• 29 اپریل, 2024

خاوند کی فضیلت پر روایت کی تخریج و تحقیق

سوشل میڈیا پر خاوند کی فضیلت کے حوالہ سےایک روایت وائرل ہے جس میں یہ بیان کیاجارہاہے کہ بیوی پراس کے خاوند کا اتنا حق ہے کہ اگرخاوند کے جسم پر پھوڑا نکل آئے اور بیوی اس کی پیپ چاٹ چاٹ کر بھی صاف کرے تو بھی اس کاحق ادا نہ ہوگا۔

کتب حدیث سے جب اس بارہ میں تخریج کی تو اس مفہوم کی تین بنیادی روایات سامنے آئیں ۔جن میں سے ایک روایت حضرت ابوہریرةؓ سے،دوسری روایت حضرت ابوسعید خدریؓ اور تیسری حضرت انسؓ سے مروی ہے۔ جنہیں مختلف واسطوں سے امام احمد نے اپنی مسند میں ،امام حاکم نے اپنی مستدرک میں،امام بیھقی نے سنن الکبریٰ میں،علامہ ابن حبان نے اپنی صحیح میں،علامہ بزار نے اپنی مسند میں ،علامہ ابوبکر ابن ابی شیبة نے اپنی تصنیف میں،علامہ سیوطی نے جامع الاحادیث و صحیح الجامع الصغیر وغیرہ میں نقل کیا ہے۔

پہلی روایت کااصل عربی متن یہ ہے:

  1. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ السُّكَّرِيُّ بِهَمْدَانَ، ثنا الْقَاسِمُ بْنُ الْحَكَمِ الْعُرَنِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْيَمَامِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا فُلَانَةُ بِنْتُ فُلَانٍ، قَالَ: «قَدْ عَرَفْتُكِ فَمَا حَاجَتُكِ؟» قَالَتْ: حَاجَتِي إِلَى ابْنِ عَمِّي فُلَانٍ الْعَابِدِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ عَرَفْتُهُ» قَالَتْ: يَخْطُبُنِيْ، فَأَخْبِرْنِيْ مَا حَقُّ الزَّوْجِ عَلَى الزَّوْجَةِ فَإِنْ كَانَ شَيْئًا أُطِيْقُهُ، تَزَوَّجْتُهُ، وَإِنْ لَمْ أُطِقْ لَا أَتَزَوَّجْ، قَالَ: ‘‘مِنْ حَقِّ الزَّوْجِ عَلَى الزَّوْجَةِ: أَنْ لَوْ سَالَتْ مَنْخِرَاهُ دَمًا وَقَيْحًا، وَصَدِيْدًا فَلَحَسَتْهُ بِلِسَانِهَا مَا أَدَّتْ حَقَّهُ، لَوْ كَانَ يَنْبَغِيْ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا، لِمَا فَضَّلَهُ اللَّهُ عَلَيْهَا ’’ قَالَتْ: وَالَّذِيْ بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَتَزَوَّجُ مَا بَقِيَتُ فِي الدُّنْيَا «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»

(المستدرك على الصحيحين للحاكم جزء 2 صفحہ 206)

ترجمہ:علی بن حمشاذ العدل نےہم سے بیان کیا کہ محمد بن مغیرہ السکری سے قاسم بن حکم العرنی نے اور ان سے سلیمان بن داؤد الیمامی نے اور سلیمان نے یحی بن ابی کثیر سےاور یحی نے ابو سلمہ سے بیان کیا کہ حضرت ابوہریرةؓ نے فرمایا کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنا تعارف کروایا۔ آپﷺ نے فرمایا: میں نے تمہیں پہچان لیا ہے۔ تم کس کام سےآئی ہو؟ اس عورت نے کہا: میں اپنے عبادت گزارچچا کے بیٹے کے سلسلہ میں بات کرنے آئی ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: میں اس کو جانتا ہوں۔ اس خاتون نے کہا: مجھے اس نے پیغام نکاح بھیجا ہے۔ آپؐ مجھے بتائیے کہ بیوی پر شوہر کے کیا حقوق ہیں؟ کیونکہ اگر میرے اندر ان کی استطاعت ہوئی تو میں شادی کروں ورنہ رہنے دوں۔ آپﷺ نے فرمایا: شوہر کے بیوی پر حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اگر اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو، پیپ اور پانی بہہ رہا ہو اور وہ اپنی زبان کے ساتھ اسے چاٹے تب بھی اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اگر کسی انسان کے لیے انسان کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ جب اس کا شوہر اس کے پاس آئے تو وہ اس کو سجدہ کرے کیونکہ خود اللہ نے شوہر کو عورت پر فضیلت دی ہے۔ (یہ سن کر) وہ عورت بولی: اس ذات کی قسم! جس نے آپﷺ کو حق دے کر بھیجا ہے۔ میں تمام زندگی شادی نہیں کروں گی۔

