• 29 اپریل, 2024

تم فانی ہو

لکھا ہے کہ ایک طاقتور بادشاہ جولیس سیزر نے اپنے پیچھے دو غلام مقرر کر رکھے تھے جو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعدبادشاہ کے کانوں میں یہ کہتے تھے کہYou are mortal کہ تم فانی ہو۔

انسان کو بقا نہیں وہ فانی ہے اس نے اپنے حصے کی زندگی گزارکر آخر اس دنیا کو چھوڑ جانا ہے۔ ویسے ہر انسان کا ضمیر بھی گاہے بگاہے انسان کو اس امر کی یاددہانی کرواتا رہتا ہے۔ تا وہ رعونت اور تکبر میں نہ بڑھے اور صراط مستقیم پر قائم رہے۔ کیونکہ انسان کے ذہن میں ہر وقت رہے کہ میں نے وفات پاجانا ہے تو وہ راہ راست پر رہنے کی کوشش کرے گا۔ اپنی سمت متعین رکھے گا۔ اس کے لئے وہ تیاری بھی کرتا رہے گا۔ ہم نے دیکھا کہ بہت بڑے بڑے متکبر، شاطر اور ڈکٹیٹر بھی اس دنیا کو چھوڑ گئے۔ ان کی طاقت، ان کی حکومت، ان کا پیسہ ان کو وفات سے نہ بچا سکا۔

ہم اس نظام کو محاسبہ کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ ایک انسان کو اپنے کئے کا حساب بالآخر خدا تعالیٰ کو دینا ہے۔ جس کے اعمال اچھے ہوں گے اور نیکی کا پلڑا بھاری ہوگا وہ جنت میں جائے گا اور جس کے اعمال ہلکے یعنی بُرے ہوں گے اور بدیوں کا پلڑا بھاری ہوگا اسے کچھ وقت کے لئے جہنم میں جانا ہوگا۔ جیسے ہسپتال میں مریض علاج کے لئے آتا ہے اور صحت حاصل کرنے کے بعد فارغ ہوجاتا ہے۔

موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو فرار نہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ (ال عمران: 186) کہ ہر جان کو موت سے ہمکنار ہونا ہے۔ موت کو اُخروی زندگی کا دروازہ قرار دیا گیا جس سے ہر ذی روح کو گزرنا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے دوسرے کئی مقامات پر موت کا ذکر فرمایا ہے جیسے سورۃ العنکبوت آیت 6 میں فرمایا: مَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء اللّٰهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللّٰهِ لَآتٍ کہ جو بھی اللہ کی لِقا چاہتا ہے تو (اس کے لئے) اللہ کا مقرر کردہ وقت ضرور آنے والا ہے۔

نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ (الاحزاب:24)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
’’صوفی بھی اسی لئے کہتے ہیں کہ جب تک موت نہ آوے زندگی حاصل نہیں ہوتی۔ قرآن شریف نے صحابہؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ (الاحزاب:24) یعنی بعض صحابہؓ میں سے ایسے بھی ہیں جو اپنی جان دے چکے ہیں اور بعض ابھی منتظر ہیں جب تک اس مقام پر انسان نہیں پہنچتا۔ بامراد نہیں ہوسکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ639)

آنحضورﷺ نے مسلمانوں کو موت کو یاد رکھنے کی بار بار تلقین فرمائی۔ ہرمصیبت پر بالخصوص کسی مومن بھائی یا بہن کی وفات پر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے کی ہدایت فرمائی۔ جس کے معنی ہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی عظیم ذات کی طرف ہم تمام کو لوٹنا ہے۔ (ترمذی، کتاب الجنائز) قبرستان میں داخل ہونے کی جو دُعا سیدنا حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے سکھلائی اس میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ اِنَّا اِنْ شَآءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ (مسلم، کتاب الجنائز) کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی آپ کے ساتھ آملنے والے ہیں۔

آنحضورﷺ نے صحابہ کو ان الفاظ میں موت کو یاد رکھنے کی نصیحت بھی فرمائی۔ بھائیو! اس دن کے لئے تیاری کرو۔

(ابن ماجہ)

