• 27 اپریل, 2024

’’مسکین‘‘ سے والدین ’’یتیم‘‘ سے اولاد اور ’’اسیر‘‘ سے بیوی بھی مراد ہے

’’وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا (الدھر:۹) اس آیت میں مسکین سے مراد والدین بھی ہیں کیونکہ وہ بوڑھے اور ضعیف ہو کر بے دست و پا ہو جاتے ہیں اور محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس وقت ان کی خدمت ایک مسکین کی خدمت کے رنگ میں ہوتی ہے اور اسی طرح اولاد جو کمزور ہوتی ہے اور کچھ نہیں کر سکتی اگر یہ اس کی تربیت اور پرورش کے سامان نہ کرے تو وہ گویا یتیم ہی ہے۔ پس ان کی خبر گیری اور پرورش کا تہیہ اس اصول پر کرے تو ثواب ہو گا۔ اور بیوی اسیرکی طرح ہے اگریہ عَاشِرُوۡہُنَّ الۡمَعۡرُوۡفِ (النساء:20) پر عمل نہ کرے تو وہ ایسا قیدی ہے جس کی کوئی خبر لینے والا نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم۔ صفحہ نمبر599، ایڈیشن1988ء)

صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی بعض ایسے مشکلات پیش آگئے تھے کہ دینی مجبوریوں کی وجہ سے ان کی ان کے والدین سے نزاع ہوگئی تھی۔ بہرحال تم اپنی طرف سے ان کی خیریت اور خبر گیری کے واسطے ہر وقت تیار رہو۔جب کوئی موقع ملے اسے ہاتھ سے نہ دو۔ تمہاری نیت کا ثواب تم کو مل کے رہے گا۔ اگر محض دین کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرنے کے واسطے والدین سے الگ ہونا پڑا ہے تو یہ ایک مجبوری ہے۔ اصلاح کو مد نظر رکھو اور نیت کی صحت کا لحاظ رکھو اور ان کے حق میں دعا کرتے رہو۔ یہ معاملہ کوئی آج نیا نہیں پیش آیا۔ حضرت ابراہیم ؑ کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ بہرحال خدا کا حق مقدم ہے۔ پس خدا تعالیٰ کو مقدم کرو اور ا پنی طرف سے والدین کے حقوق ادا کرنے کی کوشش میں لگے رہو اور اُن کے حق میں دعا کرتے رہو اور صحت نیت کا خیال رکھو۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ131، ایڈیشن1984)

پچھلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 نومبر 2020