• 20 جون, 2025

نجات کا گھر اور لغویات کا رد

لغویات سے اعراض ایک نہایت عظیم وصف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس وصف کو اپنانے کی قرآن کریم میں خوب تلقین کی ہے۔ قرآن کریم میں مومنوں کی ایک نشانی بیان کرتے ہوئے کہا وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا (الفرقان 73) یعنی اور جب وہ لغوىات کے پاس سے گزرتے ہىں تو وقار کے ساتھ گزرتے ہىں۔ ایک اور مقام پر کہا وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ (القصص 56) یعنی اور جب وہ کسى لغو بات کو سنتے ہىں تو اس سے اعراض کرتے ہىں۔ سورۃ مومنون میں اللہ نے کامیاب اور فلح پانے والے گروہ کی خصوصیات کے ذکر میں لغویات سے اعراض کا ذکر بھی کیا۔ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ۔ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المؤمنون 2-4) ىقىناً مومن کامىاب ہوگئے ۔ وہ جو اپنى نماز مىں عاجزى کرنے والے ہىں۔ اور وہ جو لغو سے اِعراض کرنے والے ہىں ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان تمام آیات کو ایک خوبصورت جملہ میں کچھ یوں بیان کیا۔

”یعنی مومن وہ ہیں جو لغو کاموں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں اور لغو تعلقات سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔“

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 197)

نیز فرمایا :اس کے یہی معنے ہیں کہ مومن وہی ہیں جو لغوتعلقات سے اپنے تئیں الگ کرتے ہیں اور لغو تعلقات سے اپنے تئیں الگ کرنا خدا تعالیٰ کے تعلق کا موجب ہے۔ گویا لغو باتوں سے دل کو چھڑانا خدا سے دل لگالینا ہے۔“

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ 199۔200)

رسول اللہ ﷺ کی پاک و مطہر سیرت میں بھی یہ وصف بہت نمایا تھا۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِی اَوْفَی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکْثِرُ الذِّکْرَ وَیُقِلُّ اللَّغْوَ

(النسائی باب ما یستحب من تقصیر الخطبہ)

حضرت عبد اللہ بن ابی اوفٰی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺذکر الٰہی کثرت سے کیا کرتے تھے اور بے معنی بات نہیں کرتے تھے۔

آپ ﷺ نے مسلمانوں کو بھی اس امر کی تلقین کی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں حقیقی مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا مگر اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر بہتان لگایا ہو گا اور کسی کا مال کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہا یا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی جن کے ساتھ اس نے یہ سلوک کیا ہو گا۔ اگر اس کی نیکیاں اس کا حساب برابر ہونے سے پہلے ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس ظلم کرنے کی وجہ سے اس کے سر ڈال دیئے جائیں گے اور پھر اس کو آگ میں پھینک دیا جائے گا۔

(مسلم کتاب البروالصلہ باب تحریم الظلم)

”مومن صرف وہی لوگ نہیں ہیں جو نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں اور سوزوگداز ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر وہ مومن ہیں کہ جو باوجود خشوع اورسوزو گداز کے تمام لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو تعلقوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں اور اپنی خشوع کی حالت کو بیہودہ کاموں اور لغو باتوں کے ساتھ ملا کر ضائع اور برباد ہونے نہیں دیتے اور طبعاً تمام لغویات سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور بیہودہ باتوں اور بیہودہ کاموں سے ایک کراہت اُن کے دلوں میں پیدا ہوجاتی ہے …… پس دنیا کی لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو سیرو تماشا اور لغو صحبتوں سے واقعی طور پر اُسی وقت انسان کا دل ٹھنڈا ہوتا ہے جب دل کا خدائے رحیم سے تعلق ہو جائے اور دل پر اس کی عظمت اور ہیبت غالب آجائے۔ خدا پرایمان لا کر ہر ایک لغو بات اور لغو کام اور لغو مجلس اور لغو حرکت اور لغو تعلق اور لغو جوش سے کنارہ کشی کی جائے۔“

