• 28 اپریل, 2024

نورِ الہٰی کی عظیم تجلّیات

قرآنِ شریف میں اللہ تعالیٰ کا نام نور ہے جیسا کہ فرمایا ’’اللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ والْاَرْضِ یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے اور ہر ایک نور اسی کے نور کا پر توہ ہے۔‘‘

(ایام الصلح روحانی خزائن صفحہ247 ایڈیشن 1984 لندن)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’خدا ہی ہے جو ہر دم آسمان کا نور اور زمین کا نور ہے۔ اس سے ہر ایک جگہ روشنی پڑتی ہے آفتاب کا وہی آفتاب ہے زمین کے جانداروں کی وہی جان ہے سچا زندہ خدا وہی ہے۔ مبارک وہ جو اس کو قبول کرے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 130 روحانی خزائن جلد دہم صفحہ 444 مطبوعہ 1984ء لندن)

نیز فرمایا
’’خدا زمین و آسمان کا نور ہے یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے خواہ وہ ارواح میں ہے خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ ارضی۔ اور خواہ خارجی اسی کے فیض کا عطیہ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رب العالمین کا فیضِ عام ہر چیز پر محیط ہو رہا ہے اور کوئی اس کے فیض سے خالی نہیں ۔ وہی تمام فیوض کا مبدء ہے اور تمام انوار کا علت العلل اور تمام رحمتوں کا سر چشمہ ہے۔ اسی کی ہستی حقیقی تمام عالم کی قیوم اور تمام زیر و زبر کی پناہ ہے۔ وہی ہے جس نے ہر ایک چیز کو ظلمت خانہ عدم سے باہر نکالا اور خلعت و جود بخشا بجز اس کے کوئی ایسا وجود نہیں ہے جو حدّ فی زاتہ واجب اور قدیم ہو یا اس سے مستفیض نہ ہو بلکہ خاک اور افلاک اور انسان اور حیوان اور ہجر اور شجر اور ارواح اور جسم سب اسی کے فیضان سے وجود پذیر ہیں۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 191حا شیہ ۔روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 191 مطبوعہ 1984ء لندن)

سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:؎

کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا
بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا
ہے عجب جلوہ تیری قدرت کا پیارے ہر طرف
جس طرف دیکھیں وہی راہ ہے تیرے دیدار کا
کیاعجب تو نے ہر اک زرہ میں رکھے ہیں خواص
کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتران اسرا ر کا

نیز فرمایا:
’’اسلام کا خدا وہی سچّا خدا ہے جو آئینہ قدرت اور صحیفہ فطرت سے نظر آرہا ہے اسلام نے کوئی نیا خدا پیش نہیں کیا بلکہ وہی خدا پیش کر رہا ہے جو انسان کا نورِ قلب اور انسان کا کانشنس اور زمین و آسمان پیش کر رہا ہے۔‘‘

(تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ 15)

سیدنا حضرت مصلح مو عود ؓ فرماتے ہیں:
’’میرے نزدیک یہاں اللّٰہُ نُوْرُ ا لسَّمٰوٰتِ والارض کہہ کر اس طرف توجہ دلائی کہ زمین و آسمان میں جس چیز کو بھی روشن کرنا چاہو اللہ تعالیٰ کا نور اس میں داخل کر دو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ چیز روشن ہو جائے گی اگر وہ نور مکان میں داخل ہو گا تو وہ مکان روشن ہو جائے گا اور اگر دل پر نازل ہوگا تو دل روشن ہو جائے گا ۔۔۔۔ لیکن جہاں یہ نور نہ ہو وہاں ظلمت اور سیاہی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔۔۔۔ اسی طرح جس شخص کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کی چنگاری سلگ اٹھے اگر وہ اس کرم شب چراغ کے برابر بھی ہو تب بھی وہ دوسروں کو روشنی پہنچائے گا ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی خدا کا ہو جائے اور اپنے دائرہ استعداد کے مطابق سورج اور چاند اور ستارہ نہ بنے جو شخص اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کر لیتا ہے وہ اس کے نور کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 317-316 مطبوعہ لندن 1986ء)

