتوں سے ایک ضرور ہوتی ہے یا تو جو کچھ مانگتا ہے وہی دے دیا جاتا ہے یا آخرت میں اس کا اجر مقدر ہوتا ہے یا اس مصیبت و بلا کے عوض میں کوئی اور مصیبت ٹل جاتی ہے۔

4۔آرام کی حالت میں دعا کرو تا تکلیف میں بھی قبول ہو۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ صرف اسی وقت دعائیں کرنا جب کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائیں ٹھیک نہیں ۔بلکہ فراخی اور آرام میں زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں تاکہ وہ مصیبت کے وقت بھی کام آئیں۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ من سرّہ ان یستجیب اللہ لہ عند الشدائد فلیکثر الدعاء فی الرخاء (رواہ الترمذی) جس شخص کو یہ پسند ہےکہ خدا اس کی آڑے وقتوں میں سن لے اسے چاہئے کہ وہ آرام کی حالت میں بہت دعائیں کرے۔

5۔ دعا کے وقت چست و ہوشیار ہو۔ جب خدا سے دعا کرنے لگو تو غافل دل کے ساتھ نہیں کہ زبان پر دعائیہ کلمے ہوں اور دل کہیں اور لگا ہوا ہو ۔بلکہ چاہئے کہ نہ صرف اپنے ہر جوڑ و عضو سے بلکہ اپنی تمام روح وقوت سے مولا کریم کے حضور میں استقبال ہو۔ اور وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا (المزمل:9) کا رنگ ہو۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ ادعوا اللہ و انتم موقنون بالاجابۃ واعلموا ان اللہ لا یستجیب دعاء من قلب غافل لاہ یعنہ دعا کرو اللہ سے بحالیکہ تم اس یقین سے معمور ہو کہ یہ ضرور قبول ہوگی اور یہ بھی واضح رہے کہ اللہ تعالےٰ غافل اور لہو والے دل کی دعا قبول نہیں کرتا۔ حضرت خلیفۃ ثانیؓ فرماتے ہیں کہ سجدے میں اپنی کہنیاں زمین سے پیٹ ران سے جدا رکھنے کا اسی لئے حکم ہے کہ غفلت طاری نہ ہو۔ یہ تو جسم کے متعلق ہے۔روح کو تو اور بھی بیدار و ہوشیار و چست ہونا چاہئے۔

6۔ دعا کے وقت ہاتھ اٹھائے۔ دعا کے وقت ہاتھ اٹھالے تو اور بھی اچھا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہان ربکم حیّ کریم یستحی من عبدہ اذا رفع یدیہ الیہ ان یرد ھما صفرا یعنی تمہارا اب حیا والا کریم ہے اپنے بندے سے حیا کرتا ہے کہ اس کی جناب میں ہاتھ پھیلائے جائیں اور وہ انہیں خالی واپس کردے۔

7۔ دعا کے الفاظ جامع ہوں۔ دعا میں جو الفاظ ہوں وہ اس مقصدوامر کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہوں کیونکہ ممکن ہے جسے یہ اچھا سمجھ رہا ہے اس کے حق میں برا ہو۔ یا جس سے الگ ہونے کے متعلق عرض کررہا ہے اس کا کوئی پہلو خیر کا بھی اس کے لئے بدرجہ غایت مفید ہو۔ یا یہ ادنیٰ حصہ مانگ رہا ہو اور اس کو اعلیٰ مل سکتا ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں۔ کان رسول اللہ ﷺ یستحب الجوامع من الدعاء ویدع ما سویٰ ذلک (رواہ ابو داؤد) رسول اللہﷺ جامع دعاؤں کو پسند فرماتے تھے اور اس کے ماسوا کو چھوڑ دیتے تھے مثال کے طور پر ایک دو دعائیں لکھتا ہوں جو تمہید محررہ بالا کو واضح کریں گی۔

