• 28 اپریل, 2024

یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی

خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی

نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی

وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی

عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ
کھنچی ہوئی ہیں پس جاں یہ صورتیں کیسی

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی

جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دے دی
میں سنگ راہ ہوں مجھ پر عنایتیں کیسی

نہیں کہ حسن ہی نیرنگیوں میں طاق نہیں
جنوں بھی کھیل رہا ہے سیاستیں کیسی

نہ صاحبان جنوں ہیں نہ اہل کشف و کمال
ہمارے عہد میں آئیں کثافتیں کیسی

جو ابر ہے وہی اب سنگ و خشت لاتا ہے
فضا یہ ہو تو دلوں میں نزاکتیں کیسی

یہ دور بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو
یہاں صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی

(عبیداللہ علیم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 نومبر 2020