• 21 جولائی, 2025

حضرت مولانا عبد الرحیم نیّر صاحبؓ کی تبلیغی مساعی

نام و نسب

حضرت مولوی عبد الرحیم نیر صاحب ؓ دسمبر 1883ء میں ریاست کپور تھلہ میں پھگواڑہ کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام (حافظ) محمد سلیمان تھا۔ جو اصل میں ضلع کرنال کے رہنے والے تھے۔ اور آپ کے نانا ضلع ہوشیار پور سے تعلق رکھتے تھے۔

(رجسٹر روایات صحابہ جلد11 روایات نیّر)

آپ کے والد صاحب طبیب اور اس زمانہ کے دیسی علم جراحت سے شغف رکھتے تھےاور گاؤں میں مرہم پٹی اور پھنسی پھوڑا کا علاج کیا کرتے تھے۔

(بیان شیخ عبد الرحمان صاحب کپور تھلوی از مقالہ سیرت حضرت عبد الرحیم نیّر صاحبؓ)

آپ کے والد صاحب نے دو شادیاں کیں۔ دوسری بیوی کے بطن سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ ان میں سے بڑے بیٹے حضرت مولوی عبد الرحیم نیر صاحب ہیں۔ آپؓ کے دوسرے بھائی صغر سنی میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔

(بیان محترمہ اہلیہ صاحبہ ثانیہ (محمودہ نیّر صاحبہ) از مقالہ سیرت حضرت عبد الرحیم نیر صاحبؓ)

خاندانی حالات

حضرت مولوی نیر صاحب نے ہوش سنبھالنے پر اپنے گاؤں میں ہی تعلیم کا با قاعدہ آغاز کیا اور ابھی آپ تیسری جماعت میں ہی پڑھتے تھے کہ آپ کے والد محترم کا سایہ شفقت آپ کے سر سے اٹھ گیا۔والد صاحب کی وفات کے بعد گھر کی مالی حالت بہت خراب ہو گئی ۔جس پر آپ کی والدہ محترمہ نے گھر پر ہی مرہم پٹی کا کام شروع کیا۔اسی دوران محترم نیّر صاحب کا تعارف سید حسام الدین صاحب کے ذریعہ حاجی حبیب الرحمان صاحب رئیس حاجی پورہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہوا۔

چنانچہ آپ اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ حاجی صاحب کے پاس پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ،پاؤں میں پرانی جوتی ،سر پر رومی ٹوپی اور ایک زرد رنگ کی چادر اوڑھے ہوئے حاجی پورہ تشریف لے گئے حاجی صاحب نے اظہار ہمدردی فرمایا اور آپ کو سکول میں داخل کروایا۔ آپ دل لگا کر پڑھتے رہے ابھی مروجہ تعلیم کی آٹھ سیڑھیاں ہی چڑھ پائے تھے کہ آپ کی والدہ صاحبہ بھی آپ کو داغ مفارقت دے گئیں۔ اور آپ تن تنہا حالات زمانہ کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔

(بیان شیخ عبد الرحمان صاحب ابن حاجی حبیب الرحمان صاحبؓ از مقالہ سیرت حضرت عبد الرحیم نیر صاحبؓ)

قبول احمدیت

حضرت مولوی عبدالرحیم نیّر صاحب کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاجی حبیب الرحمان صاحب کے ذریعہ حاصل ہوئی۔آپ ابھی پانچویں میں ہی تھے کہ محترم حاجی صاحب نے نماز اور دیگر اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ کو احمدیت کی باتیں بھی سکھانی شروع کر دیں اور سلسلہ کی کتب کا مطالعہ کے لیے آپ کو دیں اس طرح سے آپ احمدیت کی طرف مائل ہوئے اور حاجی صاحب کے ہمراہ قادیان جانے لگے ۔اور بالآخر 1901ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے و اٰ خرین منہم لمّا یلحقو بہم کے مصداق ہو گئے۔

تعلیم

حضرت نیر صاحب نے ابتدائی تعلیم پھگواڑہ اور بھونگہ میں حاصل کی ۔تیسری اور آٹھویں جماعت تک حاجی پورہ میں تعلیم حاصل کی۔ قادیان میں تشریف آوری کے بعد آپ نے جے وی کا کورس کیا۔ اور 1902ء میں میٹرک پاس کیا۔

(الحکم 14 اگست 1938ء)

آپ کی تعلیم میں شروع سے ہی مذہبی اور دینی تعلیم شامل رہی۔ چنانچہ آپ کا اپنا بیان ہے:
’’میری ابتدائی تعلیم میں معمولی مذہبی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض فارسی کتب کا بڑا دخل ہے ان میں سے تاریخ میں ’’حدیقۃالادب‘‘، فقہ میں ’’ما لا بدّ منہ‘‘ اور تصوف میں’’کیمیائے سعادت‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ جلد 11روایات نیّر)

تعلیم الاسلام ہائی سکول میں تدریس

جب حضرت نیّر صاحب مستقل طور پر قادیان تشریف لے آئے تو آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف علمی خدمات آپ کے سپرد کیں۔جن میں سر فہرست تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں تدریس ہے جہاں آپ نے کئی سال تک نہایت اخلاص اور محنت سے یہ خدمت سر انجام دی۔

