• 28 اپریل, 2024

جلسہ سالانہ ربوہ کی یادیں

رات چپکے سے دسمبر نے یہ سرگوشی کی
پھر سے اک بار رلائوں تجھے جاتے جاتے

جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود رکھی اور پہلا ایک روزہ جلسہ سالانہ 27؍دسمبر 1891ء کو قادیان دارالامان میں منعقد ہوا۔ جس میں 75 خوش قسمت مخلصین سلسلہ نے شرکت کی۔ پھر ایک اشتہار کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ساری جماعت کو اطلاع دی کہ ہر سال 29,28,27 دسمبر کی تاریخوں میں جلسہ منعقد ہوا کرے گا۔

شروع شروع میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام شاملین جلسہ کے لئے کھانے اور رہائش وغیرہ کا انتظام خود کرتے تھے۔ بلکہ بعض مستحقین ایسےتھے جن کو آمد و رفت کے لئے بھی مدد دی جاتی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اکثر دور دراز ملکوں کے ایسے غرباء وفقراء ہوتے ہیںجن کوجاتے وقت زادراہ دے کر رخصت کرنا پڑتا ہے۔ اور اس کے اہتمام میں مکرم مولوی حکیم نور الدین صاحب بدل و جان کوشش کر تےہیں۔ اکثر دور کے مسافروں کو اپنے پاس سے زاد راہ دیتے ہیں چنانچہ بعض کو تیس تیس یا چالیس چالیس روپیہ دینے کا اتفاق ہوا ہے۔

(کتابچہ جلسہ سالانہ شائع کردہ جماعت احمدیہ برطانیہ صفحہ33)

ایک موقع پر تو گھر کے سارے بستر مہمانوں کو دے دیئے گئے۔ پھر خادم آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا کہ مہمان بہت زیادہ آگئے ہیں اور بستر ختم ہو گئے ہیں۔ آپؑ نے اپنا بستر بھی مہمانوں کے لئے بھجوا دیا۔ اس وقت حضرت مصلح موعود ؓجو چھوٹے بچے تھے آپؑ کے پاس تھے۔ آپؑ نے انہیں گود میں لیا اور اوپر کمبل ڈال دیا۔ فرمایا کہ ہمارا کیا ہے ہم اسی طرح رات گزار لیں گے۔ اللہ اللہ حضور علیہ السلام کس قدر اپنے مہمانوں کا خیال رکھتے تھے۔

جلسہ سالانہ کا مستقل انعقاد دسمبر میں قادیان میں ہونا شروع ہوا۔ 27؍دسمبر 1893ء کا جلسہ بوجوہ ملتوی کر دیا گیا۔ لیکن بعد میں دسمبر میں جلسہ کا انعقاد مستقل ہوگیا۔ 1946ء تک قادیان میں جلسہ سالانہ ہوتا رہا۔ تقسیم ہند کے بعد 1947ء اور 1948ء کو دو سال جلسہ سالانہ منعقد نہ ہو سکا۔

1949ء کو نئے مرکز ربوہ میں 15؍اپریل تا 17؍اپریل جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔ 1966ء کو رمضان المبارک کی وجہ سے جلسہ سالانہ 26 تا 28 ؍ مارچ 1967ء ربوہ میں منعقد ہوا۔ اسی طرح 1967ء کا جلسہ 11تا 13؍جنوری 1968ءمنعقد ہوا۔ پھر 1968ء میں دسمبر میں 26تا28؍دسمبر منعقد ہوا۔ گویا اس سال 2مرتبہ جلسہ منعقد ہوا۔پھر 1971ء میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی جنگ کے باعث جلسہ سالانہ نہیں ہوسکا۔

