خاندانی تعارف
خاکسار کا تعلق سندھ کی مشہور قوم میر جت سے ہے۔ہمارے پڑدادا مکرم علی بخش صاحب اور کچھ اور خاندان کے بزرگ گوٹھ میر گل حسن لانڈھی ضلع میر پور خاص میں آباد ہوئے تھے۔خاندانی پیشہ اونٹ پالنا رہا۔جب سندھ پر ٹالپروں کی حکومت تھی تو آمدورفت کا بڑا ذریعہ اونٹ ہی تھے۔اس گوٹھ میں میرجت قوم کو ٹالپر خاندان نے اسی وجہ سے رہنے کے لئے آباد کیا۔مگر حالات کے ساتھ ہر چیز تبدیل ہوتی رہی۔میرے دادا مکرم متارو خان صاحب مویشی پالتے تھے۔ ہمارے دادا نیک اور سادگی سے زندگی بسر کرتے تھے۔ اس زمانے میں ہندو اپنی امانتیں ہمارے دادا کے پاس رکھاکرتے تھے۔ میرے دادے کے غریبوں سے شفقت اور رحم دلی کے واقعات اکثر ہمیں ہمارے والد صاحب سناتے رہتے تھے۔
میری پیدائش اسی گوٹھ میں ہوئی۔بعد ازاں میرے والد صاحب بعض وجوہ کی بنا پر یہاں سے ہجرت کرکے گوٹھ میر ولی محمد ڈگو فارم ضلع عمر کوٹ میں آباد ہوئے۔ڈگو فارم میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی پھر چھٹی کلاس کے لئے بودر فارم ھاء سکول جاتا رہا۔ یہ فاصلہ 6کلو میٹر کا تھا ۔میں اور میرا بھائی مکرم حضور بخش پیدل صاحب سکول آتے اور پیدل واپس گھر ڈگو فارم جاتے تھے۔جب چھٹی کے امتحان دیا تو ڈگو فارم میں مڈل سکول کھل گیا پھر مڈل تک یہیں تعلیم حاصل کی۔ نویں اور دسویں کنری شہر خالد بن ولید سکول سے پاس کیں۔ڈگو سے کنری بس پر پڑھنے جاتا تھا ۔1997ء میں میٹرک پاس کر لیا۔ ڈگو فارم میں ناظرہ قرآن مولوی نبی بخش لاشاری صاحب سے پڑھا۔ میرے ابو بچپن سےمجھے مسجد نماز کے لئے لے جاتے تھے اورمیری طبعیت کا میلان بھی قدرتی طور پر دین کی طرف تھا ۔بچپن سے دینی کاموں کا شوق تھا۔
امتحان دینے کے بعد میں چھٹیاں گزارنے اپنی بہن محترمہ خالدہ پروین صاحبہ کے پاس گوٹھ عبدالجبار تھیبوضلع میر پورخاص گیا۔اس گوٹھ میں دینی ماحول تھا۔میں مسجد میں نماز پڑھنے جاتا تھا۔امام صاحب سے سلام دعاہوئی تھی۔اس گوٹھ میں سے چند لڑکے عالم دین بننے کے لیے شہر الہٰ بادمدرسہ میں داخلہ کے لئےجارہے تھے ۔میرا بھی شوق ان کو دیکھ کر مزید بڑھ گیا ۔بعد میں اپنے والد صاحب سے اجازت لے کر ٹنڈوالہٰ باد مدرسہ دیو بند میں آکر پڑھنےلگا۔دوران تعلیم ایک دن استاد محترم نے حدیث 73فرقوں والی پڑھائی تو میں نے سوال کیا کہ اب ان میں کون سا سچا ہے؟ تو جواب ملا کہ یہ ہمارا دیوبند فرقہ۔میں نے استاد محترم سے کہا کہ یہ تو ہر فرقہ کہہ سکتا ہے کہ ہم سچے ہیں۔اس پر استاد کوئی تسلی بخش جواب نہ دے پایا۔
بعد میں میں نے خود ریسرچ شروع کی اور کچھ عرصہ بعد مدرسہ چھوڑدیا۔گھر ڈگوفارم واپس آیا ۔گھر کے کام وغیرہ کرتا ۔گھر کی بکریاں چراتا (اس دوران میری ریسرچ جاری رہی)۔ اسی ریسرچ کے لیے میں رائیونڈ جماعت کے ساتھ گیا۔پھر وہاں سے ایک عشرہ کے لیے سمندری گیا مگر مجھے کہیں سے بھی سچا فرقہ والی حدیث کا جواب نہ مل سکا۔اسی اثناءمیں میں شیعہ علماء،سنی علماءوغیرہ سے سوالات کرتا رہا۔
