• 29 اپریل, 2024

زکوٰۃ کیا چیز ہے اس کا مطلب ہے کہ اللہ کی راہ میں مال کا حصہ نکالنا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پس یہ خوشخبری ہے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو کہ اگر تم ان خصوصیات کے حامل ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ کے اس عظیم پیغام کو جس کا ہر ہر لفظ اپنے اندر حکمت کے سمندر لئے ہوئے ہے۔ دنیا میں پھیلانے والے اور اسلام کے غلبہ کے دن دیکھنے والے بن سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا پر تو بننے اور اس سے فیض اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر کم از کم وہ خصوصیات پیدا کرنے کی کوشش کریں جس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کی صفت جو عزیز اور حکیم ہے، اس سے فیضیاب ہو سکیں۔ یہ خصوصیات ہم اپنے میں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو تب ہی وہ غالب اور حکیم خدا ہماری زبانوں کو وہ طاقت عطا فرمائے گا جس سے اللہ تعالیٰ کا حکیمانہ پیغام دنیا کو پہنچا کر ہم اسلام اور احمدیت کا غلبہ دیکھ سکتے ہیں۔ پس اس اہم مقصد کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنا چاہئے تاکہ جو عہد بیعت اس زمانے میں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہے کہ ہم جان، مال، وقت اور عزت کو اسلام کے پھیلانے کے لئے ہر وقت قربان کرنے کے لئے تیار رہیں گے، اس کو پورا کرنے والے بنیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ زکوٰۃ کے بارے میں بعد میں بیان کروں گا اب مَیں اس طرف آتا ہوں جو زکوٰۃ یا مالی قربانی کا مضمون ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ جو نومبر کا مہینہ ہے اس میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان ہوتا ہے۔ اکتوبر میں تحریک جدید کا سال ختم ہوتا ہے اور یکم نومبر سے نیا سال شروع ہو جاتا ہے۔ نومبر کے پہلے جمعہ میں عموماً تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے، لیکن اس دفعہ بوجوہ یہ اعلان نہیں ہو سکا تو آج مَیں اس کا بھی اعلان کروں گا اور اس حوالے سے مومن مردوں اور مومن عورتوں کی اس خصوصیت کا مزید ذکر کروں گا کہ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں۔ زکوٰۃ کیا چیز ہے اس کا مطلب ہے کہ اللہ کی راہ میں مال کا حصہ نکالنا تاکہ وہ مال پاک ہو، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اظہار ہو اور پھر اللہ تعالیٰ اس مال میں برکت ڈالے اور اسے بڑھاتا رہے۔ پس ایک مومن اپنے ضرورت مند بھائیوں کی ضرورت کے لئے، دینی ضروریات کے لئے، غلبہ اسلام کے لئے جو مال خرچ کرتا ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ سے یہ سودا کررہا ہوتا ہے کہ اس ذریعہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مزید جذب کرنے والا بنے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے مال کو مزید بڑھائے تاکہ دنیا کی نعمتوں سے بھی فائدہ اٹھائے اور پھر مزید خرچ کرکے اور زیادہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں گھاٹے کا سوداہی نہیں ہے۔ ایک طرف سے ڈالتے جاؤ، دوسری طرف سے کئی گنا بڑھا کر حاصل کرتے چلے جاؤ۔ دنیاوی چیزوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب مال خرچ کرکے کوئی چیز حاصل کرتے ہیں تو اس کی قدر اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ اس کی قیمت ادا کی جاتی ہے۔ عقلمند انسان ہر ایک چیز کی قدر دیکھ کر ہی اس کی قیمت ادا کرتا ہے اور اُس کی قدر اتنی ہی ہوتی ہے جتنا کہ جیسا کہ مَیں نے کہا اس پر خرچ کیا گیاہو۔ اس سے استفادہ ایک حد تک کیا جا سکتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس چیز سے استفادہ اور اس کی قدر میں کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے اور ایک وقت میں وہ چیز بالکل بے کار ہو جاتی ہے۔ پھر ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ کسی بھی صنعت میں پیداوار حاصل کرنے کے لئے جب خام مال کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس خام مال کا کچھ حصہ ضائع ہو جاتا ہے اور 100فیصد اس پر خرچ کئے گئے مال سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ گو کہ ان نقصانات کا اندازہ کرتے ہوئے جو اس طرح ضائع ہوتے ہیں، ایک کارخانہ دار یا اس کو بنانے والا اس کی قیمت اتنی مقرر کر دیتاہے کہ اس کا نقصان بھی پورا ہو جائے اور کچھ منافع بھی ہو جائے۔ پھر اور بہت سے عوامل ہیں، اگر وہ اثر ڈالیں تو بعض دفعہ منافع بھی نقصان میں چلا جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو ضمانت دی ہے کہ مال بڑھے گا۔ ایک جگہ فرمایا کہ سات سو گنا بلکہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ بڑھا دے گا۔ پس مومنین کو ایسی تجارت کی طرف توجہ دلائی کہ گویہ پیسہ تم دنیاوی ذرائع استعمال کرکے حاصل کرتے ہولیکن جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے حکموں کے مطابق خرچ کرتے ہو تو پھر جہاں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرکے جماعت کی مضبوطی کا باعث بن رہے ہوتے ہو، جہاں اپنی عاقبت سنواررہے ہوتے ہو، وہاں اس بات سے بھی آزاد ہو جاتے ہو کہ بعض عوامل اثر انداز ہو کر تمہاری تجارتوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ کی آیت 273 میں فرماتا ہے کہ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَ نْفُسِکُمْ۔ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ اللّٰہِ۔ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ (البقرۃ:273) کہ جو مال بھی تم خرچ کرو تو وہ تمہارے اپنے ہی فائدہ میں ہے جبکہ تم اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے سوا کبھی خرچ نہیں کرتے اور جو بھی تم مال میں سے خرچ کرتے ہو وہ تمہیں بھرپور واپس کر دیا جائے گا اور ہرگز تم سے کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی، تم پہ ظلم نہیں کیا جائے گا۔

(خطبہ جمعہ 9؍ نومبر 2007ء بحوالہ الاسلام)

پچھلا پڑھیں

متوفی والدین کو اولاد کی کسی نیکی کا ثواب پہنچتا ہے

اگلا پڑھیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر سیالکوٹ کے دوران پُر معارف و پُر تاثیر ’’لیکچر سیالکوٹ‘‘