1983ء تک ربوہ میں سالانہ جلسے ہوتے رہے۔ 1984ء میں ایک ظالمانہ آرڈیننس کی وجہ سے ربوہ میں جلسہ منعقد نہ ہو سکا۔ 1984ء میں حضرت خلیفۃ المسیح کی ہجرت کے بعد 1985ء سے برطانیہ میں جلسے منعقد ہونا شروع ہو گئے۔ 2001ء میں جرمنی میں پہلا عالمی جلسہ من ہائم (Mannheim) کے مقام پر ہوا۔ اس سال برطانیہ میں ’’منہ کھر‘‘ کی بیماری پھیلنے کی وجہ سے جلسہ نہیں ہو سکا تھا ۔

1984ء میں ربوہ میں جلسہ سالانہ تو بند کر دیا گیا لیکن آہستہ آہستہ ملک ملک میں جلسہ ہائے سالانہ منعقد ہونے شروع ہو گئے۔ لیکن قادیان اور ربوہ کے جلسوں کی یادیں ہمیشہ کےلیے قلب و ذہن پرنقش ہیں۔

تقسیم ہند سے پہلے لوگ دورنزدیک سے میلوں کاسفر پیدل طے کر کے جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہوتے تھے۔ میرے والد صاحب اکثر بتایا کرتے تھے کہ ہم کچھ احمدی اکٹھے ہو کرداتہ زید کا (سیالکوٹ) سے بدوملہی اور پھر وہاں سے دریائے راوی کو جو سردیوں میں خشک ہو جاتا تھا اور کہیں کہیں تھوڑا پانی کھڑا ہوتا تھا عبور کر کے بستی بستی گزر کر قادیان جلسہ پر پہنچا کرتے تھے ۔اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبولیتِ دعا کا ایک واقعہ جواس سفر کے دوران ہر سال سُنتے،بڑے مزے سے سنایا کرتے تھے کہ جب ہم ایک جگہ سے گزرتے تو وہاں ایک سکھ صاحب بیٹھے ہوتے تھے۔ ساتھ ہی ان کے کھیت تھے جہاں سےگنا کاٹ کر بیلنےپر اس کا رس نکالا جارہا ہوتا تھااور وہ جلسہ پر جانے والے ہرمہمان کو کہتے گنے کا رس پی کر جائیں۔ ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ تو بتایا کہ میرے والد صاحب کے ہاں اولاد نہیں تھی جبکہ شادی کو ایک لمبا عرصہ گزر چکا تھا۔ کسی نے میرے والد صاحب کو کہاکہ تم قادیان والے مرزاصاحب کے پاس جائو اوران سے دعا کروائو تو اللہ تمہیں اولاد دے گا۔ چنانچہ میرے والد صاحب مرزا صاحب کے پاس قادیان گئے اور دعا کے لئے کہا۔ مرزا صاحب نے دعا کا وعدہ کیا اور فرمایا میراا للہ تمہیں اولاد عطا فرمائے گا۔ چنانچہ مرزا صاحب کی دعا قبول ہوئی اور اللہ نے میرے والد کو بیٹا دیا۔اوروہ بیٹا مَیں ہوں۔ میں مرزا صاحب کی دعا سے پیدا ہوا۔ اب میرا اتنا تو فرض بنتاہے کہ میں ان کے مریدوں کی یہ تھوڑی سی خدمت کروں۔

