• 24 جون, 2025

تلاوت قرآن کریم اور عنایات رب العالمین

ارشادِباری تعالیٰ ہے: وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ

(بنی اسرآئیل:83)

اور ہم قرآن میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفاء ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے۔

قرآن پاک کے فضائل کا شمار ایک امر ِمحال ہے، اس کی برکات کی وسعت کی مماثلت مندروں سے دینا، سمندوں کے لئے جائے شرم ہے۔ اس کا نور آفتاب و مہتاب کی روشنی کو بھی ماند کر دیتا اور یہی قران قیامت کے دن مومنوں کو جنت کے اعلیٰ مدارج تک لے جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس امر کو کچھ یوں بیان کیا

عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ:‏‏‏‏ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا

(ترمذی:2914)

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(قیامت کے دن) صاحب قرآن سے کہا جائے گا: (قرآن) پڑھتا جا اور (بلندی کی طرف) چڑھتا جا۔ اور ویسے ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔ پس تیری منزل وہ ہو گی جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہو گی‘‘۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

قرآن پاک کی تلاوت کے فضائل و برکات آخرت تک محدود نہ ہیں، اس ضمن میں حضرت عثمان بن عفان ؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

اِنَّ اَفْضَلَکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ

یقیناً تم میں سے زیادہ فضیلت اور بزرگی والا وہ شخص ہے جس نے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی اور پھر دوسروں کو قرآن کی تعلیم دی ہے۔

(صحیح بخاری فضائل القرآن، حدیث نمبر:5028)

ایک دوسری روایت حضرت ابوہریرہ ؓسے یوں مروی ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا:
جو لوگ اللہ کے گھروں میں اکٹھے ہو کر قرآنِ کریم پڑھتے اور دوسروں کو سکھاتے ہیں ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور خدا کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان پر سایہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا اپنے فرشتوں سے ذکر کرتا ہے۔

(ترمذی ابواب القراءۃ 2945)

حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺنے فرمایا:لوگوں میں سے اللہ کے بھی عزیز ہوتے ہیں پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ!ان سے کون لوگ مراد ہیں؟آپ ؐنے فرمایا:یہ قرآن والے اللہ کے عزیز اور اُس کے خاص بندے ہیں۔

(سنن ابن ماجہ کتاب السنۃ، حدیث:211)

حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ یہ قرآن غم کے ساتھ اُتراہے۔پس جب تم قرآن کریم کی تلاوت کرو تو گریہ وزاری کیا کرو۔اگر رونا نہ آئے تو رو نے و الی صورت بناؤاور قرآن کو خوش اِلحانی سے پڑھا کرو اور جو خوش اِلحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم سے نہیں۔

(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ السنۃفیھا،حدیث:1337)

رسول اللہ ﷺ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی قرآن کریم کو پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی خوب تلقین کی۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوعِ انسان کے لئے رُوئے زَمِین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘

(روحانی خزائن جلد19 ص13)

’’قرآن شریف تدبر وتفکر وغور سے پڑھنا چاہئے۔حدیث شریف میں آیا ہے۔ رُبَّ قَارٍ یَلْعَنُہُ الْقْرْاٰ نُ یعنی بہت سے ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے۔ جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے۔ تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیتِ رحمت پر گزر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کاذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبر وغور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ157)

’’قرآن شریف کی اصل غرض وغایت دنیا کو تقوٰی کی تعلیم دینا ہے۔ جس کے ذریعے وہ ہدایت کے منشاء کو حاصل کر سکے……قرآن شریف کو عمدہ طور پر خوش الحانی سے پڑھنا بھی ایک اچھی بات ہے۔ مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ274۔275)