وعن عمر قال علمنی رسول اللہ ﷺ قال قل اللہم اجعل سریرتی خیرا من علانیتی واجعل علانیتی صالحۃ۔ اللہم انی اسئلک من صالح ما تعطی الناس من الاھل والمال والولد غیر الضال المضل۔ (۲) اللہم انا نعوذبک من ان نزل او نضل او نظلم او نظلم او نجھل او یجھل علینا (۳) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ وما سئل اللہ شیئا یعنی احب الیہ من ان یسال العافیۃ۔ (نہیں سوال کیا جاتا اللہ سے کسی چیز کا جو اسے محبوب تر ہے سوا اس کے کہ وہ سوال عافیت کے متعلق ہو کہ اس میں سب باتیں آگئیں (۶) اللہم ارزقنی حبک و حب من ینفعنی حبہ عندک اللہم ما رزقنی مما احب فاجعلہ قوۃ لی فیما تحب اللہم ما رویت عنی مما احب فاجعلہ فراغا لی فیما تحب (رواہ الترمذی)

قرآن شریف کی دعاؤں سے ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار (بقرۃ:202) بہت ہی جامع اور کل مطالب پر حاوی دعا ہے اھدنا الصراط المستقیم الآیہ(فاتحہ:6) اس سے بھی بڑھ کر ۔حضرت خلیفہ اولؓ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ خانہ کعبہ کے گرد مجھے اکیلے طواف کرنے کا موقعہ ملا حالانکہ ایسا ہونا سخت دشوار ہے اس وقت میرے جی میں آیا کہ دعا مانگ لوں جو جامع ہو ۔آخر دعا کی کہ یا الہٰی ضرورت کے موقعہ پر جو دعا کروں وہ قبول ہو جایا کرے یہ دعا اپنی جامعیت کے لحاظ سے ایسی ہے کہ خدا کے خاص فضل سے القا ہو سکتی ہے۔

8۔دعا اعلیٰ مراتب مقصد پر حاوی ہو۔ دعا میں جو اعلیٰ سے اعلیٰ مرتبہ مقصد ہو وہ پیش نظر رہنا چاہئے اگر کسی کو بیماری سے تکلیف ہے تو یہ کیوں کہے کہ یا اللہ میری آدھی بیماری دور کردے یا دو دن صحت بخش دے کامل صحت کی دعا کرے ۔وعن معاذ بن جبل قال سمع النبی رجلا یدعو یقول اللہم انی اسئلک تمام النعمۃ فقال ای شیی تمام النعمۃ قال دعوۃ ارجوا بھا خیرا فقال ان من تمام النعمۃ دخول الجنۃ والفوز من النار۔ ایک شخص دعا کر رہا تھا کہ الہٰی مجھے تمام النعمۃ دے دے رسول اللہ ﷺ نے پوچھا اس سے تمہاری کیا مراد ہے؟ عرض کی کہ مال ہے جو میرے مدنظر ہے ۔فرمایا تمام النعمۃ میں تو دوزخ سے نجات اور جنت الفردوس میں داخل ہونا بھی داخل ہے اسے سمجھایا کہ لفظ تو اس قدر وسیع ہے تم کیوں اسے ادنیٰ سے مرتبہ تک مقصور کرتے ہو۔

9۔دعا میں کچھ شکر گزاری ہو: دعا کرتے ہوئے اللہ کی نعمتوں کو یاد کرنا چاہئے کہ قرآن مجید میں ہے لئن شکرتم لازیدنکم (ابراہیم:8) اگر تم شکر کرو گے جو صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ اعمال سے بھی ہونا چاہئے تو میں تم کو اور بھی زیادہ دوں گا۔نمونہ کے طور پر حضرت زکریا ؑکی دعا موجود ہے کہ وہ دعا کرتے ہوئے عرض گزار ہیں ۔ولم اکن بدعائک رب شقیا۔ (مریم:5) میں آپ کی جناب سے کبھی محروم نہیں رہا۔ حدیث میں آیا ہے۔ ما من رجل رای مبتلی فقال الحمدللہ الذی عافانی و مما ابتلاک بہ و فضلنی علیٰ کثیر ممن خلق تفضیلا ۔الا لم یصبہ ذلک البلاء کائنا من کان (رواہ الترمذی) کسی مبتلا کو دیکھ کر کہے کہ اللہ کا شکر ہے جو مجھے اس سے محفوظ رکھا اور بہتوں پر مجھے فضیلت دی تو یہ کہنے والا اس بلا سے محفوظ رہتا ہے یہ صلہ ہے شکر کا ۔دعا سے پہلے ضرور اللہ کے احسانات کا شکر کرلینا چاہئے بعض لوگ کہتے ہیں ہمیں کیا دیا ہے کیا ہاتھ، کان، زبان نعمتیں نہیں؟ کیا اسلام نعمت نہیں؟ کیا دعا کی توفیق نعمت نہیں؟ وان تعدو ا نعمۃ اللہ فلا تحصوھا۔ (ابراہیم:35)