قادیان دارالامان کی تو بے شمار برکات ہیں اور آج قادیان کا نام دنیا بھرمیں گونج رہا ہے۔ خاکسار راقم نے تو وہ زمانہ نہیں دیکھا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ گزرجانے کے ایک عرصہ بعد میری پیدائش ہوئی لیکن مجھے اس طرح قادیان کی برکت کا تجربہ ہوا کہ خاکسار1987ء میں پاکستان ایئرفورس میں ملازمت کے سلسلہ میں ڈرگ روڈ کراچی میں متعین تھا ان دنوں میری رہائش بیت المبارک ڈرگ روڈ کے ساتھ جماعتی گیسٹ ہائوس میں تھی۔ اللہ نے مجھے جڑواں بچیاں عطا فرمائی تھیں۔ جو بیمار ہو گئیں ڈاکٹر نے ان کے لیے گائے کا دودھ تجویز کیا۔ قریب ہی ایک آدمی کا باڑا تھا جہاں بھینسوں اور گائے کا دودھ فروخت ہوتا تھا۔ علی الصبح دودھ دھو لیتے تھےپہلے دن میں تاخیر سے دودھ لینے گیا۔ پتہ چلا وہ دودھ بیچ کر گھر چلا گیا ہے اور بچا ہوا دودھ گھر لے گیا ہے۔ مجھے اس کے گھر کا پتہ تھا وہاں پہنچا دروازہ کھٹکھٹایا وہ باہر آیا۔ میں نے کہا مجھے گائے کا دودھ چاہئے۔ کہنے لگا دودھ تو ختم ہو گیا ہے۔ میں واپس مڑا تو پیچھے سے آواز دی کہ ٹھہرو اور پوچھا تم کہاں رہتے ہو؟ میں نے کہا بیت المبارک کے سامنے گیسٹ ہائوس میں۔ پوچھا آپ احمدی ہیں؟ میں نے کہا جی میں احمدی ہوں یہ سن کراس نےکہابرتن مجھے دو اور اندر سے گائے کا دودھ لے آیا۔ مجھے اس پر تعجب ہوا کہ پہلے انکار کیا پھر دودھ دے دیا، راز کیا ہے؟ میرے پوچھنے پر بتایا کہ جب مجھے پتہ چلا کہ آپ احمدی ہیں تو انکا رنہیں کر سکا کیونکہ میرا گائوں قادیان سے آگےہے۔جب کبھی دیر ہوتی اور بٹالہ سے چل کر رات پڑ جاتی تو ہم مرزا صاحب کے لنگر خانے میں رات گزار تے تھے۔ وہاں مجھے گرم گرم تازہ کھانا اور سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں گرم بستر بھی ملتا تھا،تو میرا بھی فرض ہے کہ میں مرزا صاحب کے مرید کو خالی ہاتھ نہ لوٹائوں۔ پھر دودھ کےاوقات بتائےکہ آپ اس دوران آکر دودھ لے جایا کریں یا مجھے بتا دیں کتنا دودھ روزانہ چاہئے اتنا میں ہر دن علیحدہ کر کے رکھ لیا کروں گا۔ الحمدللہ علیٰ ذالک

قادیان جلسہ سالانہ پر پیدل جانے کی بات ہو رہی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ایسے مخلصین سلسلہ تھے جو پیسے بچا کر جلسہ کے لئے آمدورفت کا خرچہ جمع کر کے جلسہ سالانہ ربوہ میں شامل ہوتے تھے ۔ان میں سے اپنے گائوں داتہ زید کا کے ایک درویش صفت بزرگ چودھری سید احمد باجوہ مرحوم کو جانتا ہوں جو مرغی کے انڈوں پر بھی چندہ دیا کرتے تھے۔اکثر وہ گھی بیچ کر جلسہ سالانہ پر جانے کا کرایہ جمع کر لیتے لیکن ایسا بھی ہوا اور اکثر ہوا کہ جب پیسے پاس نہیں ہوتے تھے تو وہ جلسہ سالانہ ربوہ پر داتہ زید کا سے پیدل دو تین دن کا سفر طَے کر کے جایا کرتے تھے۔آج اللہ تعالیٰ کا شکر ہےکہ ان کی نسل کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضلوں سے بہت نوازا ہے اور وہ دنیا میں ملکوں ملکوں پھیل چکے ہیں۔ اور میرے اس محترم بزرگ کے ایک پوتے کو اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ کی انتظامیہ میں خدمت کی سعادت و خدمت کی توفیق عطا فرمائی ہے۔