’’میں نے قرآن کے لفظ میں غور کی۔تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبردست پیشگوئی ہے۔وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے……اس لئے اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو۔بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکار ہے۔ ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان ودل سے مصروف ہو جائیں ۔۔۔ اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے۔ اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ 386)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوَّل ؓنے قرآن کریم پر عمل سے دائمی خوشیاں حاصل کرنے کے ذکر میں فرمایا: میں تم کو قرآن شریف سناتا ہوں مُدَّعا اس سے میرا یہ ہوتا ہے کہ تم اس پر عمل کرو اور عمل کر کے اس سے نفع اٹھاؤ۔ قرآن کریم پر عمل کرنے سے انسان کے آٹھ پہر خوشی سے گزرتے ہیں ….. دیکھو نبی کریم ﷺ ایسے انسان کو ارشاد ہے کہ اگر قرآن شریف نہ آتا تو تجھ کو کچھ نہ آتا بھلائی اور برائی سمجھنے کا ایک ہی ذریعہ:قرآن شریف ہے۔

(حقائق الفرقان جلد2 ص58)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نور اللّٰہ مرقدہ ظاہری اور باطنی علوم کے چشمہ حقیقی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بہرحال یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم کے اندر سارے علوم آ جاتے ہیں میں پرائمری میں فیل ہوں لیکن میں تمام مذاہب کو چیلنج کر کے کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا اعتراض ہو جس کا قرآن کریم کے ساتھ ٹکراؤ ہو تا ہو تو میں اس کا جواب دوں گا اور خالی جواب ہی نہیں دوں گا بلکہ اعتراض کرنے والے کو چُپ کرا کے چھوڑوں گا قرآن کریم کے اندر سارے گُر موجود ہیں اور اصل عقل گُروں سے ہی آ تی ہے، اگر تم قرآن کریم پڑھ لو تو تمہارے اندر وہ مادہ پیدا ہو جائے گا جس سے تم ہر قسم کے دشمن کا مقابلہ کر سکو گے اور تمہاری عقل اتنی تیز ہو جائے گی کہ دنیا کا کوئی علم ایسا نہیں ہو گا جس سے تم مَرْعُوب (یعنی ڈرتے) ہوپس قرآ ن کریم کا تر جمہ سیکھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے جس کی میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں۔

(انوارالعلوم جلد21 ص230)

’’میرے دوستو!قرآن کریم کے اندر جس قدر خوبیاں ہیں میرے پاس ایسے الفاظ نہیں ہیں کہ ان کو بیان کر سکوں اگر الفاظ ہوں بھی تو بھی کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو ان کو پورا پورا بیان کر سکے حتیٰ کہ محمد ﷺ بھی ایسا نہیں کر سکے کیونکہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس لئے اس کی خوبیوں کاا ندازہ کوئی بھی انسان نہیں کر سکتا پھر ایک انسان محدود ہے اور خدا کی حکمتیں غیرمحدُود۔ اس بِے پایاں (یعنی بے حد) سمندر کا حال وہی جانتا ہے جو اس میں کودتا ہے اور جو کودتا ہے وہ بتا نہیں سکتا کہ اس نے کیا کچھ دیکھا اور جو کچھ بتا ئے وہ گو دوسروں کے موہَنے اور انہیں وَالَا و شَیدا کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے مگر اس سمندر کے مقابلہ میں قطرہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا پس میں وہ الفاظ نہیں پاتا کہ جن کے ذریعہ قرآن کریم کی خوبیاں آپ لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کروں اور آپ کو مجبور کر دوں کہ قرآن کریم کے مطالب اور معانی سے آگا ہ ہونے کی فکر میں لگ جائیں۔‘‘

(انوار العلوم جلد4 ص128)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللّٰہُ فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم کی طرف خاص اور پوری توجہ دیں اور یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارا ہر بچہ، جوان اور بوڑھا، مرد عورت قرآن کریم جانتا ہو اور جانتی ہو جنہیں اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ اس کا ترجمہ جلد سے جلد سیکھیں اور پھر اپنی ساری زندگی کو ہی ایک طرح قرآن کریم پر غور اور تَدَبُّر کرنے اور اس کے احکام اور شرائع پر عمل کرنے کی طرف متوجہ رہیں۔‘‘

(خطبات ناصر جلد2 ص554)