10۔ دعا سے پہلے حمد بھی ہو: دعا کرنے سے پہلے اللہ کی حمد ضرور کرنی چاہئے۔ اور اس کے اس صفات سے توسل اور اپیل کیا جائے جو ام الصفات ہیں یہ سبق ہمیں سورۃ فاتحہ سے ملتا ہے جہاں دعا سے پہلے الحمد للہ رب العالمین آیا ہے ایک صحابی فرماتے ہیں رسول کریم ﷺ نے جب بھی دعا کی تو اللہ کی تسبیح و تحمید کی۔ چنانچہ آپ سبحان ربی الاعلیٰ الوھاب کہہ لیتے۔

11۔ دعا سے اوّل و آخر درود ہو: حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس بار متوجہ برحمت ہوتا ہے پھر لکھا ہے کہ درود کی دعا ضرور مقبول ہوتی ہے پس جو درمیان میں مطلب ہو گا اللہ اسے بھی رد نہ فرمائےگا۔

12۔ دعا میں اپنی بےچارگی کا اقرار ہو: دعا کی قبولیت کے لئے یہ بھی طریق ہے کہ اپنی حالت زار کو کھول کر خدا کے سامنے رکھ دے یہ نہ کہے کہ خدا کو سب معلوم ہے بے شک اسے معلوم ہے مگر اس کی رحمت کو حرکت میں لانے کے لئے اپنی بےچارگی و درماندگی کا اظہار ضروری ہے۔ دیکھو حضرت زکریا ؑکس دردناک پیرائے میں عرض کرتے ہیں ۔ رب انی وھن العظم منی واشتعل الراس شیبا ولم اکن بدعائک رب شقیا۔

(مریم:5) میری ہڈیاں بودی ہو چکی ہیں۔ سر کے بال چٹے ہوگئے ہیں پھر اس سے بھی بڑھ کر عرض کرتے ہیں۔ وکانت امرءتی عاقرا و قد بلغت من الکبر عتیا۔ (مریم:9) میری بی بی بانجھ اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں ۔حضرت نوح ؑ نے ایک ہی لفظ میں اپنی بےچارگی کی تصویر کھینچ دی۔ انی مغلوب فانتصر۔ (قمر:11)

13۔ دعا میں اسباب سے بھی کام لیا جائے: دعا کا یہ مطلب نہیں کہ اسباب سے کام نہ لینا پڑے بلکہ ٹھیک دعا تو اسی وقت ہوتی ہے جب دل کھول کر اپنا تمام زور لگا کر اسباب سے کام لیا جا چکے کیونکہ جب سب طرف سے تھک کر انسان رہ جاتا ہے تو اپنے قلب میں خدا کی طرف خوب توجہ پاتا ہے اسی لئے انبیاء کا طریق تھا اور میں نے حضرت مسیح موعودؑ کو بھی دیکھا ہے کہ وہ مہما امکن اسباب سے کام لیتے اور دعائیں بھی خوب کرتے۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین (فاتحہ:5) سے ظاہر ہے کہ پہلے اس کی بتائی ہوئی راہوں پر عمل کیا جائے یہاں تک کہ اس راہ میں یوں کوٹا جائے جیسے سڑک کے پتھر اور پھر خدا سے مدد مانگے اور استقامت طلب کرے۔

