• 25 ستمبر, 2025

مساجد کی رونق بنو اور دعاؤں پر زور دو

تبرکات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر رحمت بھیجی ہے اور ان کے لئے خاص برکت کی دعا فرمائی ہے جن کا دل ’’مسجد میں لٹکا رہتا ہے‘‘۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ انسان دین و دنیا کے سارے کام چھوڑ کر صرف مسجد میں بیٹھ کر نماز پڑھتا رہے۔ یہ طریق یقینا اسلامی تعلیم کے خلاف اور اس مجاہدانہ زندگی کے مغائر ہو گا جس پر ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو قائم فرمانا چاہتے تھے۔ قرآن مجید فرماتا ہے :

فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً

(النساء: 96)

یعنی خدا نے دین کے رستہ میں جدو جہد کرنے والوں اور اسلام کی ترقی میں کوشاں رہنے والوں کو گھر میں بیٹھ کر نماز روزہ کرنے والوں پر بڑی فضیلت دی ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ :

لَا رَھْبَانِیَۃَ فِی الْاِسْلَامِ

(صحیح بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح)

یعنی اسلام اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص دنیا کو کلّی طور پر ترک کر کے اور حقوق العباد کو یک قلم بھلا کر صرف نماز روزہ کے لئے وقف ہو جائے۔

کیونکہ یہ بات انسانی فطرت اور پیدائش خلق کے بنیادی نظریہ کے خلاف ہے۔ اسلام تو انسان کی ترقی اور اسے خدائی انعامات کا حق دار بنانے کے لئے اس بات کا قائل ہے جو کسی شاعر نے بظاہر ان متضاد الفاظ میں کہی ہے کہ :

درمیانِ قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
باز میگوئی کہ دامن تر مکَن ہوشیار باش

تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے کیا مراد ہے جو آپؐ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ :

رَجُلٌ قَلْبُہ، مُعَلَّقٌ فِی الْمَسَاجِدِ اِذَا خَرَجَ مِنْہ، مَتٰی یَعُوْدُ اِلَیْہِ

(صحیح بخاری کتاب الزکوۃ باب الصدقہ بالیمین)

یعنی وہ شخص خدا تعالیٰ کے خاص سائے کے نیچے ہے کہ جب وہ نماز پڑھ کر مسجد سے باہر آتا ہے تو گویا اپنے دل کو مسجد میں ہی لٹکا ہوا چھوڑ آتا ہے۔ تا وقتیکہ وہ پھر دوسری نماز کے لئے مسجد میں پہنچ جائے۔

سو ہوشیار ہو کر سن لو کہ جیسا کہ خود ان الفاظ میں اشارہ پایا جاتا ہے۔ اس حکیمانہ ارشاد سے یہی مراد ہے کہ نمازوں کی ادائیگی کے بعد بے شک مسجدوں سے باہر آؤ اور دین و دنیا کے کاموں میں حصہ لو اور حقوق اللہ کی طرح حقوق العباد میں بھی بہترین نمونہ بنو مگر تمہیں خدا کی عبادت میں ایسا شوق و ذوق حاصل ہونا چاہئے کہ گویا مسجد سے باہر آنے کے بعد بھی تمہارا دل مسجد میں ہی لٹکا رہے اور تم اس انتظار میں رہو کہ کب پھر حَيَّ عَلَی الصَّلٰوۃ کی آواز آئے اور کب تم دوبارہ خدا کی عبادت کے لئے مسجد کی طرف لپکتے ہوئے پہنچو۔ یہ وہی حقیقت ہے جسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان پیارے الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ بسااوقات رسولِ پاک گھر میں ہمارے پاس بیٹھے ہوئے اس طرح پیارومحبت کی باتیں کرتے تھے کہ گویا آپؐ کی توجہ کا مرکز ہم ہی ہیں مگر جب اذان کی آواز آتی تھی تو آپ ہمیں چھوڑ کر اس طرح اُٹھ کھڑے ہوتے تھے کہ ’’گویا آپؐ ہمیں جانتے ہی نہیں‘‘۔ اسی حقیقت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض اوقات ان الفاظ میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ : دست باکار و دل بایار