علامہ ذہبی (متوفی:748ھ) نے اس روایت کے راوی سلیمان بن داؤد الیمامی کو ضعیف قرار دیا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:

’’سليمان بن داود اليمامي: عن يحيى بن أبي كثير، ضعفوه.‘‘ (ديوان الضعفاء للذھبی صفحہ171)

علامہ ابن ملقن (متوفی:804ھ) نے اس روایت کو نہ صرف منکر قرار دیا ہے بلکہ اس روایت کے ایک راوی سلیمان بن داؤد الیمامی کوضعیف اور دوسرے راوی قاسم کے صدق میں کلام بیان کیا ہے۔

(مختصر استدراک الحافظ الذھبی علی مستدرک ابی عبد اللہ الحاکم جزء2 صفحہ653)

سلیمان کے بارہ میں علامہ ابن ابی حاتم اپنی کتاب الجرح والتعدیل میں لکھتے ہیں:

’’هو ضعيف الحديث، منكر الحديث، ما أعلم له حديثا صحيحا.‘‘

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم جزء4 صفحہ 111)

سلیمان بن داؤد یمامی ضعیف و منکر الحدیث ہیں اور ان سے مروی کسی صحیح حدیث کے بارہ میں علم نہیں۔

پھر اس روایت کے آخر میں ہے كہ اس لڑکی نے یہ سب سن کرکہا: ’’(یہ سن کر) وہ عورت بولی: اس ذات کی قسم! جس نے آپﷺ کو حق دے کر بھیجا ہے۔ میں تمام زندگی شادی نہیں کروں گی۔‘‘

يہ فقرہ ہی اس روايت كی نكارت كى سب سے بڑی دليل ہے کیونکہ یہ سن کر اس خاتون نےتاحیات شادی سے ہی انکار کردیا۔ کیونکہ اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں۔ سورة الحدید آیت28میں رہبانیت کو ایک بدعت قرار دیا گیا ہے اور رسول اللہﷺ نے بھی فرمایا کہ لَا رَهْبَانِيَّةَ فِي الإِسْلامِ (شرح السنة للبغوی جزء 2صفحہ 371 نیز آپﷺ نے بغیر شادی کے تجرد کی زندگی گزارنے سے منع فرمایا اور نکاح کی تحریض دلاتے ہوئے فرمایا کہ ’’نکاح میری سنت ہے اور جس نے میری سنت سے اعراض کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔

(سنن ابن ماجہ ابواب النکاح بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ النِّكَاحِ)

اور یہی انبیاء کی سنت ہے: وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً (الرعد 39) پس قرآن کریم اور سنت رسول اللہﷺ سے تو نکاح شادی کا حکم ثابت ہے اور اس روایت میں خاوند کے ایسے حق کو سننےکے بعد اس خاتون نے تاحیات شادی نہ کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔

2۔ دوسری روایت یہ ہے:
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَعْقُوبَ الْعَدْلُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْوَهَّابِ الْفَرَّاءُ، أَنْبَأَ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، ثنا رَبِيْعَةُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ نَهَارٍ الْعَبْدِيِّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِيْ سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَآءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِابْنَةٍ لَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللَّهِ، هَذِهِ ابْنَتِيْ قَدْ أَبَتْ أَنْ تَزَوَّجَ. فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَطِيْعِيْ أَبَاكِ» فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَتَزَوَّجُ حَتَّى تُخْبِرَنِيْ مَا حَقُّ الزَّوْجِ عَلَى زَوْجَتِهِ؟ قَالَ: ‘‘حَقُّ الزَّوْجِ عَلَى زَوْجَتِهِ: أَنْ لَوْ كَانَتْ بِهِ قَرْحَةٌ فَلَحَسَتْهَا مَا أَدَّتْ حَقَّهُ

(المستدرك على الصحيحين للحاكم جزء2 صفحہ 205)

ترجمہ:حسن بن یعقوب العدل نے ہم سے بیان کیاکہ محمد بن وہان فراء نے ہمیں بتایا جعفر بن عون نے ربیعہ بن عثمان سے، انہوں نے محمد بن یحی بن حبان سے،یحی نے ابو سعید خدری کے ساتھیوں میں سے نھار عبدی سے روایت کی کہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص اپنی بیٹی کو لے کر نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہﷺ! یہ میری بیٹی ہے اور یہ شادی کرنے سے انکار کررہی ہے۔ آپﷺ نے اس لڑکی سے فرمایا: اپنے باپ کی بات مانو۔ اس لڑکی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے۔ میں شادی بعد میں کروں گی پہلے آپؐ مجھے بتائیے کہ بیوی پر شوہر کے کیا حقوق ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: شوہر کا بیوی پر حق یہ ہے کہ اگر شوہر کے جسم پر زخم ہوں اور عورت اس کو زبان کے ساتھ چاٹے تب بھی اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔

علامہ ابن ملقن نے اس روایت کو بھی منکر قرار دیا ہے۔ علامہ ابو حاتم کے نزدیک اس روایت کا ایک راوی ربیعة بن عثمان منکر الحدیث ہے۔

(مختصر استدراک الحافظ الذھبی علی مستدرک ابی عبد اللہ الحاکم جزء2 صفحہ651)

3۔تیسری روایت حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ،حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَمِّهِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ۔۔۔فَقَالَ: لَا يَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، وَلَوْ صَلَحَ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، مِنْ عِظَمِ حَقِّهِ عَلَيْهَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ كَانَ مِنْ قَدَمِهِ إِلَى مَفْرِقِ رَأْسِهِ قُرْحَةٌ تَنْبَجِسُ بِالْقَيْحِ وَالصَّدِيدِ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَتْهُ تَلْحَسُهُ مَا أَدَّتْ حَقَّهُ

(مسند احمد جزء20 صفحہ64-65)

ترجمہ: حسین نے ہم سے بیان کیا کہ خلف بن خلیفہ حفص سے اور وہ اپنے چچا انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ۔۔۔۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: انسان کے لیے کسی بھی انسان کو سجدہ کرنا درست نہیں، اور اگر انسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنا صحیح ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنےخاوند کوسجدہ کرتی اس لیے کہ اس کا عورت پر بہت ‏عظیم حق ہے، اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر اس کے پاؤں سے لیکر اس کے سرتک زخم پیپ سے بھرے ہوں اورپیپ رس رہی تووہ بیوی اس کے پاس آئے اور اسے چاٹ لے پھر بھی اس کا حق ادا نہیں کیا۔

اس روایت کے بارہ میں مسند احمد کی روایات پر تحقیق کرنے والے محقق علامہ شعیب ارناؤط لکھتے ہیں کہ
’’صحيح لغيره دون قوله: ’’والذي نفسي بيده لو كان من قدمه … الخ‘‘، وهذا الحرف تفرد به حسين المرُّوذي عن خلف بن خليفة، وخلف كان قد اختلط قبل موته.‘‘

(مسنداحمد جزء20 صفحہ64-65حاشیہ)

یعنی باقی روایت تو ٹھیک ہے لیکن اس کا فقرہ جس میں زخم ،پیپ وغیرہ چاٹنے کا ذکر ہے یہ محل نظر ہے۔اور ان حروف کو خلف بن خلیفہ سے روایت کرنے والے حسین المروذی منفرد راوی ہیں۔