حضرت خلیفۃالمسیح الرَّابِع رحمہ اللّٰہُ قرآن کی تلاوت کے ضمن میں فرماتے ہیں: ’’ہے تو خدا کا کلام لیکن خدا کے کلام کو بھی پڑھنے میں فرق ہے اس کو سرسری نظر سے پڑھنا اور بات ہے،اور بے دلی سے پڑھنا اور بات ہے،جان ڈال کر پڑھنا اور بات ہے اور پھر مترنم آواز میں پڑھنا آپ کی اندرونی کیفیات کو جگا دیتا ہے،آپ کے اندر تموج پیدا کرتا ہے اور اس تَمَوُّج کے ساتھ قرآن کریم کے مطالب ہم آہنگ ہو کر پھر آپ کے لئے نئے نئے مضمونوں کے گُل کھلاتے ہیں، نئی روشنی عطا کرتے ہیں۔‘‘

(خطبات طاہر جلد11 ص747-746)

’’ہر بچے کو آپ جب تلاوت کی عادت ڈالنے کی کو شش کریں گے تو آپ کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ اکثر بچوں کو تلاوت کرنی ہی نہیں آتی اور وہ جو میں کئی سال سے انصار، خدام، لجنہ کے پیچھے پڑا ہو ا ہوں کہ خد اکے لئے اس طرف توجہ کرو۔ اس نسل کو کم از کم صحیح تلاوت تو سکھا دو ورنہ ہم خدا کے حضور پوچھے جائیں گے اور ہماری اگلی نسلوں کی بے اعمالیاں بھی ہم سے سوال کریں گی۔‘‘

(خطبات طاہر جلد11 ص175)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک احمدی مسلمان کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے فرماتے: ’’ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ کس حد تک قرآن سے محبت کرتا ہے، اس کے حکموں کو مانتا ہے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ محبت کے اظہار کے بھی طریقے ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ ضروری چیز جو ہراحمدی کو اپنے اوپر فرض کر لینی چاہئے وہ یہ ہے کہ بلا ناغہ کم از کم دو تین رکوع ضرور تلاوت کر لے۔ پھر اگلے قدم پر ترجمہ پڑھے۔ترجمہ پڑھنے سے آہستہ آہستہ یہ حسین تعلیم غیر محسوس طریق پر دماغ میں بیٹھنی شروع ہو جاتی ہے‘‘

(شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ 112)

نیز فرمایا: ’’قرآن کریم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ پاک کتاب ہے اور ہر قسم کے ممکنہ عیب سے پاک ہے اور نہ صرف پاک ہے بلکہ ہر قسم کی حسین اور خوبصورت تعلیم اس میں پائی جاتی ہے جس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ اور اس میں وہ تمام خوبیاں شامل کر دی گئی ہیں جن کی پہلے صحیفوں میں کمی تھی اور اب یہی ایک تعلیم ہے جو ہر ایک قسم کی کمی سے پاک ہے۔ بلکہ اس تعلیم پر عمل کرکے ہر برائی سے بچا جا سکتا ہے۔ اور نہ صرف بچا جا سکتا ہے بلکہ اس کی تعلیم پر عمل کرنے اور اس تعلیم کو لاگو کرنے سے ہی اپنی اور دنیا کی اصلاح ممکن ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد3ص127)

’’بہرحال ایک احمدی کو خاص طور پر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اُس نے قرآنِ کریم پڑھنا ہے، سمجھنا ہے،غور کرنا ہے اور جہاں سمجھ نہ آئے وہاں حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی وضاحتوں سے یا پھر اُنہیں اصولوں پر چلتے ہوئے اور مزید وضاحت کرتے ہوئے خُلفاء نے جو وضاحتیں کی ہیں ان کو ان کے مطابق سمجھنا چاہئے۔اور پھر اس پر عمل کرنا چاہئے……کیونکہ اب آسمان پر وہی عزّت پائے گا جو قرآن کو عزت دے گا اور قرآن کو عزت دینا یہی ہے کہ اس کے سب حکموں پر عمل کیا جائے …… پس ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآنِ کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں۔‘‘

(خطباتِ مسرور جلد2 صفحہ687,686)

(مرسلہ: فراز یاسین ربانی ۔ جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل غانا)

پچھلا پڑھیں

مالی قربانی اور وقف جدید

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 دسمبر 2020