14۔ دعا میں طلب ہدایت ہو: پھر دعا میں بھی یہ خیال رکھے کہ میں اللہ سے وہ ذریعہ طلب کرتا ہوں یعنے وہ اسباب میسر آئیں وہ طریق سوجھے جس سے اس مقصد میں کامیابی ہو۔ اھدنا الصراط المستقیم کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ نزدیک سے نزدیک راہ حصول مقصد کی ملے اور پھر اس مقصد سے تمتع بھی نصیب ہو یہ نہیں کہ مقصد حاصل ہو اور فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جائے۔

15۔ اپنی دعا میں کچھ ایسی دعائیں ہوں جو ضروری قبول ہوتی ہیں: جب انسان دعا کرنے لگے تو بعض ایسی دعائیں پہلے کرلے جن کی قبولیت ضروری ہے یا جو اللہ کو پسند ہیں مثلاً اسلام کی ترقی اور اشاعت کی دعا حضرت نبی کریمﷺ ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقصد کی تکمیل ہو اسی طرح چند اور شخصوں کے لئے بھی دعا کرے کہ یہ بھی ایک قسم کا صدقہ ہے۔ دوسرا ممکن ہے انہی دعاؤں میں اس کی دعا بھی قبول ہو جائے۔

16۔ دعا سے پہلے استغفار ہو: چونکہ دعا کی قبولیت میں انسان کے گناہ آڑے آ جاتے ہیں اسلئے پہلے خوب استغفار کر لینی چاہئے قرآن شریف کی دعا رب اغفر وارحم وا نت خیر الراحمین (مومنون:119) میں یہ بات سکھائی ہے یہ ہرگز نہ خیال کرے کہ میں نے کونسا گناہ کیا ہے کہ انسان ہر وقت خدا کی رحمت کا محتاج ہے۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں۔ وانی لاستغفر اللہ فی الیوم مائۃ مرۃ ۔ (رواہ مسلم)

17۔ دعا سے پہلے صدقہ ہو: کفارہ ذنوب اور عاجزوں کی دعائیں لینے کے لئے پہلے صدقہ بھی کر لینا چاہئے کہ اس سے رحمت نازل ہوتی ہے ۔ جب کسی حاجت مند کو ضرورت کے وقت کچھ ملے گا تو دل سے پکار اٹھے گا جا تیرا دونوں جہان میں بھلا۔ اور صرف اسی فقرے سے بعض اوقات بیڑا پار ہوجاتا ہے ۔فقدموا بین یدی نجواکم صدقۃ (مجادلہ: 13) سے بھی استدلال کیا گیا ہے کہ خدا سے مناجات کرنے سے پہلے صدقہ دے لے۔

18۔ دعا سے پہلے کسی کی حاجت روائی کرے: یہ طریق بھی صلحاء نے بتایا ہے کہ جس قسم کی مشکل پیش ہو اسی قسم کی مشکل جس کا ازالہ یا دور کرنا تمہارے اپنے بس میں ہو کسی دوسرے حاجت مند کی دور کرنے کی کوشش کرو اس پر خدا تم پر بھی رحم کر دے گا۔

19۔ دعا میں اپنی عملی اصلاح بھی کرے: چونکہ انما یتقبل اللہ من المتقین (مائدۃ:28) ارشاد باری تعالےٰ ہے اسلئے ضروری ہے کہ جو اپنی دعاؤں کو قبول دیکھنا چاہتا ہے وہ تقویٰ اختیار کرے اسی طرح قرآن شریف میں ہے۔ یستجیب الذین اٰمنوا (شوریٰ :27) کہ اللہ ایمانداروں سے قبول کرتا ہے اور کمال ایمان یہی ہے کہ اسکے مطابق عمل بھی ہو ۔حضرت خلیفہ ثانی ؓ نے فلیستجیبوا لی (بقرۃ:187) سے استدلال کیا ہے کہ میرے بندوں کو چاہئے اگر وہ اپنی دعائیں قبول کروانی چاہتے ہیں تو میری باتیں مان لیا کریں۔

20۔ دعا میں ماثورہ دعا بھی ہو: جو دعائیں قرآن مجید میں آئی ہیں جو حدیث میں آئی ہیں چونکہ وہ منبع قدس سے نکلی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ان میں سے کوئی دعا ضرور ساتھ ہو بعض بزرگ تو اور کوئی دعا ساتھ نہ ملاتے تھے تا کہ اعتداء نہ ہوجائے۔