زیارت دیار حبیبﷺ

اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے حج ایک اہم رکن اور خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ عبادت ہے۔ اصلاح باطن و تزکیہ نفس کا کامیاب ترین طریقہ اور محبوب حقیقی کی رضاپانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔حضرت نیّر صاحب کو دیار حبیب کی زیارت کا بہت شوق تھا۔لہٰذا آپ نے اس کے لیے کئی دفعہ کوشش کی اور آخر کار خدا تعالیٰ کے فضل سے حج کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

پہلی دفعہ حج کرنے کے لیے (جبکہ پہلی عالمگیر جنگ زوروں پر تھی) حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے بار بار عرض کرنے کے بعد اجازت حاصل کی اور قادیان سے 16مئی 1917ء کو حج کے لیے روانہ ہوئے۔

سفرحج پر روانگی سے قبل14 مئی کو طلباء مدرسہ احمدیہ نے اپنے محترم استاد (نیّر صاحب) اور مولوی محمد سعید صاحب کو ٹی پارٹی دی جس میں حضرت امیر المؤمنین نے بھی شرکت فرمائی۔

(فاروق 17 مئی 1917ء)

وفات

آپؓ مئی 1948ء میں وفات پاگئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔

حضرت مولوی عبد الرحیم نیر صاحبؓ کی تبلیغی مساعی

حضرت مولانا عبد الرحیم نیّر صاحب نے بہت اہم خدمات سر انجام دیں ۔کیا ہندوستان اور کیا بیرون ملک، ہر جگہ دینِ حق کا پیغام پہنچانے میں کو شاں رہے۔ آپ نے بمبئی اور دیگر کئی اہم مقامات پر احمدیت مشن کا قیام کیا۔ اور جماعت احمدیہ کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ ہندوستان میں تبلیغی فرائض بڑی تندہی سے سر انجام دیتے رہے۔

شوقِ تبلیغ

آپ کو بچپن سے ہی تبلیغ کا بہت شوق تھا۔یہی وجہ تھی کہ آپ کو جب تعلیم الاسلام ہائی سکول میں تدریس کا فریضہ سپرد کیا گیا تو آپ اس محدود تدریسی ماحول پر وسیع تبلیغی ماحول کو ترجیح دیتے تھے۔ اس ضمن میں آپ کے شاگرد مولانا حضرت ابوالعطاء جا لندھری صاحب بیان فرماتے ہیں کہ
’’مجھے یاد ہے کہ وہ مدرسہ کی محدود تعلیمی زندگی کی بجائے تبلیغی زندگی کو ترجیح دیتے تھے اور ہمیشہ اس کے لیے اشتیاق کا اظہار کیا کرتے تھے۔‘‘

(الفضل 23نومبر 1948ء)

بیرون ہندوستان تبلیغی زندگی کا آغاز

حضرت نیّر صاحب کی بیرون ہندوستان تبلیغی زندگی کا آغاز اس وقت ہوا جب آپ اپنے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر مع حضرت چوہدری فتح محمد سیال ایم اے (سابق مبلغ اول انگلستان) 15جولائی 1919ء کو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے قادیان سے انگلستان کے لیے روانہ ہوئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے صحابہ کی طرح آپ نے بھی اسلام کی راہ میں قسما قسم کی تکالیف برداشت کیں اور نور محمدیؐ سے دنیا کو منور کرنے کے لیے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اپنے ملک، اہل و عیال رشتہ داروں اور دوستوں سے دور غریب الوطنی کی حالت میں گزارا۔

آپ کو سب سے پہلے لندن تشریف لے جانے کی سعادت نصیب ہو ئی جہاں آپ دو سال تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس رؤیا کے پورا ہونے کا پر کیف اور روح پرور روحانی نظارہ کرتے رہے جس کا بیان حضرت مسیح موعود ؑ کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:
’’اس عاجز پر جو ایک رؤیا میں ظاہرکیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر وضلالت میں ہیں آفتابِ صداقت سے منوّر کئے جائیں گے اور اُن کو اسلام سے حصّہ ملے گا۔ اور میں نے دیکھا کہ میں شہر لندن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلّل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں۔ بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق اُن کا جسم ہوگا۔ سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ میں نہیں مگر میری تحریریں اُن لوگوں میں پھیلیں گی۔ اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہو جائیں گے۔ درحقیقت آج تک مغربی ملکوں کی مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے گویا خدا تعالیٰ نے دین کی عقل تمام ایشیا کو دے دی اور دنیا کی عقل تمام یورپ اور امریکہ کو۔ نبیوں کا سلسلہ بھی اول سے آخر تک ایشیا کے ہی حصہ میں رہا اور ولایت کے کمالات بھی انہیں لوگوں کو ملے۔ اب خدا تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے۔

اوریاد رہے کہ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ طلوع الشمس من مغربھا کے کوئی اور معنے بھی ہوں میں نے صرف اُس کشف کے ذریعہ سے جو خدا تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے مذکورہ بالا معنےکو بیان کیا ہے۔ اگر کوئی مولوی مُلّا ان الٰہی مکاشفات کو الحاد کی طرف منسوب کرے تو وہ جانے اور اس کا کام۔ وما قلت من عند نفسی بل اتبعت ما کشف علیّ واللّٰہ بصیر بحالی وسمیع لمقالی فاتقوااللّٰہ ایّھا العلماء۔‘‘

(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد3 صفحہ377)