جب میں بچہ تھا۔ ہم لوگ داتہ زید کا میںجلسہ سالانہ کی تیاری میںمصروف ہوتے،نئے کپڑےسلواتےہیں،خوشی کا عجیب سماں ہوتا۔ جوں جوں جلسہ کے دن قریب آتے عجیب روحانی سرور بڑھتا جاتا۔آخر روانگی کی صبح والدہ سحری کےوقت اٹھتیں۔ راستے کے لئے مولی یاآلو کے پراٹھے اور کبھی انڈے پراٹھےتیار کرتیں ۔صبح کی نماز کے بعد سفر شروع ہوتا ۔گائوں سے تین چار میل پیدل منگلا نہر کے پل تک شدید سردی میں چلنا پڑتا۔اور جب زیادہ سردی محسوس ہو تی کھیتوں سے پرالی اکٹھی کرکے آگ جلا کر جسم کو گرم کر لیتےاور پھر سفر شروع ہوتا۔آخر منگلا پل پر پہنچتے تو وہاں تانگے کاانتظار کرتے تا کہ اس پرسوارہوکر مہتہ سوجا جائیں۔اور وہاں سے سپیشل ٹرین سے ربوہ پہنچیں۔ کچھ مرد اور خواتین بدوملہی کی مسجد میں رات گزار کر اگلے دن سپیشل ٹرین سے ربوہ جاتے۔بدوملہی کی جماعت ان سب کی خوب تواضع کرتی۔ ہم مہتہ سوجا اسٹیشن پر سپیشل ٹرین کا انتظار کرتے۔ گاڑی آتی اور فضا نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اُٹھتی۔گاڑی جگہ جگہ ٹھہرتی۔ نعروں کی صدابلندہوتی اس طرح گاڑی اپنی منزلیں طَےکرتی چلی جاتی۔شاہدرہ اسٹیشن پر دوپہر کا کھانا ہوتا۔ بلکہ کلواجمیعاًکا منظر ہوتا۔ایسا لگتا جیسے ایک ہی خاندان کے افراداس ٹرین پر سفر کر رہے ہوں۔ ہر کوئی اپنے گھر سے ساتھ رکھے ہوئےپکے کھانے نکال کر خلوص اور محبت و پیار کے ساتھ ایک دوسرے کو پیش کر رہا ہوتا۔ایسا منظر کہیں دنیا نے کہاں دیکھا ہو گا! وہاں سے گاڑی پھر ربوہ کی طرف روانہ ہوتی۔جوں جوں ربوہ قریب آتا جاتا عجیب روحانی کیفیت طاری ہوتی جاتی۔ٹرین کے اس سفر میں جلسہ پر جانے کا بہت سرور آتا۔ ہمارے امیر جماعت میاں جی چوہدری بشیر احمد باجوہ صاحب بھی ہمارے ساتھ ہوتے۔ آپ حضرت چودھری ظفر اللہ خاںؓ مرحوم کے ماموں زاد بھائی تھے۔ آپ نارووال کی اسپیشل ٹرین کے امیر قافلہ بھی ہوتے۔چنیوٹ آتا تو دل کی جو کیفیت ہوتی اُسےالفاظ میںبیان کرنا مشکل ہے۔

ربوہ پہنچنے پرجلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کا اھلاً و سہلاً و مرحبا اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کی روح آفریں صدائوں سے استقبال کیا جاتا۔خدامِ احمدیت سامان اٹھا لیتے اور قیام گاہوں میں پہنچا دیتے۔اگلے دن علی الصبح احباب نماز تہجد کے لئے مسجد مبارک کی طرف رواں دواںہوتے تاکہ نماز فجر اپنے پیارے آقا کی اقتدا میں ادا کرنے کا شرف حاصل کر سکیں۔ناشتہ مٹی کی بنی پیالیوں میں دال روٹی کا ہوتا۔وہ دال بھی عجیب مزہ رکھتی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بابرکت لنگر خانہ کی یہ دال لوگ پانی کی طرح پینا پسند کرتے تھے۔شام کو آلو گوشت کا سالن مزہ دوبالا کر رہا ہوتا تھا۔