یعنی ہاتھ تو کام میں لگا ہوا ہے مگر دل کی تمام توجہ دوست کی طرف ہے۔

اس وقت یہ خاکسار مثال کے طور پر اپنے تین ایسے مرحوم دوستوں کا ذکر کرنا چاہتا ہے جو اس کیفیت کے حامل تھے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔میری مراد (1) حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم اور (2) حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب مرحوم اور (3) حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب مرحوم سے ہے۔ یہ تینوں بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ممتاز (صحابہ) میں سے تھے اور انہیں خدا کے فضل سے وہ مقام نمایاں طور پر حاصل تھا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ :

قَلْبُہ، مُعَلَّقٌ فِی الْمَسَاجِدِ

(صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ باب الصدقۃ بالیمین)

یعنی مبارک ہے وہ انسان جس کا دل گویا ہر وقت مسجد میں لٹکا رہتا ہے۔

یہ بزرگ (اللہ تعالیٰ ان پر ہزاروں رحمتیں نازل فرمائے) بیوی بچے بھی رکھتے تھے۔ ان کے حقوق بھی اد ا کرتے تھے۔ اپنے مفوضہ کام بھی سرانجام دیتے تھے۔ دوستوں کی مجلسوں میں بھی بیٹھتے تھے۔ حسبِ ضرورت بازار سے سودا سلف بھی لاتے تھے۔ بعض اوقات معصوم تفریحوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ الغرض ’’دست باکار‘‘ کا ایک نہایت عمدہ نمونہ تھے۔ مگر باوجود اس کے وہ مساجد کی رونق بھی تھے اور ’’دل بایار‘‘ کی ایسی دلکش تصویرپیش کرتے تھے کہ اب تک ان کی یاد سے روح سرور حاصل کرتی ہے اور زبان سے بے اختیار دعا نکلتی ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ ہم سب کے آقا اور سردار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا یہ حال تھا کہ آپ کی جوانی میں جب ایک شخص نے ہمارے دادا سے دریافت کیا کہ آپ کا ایک لڑکا تو اکثر نظر آتا ہے مگر کہتے ہیں کہ آپ کا ایک اور لڑکا بھی ہے وہ کہاں رہتا ہے؟ دادا نے فرمایا ’’اس کا کیا پوچھتے ہو؟ مسجد میں دیکھو، کسی صف میں لپٹا پڑا ہو گا۔‘‘

میں اس بات کو مانتا ہوں اور اسے پھر دہراتا ہوں کہ اسلامی تعلیم کے ماتحت انسان کی زندگی کا مجاہدانہ پہلو اس کے قاعدانہ پہلو سے بہتر بلکہ بدرجہا بہتر ہے۔ کیونکہ جہاں ایک قاعد انسان یعنی محض گھر یا مسجد میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے والا شخص صرف اپنی ذات کے لئے زندگی گزارتا ہے وہاں ایک مجاہد انسان خدا کا سپاہی ہوتا ہے جو دین کی ترقی کے لئے شب و روز مصروف رہتا اور اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے۔ پس فرق ظاہر ہے۔ مگر جہاں میں اس بات کی اپیل کر رہا ہوں کہ ’’مساجد کی رونق بنو‘‘ وہاں میری مراد ہر گز یہ نہیں کہ جہاد کی صف کو چھوڑ کر گھر یا مسجد میں دھونی رما لو۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرح تبلیغ کے جہا د کے علاوہ نفس کے جہاد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لو۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حدیث میں یہ مذکور نہیں ہے کہ بعض اوقات آپؐ نماز میں اتنی دیر کھڑے رہتے تھے کہ آپؐ کے پاؤں سوج جاتے تھے اور اس درد و سوز کے ساتھ دعائیں کرتے تھے کہ گویا کوئی ہنڈیا اُبل رہی ہے۔ مگر باوجود اس کے دشمن کے مقابل پر بھی آپؐ کا قدم ہمیشہ صفِ اول میں ہوتا تھا۔ اور جہاں وقتی ریلے کے سامنے بڑے بڑے جری صحابہ کے پاؤں بھی اکھڑنے لگتے تھے۔ وہاں آپ ایک شیر کی طرح للکارتے ہوئے آگے بڑھتے تھے کہ :

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدُالْمُطَّلِبْ

اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی حد درجہ جمالی شان کے باوجود جہاد کی صف میں کھڑے ہو کر اسلام کے دشمنوں کو کس جلال سے پکارتے ہیں کہ :

جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زارو نزار

اور جب ریاضت اور نفس کے مجاہدہ کی طرف توجہ فرماتے ہیں تو مسلسل چھ ماہ تک روزے رکھتے چلے جاتے ہیں۔ پس جب میں کہتا ہوں کہ ’’مساجد کی رونق بنو‘‘ تو میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جہاد بالقلم یا جہاد باللسان کو ترک کر کے محض نماز روزے میں لگ جاؤبلکہ مطلب یہ ہے جہاد کے واسطے اپنے نفسوں میں سٹیم بھرنے اور تیاری کرنے اور ہر آن تازہ دم رہنے کے لئے نماز روزے کے ذریعہ طاقت حاصل کرو۔ قرآن مجید فرماتا ہے :

یٰۤاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ

(البقرۃ:154)

یعنی اے مومنو! تم جہاد کے واسطے نماز اور روزے کے ذریعہ طاقت حاصل کیا کرو۔

اس آیت میں عربی محاورہ کے مطابق ’’صبر‘‘ کے لفظ میں ثابت قدمی اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے علاوہ روزہ بھی مراد ہے۔ کیونکہ روزہ میں بھی انسان کو تکلیف کے مقابلہ پر اپنے نفس کو روک کر رکھنا پڑتا ہے۔ اور یقینا اچھا مجاہد وہی ہے جو اس زمانہ میں قلم اور زبان اور مال کے جہاد کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کے ساتھ بھی جہاد جاری رکھتا ہے۔ اور رمضان کا مہینہ تو خصوصیت سے نفس کے جہاد کا مہینہ ہے۔ پس اب جبکہ رمضان کا آخری عشرہ جو رمضان کا مبارک ترین حصہ ہے شروع ہونے والا ہے۔ میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ جہاں تک ان میں طاقت ہو اور ان کے حالات اجازت دیں وہ مساجد کی زیادہ سے زیادہ رونق بننے کی کوشش کریں۔ اس کے لئے مساجد میں ہر وقت بیٹھنے کی ضرورت نہیں (سوائے اس کے کوئی دوست اعتکاف بیٹھنے کی سعادت حاصل کریں) بلکہ جہاں تک ممکن ہو اور کوئی جائز عذر بیماری یا سفر وغیرہ کا نہ ہو مساجد میں جا کر نماز باجماعت ادا کرنے اور مسنون نفل نمازیں پڑھنے کی پوری پوری کوشش ہونی چاہئے۔ا ور اس عبادت کو ایسے ذوق و شوق سے ادا کیا جائے کہ بقول سرورِ کائنات نماز پڑھنے والے کا دل ’’مسجد میں لٹکا ہوا‘‘ نظر آئے۔ یعنی جب وہ ایک نماز سے فارغ ہو تو اس کے دل و دماغ کی کیفیت یہ ہو کہ گویا اس کے کان دوسری اذان کی طرف لگے ہوئے ہیں۔ بالفاظِ دیگر جب وہ مسجد سے باہر آئے تو ایسا ہو کہ گویا وہ اپنا دل مسجد میں ہی چھوڑ آیا ہے۔ یہ وہی حقیقت ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ’’دست باکار و دل بایار‘‘ کے لطیف الفاظ میں بیان فرمایا کرتے تھے۔

دوستوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ رمضان کا آخری عشرہ روحانیت کے زبردست انتشار کی وجہ سے دعاؤں کی قبولیت کا خاص زمانہ ہے اور اسی عشرہ میں وہ رات بھی آتی ہے جسے قرآن مجید میں لیلۃالقدر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ جس میں ایک طرف خدا تعالیٰ کے افضال و رحمت کی وسعت اور دوسری طرف مخلص بندوں کی دعاؤں کی قدروقیمت بے انتہا بڑھ جاتی ہے۔ وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ (المطفّفین:27) دعاؤں کے فلسفہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں کہ :
دعا میں اللہ تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا نے مجھے بار بار بذریعہ الہام یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ ہو گا۔ ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اس کے سوا کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں۔ جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا اس کو ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے۔ مگر اکثر لوگ دعا کی اصل فلاسفی سے ناواقف ہیں اور نہیں جانتے کہ دعا کے ٹھیک ٹھکانے پر پہنچنے کے واسطے کس قدر توجہ اور محنت درکار ہے۔ دراصل دعا کرنا ایک قسم کا موت اختیار کرنا ہے۔

کاش ہمیں یہ موت میسر آ جائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

(محررہ 25مارچ 1959ء)

(روزنامہ الفضل ربوہ 31 مارچ 1959ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 نومبر 2020