پس یہ روایات اکثر علمائے فن حدیث کے نزدیک ضعیف منکر ہیں اور ان کے راوی بھی ضعیف اور منکر الحدیث ہیں۔اسی طرح ان روایات کی ثقاہت میں تحفظات ہیں۔ بعض علماء کا یہ موقف ہے کہ اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو اس کے صرف یہی معنے ہیں کہ بیوی پر خاوند کابہت بڑا حق ہے جیسا کہ سنن ابن ماجہ میں ہے کہ عورت جب تک اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے وہ اپنے رب کا حق بھی ادا نہیں کر سکتی۔ (ابن ماجہ کتاب النکاح) پس اس میں خاوند کی اطاعت اور خدمت کرنے کے بارہ میں تاکید مزید اور مبالغہ ہے۔ اس سے ہرگز یہ مطلب نہیں کہ واقعتاً عورت ایسا ناپسندیدہ فعل بجالائے۔

پھر ایسا نقصان دہ عمل تو اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ قرآن کریم میں ہے :

وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرة 196)

اور اپنے ہاتھوں (اپنے تئىں) ہلاکت مىں نہ ڈالو۔

یہ عمل حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف ہے اور اس سے بیماری پھیلنے کا خطرہ ہوسکتا ہے اور اسلام کبھی بھی اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کا حکم نہیں دیتا۔ نیز طبی لحاظ سے بھی یہ بات درست نہیں ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صفائی و پاکیزگی کوموجب محبت قرار دیتا ہے۔ فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقرة 223)

کہ پاکیزگی اور صفائی اختیار کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔

اوررسول کریمﷺ نے اپنی امت کو صفائی کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا: الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ (صحیح مسلم کتاب الطھارة باب فضل الوضوء) کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ اوریہ عمل تو ناپسندیدہ اور ناپاک ہے جو کہ قرآن و سنت کے برخلاف ہے۔ پس ایسی ضعیف روایت خلاف قرآن ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل ہے۔

البتہ اسلام نے میاں بیوی دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق بڑے واضح قائم فرمائے ہیں۔ لیکن مردوں کو ایک فضیلت عطا کی ہے۔ جیساکہ قرآن کریم میں ہے:

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (البقرة 229)

اور اُن (عورتوں) کا دستور کے مطابق (مَردوں پر) اتنا ہى حق ہے جتنا (مَردوں کا) اُن پر ہے حالانکہ مَردوں کو ان پر اىک قسم کى فوقىت بھى ہے اور اللہ کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے ۔

قرآن کریم میں خاوند پر بیوی کے درج ذیل بنیادی حقوق بیان ہوئے ہیں: حق مہر کی ا دائیگی (النساء:25)، نان و نفقہ (البقرة:234)، مناسب رہائش کا انتظام (الطلاق:7)، بیویوں کے درمیان عدل و انصاف (النساء:4)، حسن معاشرت (النساء:20)، بیوی کو تکلیف نہ پہنچانا (البقرة:234)، تشدد سے تحفظ (البقرة:232)، اعتماد کرنا (التحریم:6) وغیرہ۔

اسی طرح بیوی پر خاوند کے حقوق بھی قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں جو یہ ہیں:
خاوند کی اطاعت کرنا کیونکہ مرد عورتوں پر نگران ہے (النساء:35)، خاوند کی عزت اور اس کے مال کی حفاظت کرنا (النساء:35)، خاوند کی خواہشات کا خیال رکھنا (النساء:25)، خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلنا (الاحزاب:34)، خاوند کی خدمت کرنا، خاوند کے عیبوں، کمیوں وغیرہ اور دیگر رازوں کی حفاظت کرنا (البقرة:188)، اولاد کی پرورش و تربیت کرنا (البقرة:234) وغیرہ