میرپورخاص شہر،کنری شہر ،عمر کوٹ کے علماء سے ملاقات کی مگر کچھ نہ ملا۔آخر میں نے سب کے پاس جانا چھوڑدیا۔صرف ڈگوفارم میروں کی مسجد میں جاتا تھا۔اور اپنے مولا سے دعائیں مانگتا تھا کہ یا اللہ تو خود مجھے سیدھا راستہ دکھا۔رمضان المبارک کا مہینہ آیا ۔میں اعتکاف میں بیٹھ گیا۔بس میری اللہ کے حضور التجائیں تھیں ،دعائیں تھیں ،آہ بکا تھی کہ یا اللہ !مجھے ہدایت سے محروم نہ رکھنا۔میرے پیارے خدا نے میری دعاؤں کو سنا اور شرف قبولیت بخشی۔ شوال کے چاند کا اعلان ہوا۔اعتکاف ختم کر کے گھر آیا۔ عید کی نماز کے بعد گھر میںہی تھا کہ میرے والد صاحب سے عید ملنے ہمارے گاؤں کا ایک ٹھیکیدار آیا جو کہ سندھ گورنمنٹ کے ٹینڈر لیا کرتاتھا۔باتوں باتوں میں میرے والد صاحب کو کہا کہ محمد بچل تیرے آٹھ بیٹے ہیں۔ایک مجھے دے دیامیں بطور منشی رکھ لوں گا ۔مجھے بہت ضرورت ہے۔میرے ابو نے کہا باقی تو سارے کام پر لگے ہوئے ہیں ایک یہ مولوی احسان علی ہے اسکو لے جاؤ۔ ابو نے مولوی اس لئے کہا کہ میں مدرسہ چھوڑ آیا تھا اوراس وقت داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ بہر حال میں بھی خوش ہو گیا کہ چلو فراغت سے کام بہتر ہے۔
سفر ناصر آباد فارم
ٹھیکیدار نے کہا فی الوقت ایک سکول ناصر آباد فارم میں زیر تعمیر ہے وہاں منشی کی بہت ضرورت ہے ۔وہاں آپکو منشی رکھ لوں گا۔منشی کا کام حساب کتاب وغیرہ رکھنا اور کام کی نگرانی کرنا ہوتا تھا۔ میں مغرب کی نماز پڑھنے مولوی نبی بخش کی مسجد میں گیا۔یہ میرے استاد تھے میں نے ناصر آباد میں کام کرنے کے متعلق ان سے ذکر کیا اس بات پر انکا چہرہ سرخ ہو گیا۔بہت ناراض ہوئے اور کہنے لگے تم مدرسہ بھی گئے رائیونڈ بھی گئے ہو لیکن اب بہت غلط جگہ پر جا رہے ہو۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ ناصر آباد میں ایسا کیا ہے۔اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ یہ گاؤں ان لوگوں کا ہے جو کافر ،زندیق، مرتد ،ختم نبوت کے منکر ہیں (دراصل یہ گاؤں احمدیوں کا ہے)۔
مولوی صاحب کی یہ باتیں سن کر میںبہت پریشان ہوگیا۔عید کے تین دن بعد ٹھیکیدار آیا اور ابوجان سے کہا کہ میرے ساتھ احسان علی کو بھیجو۔اس پر میں نے جانے سے انکار کردیا مگر ٹھیکیدار نے کہا ایک تو آپ کے والد صاحب نے وعدہ کیا تھادوسراتم نے بھی وعدہ کیا تھا۔اب وعدہ پورا کرو۔میں نے تو آپ کو لے کر جانا ہے۔اس پر میں نے مولوی صاحب والی باتیں ٹھیکیدار کو بتادیں۔ اس پر ٹھیکیدار امان اللہ بہت ہنسا اورکہنے لگا کہ بھائی آپ نے رہنا ہے۔کھانا میں آپ کو دوں گا۔آپ نے اپنا کام کرنا ہے۔بہر حال اس بات پر میں جانے کو تیار ہوگیا۔