پس مولانا نیّر صاحب یورپ کی مادہ پرست زندگیوں میں نور قرآن اور اسلام کی روشنی کو ودیعت کرنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے پھیلانے کے لیے اور سفید پرندوں کے شکار کے لیے یورپ تشریف لے گئے۔لندن میں کافی عرصہ ’سفیدپرندوں‘ کو تبلیغ کرتے رہے۔ اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد کے تحت فروری 1921ء کو مغربی افریقہ تشریف لے گئے۔اور تقریباََ دو سال کوہ و دشت اور ساحل و صحرا میں رات دن تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ انتھک کوششوں اور دشت و صحرا کی صعوبتیں اٹھانے کے بعد پھر انگلستان کے سبزہ زاروں میں ورود مسعود ہوااور سفید پرندوں کو پکڑ پکڑ کر اسلام کی پاکیزہ فضا میں لانے لگے۔

قادیان سے بمبئی تک

اپنے شوق تبلیغ اسلام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے حضرت نیّر صاحب 15جولائی 1919ء کو قادیان دارالامان سے عزیزوں ،رشتہ داروں ،پیارے دوستوں، اپنی بیمار بیوی، ایک دن کے معصوم بچہ اور سب سے بڑھ کر اپنے محبوب امام سے جدا ہو کر انکی دعائیں لیتے ہوئے رخصت ہوئے۔ آپکی خوش قسمتی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بنفس نفیس بٹالہ جانے والی سڑک تک اپنے خدام مبلغین انگلستان (چوہدری فتح محمد سیال صاحب اور مولانا نیّر صاحب) کو الوداع کہنے تشریف لائے اور ان سے حلف اطاعت لے کر رخصت کیا۔

ان خدام کی مشایعت کی خاطر مکرم شیخ فضل حق صاحب بٹالہ سے امرتسر تک ساتھ رہے ۔پھر امرتسر اسٹیشن پر مکرم قاضی عطاء اللہ صاحب، بابو فقیر علی صاحب نے جماعت کی قائمقامی کرتے ہوئے خدام محمود کی تواضع کی۔

(ماخوذازمقالہ سیرت حضرت عبد الرحیم نیر صاحبؓ)

گاڑی میں تبلیغ

ہر دومجاہدین جماعت احمدیہ امرتسر کی ترقی کی دعا کرتے ہوئے رخصت ہوئے۔ گاڑی میں سوار ہوتے ہی تبلیغ کاکام شروع ہو گیا اور وہ اس طرح کہ گاڑی میں تین نو جوان (دو ہندو اور ایک مسلمان) لندن جانے والے تھے۔ان سے سلسلہ گفتگو کا آغاز ہوگیا۔ چنانچہ تینوں احمدیت کے متعلق مختلف سوالات کرنے لگے اور یہ دونوں مبلغین جواب دینے لگے۔ اور انہیں لٹریچر سے بھی متعارف کروایا۔ ان کے علاوہ ایک فوجی افسر بھی اسی گاڑی میں تھا۔ ان کے ساتھ بھی سلسلہ عالیہ سے متعلق گفتگو ہوتی رہی۔

17 جولائی کو گاڑی بمبئی پہنچی ۔اسٹیشن پر مبلغ احمدیت متعینہ بمبئی مکرم مولوی حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری مع احباب جماعت استقبال کے لیے موجود تھے۔ایک دن وہاں قیام کرنے کے بعد 19 جولائی کوجہاز پر سوار ہوئے ۔

(ماخوذاز مقالہ سیرت حضرت عبد الرحیم نیر صاحبؓ)

بحری جہاز میں

بحری سفر آپ کی طبیعت کے موافق نہ تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’میری حالت ببّو کی سی ہے جب میں پانی میں ہو تا ہوں تو طبیعت خراب ہو جاتی ہے اور جب باہر آتا ہوں تو طبیعت بحال ہو جاتی ہے۔‘‘

جہاز کے لنگر اٹھانے کے ایک گھنٹہ بعد سمندر میں طوفان شروع ہو ا اور نیّر صاحب کو چکر اور قے کی تکلیف ہو گئی۔ جبکہ آپ کے رفیق چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی طبیعت ما شاء اللہ اچھی رہی۔چنا نچہ چوہدری صاحب نے آپکی ہر طرح سے دیکھ بھال کی۔

اسی سفر کے دوران آپ فریضہ تبلیغ با حسن ادا فرماتے رہے۔ کئی ایک احباب تک احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ ذیل میں اس سفر کے چیدہ چیدہ واقعات درج کیے جاتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جب بھی موقع ملا اور صحت نے اجازت دی آپ تبلیغ حق میں پائے گئے۔ اس سفر میں آپ کی طبیعت سخت خراب ہو گئی اور آپ میں کسی کے پاس جا کر تبلیغ کرنے کی ہمت نہ رہی تو خدا تعالیٰ نے آپ کو تبلیغ اسلام کا ایک بہتر موقع مہیا کر دیا آپ اس واقعہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’میں تو اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ایک ہندو کے دل میں ڈا لا کہ وہ میرے پاس آکر میری بات سنے۔‘‘

(الفضل 30ستمبر 1919ء)

