• 8 مئی, 2025

تعارف سورۃ صٓ (38ویں سورۃ)

(تعارف سورۃ صٓ (38ویں سورۃ))
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 89 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003)

وقت نزول اور سیاق و سباق

یہ سورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی زندگی کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی۔ ابن مردویح نے ابن عباس اور بہیقی سے روایت کی ہے کہ یہ مکی سورت ہے اور دیگر علماء کی بھی یہی رائے ہے۔ اپنے مضامین کے اعتبار سے یہ سورت اپنی سابقہ سورت سے بہت مشابہت رکھتی ہے جس کا اختتام اس خدائی چیلنج پر ہوا تھا کہ خدا کے رسول کامیاب ہوں گے اور وہ دن کفار کے لیے سخت منحوس ہو گا جب خدائی عذاب ان کے صحنوں میں اترے گا۔ اس سورت کا آغاز بھی ایک بھرپور اور پرتحدی بیان سے ہوا ہے کہ یہ سچے خدا کی ناقابل تر دید تقدیر ہے کہ مومن دولت، طاقت اور شان و شوکت حاصل کریں گے جبکہ کفار کو ذلت اور بربادی نصیب ہو گی۔

مضامین کا خلاصہ

اس سورت کا آغاز ایک پرتحدی بیان سے ہوا ہے، دراصل خدا تعالی نے قرآن کریم کی قسم کھائی ہے کہ اس کی تعلیمات پر عمل کے نتیجے میں اور اس کو اپنا لائحہ عمل بنانے کی وجہ سے مومنوں کو شان و شوکت نصیب ہو گی اور انہیں بڑی سلطنتوں کے مقابل پر معزز مقام حاصل ہو گا۔ اس سورت میں مزید بتایا گیا ہے کہ کفار مکہ بھی طوطوں کی طرح رٹی رٹائی باتیں کرتے ہیں کہ ہم مکہ کے ہی ایک رہنے والے آدمی کے کہنے پر اپنے بتوں کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتے ۔ان کی اس بے وقوفانہ بات پر انہیں جواب دیا گیا ہے کہ انہوں نے کب سے خدائی خزائن جن میں عزت و اکرام اور رحم شامل ہیں، کے حصول کا دعوی ٰکرنا شروع کردیا ہے۔یہ خدا کا ذاتی اختیار ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے اپنی مخلوق تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے چن لیتا ہے اور یہ کہ اب خدا نے حضرت محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پیغام پہنچانے کے لیے چن لیا ہے۔ ایک پرزور پیشگوئی کرنے کے بعد کہ بدی کی طاقتیں ناکام اور نامراد ہو جائیں گی اور خدائے واحد کے پرستاروں کو طاقت، دولت اور غیر معمولی بلندمرتبت حاصل ہو گی۔ یہ سورت بطور تعارف بنی اسرائیل کو ملنے والی عظیم شان و شوکت کا ذکر کرتی ہے جو انہیں ان کی دو بادشاہت والے نبیوں کے دور میں حاصل ہوئی جن میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان شامل ہیں۔ اس سورت میں ان سازشوں کا بھی ذکر ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام کی عظیم الشان سلطنت ،طاقت اور اثر ورسوخ کو کم کرنے کے لیے کی گئیں۔ اور اس تنزل کے آغاز کا ذکر ہے جو حضرت سلیمان کے دور میں شروع ہوا۔ جب بنی اسرائیل دولت سے مالا مال تھے اور مادی ترقی کے عروج پر تھے۔پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا ہے کہ آپ کے دشمن بھی آپ سے حسد کی وجہ سے آپ کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے آپ کے قتل کے منصوبے بنائیں گے اور اسلام کے خستہ حال درخت کو پنپنے سے پہلے ہی جڑ سے اکھیڑ دینے کے مکر وہ ارادوں میں ناکام ہوں گے اور اسلام مستقل ترقی اور طاقت حاصل کرتا چلا جائے گا۔ لیکن اگر مسلمانوں نے اپنی جدوجہد کا خیال نہ رکھا تو شان و شوکت کے دنوں میں گمراہی کی طاقتیں اسلام کی سلامتی کو بدحالی کی راہ پر ڈال دیں گی. اس کے بعد ایک نبی. (؟؟missing) جھیلتا ہے اس کا ذکر ہے لیکن اس کی تکلیفوں کا عارضی دور بہت جلدی ختم ہو جاتا ہے اور وہ کامیاب و کامران ہوتا ہے اور اس کا نقصان کئی گنا نفع کے ساتھ پورا ہوتا ہے۔نبی کی ذمہ داریوں کے تذکرے کے مان بعد حضرت ابراہیم حضرت اسحاق حضرت یعقوب حضرت اسماعیل حضرت علی اصا حضرت ذوالکفل کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا. (؟؟missing) جو لوگ بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں ان کو خدائی ناما سے نوازا جائے گا جس کی کوئی دو حدود نہ ہیں اور نہ ہی تکلیف کا ڈر ہے. اس کا اختتام اس بیان پر ہوا ہے کہ جب بھی انسان سیدھے راستے سے دور ہٹتا ہے اور محبوبان باطلہ کی پرستش کرنے لگتا ہے تو ان میں خدا کا رسول مبعوث کیا جاتا ہے تاکہ وہ حقیقی معبودکی عبادت کریں. (؟؟missing) راستے میں ہر طرح کی رکاوٹیں حائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں. اور لوگوں کو دھوکہ دہی سے خدا کے رستے سے بھٹکانے کی کوشش کرتے ہیں مگر حق ہر طرح کی رکاوٹیں (؟؟missing) ع. ترقی اور کامیابی حاصل کرتا ہے اور بلآخر کامیاب و کامران ہوتا ہے۔

(مرسلہ: مترجم: وقار احمد بھٹی)

پچھلا پڑھیں

خلیفۂ راشد کا مقام اور مرتبہ

اگلا پڑھیں

آج کی دعا