صبح جلسہ کا افتتاحی اجلاس حضرت خلیفۃ المسیح کی صدارت میں اکثر حافظ ڈاکٹر مسعود احمد صاحب آف سرگودھا کی وجد آفریں تلاوت قرآن پاک سے شروع ہوتا اور چودھری شبیر احمد صاحب کی نظم کے بعد ہمارے دل وجان سے پیارے آقا کا دلآویز خطاب ہوتا جس سے پیاسی روحیں اپنی طراوت کا سامان کرتیں۔ علمائے احمدیت کی تقاریر، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ، حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ، مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ، مولانا محمد نذیر صاحب لائلپوری، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، کیا کیا نام لوں کہ ان میں حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحب ؓ صدرعالمی عدالت انصاف پھر برصغیر کے نامور شاعر، شاعر احمدیت ثاقب زیروی صاحب کی شرکت اور موخر الذکر کی ولولہ انگیز نظمیں روح میں اتر جایا کرتی تھیں۔ادھرجلسہ کی کارروائی ختم ہونے کے بعد بازار جاتےتوہرطرف حضرت امیر المومنین کی تقاریر کی ریکارڈنگ کیسٹ پر چل رہی ہوتی تھی۔ اور کہیں ثاقب زیروی صاحب کی نظموں کی کیسٹ سے لوگ لطف اندوز ہو رہے ہوتے۔ جلسہ کے یہ تین دن بھی عجیب دن ہوتے۔سال بھر ان کا انتظار رہتا اور ان کے گزرنے کاپتہ ہی نہ چلتا۔ ربوہ کے مکینوں کو دیکھیں تو وہ خوشی سے پھولا نہ سماتے! کیسے خوش نہ ہوتے، اپنے گھروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کو ٹھہرانے کا انتظام جو کرتے تھے۔ ان کے لئے غریب دلہن کی طرح قیام گاہوں کو سجاتے۔ مہمان زیادہ ہوجاتے اور گھروں میں جگہ کم پڑ جاتی، لیکن دل کشادہ ہی رہتے، چنانچہ گھروں کے کمروں میں کسیر جسے ہم پرالی کہتے ہیں ڈال کر مہمانوں کو اپنے کمروں میں جگہ دے دیتے۔اور خود اپنے ہی آنگن میں خیمے لگا کر ان میں منتقل ہو جاتے۔ جاڑے کے سخت موسم میں ان دیوانوں کی اپنے مہمانوں کی تواضع اور خدمت کرنے کا روحانی لطف تو وہی جانتے ہوں گے!

وہ لوگ آئے ہیں آنکھوں میں شمع شوق لئے
جنہیں نہ پوچھا کبھی کم نگاہ دنیا نے

اور پھر ایسا ہوتا کہ روحانی سرور سے پُر یہ تین دن گزر جاتے۔

ہاں مسیح موعود کے مہمانوں کا جھرمٹ ہوتا وہاں اداسی بسیرا کرنے لگتی اور خوشی خوشی آنے والے قافلے بوجھل دلوں کے ساتھ پھر اگلے سال انہی دنوں کے دیکھنے کی تمنا لئے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے۔ربوہ اور اہالیان ربوہ کچھ دن اداسی میں گزارتے اور پھر اگلے سال اپنے معزز مہمانوں کی خدمت کی تمنا لئے اپنے روز مرہ کے کاموں میں بادل نخواستہ ہی سہی، لیکن مصروف ہو جاتے:

یہ تین دن بھی عجب رحمتوں کے دن ہوں گے
کھِلیں گے دیدۂ ودل میں گلوں کے پیمانے
شراب نور سے دھو لو دل و نظر ثاقب
نصیب ہوں کہ نہ ہوں پھر یہ دن خدا جانے

جلسہ کی یادیں لکھتے وقت بار بار آنکھیں پرنم ہوتی رہیں۔ بارگاہ رب العزت میں یہ التجا لئے ہوئے دعا گو ہیں کہ اللہ کرے کہ یہ سیاہ رات جلد ختم ہو اور ہمارے پیارے ربوہ کی رونقیں لوٹ آئیں۔ اللہ ہمیں پھر ایسے ہی نظارے دیکھنے نصیب فرمائے۔ آمین

(بشکریہ الفضل انٹرنیشنل)

٭…٭…٭

(از حمید اللہ ظفر(جرمنی))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 نومبر 2020