شام کو ٹھیکیدار مجھے موٹر سائیکل پر بٹھا کر ڈگو سے ناصرآباد چھوڑآیا۔ میری رہائش زیر تعمیر سکول میں ہی تھی۔پورا گاؤں تو احمدیوں کاتھا۔کچھ دن گزرے تو پتہ چلا کہ لوگ اخلاقی طور پر اچھے ہیں۔سکول میں کام کرنے والے بھی احمدی تھے۔مجھ سے ادب سے پیش آتے ،عزت کرتےاور منشی جی کے نام سے پکارتے تھے۔سکول کے ساتھ مکرم محمد حسین کشمیری صاحب کا مکان تھا۔سکول کی پشت پر مکرم خلیل احمدصاحب کا مکان تھا۔اب ان لوگوں سے طبیعت کچھ مانوس ہونے لگی۔ایک مرتبہ محمد حسین کا لڑکا ماسٹر محمد احمد اور خلیل احمد ٹھیکیدار کے لئے چائے لے کرآئے تو ساتھ میرے لئے بھی لے کر آئے مگر میں نے پینے سے انکار کر دیا۔
مکرم چوہدری عزیز احمدصاحب اس وقت ناصر آباد کے مینیجر تھے۔اِن کے والد محترم چوہدری محمد علی صاحب میرے پاس آئےاور کہنے لگے کہ سکول بھی ہمارا بن رہا ہے۔ ہمارے گاؤں کےبچے سکول پڑھیں گے۔اس لئے ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ کھانا آپ خود پکائیں۔میں نے کہا میں کبھی کبھار خود پکاتا ہوں ویسے اکثر ٹھیکیدار دے جاتا ہے۔اس لئے مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں آپ لوگوں کو تکلیف دوں۔اس پر وہ بہت خوش ہوئے۔دراصل میرا دل احمدیوں کے ساتھ کھانے پینے کو مطمئن نہ تھا۔مگر احمدی لوگوں سے میرامیل جول شروع ہو چکا تھا۔میں نمازیں سکول میں ہی ادا کرتا تھا۔سکول کے ساتھ ہی احمدیوں کی مسجد تھی۔ایک دن میں یہ سوچ کر ہی کہ یارمسجدتو اللہ کاگھر ہے چلا گیا۔عصر کی نماز کا وقت تھا۔میں باہر صحن میں اپنا صحافہ بچھا کر نماز پڑھنے لگا اسی اثناءمکرم منیر ذوالفقار صاحب آئے۔انہوں نے کہا نماز آپ صف پر پڑھیں۔مگر میں نے کہا کہ میں اپنے صحافے پر ہی پڑھونگا۔میں نماز کے بعد ذکر الہیٰ کرنے لگا۔اس وقت احمدیوں کی نماز شروع ہوچکی تھی۔میں دیکھنے لگ گیا کہ یہ لوگ کس طرح نماز ادا کرتے ہیں۔بعد از نماز درس ہوا۔میں گو صحن میں تھا مگر آواز صاف آرہی تھی۔
صراط مستقیم کی طرف سفر کا آغاز
میں بہت حیران اور پریشان تھا کہ ایک طرف مولوی اِن کو کافر کہتے ہیں دوسری طرف یہ لوگ نماز یں پڑھتے ہیں۔حسن سلوک کرتے ہیں۔ان کے اخلاق اچھے ہیں۔اب میں شرمندہ بھی تھا کہ ان لوگوں نے چائے پیش کی میں نے نہ پی۔انہوں نے کھانا کھانے کے لئے اصرار کیا میں نے نہ کھایا یہ تو اچھی بات نہیں تھی۔بہرحال اب تحقیق کے لئے میں بے چین تھا۔دوسری طرف میں اپنے خدا سے دعائیں بھی کر رہا تھا کہ یا الہٰی یہ کیا ماجرا ہے؟ اگر یہ لوگ صراط مستقیم پر نہیں ہیں تو ان کو بھی ہدایت دے۔میری نیت نیک تھی شاید میری جستجو کی تڑپ یا الہٰی حکم سے ناصر آباد لے کر آئی تھی۔جمعہ پڑھنے کے لئے میں ناصر آباد کے ساتھ ایک کلر قوم کاگاؤںتھا اس مسجد میں جایا کرتا تھا۔مگر اکثر یہ لوگ کہتے کہ جمعہ آپ ہی پڑھایا کریں۔