جہاز کی بالائی منزل پر منظوم کلام

26جولائی 1919ء کو خدا تعالیٰ کی تو فیق سے آپ نے لکھنؤ اور دہلی کے بعض لوگوں کو پیغام حق تفصیل سے پہنچایا اور جہاز کی سب سے بالائی منزل پر کھڑے ہو کر دو سکھ شرفاء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام سنایا۔ جس میں حضرت با با نانک علیہ الرحمہ کے اسلام کا ذکر ہے۔

(مقالہ سیرت حضرت عبد الرحیم نیر صاحبؓ)

ایک پروفیسر اور بیرسٹر سے گفتگو

بمبئی کے ایک پروفیسر صاحب سے اسلام کی خوبیوں اور اسلامی پردہ پر گفتگو ہوئی۔ نیز عرشہ جہاز پر بمبئی کے ایک معزز بیرسٹر جو جناب خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے مشن سے خوب واقف تھے،گفتگو ہوئی۔ 27جولائی کو جہاز سید الاولین و الآخرین کے مولد سے گزرا۔

(مقالہ سیرت حضرت عبد الرحیم نیر صاحبؓ)

ایک عیسائی سے بحث

28جولائی کو بہت سے نوجوانوں کو تبلیغ کرنے کا موقع ملا۔ ایک گریجویٹ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بہت محبت کا اظہار کیا اور حضرت صاحب کا مجدد ہوناتسلیم کیا۔لیکن بحیثیت معلم تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔آپ انکی تسلی کروانے کی کوشش میں مصروف رہے۔جب آپ نے یہ شعر پڑھا:

؂ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو!
اس سے بہتر غلام احمد ہے

تو ایک عیسائی چونک پڑا اور تقریباََ ڈیڑھ دو گھنٹے تک حضرت محمدرسول اللہ ؐ اور حضرت مسیح نا صری ؑ کے باہمی مقابلہ کو توجہ سے سنتا رہا (اس دوران بعض انگریز بھی توجہ سے سوال و جواب سنتے رہے) آخر اس نے اطمینان قلب کا اظہار کیا۔

(ماخوذازمقالہ سیرت حضرت عبد الرحیم نیر صاحبؓ)

آزاد خیال مسیحی کا موقِف

30جولائی 1919ء کو ایک آزاد خیال مسیحی سے گفتگو ہوئی ۔اس نے کہا کہ ’’مسیح ہمیشہ اور ہر زمانہ میں آتا رہتا ہے۔ میں اس امر کا قائل نہیں کہ بس ایک دفعہ یروشلم میں آکر بس ہو گئی ہے۔‘‘ یہ صاحب مدراس کی طرف سے کانگریس کے نمائندہ تھے۔ اس سے سلسلہ عالیہ کا ذکر ہوا ۔آپ نے اسے لٹریچر پڑھنے کو دیا ۔اس طرح سے عرشہ جہاز پر بہت سے لوگ ’’تحفۃ الملوک‘‘ کا انگریزی ترجمہ مطا لعہ کرتے نظر آنے لگے۔

(مقالہ سیرت حضرت عبد الرحیم نیر صاحبؓ)

پورٹ سعید میں لٹریچر کی تقسیم

جہاز پورٹ سعید پر پہنچا تو آپ کچھ لٹریچر لے کر شہر میں گئے ۔آپ نے برطانوی قونصل سے ویزہ حاصل کرنے کے بعد شہر میں کافی تعداد میں لٹریچر تقسیم کیا۔ ایک شریف الطبع ہندو آپ سے ملا۔ اس نے آپ سے لٹریچر لے کر تمام مقامی ہوٹلوں میں پہنچانے کا وعدہ کیا ۔چنانچہ اس نوجوان نے یہ فریضہ بڑی عمدگی سے ادا کیا۔ پورٹ سعید میں ہر سو احمدیت کا چرچا ہونے لگا۔

(ماخوذازمقالہ سیرت حضرت عبد الرحیم نیر صاحبؓ)

امام مسجد کو تبلیغ

شہر کے مرکز میں ’’مسجد عباسی‘‘ نامی ایک شاندار مسجد ہے آپ (دونوں بزرگان سلسلہ) نے اس میں نماز پڑھی ۔امام صاحب کو تبلیغ کی اور ان سے ’’فاضلان جیدان‘‘ کا خطاب لیکر واپس تشریف لائے۔

پہلی دفعہ اسلامی مبلغ دیکھنا

آپ کو ایک مسیحی مبلغ سے بھی چند باتیں کرنے کا اتفاق ہوا اور وہ یہ سن کر کہ آپ ’’مبلغ اسلام‘‘ ہیں متعجب ہوا اور کہنے لگا کہ ’’یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے اسلامی مبلغ دیکھے ہیں اور معلوم کیا ہے کہ مسلمان بھی مسیحیوں کو تبلیغ کر سکتے ہیں۔‘‘

(الفضل 14اکتوبر 1919ء)

لندن میں ورود

4اگست 1919ء کو دوران سفر لٹریچر کی تقسیم ایک دوست کے سپرد کر کے ’’ما رسلیز‘‘ یورپ کی سر زمین میں دعا کرتے ہوئے اترے۔ ٹکٹ خریدنے اور فرانسیسی قونصل سے ویزہ حاصل کرنے کے لئے ’’مارسلیز‘‘ شہر میں گئے اور تبلیغی سرگرمیاں بھی سر انجام دینے کے بعد 5 اگست 1919ء کو پیرس پہنچے جہاں سے آپ ’’بولون‘‘ تشریف لے گئے۔ اور فرانس کی سرزمین میں اسلام کا پودا لگنے کی دعائیں کرتے ہوئے گزرے۔ اور اسی روز بخیرو عافیت احمدیہ مشن ہاؤس لنڈن میں پہنچ گئے۔ الحمد للہ علیٰ ذالک