نیز فرمایا:
’’نور کا یہ خاصہ ہے کہ وہ ظاہر ہو۔ وہ کبھی چھپ کر نہیں رہ سکتا ۔ پس جب کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے اندر پیدا کر لے تو نہ صرف اس میں بلکہ اس کے ملنے والوں میں بھی ایک پاک تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کئی لوگوں کے اندر وہ تبدیلی نا مکمل ہو مگر پھر بھی وہ نور ضرور ظاہر ہو کر رہتا ہے جس طرح کالے کپڑے کی اوٹ میں بھی اگر بتی جلائی جائے تب بھی کچھ نہ کچھ روشنی ضرور نکلتی ہے اسی طرح ممکن ہے کہ کسی کے دل میں محبت الٰہی کی ایک ہلکی سی چنگاری مخفی تو ہو مگر گناہوں کی سیا ہ چادر اس پر پڑی ہوئی ہو ۔ لیکن یہ سیاہی اس کے نور کو صرف کم کر سکتی ہے مٹا نہیں سکتی اور جب بھی اس کی سیاہ چادر ہٹے گی الٰہی نور نہایت شان سے اس میں سے ظاہر ہونا شروع ہو جائیگا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 317 مطبوعہ لندن 1986)

سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں:؎

چشم ِ مستِ ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے
ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا
تونے خود رُ وحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑکا نمک
اس سے ہے شورِ محبت عاشقانِ زار کا
خُو برُ و وں میں ملاحت ہے تیرے اُس حسن کی
ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اس ترے گلزار کا

اللہ تعالیٰ کے انبیاء آئینہ خدا نما ہوتے ہیں۔ان کے ذریعہ توحید حقیقی کا نور دنیا میں ظاہر ہوتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’توحید اور نجات کا آفتاب اور اس کو ظاہر کرنے والا صرف رسول ہی ہوتا ہے اِسی کی روشنی سے توحید ظاہر ہوتی ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22، صفحہ148، مطبوعہ لندن 1984ء)

پس بلاشبہ خدا کے نور کی تجلّی ہمیشہ پاک ارواح اور وجودوں پر نازل ہوتی اور انہیں انبیاء، اولیاء، خلفاء اور مقربین بارگاہ الٰہی کا بلند و ارفع مقام نصیب ہو جاتا ہے۔ جو خدائی نور کو دنیا میں پھیلاتے ہیں۔

بنی نوع انسان پر خدائی نور کی پہلی تجلّی سیدنا حضرت آدم علیہ السلام پر ظاہر ہوئی اور آپکو صفی اللہ کا لقب نصیب ہوا، یعنی خدا کا برگزیدہ و چنیدہ بندہ۔ پھر خدا کے نور کی تجلّی کا ظہور حضرت نوح علیہ السلام پر ہوا۔ آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

ترجمہ: ’’تمام قوموں کی طرف سے نوح پر سلامتی کی دعا ہو رہی ہے۔ ہم محسنوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔‘‘

(سورۃالصّافّات82-80)

سیّدنا حضرت ابراھیم علیہ السلام بھی حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت میں سے تھے جب وہ اپنے ربّ کے حضور ایک ایسا پاک دل لے کر آئے جو ہر قسم کے کفر و شرک سے پاک تھا تو اس پر خدا ئی نور کی تجلّی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ترجمہ: ’’اور اللہ نے ابراہیم کو (اپنا) خاص دوست بنایا تھا۔‘‘

(سورۃ النساء 126)

صرف یہی نہیں بلکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی نسل میں بھی خدا کے نور کی تجلّیات پاک وجودوں پر ظاہر ہوتی رہیں ۔ خدائی نور کی ایک تجلّی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کوہ طور پر ظاہر ہوئی ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