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ199۔200)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
”تو دیکھیں ان لغویات کی وجہ سے جو اس سے سر زد ہوئی ہوں گی اس کی نماز روزہ زکوٰۃ وغیرہ اس کو کوئی فائدہ نہیں دے رہا بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے یونہی بد ظنی کرتے ہوئے الزام لگا دیتے ہیں ……توبلا سوچے سمجھے ایسے الزام لگانا بھی ٹھیک نہیں۔اگر دوسرے شخص نے تمہارے خلاف واقعی ایسی حرکت کی ہے تو اس کا گناہ اس کے سر ہے تم کیوں بہتان لگا کران لغویات میں پڑ کر اپنے سر اس کا گناہ لیتے ہو……ہر وہ چیز جو شیطان کی طرف لے جانے والی ہے وہ لغو ہے…… پھر انٹر نیٹ کا غلط استعمال ہے یہ بھی ایک لحاظ سے آجکل کی بہت بڑی لغو چیز ہے……یہ بھی ایک قسم کا ایک نشہ ہے اور نشہ بھی لغویات میں ہے۔کیونکہ جو اس پر بیٹھتے ہیں بعض دفعہ جب عادت پڑ جاتی ہے تو فضولیات کی تلاش میں گھنٹوں بلاوجہ،بے مقصد وقت ضائع کررہے ہوتے ہیں۔تو یہ سب لغو چیزیں ہیں ……پس کوشش کریں کہ ان دنوں میں ان تمام برائیوں اور لغویات سے اپنے آپ کو بچائیں اور اپنی زبانوں کو ذکر الٰہی سے تر رکھیں۔“

(خطبات مسرور جلد2 صفحہ 592)

پھر آپ فرماتے ہیں: ”ہر وہ عمل جو نیک عمل ہے جو خُدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہے وہ عبادت بن جاتا ہے۔ اگر یہ مدِّنظر رہے تو اسی چیز میں ہماری بقا ہے اور اسی بات سے پھر رسومات سے بھی ہم بچ سکتے ہیں، بدعات سے بھی ہم بچ سکتے ہیں، فضول خرچیوں سے بھی بچ سکتے ہیں، لغویات سے بھی ہم بچ سکتے ہیں اور ظلموں سے بھی ہم بچ سکتےہیں۔ یہ ظلم ایک تو ظاہری ظلم ہیں جو جابر لوگ کرتے ہی ہیں۔ ایک بعض دفعہ لا شعوری طور پر اس قسم کی رسم و رواج میں مبتلا ہو کر اپنی جان پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔اور پھر معاشرے میں اس کو رواج دے کر ان غریبوں پر بھی ظلم کر رہے ہوتے ہیں جو کہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز شاید فرائض میں داخل ہو چکی ہے۔ اور جس معاشرے میں ظلم اور لغویات اور بدعات وغیرہ کی یہ باتیں ہوں، وہ معاشرہ پھر ایک دوسرے کا حق مارنے والا ہوتا ہے …… اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والے ہوں، اللہ اور اس کے رسول کے قول پر عمل کرنے والے ہوں۔ رسم و رواج سے بچنے والے ہوں،دنیاوی ہوا و ہوس اور ظلموں سے دور رہنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نور سے ہم ہمیشہ حصّہ پاتے چلے جائیں۔ کبھی ہماری بدبختی ہمیں اس نور سے محروم نہ کرے۔“

(خطبات مسرور جلد7صفحہ 36)