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کو اُن کے فرائض کی طرف نہایت احسن رنگ میں توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’دیکھیں کتنی وضاحت سے آپؑ نے فرمایا کہ حقوق کے لحاظ سے دونوں کے حقوق ایک جیسے ہیں۔ اس لئے مرد یہ کہہ کر کہ میں قوّام ہوں اس لئے میرے حقوق بھی زیادہ ہیں، زیادہ حقوق کا حق دار نہیں بن جاتا۔ جس طرح عورت مرد کے تمام فرائض ادا کرنے کی ذمہ دار ہے اسی طرح مرد بھی عورت کے تمام فرائض ادا کرنے کا ذمہ دار ہے‘‘۔

آگے چل کر فرمایا کہ
’’ہمارے ہاں یہ محاورہ ہے کہ عورت پاؤں کی جوتی ہے، یہ انتہائی گھٹیا سوچ ہے، غلط محاورہ ہے۔ اس محاورے کا مطلب یہ ہے کہ جب عورت سے دل بھر گیا تو دوسری پسند آ گئی اس سے شادی کر لی اسے چھوڑ دیا اور پہلی بیوی کے جذبات و احساسات کا کوئی خیال ہی نہ رکھا گیا تو یہ انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔ عورت کوئی بے جان چیز نہیں ہے بلکہ جذبات احساسات رکھنے والی ایک ہستی ہے۔ مردوں کو یہ سمجھایا ہے کہ یہ ایک عرصے تک تمہارے گھر میں سکون کا باعث بنی، تمہارے بچوں کی ماں ہے، ان کی خاطر تکلیفیں برداشت کرتی رہی ہے۔ اب اس کو تم ذلیل سمجھو اور گھٹیا سلوک کرو اور بہانے بنا بنا کر اس کی زندگی اجیرن کرنے کی کوشش کرو تو یہ بالکل ناجائز چیز ہے۔ یا پھر پردہ کے نام پر باہر نکلنے پر ناجائز پابندیاں لگا دو۔ اگر کوئی مسجد میں جماعتی کام کے لئے آتی ہے تو الزام لگا دو کہ تم کہیں اور جا رہی ہو۔ یہ انتہائی گھٹیا حرکتیں ہیں جن سے مردوں کوروکا گیا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمہارا عورت سے اس طرح سے سلوک ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ جس طرح دو حقیقی دوست ایک دوسرے کے لئے قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اس طرح مرد اور عورت کو تعلق رکھنا چاہئے کیونکہ جس بندھن کے تحت عورت اور مرد آپس میں بندھے ہیں وہ ایک زندگی بھر کا معاہدہ ہے اور معاہدے کی پاسداری بھی اسلام کا بنیادی حکم ہے۔ معاہدوں کو پورا کرنے والے اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ٹھہرتے ہیں اور کیونکہ یہ ایک ایسا بندھن ہے جس میں ایک دوسرے کے راز دار بھی ہوتے ہیں اس لئے فرمایا کہ مرد کی بہت سی باتوں کی عورت گواہ ہوتی ہے کہ اس میں کیا کیانیکیاں ہیں، کیا خوبیاں ہیں، کیا برائیاں ہیں۔ اس کے اخلاق کا معیار کیا ہے؟ تو حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرما رہے ہیں کہ اگر مرد عورت سے صحیح سلوک نہیں کرتا اور اس کے ساتھ صلح صفائی سے نہیں رہتا، اس کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کیسے ادا کرے گا، اس کی عبادت کس طرح کرے گا، کس منہ سے اس سے رحم مانگے گا؟ جبکہ وہ خود اپنی بیوی پر ظلم کرنے والا ہے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: تم میں سے و ہی اچھا ہے جو اپنے اہل سے اچھا ہے، اپنی بیوی سے اچھا ہے۔ تو دیکھیں یہ ہے عورت کا تحفظ جو اسلام نے کیا ہے۔ اب کونسا مذہب ہے جو اس طرح عورت کو تحفظ دے رہا ہو۔ اس کے حقوق کا اس طرح خیال رکھتا ہو‘‘۔

(جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

٭…٭…٭

(مرسلہ: باسل احمد بشارت (مربی سلسلہ))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اکتوبر 2020