اس لئے میں انکو جمعہ پڑھا یا کرتا تھا۔ایک جمعہ کی شام میں سکول میں ہی بیٹھا تھا کہ خلیل احمد اور ماسٹر محمد احمد میرے پاس آئے اور کہا آپ کو ایک بات کہنی ہے کیا آپ ناراض تو نہیں ہونگے۔ میں نے کہا آپ ضرور کہیں میں ناراض نہیں ہونگا۔تو وہ کہنے لگے کہ آج ڈش انٹینا کے ذریعہ ہمارے خلیفہ صاحب کا خطبہ جمعہ نشر ہوگا۔آپ6بجے ہمارے ساتھ T.Vپر خطبہ دیکھیں۔ میں نے کہا اچھا میں ضرور دیکھنے آؤں گا۔
اب شام کو مغرب کی نماز کے لئے میں مسجد میں گیا تو اللہ کے حضور روکرسجدے میں بہت دعا کی کہ الہیٰ مجھے صراط مستقیم دکھا۔اگر یہ لوگ سچے ہیں تو میرے لئے سچ روشن کر دے۔اگر انکو بھی ہدایت کی ضرورت ہے تو تو انکو بھی ہدایت دے۔نماز سے فارغ ہو کر میں باہر نکلا تو ماسٹر محمد احمد اور خلیل احمد اور محمود مغل میرے انتظار میں کھڑے تھے۔میں ان لوگوں کے ساتھ پرانے مربی ہاؤس میں گیا تھا۔وہاں کافی لوگ تھے مجھے چارپائی پر بٹھایا T.Vپر نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک روشن چہرہ نور سے چمکتا ہوا سفید ریش مبارک والا ایک مرد مومن چلتا ہوا ایک چھوٹی سی مسجد میں داخل ہوا جسکا نام T.Vسکرین پر مسجد فضل لندن لکھا ہوا تھا۔اذان شروع ہوئی اذان کے بعد اسی مرد مومن نےکھڑے ہو کر خطبہ دینا شروع کیا۔خطبہ جمعہ پر معارف تھا۔ یہ الفاظ تھے یا جادو جو میرے دل میں اتر گئے۔امام جماعت احمدیہ نے آیۃ الکرسی پر خطبہ دیا تھا آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنا عرش خود اٹھائے ہوئے ہے۔اب یہ تفسیر بہت اعلیٰ تھی۔کیوں کہ اب تک میں نے تو صرف یہ پڑھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کاعرش فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہے۔امام جماعت احمدیہ نے خطبہ میں یہ مضمون کھول کر بیان کیا کہ اگر اللہ کا عرش فرشتوں نے اٹھایا ہے تو وہ خداکیسے ہوا اللہ تعالیٰ تو محتاج نہیںوہ صمد ہے۔ بہر حال پورا خطبہ سنا۔آج تک خطبہ بھی اور وہ ماحول بھی جہاں خطبہ سنا یاد ہے۔اب مجھے میرا ضمیر جھنجھوڑنے لگا کہ یہ لوگ کافر نہیں ہو سکتے۔
چوہدری عزیز احمد صاحب سے ملاقات
اگلے دن میرے پاس ڈگو فارم سے مہمان آئے۔میں چائے بنانے کے لئے دودھ لینے چوھدری محمد علی کے پاس گیا کیونکہ وہ اکثرمیرے پاس آتے رہتے تھےاور کہتے رہتے تھے کہ کوئی کام ہو تو بلا جھجھک میرے پاس آنا۔ ابھی میں مہمان خانہ میں داخل ہوا ہی تھا کہ مجھے ایک باریش شخص ملا۔مجھے عزت دی میرا احترام کیا۔ کہنے لگے کہ ہم آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں میں نے کہا ایک بزرگ چوھدری محمد علی خان صاحب ہیں ان سے ملنا ہے۔وہ کہنے لگے جی وہ میرے والد صاحب ہیں اور میرا نام چوہدری عزیز احمد ہے۔اور میں ناصر آباد اسٹیٹ کا مینیجر ہوں۔آپ کام بتائیں والد صاحب اس وقت گھر نہیں ہیں۔میں نے کہا میرے پاس مہمان آئے ہیں ان کی چائے کا بندو بست کرنا ہے۔دراصل مجھے دودھ کی ضرورت ہے۔اس بات پر انہوں نے اپنے نوکر کو آواز دی اور چائے کا انتظام کرنے کو کہا۔مجھے جانتے تو تھے کہ یہ سکول کا منشی ہے مگر ملاقات ابھی ہوئی تھی۔