نیز فرمایا: ’’ہر قسم کا جھوٹ غلط اور گناہ کی باتیں تاش کھیلنا، اس قسم کی اور کھیلیں۔ آج کل دکانوں پر مشینیں پڑی ہوتی ہیں چھوٹے بچوں کو جوئے کی عادت ڈالنے کے لئے، رقم ڈالنے کے بعد بعض نمبروں کی گیمیں ہوتی ہیں کہ یہ ملاؤ، اتنے پیسے ڈالو تو اتنے پیسے نکل آئیں گے تو اس طرح جیتنے سے اتنی بڑی رقم حاصل ہو جائے گی، یہ سب لغو چیزیں ہیں۔ اسی طرح بیٹھ کر مجلسیں جمانا، گپیں ہانکنا، پھر دوسروں پر بیٹھ کے اعتراض وغیرہ کرنا یہ سب ایسی باتیں ہیں جو لغویات میں شامل ہیں… بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بلاوجہ دوسروں کو مشورے دینے لگ جاتے ہیں۔ کسی نے کوئی مشورہ نہ بھی پوچھا ہو تو عادتاً مشورہ دیتے ہیں یا بعض ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو کسی کی دلشکنی کا یا اس کے لئے مایوسی کا باعث بن جاتی ہے۔ مثلاً کسی نے کار خریدی، کہہ دیا یہ کار تو اچھی نہیں فلاں زیادہ اچھی ہے۔ وہ بیچارہ پیسے خرچ کرکے ایک چیز لے آتا ہے اس پہ اعتراض کر دیا یا پھر اور اسی طرح کی چیز لی اس پہ اعتراض کر دیا۔ اس کی وجہ سے پھر دوسرا فریق جس پہ اعتراض ہو رہا ہوتا ہے وہ پھر بعض دفعہ مایوسی میں چِڑ بھی جاتا ہے اور پھر تعلقات پہ بھی اثر پڑتا ہے۔ تو بلاضرورت کی جو باتیں ہیں وہ بھی لغویات میں شمار ہوتی ہیں۔ ۔ بعض دفعہ دو آدمی باتیں کر رہے ہیں تیسرا بلاوجہ ان میں دخل اندازی شروع کر دے، یہ بھی غلط چیز ہے لغویات میں اس کا شمار ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 20۔اگست 2004ء)

حضور انور نے احمدی خواتین کو معاشرتی لغویات اور فضولیات سے اپنے گھروں کو متأثر نہ ہونے دینے کے بارہ میں یوں نصیحت فرمائی:
’’…اسی طرح لغویات میں گندی اور ننگی فلمیں ہیں۔ گندی اور ننگی کتابیں ہیں۔ رسالے ہیں یہ سب اس بہانے سے ما رکیٹ میں پھیلائی جاتی ہیں کہ اس زمانہ میں جنسی تعلقات کا پتہ لگنا چاہیے تاکہ اُن بُرائیوں سے بچا جا سکے۔ بچتے تو پتہ نہیں یہ ہیں کہ نہیں، لیکن سڑک پر ہر گلی کے نکڑپر ایسے جو اشتہارات ہیں اخلاق سوز قسم کےوہ بُرائیوں میں ضرور معا شرے کو گرفتار کر دیتے ہیں۔ جو چیز فطری ہے اس کاجب وقت آئے گا تو خود بخود پتہ چل جائے گا۔ جب اس کا پتہ لگنے کی ضرورت ہے۔ علم کے نام پراس ذہنی عیاشی سے اپنےآپ کوبچانا چاہئے۔ اس لئے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایاہے کہ اپنے تمام اعضاء کو زنا سے بچاؤ۔ پس ہر عورت کو ایک فکرکے ساتھ اپنے بچوں کو سمجھانا چاہئے اور ہر بچی کو، جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے، جس کا دماغ میچور (mature) ہو چکا ہے یہ احساس ہونا چاہئےکہ یہ برُائیاں ہیں جو مزید گندگیوں میں دھکیلتی چلی جائیں گی۔ اس لئے ان سے بچنا ہے۔ ہر ایسی چیز جس کا ناجائز استعمال شرو ع ہوجائے وہ بھی لغویات میں ہے مثلًا انٹرنیٹ کے بارے میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں۔ یہ اس زمانے کی ایجاد ہے اور یہ ایجادات اللہ تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کے زمانے میں مقدر کی ہوئی تھیں۔ قرآن کریم میں مختلف ایجادات کا اعلان بھی فرمادیا۔ انٹرنیٹ بھی ان میں سے ایک ہے اور ٹیلی فون کا نظام جو ہےوہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ ٹیلی وژن کا نظام ہے یہ بھی ان میں سے ایک ہےجنہوں نے اشاعت کے لئے کام آنا تھا۔

