حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر آنحضرتﷺ کی عاجزی کی ایک اور مثال دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کس طرح عاجزانہ مناجات کرتے ہیں باوجود اس کے کہ آپ کو ہر طرح کی ضمانت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی، باوجود اس کے کہ آپ کو علم تھا کہ آپ کے پاس شیطان کا گزر نہیں ہوتا جیسا کہ فرمایا کہ میرا تو شیطان بھی مسلمان ہو گیا ہے۔ لیکن پھر بھی کس خوف اور عاجزی سے مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ سے۔
روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کی شام میں اس طرح دعا کی کہ:
اے اللہ! تو میری باتوں کو سنتا ہے اور میرے حال کو دیکھتا ہے میری پوشیدہ باتوں اور ظاہر امور سے تو خوب واقف ہے میرا کوئی بھی معاملہ تجھ پر مخفی نہیں میں ایک بدحال فقیر اور محتاج ہی تو ہوں تیری مدد اور پناہ کا طالب، سہما اور ڈرا ہوا اپنے گناہوں کا اقراری اور معترف ہو کر تیرے پاس چلا آیا ہوں۔ میں تجھ سے عاجز مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں ہاں تیرے حضور میں ایک ذلیل گناہگارکی طرح زاری کرتا ہوں، ایک اندھے نابینے کی طرح ٹھوکروں سے خوف زدہ تجھ سے دعا کرتا ہوں میری گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور میرے آنسو تیرے حضور بہہ رہے ہیں میرا جسم تیرا مطیع ہو کر سجدے میں گرا پڑا ہے اور ناک خاک آلودہ ہے۔ اے اللہ تو مجھے اپنے حضور دعا کرنے میں بد بخت نہ ٹھہرادینا اور میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک فرمانا۔ اے وہ جو سب سے بڑھ کر التجاؤں کو قبول کرتا اور سب سے بہتر عطا فرمانے والا ہے میری دعا قبول کر لینا۔
(مجمع الزوائد ھیثمی مطبوعہ بیروت جلد نمبر ۳ صفحہ ۲۵۲)
تو اندازہ کریں کہ ان عاجزانہ دعاؤں کا۔ کیا ہم اس سے کم عاجزانہ دعائیں مانگ کر اللہ تعالیٰ کی بخشش کے طالب ہو سکتے ہیں۔ ہمیں تو بہت بڑھ کر اپنی عاجزی کا اظہار کرنا چاہئے۔ اصل میں تویہ وہ طریقے ہیں یا اسلوب ہیں جو آنحضرتﷺ نے دعا کر کے ہمیں سکھائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم بھی اس اسوہ ٔ حسنہ پر چل کر اسی طرح عاجزی اور انکساری اختیار کرنے والے ہوں۔ پھر حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ میری مدد کر میرے خلاف کسی کی مدد نہ کرنااور میری نصرت کر اور میرے خلاف کسی کی مدد نہ کرنا، اور میرے حق میں تدبیر کر مگر میرے خلاف تدبیر نہ کرنا اور مجھے ہدایت دے اور ہدایت کو میرے لئے آسان بنا دے اور مجھ پر زیادتی کرنے والے کے خلاف میری مدد کر اے اللہ مجھے اپنا بہت شکر کرنے والاکثرت سے ذکر کرنے والا اور بہت زیادہ ڈرنے والا بنا دے مجھے اپنا بے حد مطیع اپنی طرف انکساری کے سر تسلیم خم کرنے والا بہت نرم دل اور سچے دل سے جھکنے والا بنادے اے اللہ میری توبہ قبول کر اور میرے گناہوں کو دھو ڈال میری دعا قبول کر اور میری دلیل کو مضبوط بنا دے اور میری زبان کو بہتری بخش اور میرے دل کو ہدایت عطا کر اور میرے سینے کے کینے کو دور کردے۔
(ترمذی کتاب الدعوات باب فی دعاء النبیﷺ)
وہ جو داعیان الی اللہ ہیں وہ بھی جب جائیں تو اس دعا کے ساتھ ان کو باہر نکلنا چاہئے۔
پھر فرمایا کہ اے اللہ میں تجھ سے ایسے دل سے پناہ مانگتا ہو ں جس میں عاجزی اور انکساری نہیں اور ایسی دعا سے پناہ مانگتا ہوں جو مقبول نہ ہو اور ایسے نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو۔ اور ایسے علم سے جو کوئی فائدہ نہ دے میں ان چاروں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
(ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی جامع الدعوات عن رسول اللہ)
تو یہ عاجزی اور انکساری کے وہ چند نمونے ہیں جو آنحضرتﷺ کی زندگی میں ہمیں نظر آتے ہیں بہت سارے بے شمار واقعات ہیں ان میں سے ہی یہ چند لئے گئے ہیں تو آپ کی زندگی کا تو لمحہ لمحہ عاجزی اور انکساری میں گزرا باوجود اس کے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کل عالم کے لئے نبی مبعوث فرمایا تھا اور آپ خاتم الانبیاء تھے۔ کوئی نبی آپ کے بعد بجز آپ کی سچی اتباع کے اور اطاعت کے آنہیں سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے نظارے آپ ہر روز دیکھتے تھے لیکن پھر بھی عاجزی کی یہ انتہا تھی جس کی چند مثالیں میں نے دیں۔
اب اس زمانے میں بھی دیکھیں آپ سے وفا اور غلامی کے طفیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس عاجزی کی وجہ سے جو آپ علیہ السلام نے اپنے آقاسے سیکھی تھی پیارکے جلوے دکھائے اور پھر آپ نے اپنی جماعت کو ان اسلوب اور طریقوں کو اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔ جماعت احمدیہ کی اجتماعی ترقی ہو یا ہر احمدی کی انفرادی ترقی ہو اس کا راز اب عاجزی دکھانے میں اور عاجز رہنے میں ہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً بتایا ہے کہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اُس کو پسند آئیں‘‘۔
(الہام ۱۸؍مارچ ۱۹۰۷ء۔ تذکرہ طبع چہارم صفحہ۵۹۵)
ایک موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنے بارہ میں فرماتے ہیں :
’’خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔
سو اے سننے والو!ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خداکا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔ (اور ہم اللہ کے فضل سے ان کو پورا ہوتے بھی دیکھ رہے ہیں)۔ مَیں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا اور مَیں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا اور مَیں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں۔ یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا۔ پس اس خدا ئے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مشت خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا۔‘‘
(روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۹، ۴۱۰)
آپ ؑ اپنے ایک کلام میں، شعرو ں میں فرماتے ہیں ؎
لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول
میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگہ میں بار
تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اےمیرے کریم
کس عمل پر مجھ کو دی ہے خلعت قرب و جوار
(خطبہ جمعہ 2؍ جنوری 2004ء)
٭…٭…٭