(مقالہ سیرت حضرت عبد الرحیم نیر صاحبؓ)

آپ لنڈن میں مختلف ذرائع سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان کردہ تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے میں مصروف رہے۔ لندن میں آپ کا ذریعہ تبلیغ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق تھا۔ لندن سے آپ کی مرسلہ جملہ رپورٹوں سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے۔

تقسیم لٹریچر

تقسیم لٹریچر ذرائع تبلیغ میں سے ایک اہم ذریعہ ہے جو حضرت نیّر صاحب بخوبی کام میں لائے۔ ذیل میں چند ایک واقعات درج کئے جاتے ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بڑی کثرت سے لٹریچر تقسیم فرمایا اور واذا الصحف نشرت کی عملی تصویر بن گئے۔ نشر لٹریچر کے سلسلہ میں کبھی تو آپ بس کی چھت پر نظر آتے اور کبھی بازاروں، پارکوں، بڑی بڑی شاہراہوں اور گلی کوچوں میں لٹریچر ہاتھ میں لئے نظر آتے۔

تقسیم لٹریچر کا ایک دلچسپ واقعہ آ پ یوں بیان فرماتے ہیں:
’’مولوی عزیز الدین صاب (سکنہ گوجرانوالہ) جو اپنے اخلاص، محبت اور جوش تبلیغ کے لئے قابل رشک ہیں میرے ساتھ سوار تھے۔لٹریچر کا تھیلہ میرے ساتھ گا ڑی کی چھت پر ’’Call To Truth‘‘ کے چند پرچے تقسیم کئے اور ایک نوجوان مسیحی متلاشی ٔحق جھٹ پاس آ بیٹھا اور سوال کیا ’’?Who is Ahmadi‘‘ اب تبلیغ کا موقع ملا۔ اور پیغام حق خدا کے فضل سے پہنچا دیا گیا، اسی چھت پر بس کا کنڈیکٹر آیا اور ٹکٹ فروخت کیا اور ٹکٹ کے دام دے کر اس کو ایک رسالہ Thank You (تھینک یو) کہہ کر دے دیا اور یہ جملہ بھی ساتھ بول دیا: ’’آپ نے پیسے لے کر ٹکٹ دیا میں مفت ٹکٹ دیتا ہوں یہ لیجیے اور میرا تھینک یو بھی واپس آگیا اور کام بھی ہو گیا۔‘‘

(الفضل 12اپریل 1920ء)

آپ لٹریچر کی تقسیم کے سلسلہ میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ کہیں کوئی بھی تقریب یا لوگوں کا ہجوم نظر آتا وہاں تقسیم کرنا شروع کر دیتے تھے۔ اسی طرح ایک دفعہ شاہ ایران کی آمد پر وکٹوریہ اسٹیشن کے دروازہ پر انگریز مرد اور عورتوں کی کثیر تعداد جمع تھی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر حضرت مفتی صاحب اور آپ نے کافی تعداد میں لٹریچر تقسیم کیا۔ جسے مرد و زن نے بڑے شوق سے لیا۔

تقسیم لٹریچر میں مشکلات

لٹریچر کی تقسیم میں آپ کو بعض اوقات مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا اور بعض لوگ لینے سے انکار کر دیتے تھے۔ ایک دفعہ ایک بڑھیا عورت کو آپ نے ’’Call to Truth‘‘ (یعنی صداقت کی طرف دعوت) کا ایک نسخہ پیش کیا اس نے لینے سے انکار کر دیا اور بولی ’’میں کیتھولک ہوں اور میرا مذہب سچا ہے۔‘‘ اس پر نیّر صاحب نے جواب دیا کہ ’’آپ کا مذہب کچا اور بودا ہے جسے سچائی کے حملہ کا فکر ہے۔‘‘

اس قسم کے انکار کے باوجود آپ نے کبھی ہمت نہ ہاری ،نہ کبھی شکستہ و افسردہ دل ہوئے بلکہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنا کام کئے جاتے تھے۔

ایک اچھے سپاہی کی طرح آپ کبھی بھی اپنے ہتھیاروں کے بغیر نظر نہ آتے ۔بلکہ ہر وقت مسلح رہتے تھے۔ جب آپ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو امریکہ کے لئے روانگی کے وقت الوداع کہنے لیورپول گئے تو واپسی پر آپ کی نظر ایک جلسہ پر پڑی ۔آپ وہاں تشریف لے گئے اور لٹریچر تقسیم کرنے لگے اور قریباََ 15منٹ تک اسلام کی تعلیم بتاتے رہے۔

(ماخوذازمقالہ سیرت حضرت عبد الرحیم نیر صاحبؓ)

