• 30 اپریل, 2024

نظم

کیوں پریشان پئے حجت وبرہاں ہوں میں
فرصتم باد کہ مستِ مئے عرفاں ہوں میں
ہمہ تن آرزوؤحسرت وارماں ہوں میں
خوشتر آں روز کہ خاکِ درِ جاناں ہوں میں
یہ تو کس منہ سے کہوں تابع فرماں ہوں میں
ہاں یہ عرض ہے کہ لذت کش احساں ہوں میں
جلوۂ حسن سے معمور ہے کاشانۂ دل
یعنی اس طرز سے بھی حافظِ قرآں ہوں میں
قمر اس روئے ضیا بار کا ثانی توبہ
شمس کہتا ہے چراغِ تہِ داماں ہوں میں
حق پسندوں سے یہ کہتا ہے نظارہ ان کا
اس زمانے کے لئے آیۂ رحماں ہوں میں
لاجواب ان کا ہر انداز عجب حیرت ہے
کس کا مداح نہ ہوں کس کا ثناخواں ہوں میں
میں کہاں اور مقامِ درِ دلدار کہاں
رخصت اے ضبط کے جی کھول کے رقصاں ہوں میں
لے گئی کس قدر اونچا مجھے قسمت میری
واہ رے میں کہ فدائے شہِ عرفاں ہوں میں
مجھ سے ناچیز پہ ایسی نگہ روح نواز
اتنے الطاف وعنایات کہ نازاں ہوں میں
سامنے ہے وہ رتن باغ کا منظر اب تک
روح بشاش ہے دل شاد ہے خنداں ہوں میں
وہ دمِ پرسشِ احباب یہ کہنا میرا
کچھ تعجب نہ کریں آپ جو گریاں ہوں میں
یہ وہ حالت ہے جو ہوتی ہے خوشی سے پیدا
اس خوشی کا متمنی بدل وجاں ہوں میں
سن کے الفاظِ نوازش نکل آئے ہیں یہ اشک
اُن کودیکھا جو گل افشاں گہرِ افشاں ہوں میں
امتحاں گاہِ وفا میں جبل استقلال ہیں اہل
ورنہ اک ذرۂ خاک درِ جاناں ہوں میں
قصۂ آدم وشیطاں نے دیا ہے یہ سبق
کس سے وابستہ رہوں کس سے گریزاں ہوں میں
اُن کی نظروں سے گرے کوئی مگر میں نادم
ناقضِ عہدِ وفا کوئی ہو لرزاں ہوں میں
رنگِ نیرنگئ آفاق عیاذًا باللہ
کبھی ششدر کبھی خنداں کبھی گریاں ہوں میں
اے تری شان یہ نخوت یہ رعونت یہ غرور
پرِپروانہ کہے شمعِ شبستاں ہوں میں
ایک نکلے گا جماعت سے تو آئیں گے ہزار
یہ یقینی ہے اگر صاحبِ ایماں ہوں میں
کچھ سروکار نہیں چون وچرا سے مختاؔر
شکر صد شکر کہ ہم مشرب مستاں ہوں میں

(حیات حضرت مختار صفحہ 279-280)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 نومبر 2020