مکرم چوہدری عزیز صاحب کہنے لگےسکول ہمارا بچوں کے لئے بن رہا ہے تو ہمیں بھی خدمت کا موقعہ دیں۔آپ کھانا ہمارے پاس کھائیں۔مجھے شرمندگی ہوئی کیونکہ آپ کے والد مجھے کھانا کھلانے کے متعلق کہہ چکے تھے۔اس پر میں نے کہا میں شرمندہ ہوں دراصل آپ لوگوں کے بارے میں میں نے کچھ اور سنا ہوا تھا۔مگر اب مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ اکثر باتیں جھوٹ ہیں۔میں نے کل آپ کے خلیفہ صاحب کاخطبہ بھی سنا تھا۔مجھے بہت سکون ملا تھا۔میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں پوچھ سکتا ہوں۔اس پر چوہدری عزیز احمد صاحب نے کہا آپ ضرور پوچھ سکتے ہیں۔
احمدیت سے تعارف
اب یہ میری پہلی محفل تھی چوہدری عزیز صاحب نے کہاآپ دودھ لینے آئے ہیں۔ دودھ بھی نور ہے۔آپکو اصلی روحانی نور بھی دیتے ہیں۔میں نے کہا میں تو روحانی نور کے لئے در بدر بھٹکا ہوں۔ اب مجھے میرا اللہ صحیح جگہ لے کر آیا ہے۔پھر چوہدری عزیز احمد صاحب نے کہا آنحضرت ﷺنے امام مہدی کی بشارت دی تھی کہ آئے گا۔وہ حکم و عدل ہوگا وہ آیا اس نے دعوٰی کیا اللہ تعالیٰ نے تائیدات کیں ،نشانات دکھلائے ،جو پیشگوئیاں تھیں وہ پوری ہوگئیں۔ اب جو آپ نے کل ہمارے خلیفہ صاحب کا خطبہ سنا وہ ہماری جماعت کے چوتھے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد ہیں۔ بہرحال چوہدری عزیز احمد صاحب نے اختصار کے ساتھ جامع باتیں بتائیں۔اتنے میں انکا نوکر چائے لے کر آیا۔چوہدری عزیز احمد صاحب نے کہا اب کل دوسری مرتبہ بیٹھ کر تفصیل کے ساتھ گفتگو کریں گے۔ مگر شرط یہ ہے کہ کل آپ نے ہمارے ہاں کھانا کھانا ہے۔ میں نے وعدہ کیا کہ ان شااللہ ضرور آؤنگا۔ اب میں چائے لے کر اپنے مہمانوں کے پاس سکول آیا۔ چائے پی کر مہمان واپس ڈگو فارم چلے گئے۔اب میرے ذہن میں سوالات جنم لے رہے تھے۔پھر ان پر کفر کے فتوے کیوں لگائے گئے۔ غرض کافی سوالات میرے اندر بے چینی پیداکر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ سے میں نے دعا کی وہ مجیب ہے اس نےمیری دعا قبول کی اورمجھے صحیح جگہ آیا ۔اگلے دن میں نے اٹھ کر سکول میں نماز ادا کی چائے وغیرہ بنا کر پی کچھ دیر بعد چوہدری عزیز احمد کا نوکر سلیم کمانڈر آیا کہنے لگا آپکا ناشتہ تیار ہے آپ چلیں۔چوہدری عزیز احمد صاحب آپکو بلا رہے ہیں۔میں سلیم کمانڈر کے ساتھ مہمان خانے میں آگیا۔مہمان خانے میں چوہدری عزیز احمد صاحب اور آپ کے والد چوہدری محمد علی دونوں تھے میں نے ناشتہ کیا۔