لیکن اگر ان ایجادات کا غلط استعمال کریں گی تو یہ لغویات میں شمارہوں گی اور ایسی لغویات سے اللہ تعالیٰ نےمنع فرمایا ہے اور ان سے بچنے کا بھی حکم ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے مومن کی تعریف یہ ہے کہ عَنِ الَّلغْوِ مُعْرِضُوْنَ جو لغو سے اعراض کرنے والے ہوں۔ لغویات سے بچنے والے ہوں۔ جب انٹرنیٹ پر دوستوں سے چَیٹ (chat) کرنے اور اس میں دوسروں کا مذاق اڑانے اور پھکڑ توڑنے، ایک دوسرے کے خلاف کام میں لائیں گی یا لوگوں کے رشتوں میں دراڑیں پیدا کرنے کےکام میں لائیں گی، کسی دوسری عورت کی زندگی اس کے خاوند سے انٹرنیٹ پر گفتگو کر کے بربادکریں گی۔ ایک دوسرے کی چغلیاں ہو رہی ہو نگی تو یہی کارآمدچیز جو ہےیہ لغویات میں بھی شمار ہوگی اور گناہ بھی بن رہی ہوں گی۔ پھر آجکل موبائل فون پرٹیکسٹ میں پیغامات د ئیے جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک سلسلہ شروع ہواہے نیا، آجکل بڑا سستا طریقہ ہے گپیں مار کروقت ضائع کرنے کا اور نا محرموں سے بات کرنے کا۔ بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہےکہ ٹیکسٹ میسج (text message) ہی تھا کونسی بات کرلی ہے۔ ایک دوسرے سے رابطے بڑھتےہیں کہ سہیلی نے اپنے دوستوں میں سے کسی کا فون دے دیا اپنے دوستوں کو اپنی سہیلی کا فون دے دیا۔ موبائل نمبر دے دیا کسی بھی ذریعہ سےایک دوسرے کے نمبر ہاتھ آگئے تو ٹیکسٹ میسج کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے پھر ٹیلی فون پر 12، 13، 14 سال کے بچیاں بچےلے کر پھر رہے ہوتے ہیں۔ پیغامات دے رہے ہوتے ہیں۔ اور یہی عمر ہے جو خراب ہونے کی عمر ہے اور پھر انجام ایسی حد تک چلا جاتا ہےآخر کارجہاں وہ لغو جوہے وہ گناہ بن جاتا ہے۔ اس لیے احمدی بچیاں اپنی عصمت کی خاطراپنی عزت کی خاطر اپنے خاندان کے وقار کی خاطر اپنی جماعت کے تقدّس کو مدّ نظر رکھتے ہوئے جس کی طرف سے وہ منسوب ہو رہی ہیں جس سے وہ منسلک ہیں ان چیزوں سے بچیں اور اسی طرح احمدی مرد بھی سن رہے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو بچائیں۔‘‘

(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ جرمنی 11؍جون 2006ء)

نیز فرمایا: ایسے کھیل بھی ہیں جو عبادتوں سے روکنے والے ہیں ……پھر اس قسم کی اور لغویات ہیں جو مختلف قسم کی بُرائیاں ہیں۔ تو پہلی بات یہ ہے کہ عاجزی اختیار کرو تو ایمان دل میں جگہ پائے گا پھر لغو اور بیہودہ باتوں کو ترک کرو۔“

(خطباتِ مسرور جلد3 صفحہ551)

اللہ تعالیٰ ہر ایک کو لغویات سے کنارکشی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین

(مرسلہ: فراز یاسین ربانی۔جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا۔ نمائندہ روزنامہ الفضل لندن (آن لائن))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2020