ملاقاتیں

مجاہد انگلستان بھولے بھٹکوں کو راہ راست پر لانے کے لئے جو ذرائع استعمال کرتے تھے ان میں سے ایک ’’احباب سے ملاقاتوں کا سلسلہ‘‘ تھا۔ ہفتہ میں کئی ایک احباب ملاقات کے لئے مشن ہاؤس تشریف لاتے اور اسلام کی باتیں سنتے اور جب کبھی فراغت ہوتی تو دوستوں سے ملاقات کی غرض سے خود تشریف لے جاتے اور لوگوں کو اسلام کی تعلیم سے آگاہ کرتے ۔یہ ملاقاتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کے بیان کی گنجائش نہیں۔ صرف ایک رپورٹ بطور نمونہ درج کی جاتی ہے۔اس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ’’ملاقاتوں‘‘ کے اس سلسلہ کے ذریعہ ہر ہفتہ کتنے نفوس احمدیت سے متعارف ہوتے رہے۔

حضرت نیّر صاحب لکھتے ہیں کہ:
‘‘اتوار کے روز چند عرب اور صومالی مسلمان ملاقات کے لئے آئے اور آدھ گھنٹہ تک سلسلہ عالیہ کے متعلق اس عاجز سے سنتے رہے۔ وفات مسیح بعثت مسیح موعود کے مسائل کو توجہ سے سن کر ان لوگوں نے حق کو قبول کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے۔ انکی دستی تحریریں حضرت اقدس کی خدمت میں بھجوا دی ہیں۔ ان لوگوں نے ایک پاؤنڈ 2شلنگ 6پنس سلسلہ کے اخراجات کے لئے چندہ دیا۔ فجزاھم اللہ اور آئندہ چندہ بھیجتے رہنے کا اقرار کیا۔ ان نواحمدی احباب کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں: 1۔یوسف عاد 2۔عبداللہ ابراہیم 3۔علی آدم 4۔فارح عبد اللہ 5۔اے محمد 6۔محمد فارح 7۔محمد علی

ان کے علاوہ جن احمدی نو مسلم خواتین کے خطوط ملے یا ملاقات ہوئی ان کے نام حسب ذیل ہیں:

1۔سلمہ 2۔فاطمہ 3۔جمیلہ کلیراکارڈن 4۔لیلن مریم

نیز اس ہفتہ میں چند غیر احمدی نو مسلم انگریز خواتین اور بعض ہندوستانی تعلیم یافتہ اصحاب ملاقات کے لئے مکان پرآئے اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خصوصیات، احمدی و غیر احمدی میں فرق وغیرہ مسائل پر گفتگو رہی۔‘‘

(ملخص از رپورٹ الفضل 18نومبر 1919ء)

تقاریر

قیام لنڈن کے دوران تبلیغ کا ایک اہم ذریعہ تقاریر تھیں۔ ہفتہ میں آپ کی چار تقاریر ہوتیں ۔اس کے علاوہ کبھی آپ ’’کھلی ہوا‘‘ کی تقاریر فرماتے نظر آتے تو کبھی احمدیہ لیکچر ہال میں لوگوں کو احمدیت کی تعلیم سے روشناس کروا رہے ہوتے۔ لوگ آپ کی تقاریر سے بہت متا ثر ہوتے۔ بسا اوقات بارش میں بھی چھتریاں لے کر تقاریر سنتے رہتے ۔تقاریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ ہوتا جن کے تسلی بخش اور مسکت جواب دیتے۔لندن کے ماحول میں بھی بعض لوگ آپ کی تقاریر کے دوران شوروغل کرتے چونکہ سامعین آپکی تقاریر سے بہت لطف اندوز ہوتے اس لئے اکثر شوروغل کرنے والوں کو سامعین خاموش کروا دیتے۔

لندن کی بڑی تفریح گاہوں میں سے ایک ہائیڈ پارک ہے۔جہاں لوگ دن بھرکی تھکن دور کرنے کے لئے سیر کرنے کو آتے ہیں۔تفریح کے اس ماحول میں نیّر صاحب پارک میں تشریف لے جاتے اور اس کے مخصوص حصے میں اونچی جگہ پر یا کسی منبر کو سٹیج بنا کر کھڑے ہو جاتے اور لوگوں کو اسلام کی تعلیم سے آگاہ کرتے،یہی آپ کا معمول تھا۔

ایک تقریر کی کیفیت

ایک تقریرکے متعلق آپ بیان فرماتے ہیں:
’’گزشتہ اتوار کو صبح کی کھلی ہوا میں لیکچر دئیے جانے کے بعد جب کہ دو گھنٹہ تک حضرت نبی کریمؐ کے متعلق بائبل کی پیش گوئیوں پر گفتگو رہی اور حاضرین نے نہایت خوشی سے سنی،میرے پلیٹ فارم کے دائیں طرف ایک مسیحی مقرر نے بائبل ہاتھ میں لے کر اسلام کے خلاف تقریر کرنی شروع کر دی اور رسول کریمﷺ کی شان میں گستاخانہ الفاظ استعمال کئے۔ میں پندرہ منٹ سن کر پھر پلیٹ فارم پر چڑھ گیا اور اللہ کے فضل سے متعصب مسیحی واعظ کو اس طرح آڑے ہاتھوں لیا کہ حاضرین خوش اور غریب معترض اور اس کے ہمراہی دریائے رنج میں غرق ہو کر کھسیانے ہو گئے۔میں ایک طرف سے دشمن کا قافیہ تنگ کر چکا تھا کہ پلیٹ فارم کی دوسری طرف سے ایک اور مقرر نے تقریر شروع کر دی اور گالیاں دینی شروع کیں۔چونکہ یسوعی لوگ یہودیوں سے بھاگتے ہیں اس لئے میں نے ایک یہودی کو پرستار مسیح کے مقابلہ پر بھیج دیا اور یہودیوں کے اعتراضات سے مسیحی لوگ اس قدر گھبراتے ہیں کہ ان کو جان چھڑوانی مشکل ہو جاتی ہے۔غرض اس طرح آئے دن کفر سے مقابلہ اور باطل سے پیکار رہتی ہے۔‘‘