پھر ہماری محفل سجی اللہ تعالیٰ کی طرف آنے کی منزل جب قریب ہو تو اند ر سکون اور بے قراری دونوں جمع ہو جاتےہے۔چوہدری محمد علی صاحب نے احسن رنگ میں جماعت احمدیہ کے عقائد زبانی سنائے۔مہمان خانے میں حضرت مسیح موعود امام مہدی علیہ السلام کی تصویر لگی ہوئی تھی جو آپ نے مجھے دکھائی۔میں تصویر کو دیکھتےہی سمجھ چکا تھا کہ یہ ضرور اللہ کا فرستادہ ہے۔ پھر چوہدری عزیز احمد صاحب نے مجھے کچھ کتب دیں۔ہمارے عقائد ،کشتی نوح ،احمدیت کاپیغام (جو سندھی زبان میں تھی )،اسلامی اصول کی فلاسفی۔باقی کچھ سوال وجواب بھی ہوئے۔مجھے جواب بلکل دلیل کے ساتھ مل رہے تھے۔ میں کتب لے کر سکول آگیا آج کے دن میں بالکل فارغ تھا میں نے سکول آکر کتب کا مطالعہ شروع کیا۔ جیسے جیسے میں مطالعہ کرتا گیا پتہ چلتا گیا کہ حضرت امام مہدی کا ظہور ہو چکا ہے۔ حضرت عیسیٰ بن مریم از روئے قرآن فوت ہو چکے ہیں۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود اور امام مہدی علیہ السلام ہیں۔عشاء کی نماز کے بعد میں نے پھر کتب کا مطالعہ کیا۔رات گئے تک میں تمام کتب پڑھ چکا تھا۔ میرے اوپر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی تھی کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوچکا ہے۔
مطالعہ کتب کے بعد مولوی نبی بخش لاشاری سے ملاقات
صبح سویرے اٹھ کر میں سیدھا ڈگو فارم آگیا۔گھر آکر ناشتہ کر کے امی ابو سے ملنے کے بعد استاد مولوی نبی بخش لاشاری کے پاس کتب لے کر آیا۔مولوی صاحب نے میرے ہاتھ میں کتب دیکھیں تو حیران ہو کر کہنے لگا ضرور تم یہ قادیانیوں کی کتب لے کر آئے ہو۔میں نے کہا میں لے کر تو آیا ہوں مگر آپ سے رہنمائی لینے۔آخر آپ میرے استاد ہیں کہنے لگے میں نے تو تجھے ناصر آباد جانے سے روکا تھا۔اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے۔میں نے کہااگر آپ نے ابھی میرے سوالات کا جواب نہ دیا تو میں سمجھوں گا کہ آپ غلط بیانی کرتے ہیں۔تو خیر مولوی صاحب نے کشتی نوح مجھ سے لی ابھی پہلا صفحہ کھولا ہی تھا اور کہنے لگے کہ دیکھو یہاں نام کے ساتھ علیہ السلام لکھا ہوا ہے۔اس لئے یہ کتب میں نہیں پڑھونگا۔میں نے کہا اس کتاب کے اندر مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ جو پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔آپ ان پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں ؟اس بات پر آپ کمرے میں گئے کچھ پمفلٹ وغیرہ لے کر آئے۔مجھے دے کر کہنے لگے آپ یہ پڑھو مگر اب مجھے یہ پختہ یقین ہو گیا ہے کہ تم احمدی ضرور بن جاؤ گے ان کا جادو تیرے اوپر چل گیا ہے۔ میں نے کہا اگرآپ یہ کتب پڑھتے جو میں لایا ہوں۔توآپ کو علم ہو جاتا کہ قرآن کریم میں اکثر جگہ یہ ذکر آیا ہے۔