21۔ دعا اپنی زبان میں ہو: دعا میں رقت اور خلوص پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دعا اپنی زبان میں بھی کیجائے کیونکہ دلی خیالات اسی زبان میں ٹھیک ادا ہو سکتے ہیں جو مادری زبان ہے ۔حضرت اقدسؑ ہمیشہ فرماتے ہیں کہ رکوع و سجود میں ذکر مقررہ کے بعد اپنی زبان میں دعا کیجائے دعا میں فہمِ معنے بھی ضروری ہیں۔

22۔ دعا کے وقت کپڑے عمدہ و صاف ہوں: اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ پاکیزگی کو پسند کرتا ہے اس کے حضور میں عرض معروض کرنے کے لئے جب انسان متوجہ ہو تو ضرور ہے کہ صاف کپڑے ہوں اور خوشبو بھی ہو۔ کیونکہ اس سے دل و دماغ میں پریشانی نہیں ہوتی ملائکہ رحمت حاضر ہوتے ہیں قرآن مجید کی آیت والرجز فاھجر (مدثر:6) اور خذوا زینتکم عند کل مسجد (اعراف:32) میں یہ تعلیم ہے اسلئے صلحاء نے لکھا ہے کہ دعا سے پہلے مسواک کر لے کہ مسواک موجب رضاء رب حسب حدیث رسول کریمﷺ ہے۔

23۔ دعا میں تضرع ہو: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ادعو ا ربکم تضرعا و خفیۃ۔ (اعراف:56) پس جتنا بھی تضرع اور خشوع ہوگا اتنی جلد دعا قبول ہوگی۔

24۔ دعا میں دھیمی آواز ہو: حضر ت زکریا ؑ کے بارے میں ہے ۔اذ نادٰی ربہ نداء خفیا۔ (مریم:4) اور ارشاد فرمایا ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا۔ (بنی اسرائیل:111) پس دھیمی آواز ہو جیسی کہ درد سے نکلتی ہے حدیث شریف میں ہے کہ انکم لا تدعون صما و لا غائبا۔ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکارتے ہاں بعض وقت جوش سے آواز نکل جاتی ہے وہ اور بات ہے۔

25۔ دعا میں مایوسی نہ ہو: اس کے متعلق پہلے بھی ذکر آچکا ہے کہ دعا میں استعجال نہیں چاہئے اور نہ تھکے۔ مایوسی تو ہرگز نہیں چاہئے کیونکہ قرآن مجید میں ہے۔ انہ لا یایئس من روح اللہ الا القوم الکافرون۔ (یوسف:88) صوفیاء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ جب شیطان نے باوجود نافرمانی کے عرض کیا کہ رب فانظرنی الی یوم یبعثون (حجر:37) تو جواب ملا فانک من المنظرین۔ (حجر:38) جب شیطان کی درخواست منظور ہو گئی تو مومن کیوں ناامید ہو۔ اور یہ سمجھ بیٹھے کہ ہماری کون سنتا ہے اکثر لوگوں کی زبان سے سنتا ہوں جب انہیں دعا کے لئے کہا جاتا ہے کہ توبہ جی! اللہ ہماری سنتا ہے! میرے نزدیک یہ کلمہ کفر ہے جس سے توبہ کرنی چاہئے وہ ہر ایک کی سنتا ہے شیطان کی سن لیتا ہے اور ہر ایک مسلمان کی نہ سنے گا!