(الفضل 30نومبر 1923ء)

آپ کی ان ’’کھلی ہوا‘‘ کی تقاریر کا ذکر کبھی کبھار اخبارات میں بھی ہوتا رہتا تھا۔

مختلف سو سائٹیوں میں لیکچرز

حضرت نیّر صاحب نے خداداد علم و فراست سے لندن کے معاشرتی ماحول کا جائزہ لیکر فوری طور پر وہاں کی مختلف سوسائٹیوں کی ممبر شپ حاصل کر لی۔ چنانچہ ان کی طرف سے بسا اوقات آپ کو تقریر کرنے کی دعوت ملتی رہتی اور بعض سوسائٹیوں کے تو پروگرام ہی آپ کے مشورہ سے بنتے تھے۔ اس وقت آپ کی ان متعدد تقاریر میں سے صرف ایک تقریر کی کار وائی بطور نمونہ تحریر کی جاتی ہے:
’’26مارچ 1920ء کو آپ نے لنڈن ویسٹ اینڈ ایسٹ سڈیو میں ’’Mosques of India‘‘ کے موضوع پر تقریر فرمائی جو بہت کامیاب ہوئی۔ ہال ممبران سو سائٹی سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ صدر مجلس نے آپ کامندرجہ ذیل الفاظ میں تعارف کروایا

‘‘Maulvi A.R. Nayyar, is a missionary of Ahmadiyya Movement in Islam. He is mystic. He has travelled over the length and breadth of India. He is an accomplished speaker.’’

اس تعارف کے بعد آپ نے اپنی تقریر بعنوان ’’ہندوستان کی مساجد‘‘ شروع کی اور مسجد کی تعریف ،مسجد میں کیا ہوتا ہے۔ مسجد کی غرض، اذان کے معانی اور نماز ،عورتوں کے لیے مسجد میں جگہ وغیرہ امور تفصیلاً بتا کر ہندوستان کی چندبڑی مساجد کی تصاویر دکھائیں۔ اور ان کے متعلق چند چشم دید واقعات سنائے اور آخر میں قادیان کی مسجد اور مینار کا ذکر کر کے اور علم رؤیا میں مسجد سے مراد جماعت بتا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا ذکر کیا اور حاضرین کو جلال سے آنے والے شہزادے کی اذان کی طرف متوجہ کر کے خدا کی بنائی ہوئی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آنے کی دعوت دی۔ تقریر کے بعد بعض سوالات ہوئے اور اسلام کی زبر دستی دوسروں کے معابد پر قبضہ کرنے کے اعتراض کو دور کیا گیا۔‘‘

(الفضل3مئی 1920ء)

حضرت چو ہدری فتح محمد صاحب سیال لکھتے ہیں :
’’لیکچروں کا سلسلہ شروع ہے۔ ہفتہ گذشتہ میں ایک لیڈی جناب ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر کے ہاتھ پر داخل دین حقہ ہوئی۔ مسیحی نام اینی مے تھا۔ اسلامی نام عائشہ رکھا ہے۔ اس کے علاوہ ایک معزز خاتون بھی جلد احمدیت میں داخل ہونے والی ہیں۔‘‘

(الفضل 27ستمبر 1919ء صفحہ2)

مزید تحریر فرمایا کہ
’’گزشتہ ایتوار مسٹر نیر (عبدالرحیم صاحب نیر) کا لیکچر آنحضرتؐ کے ’’اسوہ حسنہ‘‘پر ہوا۔ لیکچر بہت کامیاب ہوا۔‘‘

(الفضل 27ستمبر 1919ء صفحہ2)

حضرت عبد الرحیم نیر صاحب ایک نو مسلم کی نظر میں

مولانا عبد الرحیم نیر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
’’اخویم بشیر الیگزینڈر سہول سولر نو مسلم دوست نے ہسپانوی زبان میں جو حضور کے نام خط لکھا اور اس کا ترجمہ انگریزی انھوں نے خود مجھے کروادیا ہے اس کی اردو حسب ذیل ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بحضور اقدس امام جماعت احمدیہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
لنڈن میں برادران نیر و سیال سے ملاقات ہوئی انھوں نے سلسلہ احمدیہ کے اغراض و مقاصد اور اصولوں کو میرے سامنے بیان کیا اور مجھے بتایا کہ وہ سلسلہ احمدیہ کو جنوبی امریکہ میں بھی پھیلانا چاہتے ہیں۔ میں نے حضرت اقدس نبی احمدؑ کی نسبت جو کچھ سنااور جو کچھ پڑھا ہے اسکے ساتھ مجھے کلی طور پر اتفاق ہے اور میں اس امر کا خیال کر کے خوش ہوتا ہوں کہ خدا تعالیٰ وقت لائے گا جب میں ان لوگوں میں شامل ہو کر جو خدا کی رضا کے لیے اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں سلسلہ کی کوئی خدمت کر سکوں۔