انبیاء کی مخالفت آپ جیسے لوگوں نے کی ہے۔حضرت عیسیٰ بن مریم ؑکی وفات کے دلائل حضرت مرزا صاحب نے از روئے قرآن دیے ہیں اور آپ لوگ قرآن پڑھ کر جھٹلاتے ہو۔ اس سے بہتر ہے کہ میں قرآن کریم میں بیان دلائل پر اپنا ایمان پختہ کروں نہ کہ آپ جیسے مولویوں کی زبانی کلامی باتوں پر چلوں۔ مولوی نبی بخش لاشاری ایک اچھے انسان تھے۔ میرے شاگرد ہونے کی نسبت سے بہت پیار کرتے تھے جب میں آپ کے پاس زیر تعلیم تھا۔ اس وقت میری ضرورتوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ مندرجہ بالا بیان کردہ گفتگو اچھے ماحول میں ہوئی۔کوئی تلخ کلامی والی بات نہیں ہوئی۔ (میرے ملنے کی غرض یہ تھی کہ شائد میرا استاد بھی ان باتوں پر غور کرے)۔ بہر حال میں پمفلٹ وغیرہ لے کر شام کو ناصر آباد آگیا۔
چوہدری عزیز احمد صاحب اور مربی فہیم احمد لکھن صاحب نے پمفلٹ والے تمام اعتراضات کے تسلی بخش جوابات دیے۔ اور کہنے لگے صبح جب آپ یہاں نہ تھے تو ہم پریشان ہو گئے کہ کل ہم نے آپ کو کتب دی تھیں۔دراصل قانوناًپابندی ہے۔ میں نے معذرت کی۔ میں مطالعہ کے بعد حیران تھا کہ علماء لوگ کیوں قرآن کریم پر غور نہیں کرتے۔ اگر غور کرتے ہیں تو پھر غلط بیانی کیوں کرتے ہیں۔ میری ملاقات مکرم چوہدری منیر ذوالفقار صاحب سے ہوئی۔ جو اس وقت ناصرآباد کے صدر صاحب تھے۔ انہوں نے مجھے سندھی زبان میں دعوت الامیر کتاب دی۔ اس کتاب کے مطالعہ کے بعدمیرے اندر کوئی شک نہیں رہ گیا تھا کہ میں امام وقت کی بیعت نہ کروں۔ اب میں نمازیں احمدیوں کا مقتدی بن کر ادا کرتا اور ان کی مجالس میں بیٹھتا۔
میری بیعت
ایک دن میں نے مکرم چوہدری محمد علی صاحب کو کہا کہ اب میں امام وقت مسیح موعود و امام مہدی موعود ؑکی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے طریقہ بتادیں۔ اس پر اس بزرگ انسان نےکہا ابھی نہیں پہلے آپ دعا کریں۔بیعت کرنا آسان ہے مگر نبھانی بہت مشکل ہے۔میں نے کہا آپ دعا کرنے کا صحیح طریقہ بتائیں۔اس پر آپ نے کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہےکہ چالیس دن تک نوافل پڑھ کر اللہ کے حضور دعا کی جاوے کہ میں سچاہوں یا جھوٹا تو اللہ ضرور اس شخص کی رہنمائی کرے گا۔مگر شرط یہ ہے کہ وہ صاف دل ہو۔دل میں بغض نہ رکھتا ہو۔ اللہ تعالیٰ پنے پیارے بندوں کی ضرور رہنمائی کرتا ہے۔
میں نے ایسا ہی کیا ۔پہلی رات دو نوافل پڑھ کر سجدے میں دعا مانگی کہ اے خدا !اب تو تیرے حوالے ہوں۔ دل کا شیشہ صاف ہے کیا حقیقت میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہی امام مہدی ہیں تو مجھے اپنا جلوہ دکھا اور میرے اوپر حق آشکار کر دے۔دعا کے بعد میں سو گیا۔ خواب کا نظارہ دیکھا کہ میں ایک جنگل میں بکریاں چرا رہا ہوں ۔اتنے میں ایک بزرگ نظر آتے ہیں۔جنکا چہرہ نورانی ہوتا ہے۔سفید لباس زیب تن کیا ہوا ہے۔مجھے اشارے سے بلاتے ہیں۔ میں جب قریب جاتا ہوں ،ان سے ملتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ تم امام مہدی کی تلاش میں ہو۔(میں نے کہا ) جی۔وہ مجھے ایک جگہ لے جاتے ہیں۔وہاں کچھ فاصلے پر کھڑے شخص کے پاس بھیجتے ہیں ،میں ان کے پاس جاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ میں نے امام مہدی سے ملنا ہے وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ یہی ہیں پھر وہ غائب ہو جاتے ہیں اوراس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
دوسری رات میں نوفل پڑھ کر دعا کر کے سو جاتا ہوں۔رات کو پچھلے پہر پھر خواب دیکھی کہ وہی بزرگ آتے ہیں جو پچھلی رات آئے تھے۔مجھے ملے اور ہاتھ پکڑ کر لے گئے۔ ایک جگہ ہے جہاں پر ایک نورانی شخصیت کھڑی ہے۔میرا ہاتھ جو اس بزرگ نے پکڑا ہوا تھا اس شخصیت کے ہاتھ میں پکڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر امام مہدی کی بیعت کرنی ہے تو انکی بیعت کرو۔وہ نورانی شخصیت مجھے اپنے سینے سے لگاتی ہے اور معانقہ کرتے ہیں۔ایک نورانی سی چیز مجھے دیتے ہیں ۔اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔جس شخص سے مجھے ملایا جاتا ہے وہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ ہیں۔
اُسی دن ہی میں صبح مربی صاحب کے پاس جاتا ہوں اوریہ خواب والی کیفیت بتاتا ہوں تو مربی صاحب کہتے ہیں کہ بس اللہ تعالیٰ نے آپکی رہنمائی کر دی ہے۔مربی صاحب کہتے ہیں آپ کچھ دیر انتظار کریں میں مکرم منیر ذوالفقار صاحب صدرجماعت کو اور مکرم چوہدری عزیز احمدصاحب کو بلاتا ہوں پھر آپ آنا۔میں واپس سکول میں آجاتا ہوں۔ اس وقت میرے دل میں بے قراری تھی کہ میں جلد امام مہدی کی بیعت کرلوں۔ اگر خدا نخواستہ مجھے کچھ ہوگیا یا مر گیا تو اللہ کے حضورکیا جواب دوں گا۔ اس قسم کے خیالات میرے ذہن میں آرہے ہوتے ہیں۔ یکم مارچ 1999ء کو صبح 11بجے مجھے پیغام ملتا ہے کہ اب آپ آجائیں۔ میں دعائیں کرتے کرتے پرانے مربی ہاؤس میں داخل ہوتا ہوں۔ وہاں مکرم چوہدری محمد علی صاحب ،مکرم چوہدری عزیز احمد صاحب ،مکرم چوہدری منیر احمدذوالفقار صاحب صدر جماعت اور مربی سلسلہ مکرم فہیم احمد لکھن صاحب تشریف فرما تھے۔ مجھ سے ملتے ہیں۔ بیعت کرنے سے قبل کچھ امور سمجھاتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ آپکا اور اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہے۔ اللہ آپ کو اس پر کار بند رہنے اور ثابت قدم رہنے کی توفیق دے۔ میں نے کہا دیکھو میرا اللہ ہی مجھے ناصر آباد اس امر کے لئے لے کر آیا ہے اب مجھے توفیق بھی وہی دے گا۔پھر میں بیعت فارم لے کر شرائط پڑھ کر بیعت کے الفاظ بلند آواز میں ادا کر کے بیعت فارم پر اپنا انگوٹھا لگا کر دستخط کرتا ہوں۔ بعد میں سارے دوست مجھے مبارک باد اور دعائیں دیتے ہیں۔
٭…٭…٭
(احسان علی سندھی (معلم سلسلہ) قسط اول)