26۔ حقداروں کے حق ادا کرے: بعض وقت کسی کا حق دعا کرنے والے کے ذمہ ہوتا ہے اور دعا قبول نہیں ہوتی اس لئے دعا کرنے والے کو اپنا محاسبہ کر لینا چاہئے حقداروں کے حق ادا کر کے جناب باری میں جائے۔

27۔ دعا کے وقت کیا ہیئت ہو: یہ بھی بزرگوں نے لکھا ہے کہ وضو کر کے قبلہ رو دعا کرے بعض نے پسند کیا ہے کہ التحیات کی صورت میں بیٹھے یا سجدے میں پڑجائے گٹھنوں کے بل کھڑے ہونا بھی ایک ادب کا طریق اور پچھلی شریعتوں میں پایا جاتا ہے۔

28۔ دعا میں شرم کیسی؟ جب دعا کرنے لگے تو اپنے معاصی پر اپنے نفس کی آلودگی پر بے شک ندامت کا اظہار کرے مگر مانگنے میں شرم کیا؟ ہاں عظمت و جلال الہٰی سے زبان بند ہو تو دل تو پکارتا ہی ہے۔

29۔ دعا میں زندہ بزرگوں کا توسّل جائز ہے: دعا کرتے وقت توسل اپنے کسی عمل صالح کا یا کسی زندہ خدا کے پیارے کا جائز ہے ۔ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ بارش کے لئے دعا کی ۔انا نتوسل الیک بعم ﷺ فاسقنا ۔ہم اپنے نبی کے چچا عباس کے توسل سے تیری جناب میں دعا کرتے ہیں کہ ہم پر پانی برسا۔

30۔دعا میں اللہ کو محبوب ناموں سے پکارے: قرآن شریف میں اکثر دعائیں یا ربنا سے آئی ہیں۔ پارہ 4 سورہ آل عمران میں ربنا اننا سمعنا (آل عمران:194) سے ایک دعا شروع ہوئی ہے اس کے لئے ساتھ ہی فرمایا ۔فاستجاب لہم ربہم۔ (آل عمران :196) اسی طرح حضرت یوسفؑ کی ایک دعا ربّ سے شروع ہوتی ہے اس کے لئے بھی فاستجاب لہ ربہ (یوسف:35) فرمایا۔ اسی طرح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مصیبت و بلا میں یا حی یا قیوم حضرت نبی کریم ﷺ فرماتے ۔یوں تو اللہ کے سب اسماء حسنٰی ہیں مگر جس قسم کی حاجت ہو اسی قسم کے اسم سے توسل کیا جائے تو اقرب الی القبول ہے۔

31۔دعا میں تکرار ہو: ایک ہی بار کہنا بے پرواہی کا نشان ہے دعا میں عجز و الحاح سے کام لے اور خوب تکرار کرے تکرار خدا کے حضور پسند ہے۔

32۔دوسروں سے بھی دعائیں کرائے: اپنی دعا پر ہی بس نہ کرے بلکہ دوسرے صالحین سے بھی دعا کرائے اور یہ نہ سمجھے کہ فلاں مجھ سے کم درجہ کا ہے اس سے کیا دعا کراؤں یہ تکبر کا نشان ہے حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا ۔ اشرکنا یا اخی فی دعائک ولا تنسنا۔ مجھے بھی اپنی دعاؤں میں شریک کر لینا اور بھولنا نہیں حضرت عمر ؓ کہتے ہیں۔ کلمۃ ما یسرنی ان لی بھا الدنیا۔ (رواہ ابو داؤد)

35۔ کن کن کی دعا قبول ہوتی ہے: حدیث شریف میں آیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ثلثۃ لا ترد دعوتہم الصائم حین یفطر والامام العادل و دعوۃ المظلوم یرفعھا اللہ فوق الغمام و تفتح لھا ابواب السمآء و یقول الرب و عز تی لانصرنک ولو بعد حین۔ تین شخصوں کی دعا رد نہیں ہوتی روزہ دار کی جب روزہ کھولنے لگے (۲) امام عادل کی اور مظلوم کی ۔اللہ اسکے لئے آسمان کے دروازے کھول دیتا ہے ۔فرماتا ہے مجھے اپنی عزت کی قسم میں ضرور تیری مدد کروں گا گو مدت کے بعد۔ اسی لئے حضرت اقدس ؑ نے فرمایا ہے تم ظالم نہ بنو مظلوم بنو۔

دوسری حدیث میں فرمایا۔ ثلث دعوات مستجا بات لاشک فیھن دعوۃ الوالد و دعوۃ المسافر و دعوۃ المظلوم (۱) والد کی دعا (۲) مسافر کی دعا (۳) مظلوم کی دعا ۔