ترجمہ ۔ ’’کیا تجھے موسیٰ کی بات (بھی) پہنچی ہے؟جبکہ اسے اس کے رب نے وادی مقدس یعنی طویٰ میں پکارا تھا۔‘‘

(سورۃ النّٰزِعٰت17-16)

نیز فرمایا:
ترجمہ: ’’اور کئی ایسے رسول ہیں جن کی خبر ہم (اس سے) پہلے تجھے دے چکے ہیں اور کئی ایسے رسول ہیں جن کا ذکر ہم نے تجھ سے نہیں کیا اور اللہ نے موسیٰ سے خوب اچھی طرح کلام کیا تھا۔‘‘

(سورۃ النساء 165)

جب یہ خدائی نور مدھم ہونے لگا تو ایک بار پھر شعیر کے علاقہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر الٰہی تجلّی ظاہر ہوئی اور فرمایا کہ خدا کے لا انتہاء کلمات جن کا شمار ناممکن ہے (سورۃالکھف:110) ان کلمات میں سے حضرت مسیح عیسیٰ ابن مریم ؑ بھی خدا کا ایک کلمہ بن کر آیا تھا۔

چنانچہ فرمایا :
ترجمہ: ’’مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کا صرف (ایک) رسول اور اس کی (ایک) بشارت تھا جو اس نے مریم پر نازل کی تھی اور اس کی طرف سے ایک رحمت تھا۔‘‘

(سورۃ النساء 172)

اللہ تعالیٰ کے نور کی تجلّیات جو مختلف اوقات اور زمانوں میں انبیاء کرام پر ظاہر ہوئیں وہ ان کی استعداد وں اور ضروریات زمانہ کے مطابق تھیں۔ لیکن ہمارے آقا سیّد و مولیٰ خاتم الا نبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر خدائی انوار کی کامل تجلّی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئی۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
ترجمہ: ’’تمہارے لئے اللہ کی طرف سے ایک نور اور ایک روشن کتاب آچکی ہے۔‘‘

(سورۃ المائدہ 16)

نیز فرمایا
ترجمہ ۔ ’’اے نبی! ہم نے تجھ کو اس حال میں بھیجا ہے کہ تو (دنیا کا) نگران بھی ہے (مومنوں کو) خوشخبری دینے والا بھی ہے اور (کافروں کو) ڈرانے والا بھی ہے۔ اور نیز اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور ایک چمکتا ہوا سورج بنا کر (بھیجا ہے)۔‘‘

(سورۃ الاحزاب47-46)

خدائے ذوالجلال نے سراج مُنیر پر جو کتاب نازل کی اسے بھی نور قرار دیا۔چنانچہ فرمایا:

ترجمہ۔ ’’پس اے لوگو! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس نور (یعنی قرآن) پر بھی جو ہم نے اتارا ہے‘‘

(سورۃ التغابن9)

چنانچہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا پاک وجود (سورۃ النور 36) بن گیا۔ جن خوش نصیبوں نے اس نور کو قبول کرنے کی سعادت پائی وہ اندھیروں سے نکل کر خدائی نور سے منور ہوئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

ترجمہ: ’’پس اے مومنوں میں سے عقل مندو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اللہ نے تمہارے لئے شرف کا سامان یعنی رسول اتارا ہے جو تم کو اللہ کی ایسی آیات سناتا ہے جو (ہر نیکی اور بدی کو) کھول دیتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مومن لوگ جو اپنے ایمان کے مطابق عمل کرتے ہیں، وہ اندھیروں سے نکل کر نور میں آجاتے ہیں‘‘

(سورۃ الطلاق 12-11)

چنانچہ اس پاک وجود جو خدا تعالیٰ کی نورانی تجلّی کا مورد بنا ۔ جو لوگ ایمان لائے آسمان روحانیت پر روشن ستارے بن کر چمکے۔ جن کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

أصْحَابِيْ كَالنَّجُّوْم بِأيِّهِمْ اقْتَدَيْتُمْ اهْتَدَيْتُمْ

’’کہ میرے صحابہ ستاروں کہ مانند ہیں۔ جس کی بھی تم پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔‘‘

سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’وہ اعلٰی درجہ کا نور انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو، وہ ملائک میں نہیں تھا، نجوم میں نہیں تھا، قمر میں نہیں تھا آفتاب میں بھی نہیں تھا، وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا۔ صرف انسان میں تھا، یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ فرد ہمارے سید و مولیٰ، سید الانبیاء سیدالاحیاء محمد مصطفی ٰﷺ ہیں۔ سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہم رنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد پنجم ۔ ص161۔160۔ مطبوعہ لندن 1984ء)

سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں:

؎نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے
قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21۔ ص145۔ مطبوعہ لندن)

سیّد وَلْد آدم حضرت محمد عربیﷺکے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد یہ نور خلفائے راشدین، امت محمدیہ کے صلحاء، اولیاء، ابدال، اقطاب، محدثین و مجددین اپنے اپنے زمانہ اور علاقہ میں پھیلانے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ جیسے حضرت عمر بن عبدالعزیز، حضرت سید عبدالقادر جیلانی، حضرت مجدد الف ثانی، حضرت گنج بخش ھجویری، حضرت شاہ محدث دہلوی اور حضرت معین الدین چشتی رحمہ اللہ علیہم وغیرہ۔

موجودہ دور میں خدائی انوار کی عظیم تجلّی

انبیاء سابقہ، قرآن کریم اور آنحضرت ﷺکی پیشگوئیوں کے عین مطابق موجودہ تاریکی کے دور میں محمد مصطفیﷺکے ایک عاشق صادق پر خدائی نور کی عظیم تجلّی کا ظہور ہوا۔ چنانچہ بانئ احمدیت سیّدنا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ السلام دنیا کو خوشخبری دیتے ہوئے فرما تے ہیں:
’’اس تاریکی کے زمانہ کا نور میں ہی ہوں۔ جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لیے تیار کئے ہیں۔ مجھے اس نے بھیجا ہے کہ تا میں امن اور حلم سے دنیا کو سچے خدا کی طرف رہبری کروں اور اسلام میں اخلاقی حالتوں کو دوبارہ قائم کروں اور مجھے اس نے حق کے طالبوں کی تسلی پانے کیلئے آسمانی نشان بھی عطا فرمائے ہیں اور میری تائید میں اپنے عجیب کام دکھلائے ہیں اور غیب کی باتیں اور آئندہ کے بھید جو خدا تعالیٰ کی پاک کتابوں کی رو سے صادق کی شناخت کیلئے اصل معیار ہے میرے پہ کھولے ہیں اور پاک متعارف اور علوم مجھے عطاء فرمائے ہیں۔ اس لئے ان روحوں نے مجھ سے دشمنی کی جو سچائی کو نہیں چاہتیں اور تاریکی سے خوش ہیں مگر میں نے چاہا کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے نوع انسان کی ہمدردی کروں۔‘‘

(مسیح ہندوستان میں۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 13۔ مطبوعہ 2017ء اسلام انٹرنیشل پبلیکیشنز)

نیز فرمایا:
’’مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا۔ میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بد قسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔‘‘

(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 19۔ ص 61۔60)

نیز فرمایا:

؎میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21۔ ص145)

آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں
دل کو ان نوروں کا ہر رنگ پلایا ہم نے
آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے
لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے

(آئینہ کمالات اسلام ۔ روحانی خزائن جلد پنجم۔ ص225-224، مطبوعہ 2008ء ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما تے ہیں: ’’وہ خدا جو تمام نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اورحضرت موسیٰ کلیم اللہ پر بمقام طور ظاہر ہوا اور حضرت مسیح پر شعیر کے پہاڑپر طلوع فرمایا اور محمد مصطفیٰ ﷺپر فاران کے پہاڑ پر چمکا، وہی قادر قدوس خدا میرے پر تجلّی فرما ہوا ہے۔‘‘