مذکورہ بالا نیر و سیال کے ساتھ رابطہ محبت و اخوۃ میں وابستہ ہو کر میں اب اپنے تئیں جماعت احمدیہ کا ممبر تصور کرتا ہوں اور حضور اقدس کے سامنے کمال ادب کے ساتھ سر اطاعت خم کرتا ہوں اور حضور کے پاک وجود کی حفاظت کے لیے دعا کرتا ہوں۔

میں ہوں حضور کا خادم
بشیر الیگزینڈر سہول سولر

اگر سہول سیال اور سولر کا ترجمہ جیسا کہ اخویم بشیر نے بتایا نیر کر لیا جائے تو گویا اس نئے بھائی کے نام میں ہی سیال و نیر موجود ہے۔ الحمد للہ علیٰ ذالک

(الفضل 5جنوری 1920ء صفحہ 4)

مغربی افریقہ میں نیر احمدیت

5 اگست 1919ء سے 8فروری 1921ء تک انگلستان میں سفید پرندے پکڑنے کے بعد آپؓ حضورؑ کے ارشاد پر 9فروری 1921ء کو مغربی افریقہ تبلیغ اسلام کے لیے تشریف لے گئے۔

انگلستان سے فری ٹاؤن (سیر الیون)

لیور پول انگلستان سے فری ٹاؤن (سیر الیون) تک کے سفر کا تبلیغی حال آپ کی اپنی زبانی درج ذیل ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ
’’جہاز اینی پر خدا کے فضل سے کام کا خوب موقع ملا۔ لٹریچر تقسیم کیا۔ مسافروں سے خوب تبادلہ خیالات ہوا۔ اور بہت لوگ دین حق کا پیغام سن کر اسلام کے ساتھ محبت و انس کے جذبات لے کر گئے۔ قریباً 30یورپین جن میں ایک باشندہ سوئٹزر لینڈ اور باقی انگریز تھے۔ حلقہ احباب میں شامل رہے …… تین انگریز اس قدر قریب آ گئے کہ انھوں نے علمی نام لینے اور عربی ناموں سے پکارے جانے کی استدعا کی۔ …… پانچ افریقی مسیحی بائیبل کی پیشگوئیاں سن کر سچے تسلی دینے والے، روح حق،مثیل موسیٰ اور سچے مسیح محمدی پر ایمان لائے۔ انکی درخواستہائے بیعت حضورؓ خلافت مآب میں بھیجوادی ہیں۔‘‘

(الفضل 18اپریل1921ء)

سیر الیون میں تبلیغ

حضرت نیر صاحب 19فروری کو سیر الیون تشریف فرماہوئے۔ اور 20فروری کو گولڈ کوسٹ (غانا) کے لیے روانہ ہوئے۔اس دو دن کے مختصر قیام سے حضرت مولانا صاحب نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔اور مسلسل مصروف رہ کر احمدیت کی بھر پور تبلیغ کی۔

گولڈ کوسٹ

آپ 21 فروری کو روانہ ہو کے 28 فروری کو گولڈ کوسٹ کی بندرگاہ سالٹ پانڈ پہنچے۔ مسلمان رؤساء ملاقات کے لیے آئے اور تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا۔اس دورہ میں ایک رئیس اور ان کے علاوہ 80مردو زن اسلام لائے۔

(الفضل 14نومبر 1921ء)

دورہ کماسی اور اکرا

آپ نے کماسی جو اشانٹی کا پایہ تخت ہے میں دورہ کیا۔ اور رؤساء کو تبلیغ کی۔ اس کے بعد اکرا جو کہ گولڈ کوسٹ کا دارالحکومت ہے ،میں خوب تقریر کی اور آیت وفات عیسیٰ کی تفسیر بیان کی۔

(الفضل 9 جون 1921ء)

احمدیہ مشن نائیجیریا کا قیام

فینٹی قوم کی قبول احمدیت کے بعد نیر صاحب نے نائیجیریا کا رخ کیا۔ اور صدر مقام لیگوس میں 8اپریل 1921ء میں وارد ہوئے۔ یہاں آپ نے پبلک لیکچر بھی دئیے اور آپ نے دو ماہ میں دس ہزار مسلمانوں کا تحفہ یہاں سے حضرت خلیفۃ المسیح ؓ کو بھیجا۔

(الفضل 9/12 جون 1921ء)

اس کے علاوہ آپ نے ابی اوکوٹا اور کانو میں تبلیغ کی ۔اور ابی اوکوٹا کا شاہ آپ سے متاثر ہوا اور امیر کانوسے ملاقات کی اور انھیں پانی پت کے چاول پیش کئے جن پر سورۃ اخلاص اور الیس اللہ بکافِِ عبدہ لکھا تھا۔ کانو میں چھ اشخاص مسلمان ہوئے۔

(الفضل یکم جنوری 1923ء)

انگلستان واپسی

آپ 2 دسمبر 1922ء کو لیگوس سے چلے اور چھ جنوری1923ء کو واپس انگلستان آگئے۔

(الفضل 19فروری 1923ء)

قادیان واپسی

براعظم یورپ و افریقہ میں احمدیت کے جھنڈے گاڑ کرحضرت مولانا عبد الرحیم نیّر صاحبؓ 24نومبر 1924ء کو لندن سے واپس قادیان آگئے۔

(مرسلہ: (باسل احمد بشارت،مربی سلسلہ۔ربوہ))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 نومبر 2020