تیسری حدیث میں فرمایا ۔ خمس دعوات یستجاب لھن دعوۃ المظلوم حتی ینتصر و دعوۃ الحاج حتی ینتصر و دعوۃ الحاج حتی تصدر و دعوۃ المجاھد حتی یقعد و دعوۃ المریض حتی یبرد و دعوۃ الاخ لاخیہ بظھر المغیب ثم قال و اسرع ھذہ الدعوات اجابۃ دعوۃ الاخ بظھر الغیب۔ (مشکوٰۃ)

پانچ دعائیں ضرور مقبول ہوتی ہیں مظلوم کی دعا۔ یہانتک کہ بدلہ لے لے۔ حاجی کی دعا جب تک کہ لوٹ آئے مجاہد کی دعا جہاد چھوڑنے تک ۔مریض کی دعا اچھا ہونے تک۔ ایک بھائی کی دعا اپنے بھائی کے لئے غائبانہ پھر فرمایا کہ بہت جلدی قبول ہونے والی دعا بھائی کی ہے جو غائبانہ ہو۔

ایسے ہی وہ پاک نفس جسے خدا اپنی جماعت کے شیرازہ کو متحد رکھنے کے لئے چن لے (جسے حدیث میں الامام العادل کہا گیا ہے) اسکی دعائیں جلد اور زیادہ قبول ہوتی ہیں کیونکہ خدا اس کی وجاہت قائم کرانا اور اس کے ہاتھ پر ایک قوم کو متحد فرمانا چاہتا ہے اسے خارق عادت طور پر مستجاب الدعوۃ بنا دیتا ہے تا کہ لوگوں کے دلوں میں اس کے روحانی جھنڈے تلے جمع ہونے کے لئے ایک عام تحریک پیدا ہو۔

34۔ بعض خاص گر: جب اللہ سے دعا کی جائے تو وہ بعض گُر خود تعلیم فرمادیتا ہے جو کسی کو بھی نہیں سوجھے ہوتے ۔حضرت خلیفہ اوّل ؓ بارہا فرماتے کہ اللہ تعالےٰ مجھے نہاں در نہاں طریقوں سے رزق دیتا ہے اور دیکھنے والوں نے بھی دیکھا کہ جب آپ کو ضرورت ہوتی کوئی نہ کوئی فوری صورت اس ضرورت کے رفع کے لئے بن جاتی فوری طور پر روپیہ آجاتا یا کوئی انتظام ہو جاتا ۔ ایک بار فرمایا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی خاص عمل ہے پھر ارشاد کیا کہ عمل تو ہے مگر دوسرے رواجی عالموں کی طرح کا نہیں ۔پھر ایک قصہ بیان کیا کہ ایک عامل تھا اس کے پاس ہم کئی طلباء (بزمانہ طالبعلمی) گئے۔ وہ کہنے لگا میں اپنے مجربات اور مخفی راز بتانا چاہتا ہوں مگر کوئی اس کا اہل نہیں نورالدین کہے تو بتادوں میں نے کہا مجھے ضرورت نہیں اسکے بعد خاکسار کو مخاطب کیا اور قرآن مجید سے یہ آیت نکال کر دکھائی جو پارہ سورہ طٰہٰ رکوع 8میں ہے ۔وامر اھلک بالصلوۃ واصطبر علیھا لا نسئلک رزقا نحن نرزقک والعاقبۃ للتقوٰی۔ (طٰہٰ:133) فرمایا رزق کی کشائش کا ایک یہ بھی نسخہ ہے کہ اپنے اہل کو نماز کی تحریک بڑے زور سے کرتا رہے پھر فرمایا ذوقی بات ہے ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔

الغرض تدبر فی القرآن سے ایسی کئی باتیں حاصل ہو سکتی ہیں نادانوں نے یہ راز نہیں سمجھا اور آیتوں کو بطور منتر پڑھکر حصول رزق کے درپے ہوئے اسی طرح ہر قسم کے مطلب کے لئے ماثور دعائیں بھی ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے ۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اکتوبر 2020