مردے کے پاس سورۃ یٰسین پڑھنے اور جنازہ پڑھنے اور اس کے ساتھ جانے میں بھی یہی حکمت مضمر ہے کہ انسان موت کو یاد رکھے اور یہ سمجھے کہ مجھے بھی اس سفر پر روانہ ہونا ہے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ جنازہ پڑھا کرو اس سے طبیعت میں غم طاری ہوتا ہے۔ (حاکم) اور انسان کو قبرستان جاکر جہاں عبرت حاصل ہوتی ہے وہاں تصوراتی رنگ میں موت کے بعد کی زندگی پر غوروفکر کی عادت پڑتی ہے۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ صحابہؓ نے آنحضورﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! دل کے زنگ کو کیسے ختم کیا جائے اور اِسے چمک دی جائے۔ فرمایا: کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وتِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ (البیہقي) کہ موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت کرنا۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے فرمایا: فَزُوْرُوْا الْقُبُوْرَ فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الْمَوْتَ (مسلم) کہ تم قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ موت کو یاد دلاتی ہیں۔

ایک دفعہ آنحضورﷺ نماز کے لئے تشریف لائے۔ رسول اللہﷺ اپنے مصلی پر تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ ہنس رہے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’آگاہ رہو! اگر تم لوگ لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز کو یاد رکھتے تو تم اپنی ان حرکتوں سے باز رہتے، سو لذتوں کو ختم کر دینے والی موت کا ذکر کثرت سے کرو، اس لیے کہ قبر روزانہ بولتی ہے اور کہتی ہے: میں غربت کا گھر ہوں، میں تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹی کا گھر ہوں، اور میں کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں، پھر جب مومن بندے کو دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے مرحبا (خوش آمدید) کہتی ہے اور مبارک باد دیتی ہے اور کہتی ہے: بیشک تو میرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ محبوب تھا جو میرے پیٹھ پر چلتے ہیں، پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگران ہو گئی اور تو میری طرف آ گیا تو اب دیکھ لے گا کہ میں تیرے ساتھ کیسا حسن سلوک کروں گی، پھر اس کی نظر پہنچنے تک قبر کشادہ کر دی جائے گی اور اس کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول دیا جائے گا، اور جب فاجر یا کافر دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے نہ ہی مرحبا کہتی ہے اور نہ ہی مبارک باد دیتی ہے بلکہ کہتی ہے: بیشک تو میرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ قابل نفرت تھا جو میری پیٹھ پر چلتے ہیں، پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگران ہوں اور تو میری طرف آگیا سو آج تو اپنے ساتھ میری بدسلوکیاں دیکھ لے گا، پھر وہ اس کو دباتی ہے، اور ہر طرف سے اس پر زور ڈالتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک طرف سے دوسری طرف مل جاتی ہیں، رسول اللہﷺ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا اور ایک دوسرے کو آپس میں داخل کر کے فرمایا: ’’اللہ اس پر ستر اژدھے مقرر کر دے گا، اگر ان میں سے کوئی ایک بار بھی زمین پر پھونک مار دے تو اس پر رہتی دنیا تک کبھی گھاس نہ اگے، پھر وہ اژدہے اسے حساب و کتاب لیے جانے تک دانتوں سے کاٹیں گے اور نوچیں گے‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بیشک قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے‘‘۔

(الترمذي .كتاب صفة القيامة والرقائق)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

  • ’’ہمیشہ موت کو یاد رکھو چند روز زندگی ہے اس پر نازاں نہ ہونا چاہئے جو راستی پر ہو اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والا ہو تو خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 435)

’’سعادت یہ ہے کہ موت کو قریب جانے تو سب کام خود بخود درست ہوجائیں گے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 552)

پس یہ دنیا فانی ہے ایک رب العالمین ہے جس کو بقا ہے۔ اگر ہر انسان کے ذہن میں ہر وقت یہ رہے کہ آخر میں نے اس دنیا کو چھوڑنا ہے تو وہ لازماً اپنے اعمال کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے کوشاں رہے گا۔ ہم میں سے ہر ایک کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت پر عمل پیرا ہوناچاہئے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’چاہیے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئےگواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ12)

اک نہ اک دن پیش ہوگا تُو فنا کے سامنے
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے
چھوڑنی ہوگی تجھے دنیائے فانی ایک دن
ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے

(الفضل 13 جنوری 1928ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 نومبر 2020