(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد17 صفحہ 29)

سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اس بات کی بھی بار بار اپنی تحریرات و تقاریر میں وضاحت فرمائی کہ یہ سب نور مجھے نبی پاک محمد مصطفیٰ ﷺکی پیروی سے ملا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’اگر میں آنحضرت ﷺکی امت نہ ہوتا اور آپکی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔‘‘

(تجلات الہیہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 412۔411)

نیز فرمایا:؎

وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اسکا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے
اس نور پر فدا ہوں اسکا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

اسی طرح فرمایا:

جب سے یہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں
ذات سے حق کے وجود اپنا ملایا ہم نے
مصطفی ٰپر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت
اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے
نور دکھلا کے تیرا سب کو کیا ملزم و خوار
سب کا دل آتش سوزاں میں جلایا ہم نے
دیکھ کر تجھ کو، عجب نور کا جلوہ دیکھا
نور سے تیرے شیاطیں کو جلایا ہم نے
ہم ہوئے خیر امم، تجھ سے ہی اے خیر رسل
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے

(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد پنجم۔ ص225۔ مطبوعہ 2008ء ربوہ)

خلافت کے ذریعہ نور خداوندی کا پھیلاؤ

حضرت مصلح موعود رحمہ اللہ سورۃالنور کی آیت استخلاف کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’خلافت کا وجود بھی نبوت کی طرح ضروری ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے جلال الہٰی کے ظہور کے زمانے کو ممتد کیا جاتا ہے اور الہٰی نور کو ایک لمبے عرصے تک دنیا کے فائدہ کے لیے محفوظ کر دیا جاتاہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ششم مطبوعہ لندن 1986ءص323)

سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی وفات 1908ء کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو خلافت کی عظیم و بابرکت نعمت سے نوازا۔ خلفائے احمدیت کی مبارک قیادت میں نور الہٰی، انوار قرآنی اور علوم روحانی دنیا کے کونہ کونہ میں پھیلانے کے لئے افراد جماعت احمدیہ اپنی جان، مال، عزت اور وقت کی بے مثال قربانیاں پیش کرتے ہوئے عظیم جہاد میں مصروف ہیں۔ جبکہ نور کی دشمن قوتیں اور تاریکی کے خواہاں اس نور کو بجھانے کے لیے کوشاں ہیں۔ جبکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
تر جمہ: ’’وہ چاہتے ہیں کہ اپنے مونہوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیںاور اللہ اپنے نور کو پورا کرکے چھوڑے گا خواہ کافر (لوگ) کتنا ہی ناپسند کریں۔‘‘

(سورۃالصّف 9)

سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یہ لوگ یاد رکھیں کہ ان کی عداوت سے اسلام کو کچھ بھی ضرر نہیں پہنچ سکتا۔ کیڑوں کی طرح خود ہی مر جائیں گے مگر اسلام کا نور دن بدن ترقی کرے گا۔ خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اسلام کا نور دنیا میں پھیلے۔ اسلام کی برکتیں اب ان مگس طینت مولویوں کی بک بک سے رک نہیں سکتیں۔ خدا تعالی نے مجھے مخاطب کر کے صاف لفظوں میں فرمایا ہے ۔۔۔۔ میں تجھے عزت دوں گا اور بڑھائوں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دونگا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔اب اے مولویو! اے بخل کی سرشت والو! اگر طاقت ہے تو خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں کو ٹال کر دکھائو۔ ہر قسم کے فریب کام میں لائو اور کوئی فریب اٹھا نہ رکھو۔ پھر دیکھو آخر خدا تعالیٰ کا ہاتھ غالب رہتا ہے یا تمہارا۔‘‘

والسّلام علیٰ من اتبع الھدیٰ

المنبذالناصح مرزا غلام احمد قادیانی جنوری 1892ء

(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 مطبوعہ لندن 1984ء)

٭…٭…٭

(مرسلہ: عبد الستار خان۔ مربی سلسلہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اکتوبر 2020